سیزفائر خوش آئندمسئلہ فلسطین مستقل بنیادوں پر حل کرنا ہوگا

’’مسئلہ فلسطین اور عالمی برادری کا رویہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

’’مسئلہ فلسطین اور عالمی برادری کا رویہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو:فائل

گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطین میں اسرائیلی بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔

حال ہی میں 27 رمضان المبارک کو اسرائیلی فوج نے مسجد الاقصیٰ میں مسلمانوں پر فائرنگ کی، فلسطین پربمباری کی گئی اور انسانیت سوز داستانیں رقم کی گئی جن میں سینکڑوں بچے، جوان اور بوڑھے شہید ہوئے۔ اس ظلم پر دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف ردعمل آیا اور بالآخر سیز فائر ہوگیا تاہم اب بھی اسرائیل کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی جاری ہے۔

مسئلہ فلسطین پر عالمی برادری، مسلم امہ و دیگر ممالک کے ردعمل اور اس مسئلہ کے مستقل حل کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، علماء، دفاعی تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

مولانا طاہر محمود اشرفی (نمائندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ چیئرمین پاکستان علماء کونسل )


وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی اپیل پر جمعۃ المبارک کو پورے ملک میں مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے یوم یکجہتی فلسطین منایا گیا۔ ملک بھر کے علماء ومشائخ ، آئمہ اور خطباء نے اپنے خطبات جمعہ میں مظلوم فلسطینیوں کی تائید و حمایت کی اور اسرائیلی مظالم کی بھرپور مذمت کی۔ اس موقع پر سب نے یک آواز ہوکر دنیا سے یہ مطالبہ کیا وہ اس ظلم و ستم کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے تا کہ آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو جس کا دارالخلافہ القدس ہو۔ الحمدللہ! آج ہماری کاوشوں سے فلسطین میں سیز فائر ہوچکا ہے۔ عالم اسلام میں حکومت پاکستان اور عوام نے فلسطینی بہن، بھائیوں کے ساتھ جس انداز سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور کر رہے ہیں، اس پر فلسطینی عوام بھرپور محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ تھے تو وہاں پر بھی ان کی ساری توجہ اس بات پر تھی کہ مظلوم فلسطینیوں کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے اس کو روکنے کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ پاکستان اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ مل کر امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے کے لئے تیار ہیں۔وزیر اعظم پاکستان کاویژن اور سوچ یہ ہے کہ ہم امت مسلمہ کو متحد اور یکجا کریں کیونکہ کوئی ایک ملک ان مسائل پر اس طرح کردار ادا نہیں کر سکتا جس طرح پور ی امت مل کر کر سکتی ہے۔وزیر اعظم پاکستان اسلامی ممالک کے سربراہان سے ہر سطح پر رابطے میں ہیں۔ اسرائیل مسلسل بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنا رہا ہے ، الاقصیٰ پوری امت مسلمہ کیلئے خط احمر ہے۔ جس طرح ارض حرمین شریفین ہمارے لیے خط احمر ہے اور کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ارض حرمین شریفین کے امن و سلامتی سے کھیلے۔ اسی طرح الاقصیٰ بھی مسلم امہ کیلئے خط احمر ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ عالمی قوتوں کو یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ جو ظلم ستم کا سلسلہ جاری ہے اس کو کس طرح بند کیا جائے۔صدر مملکت عارف علوی اور وزیر اعظم کی ہدایات پر ہلال احمر پاکستان کو ہدایات دی گئی ہیں کہ ادویات کے سلسلہ میں فلسطینی بھائیوں کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے۔ فلسطین کے صدر ، فلسطین کے قاضی القضاء، مفتی اعظم فلسطین ، مسجد اقصیٰ کے آئمہ ، فلسطین کے عوام کی طرف سے پاکستان کا اس طرح شکریہ ادا کیا ہے کہ ہم جو امید اور توقع رکھتے تھے، اس سے بڑھ کر پاکستان کی حکومت اور عوام نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان فلسطین اور کشمیر کیلئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم کی ہدایت پر اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں یہ بات کہی ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم اور مسلم ممالک طے کریں کہ کرنا کیا ہے ، جو چیز طے ہو گی پاکستان اس پر ان کے ساتھ کھڑا ہے۔فلسطین اور کشمیر امت مسلمہ کے مسائل ہیں ،اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطین اور کشمیر میں بہنے والا خون بند ہو ، عالمی دنیا اس طرف توجہ کرے۔پاکستان دوسرے مسلم ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں بھی گیا اور وہاں بھی بھرپور آواز اٹھائی۔ ان حالات میں امت کو تقسیم کرنے کیلئے افواہ سازی کرنے والوں سے ہوشیار رہنا ہے، اس وقت یہ مسلمانوں کا نہیں انسانی المیہ بن گیا ہے ، خون بہایا جا رہا ہے۔پاکستان کی حکومت نے نہ کوئی کمی کی ہے اور نہ کوئی کمی کرے گی ،ہمارے دل میں فلسطین ہے ہم فلسطین کا مسئلہ اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ توہین ناموس رسالتؐ، اسلامو فوبیا ، کشمیر و فلسطین کا معاملہ امت مسلمہ کے مسائل ہیں۔ہم سب چاہتے ہیں کہ وہ دن قریب آئے کہ ہم الاقصیٰ میں نماز پڑھیں۔ کب تک فلسطینی اور کشمیری قربانیاں دیتے رہیں گے، کشمیر اور فلسطین کا معاملہ حل کیے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان سعودی عرب سمیت تمام اسلامی ممالک سے رابطے میں ہے ، اسلامی تعاون تنظیم مسلمان ممالک کی واحد متفقہ تنظیم ہے اور اس وقت اس کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کا فلسطین کے مسئلہ پر موقف ایک ہے ،سیز فائر ہماری پہلی ترجیح تھا اور اللہ کا شکر ہے ہم اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔

جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)

اسرائیل دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جسے بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی چھتری تلے تسلیم کیا گیا۔ اُس خطے میں صرف یہودی نہیں دیگر مذاہب کے لوگ بھی بستے تھے۔ یہودیوں کو وہاں سے نکالا نہیں گیا تھا بلکہ وہ خود وہاں سے گئے۔ یہودیوں کو پوری دنیامیں مار پڑی، برطانیہ اور خصوصاََ امریکا نے ان پر سب سے زیادہ ظلم کیا۔ 18 ویں صدی میں انہوں نے خود کو منظم کیا، کاروبار اور میڈیا میں قدم رکھا اور طاقت حاصل کی۔ یہ بات غلط ہے کہ ہٹلر اور نازیوں نے 6 لاکھ یہودی مارے، سوال یہ ہے کہ اتنے یہودی میں جرمنی میں آئے کیسے؟ اس جھوٹ کے ذریعے ہٹلر کو ظالم شخص قرار دیا گیا کیونکہ اس نے اپنی شکست خوردہ قوم کو اٹھایا اور سپر پاور بنا دیا جو دنیا کو ہضم نہیں ہوا۔ مغربی دنیا کا یہ اصول ہے کہ جب وہ کسی کو شکست نہیں دے سکتے یا اس کا راستہ نہیں روک سکتے تو اسے پاگل اور جنونی قرار دے دیتے ہیں، یہی انہوں نے ہٹلر کے ساتھ کیا۔ دوسری جنگ عظم کے بعد نیورمبرگ ٹرائلزہوئے جس میں نازیوں کا ٹرائل کیا گیا۔ اس حوالے سے بھی دنیا کے ساتھ جھوٹ بولا گیا اور 20 ہزار سے زائد نازی امریکا لے گیا۔1947ء میں یہودیوں کو غیر قانونی طور پریہاں بٹھا دیا گیا۔ جوبائیڈن نے اپنی پہلی ٹرم میں کہا تھا کہ اگر اسرائیل ختم ہوگیا تو ہمیںاپنے مفادات کے تحفظ کیلئے دوبارہ اسرائیل بنانا پڑے گا۔ اسرائیل کو ایٹمی ریاست بنانے میں امریکا کا ہاتھ ہے اور اس بارے میں فرانس، برطانیہ سمیت مغربی ممالک نے اس کی مذمت بھی نہیں کی۔ بیت المقدس، یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں، سب کیلئے اہم ہے۔ تاریخ دیکھیں تو مختلف ادوار ملا کر یہودیوں کا 200برس کنٹرول رہا جبکہ مسلمانوں نے 800 سال سے زائد اس کے معاملات سنبھالے۔ 1917ء میں انگریز کمانڈر 'ایلن بی' کی قیادت میں برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف جنگ جیتی اور فلسطین پر قبضہ کرلیا جس کے بعد سے مسائل پیدا ہوئے۔ عربوں نے مغرب کے ساتھ بے شمار جنگیں لڑی ہیں اور مغربی دنیا آج بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے۔ سوویت یونین نے بھی آج تک اس کی کھل کر مخالفت نہیں کی ۔ اسرائیل نے شام کی گولان ہائٹس پر قبضہ کر رکھا ہے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے ۔ عربوں کو تقسیم کر دیا گیا ۔ شام، لیبیا، مصر و دیگر ممالک کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ حماس اسرائیل کے سامنے کھڑا ہے، یہ وہاں کی اپنی تحریک ہے۔ دنیا کہہ رہی ہے کہ حماس زیادتی کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل نے کارروائی کی۔ وہاں تو حالت یہ ہے کہ عدالت نے فیصلہ دیا جس کے بعد شیخ جراح کے رہنے والوں کو زبردستی گھروں سے نکالا جا رہا ہے تاکہ یہودیوں کو وہاںآباد کیا جاسکے۔ یہ علاقہ مسجد اقصیٰ کے پاس ہے اور اسرائیل وہاں سے مسجد اقصیٰ پر اپنا کنٹرول جمانا چاہتا ہے۔ اس لیے اس نے 27 رمضان المبارک کو مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر تشدد کیا، فائرنگ کی اور مسجد کے تقدس کو پامال کیا۔ اسرائیل قبضے کی پوری کوشش اور ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے، اب سوال یہ ہے اس صورت میں حماس کیا کرے؟یہاں اہم بات یہ ہے کہ 1947ء کے بعد اسرائیل میں یورپ سے یہودی آئے لیکن جو اس علاقے کے رہنے والے اصل یہودی تھے، جن کے بارے میں واویلا کیا جاتا ہے وہ کہاں گئے؟ جو یہودی وہاں آباد کیے گئے ان کے نقش و نگار مختلف ہیں، وہ وہاں کے مقامی ہیں ہی نہیں۔ غزہ کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، یہ چھوٹا علاقہ ہے جس کی آبادی بھی کم ہے، وہاں سکول، ہسپتال سب کچھ تباہ کیا جا رہا ہے، اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ ان کو مار دیا جائے یا گھر سے نکال دیا جائے، درمیانی راستہ نہیں ہے۔ اسرائیل کے تناظر میں امریکا کا کرداربدترین رہا ہے۔ امریکا اس کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی رہنماتو اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں مگر مغرب میں رہنے والے لوگ فلسطین کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں نکال رہے ہیں اور اپنی حکومتوں پر بھی دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے فلسطین کے معاملے پر بارہا کوششیں کیں مگر امریکا نے ویٹو کر دیا اور اجلاس نہیں ہونے دیا۔ جوبائیڈن حکومت بھی اسرائیل کی مکمل مدد کر رہی ہے، کھربوں روپے کا جنگی ساز و سامان اسرائیل کو فراہم کیا گیا ہے ۔فلسطین کے معاملے پر مسلمان تقسیم ہیں، فلسطینی بھی تقسیم ہیں جس کا نقصان ہورہا ہے۔ اس وقت پاکستان اور ترکی کھڑے ہوئے ہیں اور زوردار آواز اٹھائی ہے جبکہ کوئی عرب ملک اس پر کھڑا نہیں ہوا۔ اگر عرب ممالک کھڑے نہ ہوئے اور فلسطینی بھی تھک کر بیٹھ گئے تو اس کا عربوں کو بہت نقصان ہوگا، فلسطینی صرف اپنی لڑائی نہیں لڑ رہے بلکہ اس میں عربوں کی بقاء بھی شامل ہے۔ جو فلسطین میں ہورہا ہے وہی کچھ کشمیر میں ہورہا ہے، ہم امن کی بات کرتے ہیں مگر بھارت کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ہم وہاں پھنسے ہوئے ہیں اور اس میں ہمارے مالی مسائل بھی ایک بڑی وجہ ہیں۔ اگر دنیا کشمیریوں اور فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی نہ ہوئی تو اس کا نقصان دنیا، اسلامی ممالک اور پاکستان، سب کو ہوگا۔ OIC کے کردارپر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں صرف ایک قرارداد منظور کی گئی جو بیکار ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ اس میں کچھ طاقت دکھاتے اور عملی اقدامات کرنے کا عزم دکھاتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ میرے نزدیک اس قرارداد میں مسلم ممالک کی جانب سے آئندہ کا لائحہ عمل دیا جانا چاہیے تھاکہ اسرائیلی جارحیت کے جواب میں کیا جائے گا۔ وہاں یہ بھی اظہار کیا جاتا کہ اسلامی امن فورس تعینات کی جائے گی۔ او آئی سی کے پاس دوبارہ کھڑا ہونے کا یہ اہم موقع ہے۔ پاکستان، ترکی اور ایران نے مضبوط موقف اپنایا ہے۔ ایران نے او آئی سی کے اجلاس میںکہا کہ ہمیں مسلح فوجی حل کی بات کرنی چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف تقاریر سے کام نہیں ہوگا بلکہ فلسطینیوں کے ساتھ پوری قوت سے کھڑا ہونا ہوگا۔

بیگم مہناز رفیع (ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ)

فلسطین کا مسئلہ پرانا ہے اور فلسطینی مظالم سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں دنیا کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ زمین کا نہیں انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ فلسطینی یہاں صدیوں سے رہ رہے تھے جبکہ دوسرے ممالک سے آکر یہودیوں نے یہاں رہنا شروع کر دیا، اس میں بڑے ممالک نے انہیں سپورٹ کیا، ان کی تعداد بڑھی اور انہوں نے فلسطینیوں کو دبانا شروع کیا۔ امریکا جو انسانی حقوق کا علمبردار بنتا ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتا ہے وہ اسرائیل کو اسلحہ دیتا رہا اور اب تک اس کی مدد کر رہا ہے۔ یورپ اور امریکا، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ یہودی مالدار ہیں، امریکا کو ان سے پیسہ مل رہا ہے اور انہوں نے دنیا کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اسلامی ممالک کے سربراہان اور حکومتوں کے کردار پر افسوس ہوتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ابو ظہبی، اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ یہ شرط رکھیں کہ جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا اور وہاں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند نہیں ہوتی، تب تک اسرائیل سے تعلقات استوار نہیں ہونگے مگر یہاں ہر ملک کو اپنے ریاستی مفادات عزیز ہیں، یورپی ممالک سے لے کر اسلامی ممالک تک، سب اپنے مفادات کیلئے کام کر رہے ہیں اور کوئی بھی مسئلہ فلسطین پر ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا رہا۔ بدقسمتی سے ہر کچھ عرصہ بعد فلسطین میں بچے، جوان اور بوڑھے شہید کر دیے جاتے ہیں اور کوئی بولنے ، روکنے والا نہیں ہے۔ اسرائیل بدنام زمانہ ملک ہے۔ رمضان المبارک میں اسرائیل نے فلسطین میں جو کچھ کیا وہ افسوسناک ہے۔ انسانی حقوق کی اس بدترین پامالی پر پہلی مرتبہ یورپ نے بات چیت پر رضا مندی ظاہر کی تو امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کو ویٹو کر دیا۔اب جنگ بندی ہوئی ہے جو ایک ریلیف ہے مگر جب تک اس کا مستقل حل نہیں ہوتا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں گی اور دنیا میں امن قائم نہیں ہوگا۔
Load Next Story