معذوری کا شکار ہونے والا عمران معاشرے کیلیے مثال بن گیا
حادثے کا شکار عمران 3 سال علاج کے بعد بے ساکھی سے چلنے کے قابل ہوا، ای کامرس پلیٹ فارم پر کاسمیٹکس بیچنا شروع کر دیں۔
کراچی کے رہائشی عمران احمد 10سال قبل ٹریفک حادثے میں معذوری کا شکار ہوگئے، ایک تیز رفتار بس نے انھیں روند دیا تھا اس حادثے نے ان کی زندگی بدل دی۔
عمران احمد اس وقت ڈینٹل کلینک میں بطور ٹیکنیشن کام کرتے تھے اور اس وقت ان کی اچھی گزربسر ہوتی تھی، حادثے کے بعد وہ مکمل طور پر معذوری کا شکار ہوگئے اور ڈاکٹروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ وہ کبھی چل پھر نہیں سکیں گے۔
عمران احمد نے اپنے مضبوط قوت ارادی اور حوصلے کے ذریعے اس معذوری کا سامنا کیا 3 سال تک زیر علاج رہے اور تمام جمع پونجی علاج پر خرچ کردی بمشکل عمران اس قابل ہوئے کہ وہ بے ساکھی کے ذریعے حرکت کرسکیں، ان حالات میں عمران احمد نے ای کامرس پلیٹ فارم کے ذریعے کاسمیٹکس فروخت کرنا شروع کردیں اور ڈیرھ سال تک کاسمیٹکس کے آرڈر گھر میں بک کرکے مرکزی بازار بولٹن مارکیٹ تک بس میں جاکر کاسمیٹکس خریدتے اور صدر کے پوسٹ آفس سے انھیں گاہکوں کو پوسٹ کرتے رہے اس کام میں سرمایہ پھنستا چلا گیا کیونکہ ای کامرس پلیٹ فارم انھیں ادائیگیاں15روز میں کرتا تھا اور محنت بہت زیادہ تھی۔
عمران احمد کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ان کے دوستوں اور اہل خانہ نے مدد کی اور عمران احمد نے اپنے لیے 3 پہیوں کی خصوصی موٹرسائیکل بنوالی جس سے ان کی مشکلات قدرے کم ہوگئیں لیکن قدرت کو ان کی آزمائش جاری رکھنی تھی، عمران احمد کی ٹانگوں میں زہر پھیلنے لگا جس کا مثانہ تک پہنچنے کا خدشہ تھا اس کے لیے انہیں ہرسال اپنی ٹانگوں کا آپریشن کروانا پڑا ،مسلسل مشکلات، بیماری، معذوری اور وسائل کی کمی عمران احمد کو کمزور نہ کرسکی۔
عمران احمد 7بچوں کے کفیل ہیں جن میں 3 بیٹیاں اور 4 بیٹے شامل ہیں، گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے عمران احمد نے کاسمیٹکس کی آن لائن فروخت کا کام ختم کرکے آلو پیاز کا اسٹال لگایا اور ڈیڑھ سال تک اس کے ذریعے گھر چلاتے رہے اس دوران کورونا کی وبا پھیل گئی اور بازار دکانیں بند ہوگئیں اور انھیں اس کام میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، عمران احمد نے ہمت نہ ہاری اور بچت بازاروں میں سستے کھلونوں کا اسٹال لگانا شروع کردیا تاہم کورونا کی وبا میں ہفتہ وار بچت بازار بھی بند کردیے گئے، یہ رکاوٹ بھی عمران احمد کا راستہ نہ روک سکی اور انھوں نے اپنی رہائش کے نزدیک اورنگی ٹاؤن اسلام چوک میں سڑک کنارے ویل چیئر پر ہی کھلونوں کا اسٹال لگانا شروع کردیا۔
عمران احمد ان دنوں اسی کام سے وابستہ ہیں، عمران احمد کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہیں وہ صبح 8 بجے گھر سے نکلتے ہیں رات ڈیرھ بجے تک مصروف رہتے ہیں اس دوران دن میں تھوک بازار لیاقت آباد سے کھلونے لینے اور رات 11بجے کھلونے اٹھانے بولٹن مارکیٹ کا چکر لگاتے ہیں بولٹن مارکیٹ شام میں بند ہوجاتی ہے لیکن عمران اپنا آرڈر فون پر لکھوادیتے ہیں جو تیار رہتا ہے اور عمران بازار بند ہونے کے بعد بولٹن مارکیٹ سے یہ کھلونے اٹھاکر لاتے ہیں جو اگلے روز اپنے اسٹال پر فروخت کرتے ہیں۔
معذوری کو مجبوری بنانے کے بجائے طاقت بنالیا
عمران احمد 6 ماہ سے حکومت کے مستحق گھرانوں کی کفالت کے ''احساس پروگرام'' سے مالی معاونت حاصل کرنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں انھوں نے 6 ماہ قبل پہلی بار اپنے کوائف جمع کرائے اور ڈیڑھ ماہ قبل بھی احساس پروگرام مرکز سے رجوع کیا جس پر انھیں جواب ملا کہ ابھی اور وقت لگے گا۔
عمران احمد کہتے ہیں کہ معذوری کے بعد دو راستے تھے کہ میں معذوری کے آگے اپنی زندگی کو ہار دیتا لیکن اس صورت میں میرے بچے کیا کرتے دوسرا راستہ ہمت اور حوصلے کا تھا مشکل ضرور تھا لیکن ممکن تھا اس لیے میں نے معذوری کو مجبوری بنانے کے بجائے اپنی طاقت بنایا اور اپنے گھرکی کفالت کے لیے محنت کا سلسلہ جاری رکھا، عمران احمد آئندہ ایک چھوٹی دکان بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے وسائل جوڑرہے ہیں لیکن کورونا کی وبا اور کاروباری اوقات کار کم ہونے سے ان کا یہ ہدف دشوار ہوگیا ہے۔
پولیس وانتظامیہ معذور ہونے پرتعاون کرتی ہے، عمران
عمران احمد کہتے ہیں کہ وہ حالا ت سے ناامید نہیں ایک نہ ایک روز کورونا کی وبا ختم ہوگی اور کاروبار مکمل طور پر بحال ہوجائے گا،عمران احمد کے مطابق پولیس اور انتظامیہ معذور ہونے کی وجہ سے ان سے تعاون کرتی ہے اور بازار بند ہونے کے بعد بھی انھیں اسٹال لگانے کی اجازت دیتی ہے جس کی وجہ سے ان کا روزگار چل رہا ہے، عمران احمد ان دنوں اورنگی ٹاؤن کے مختلف علاقوں میں لگنے والے بازاروں میں اسٹال لگاتے ہیں اور شام سے رات تک چشتی نگر اورنگی ٹاؤن میں سڑک کنارے کھلونے فروخت کرتے ہیں۔
عمران احمد کہتے ہیں کہ شام 6 بجے سے جب تمام کاروبار بند کردیا جاتا ہے وہ تو روزگار کماتے ہیں لیکن ایسے بہت سے لوگ ہیں جو معذور نہیں ہیں لیکن مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثر ہیں ان کیلیے روزگار کا راستہ بند ہوجاتا ہے، عمران احمد کہتے ہیں کہ سندھ حکومت اور انتظامیہ کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور کاروباری اوقات کار بڑھانے چاہئیں تاکہ عوام احتیاط کے ساتھ کام کاروبار بھی کر سکیں۔
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
عمران احمد کہتے ہیں کہ وہ اتنے مشکل حالات سے گزرے ہیں کہ اب کوئی مشکل مشکل نہیں لگتی، پولیس اور انتظامیہ معذور ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ رعایت کرتی ہے لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو معذور نہیں ہیں اور عین اس وقت جب کہ کاروبار شروع ہوتا ہے دکانیں اور کاروبار بندکرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو انھیں بہت دکھ ہوتا ہے۔
عمران احمد اس وقت ڈینٹل کلینک میں بطور ٹیکنیشن کام کرتے تھے اور اس وقت ان کی اچھی گزربسر ہوتی تھی، حادثے کے بعد وہ مکمل طور پر معذوری کا شکار ہوگئے اور ڈاکٹروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ وہ کبھی چل پھر نہیں سکیں گے۔
عمران احمد نے اپنے مضبوط قوت ارادی اور حوصلے کے ذریعے اس معذوری کا سامنا کیا 3 سال تک زیر علاج رہے اور تمام جمع پونجی علاج پر خرچ کردی بمشکل عمران اس قابل ہوئے کہ وہ بے ساکھی کے ذریعے حرکت کرسکیں، ان حالات میں عمران احمد نے ای کامرس پلیٹ فارم کے ذریعے کاسمیٹکس فروخت کرنا شروع کردیں اور ڈیرھ سال تک کاسمیٹکس کے آرڈر گھر میں بک کرکے مرکزی بازار بولٹن مارکیٹ تک بس میں جاکر کاسمیٹکس خریدتے اور صدر کے پوسٹ آفس سے انھیں گاہکوں کو پوسٹ کرتے رہے اس کام میں سرمایہ پھنستا چلا گیا کیونکہ ای کامرس پلیٹ فارم انھیں ادائیگیاں15روز میں کرتا تھا اور محنت بہت زیادہ تھی۔
عمران احمد کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ان کے دوستوں اور اہل خانہ نے مدد کی اور عمران احمد نے اپنے لیے 3 پہیوں کی خصوصی موٹرسائیکل بنوالی جس سے ان کی مشکلات قدرے کم ہوگئیں لیکن قدرت کو ان کی آزمائش جاری رکھنی تھی، عمران احمد کی ٹانگوں میں زہر پھیلنے لگا جس کا مثانہ تک پہنچنے کا خدشہ تھا اس کے لیے انہیں ہرسال اپنی ٹانگوں کا آپریشن کروانا پڑا ،مسلسل مشکلات، بیماری، معذوری اور وسائل کی کمی عمران احمد کو کمزور نہ کرسکی۔
عمران احمد 7بچوں کے کفیل ہیں جن میں 3 بیٹیاں اور 4 بیٹے شامل ہیں، گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے عمران احمد نے کاسمیٹکس کی آن لائن فروخت کا کام ختم کرکے آلو پیاز کا اسٹال لگایا اور ڈیڑھ سال تک اس کے ذریعے گھر چلاتے رہے اس دوران کورونا کی وبا پھیل گئی اور بازار دکانیں بند ہوگئیں اور انھیں اس کام میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، عمران احمد نے ہمت نہ ہاری اور بچت بازاروں میں سستے کھلونوں کا اسٹال لگانا شروع کردیا تاہم کورونا کی وبا میں ہفتہ وار بچت بازار بھی بند کردیے گئے، یہ رکاوٹ بھی عمران احمد کا راستہ نہ روک سکی اور انھوں نے اپنی رہائش کے نزدیک اورنگی ٹاؤن اسلام چوک میں سڑک کنارے ویل چیئر پر ہی کھلونوں کا اسٹال لگانا شروع کردیا۔
عمران احمد ان دنوں اسی کام سے وابستہ ہیں، عمران احمد کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہیں وہ صبح 8 بجے گھر سے نکلتے ہیں رات ڈیرھ بجے تک مصروف رہتے ہیں اس دوران دن میں تھوک بازار لیاقت آباد سے کھلونے لینے اور رات 11بجے کھلونے اٹھانے بولٹن مارکیٹ کا چکر لگاتے ہیں بولٹن مارکیٹ شام میں بند ہوجاتی ہے لیکن عمران اپنا آرڈر فون پر لکھوادیتے ہیں جو تیار رہتا ہے اور عمران بازار بند ہونے کے بعد بولٹن مارکیٹ سے یہ کھلونے اٹھاکر لاتے ہیں جو اگلے روز اپنے اسٹال پر فروخت کرتے ہیں۔
معذوری کو مجبوری بنانے کے بجائے طاقت بنالیا
عمران احمد 6 ماہ سے حکومت کے مستحق گھرانوں کی کفالت کے ''احساس پروگرام'' سے مالی معاونت حاصل کرنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں انھوں نے 6 ماہ قبل پہلی بار اپنے کوائف جمع کرائے اور ڈیڑھ ماہ قبل بھی احساس پروگرام مرکز سے رجوع کیا جس پر انھیں جواب ملا کہ ابھی اور وقت لگے گا۔
عمران احمد کہتے ہیں کہ معذوری کے بعد دو راستے تھے کہ میں معذوری کے آگے اپنی زندگی کو ہار دیتا لیکن اس صورت میں میرے بچے کیا کرتے دوسرا راستہ ہمت اور حوصلے کا تھا مشکل ضرور تھا لیکن ممکن تھا اس لیے میں نے معذوری کو مجبوری بنانے کے بجائے اپنی طاقت بنایا اور اپنے گھرکی کفالت کے لیے محنت کا سلسلہ جاری رکھا، عمران احمد آئندہ ایک چھوٹی دکان بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے وسائل جوڑرہے ہیں لیکن کورونا کی وبا اور کاروباری اوقات کار کم ہونے سے ان کا یہ ہدف دشوار ہوگیا ہے۔
پولیس وانتظامیہ معذور ہونے پرتعاون کرتی ہے، عمران
عمران احمد کہتے ہیں کہ وہ حالا ت سے ناامید نہیں ایک نہ ایک روز کورونا کی وبا ختم ہوگی اور کاروبار مکمل طور پر بحال ہوجائے گا،عمران احمد کے مطابق پولیس اور انتظامیہ معذور ہونے کی وجہ سے ان سے تعاون کرتی ہے اور بازار بند ہونے کے بعد بھی انھیں اسٹال لگانے کی اجازت دیتی ہے جس کی وجہ سے ان کا روزگار چل رہا ہے، عمران احمد ان دنوں اورنگی ٹاؤن کے مختلف علاقوں میں لگنے والے بازاروں میں اسٹال لگاتے ہیں اور شام سے رات تک چشتی نگر اورنگی ٹاؤن میں سڑک کنارے کھلونے فروخت کرتے ہیں۔
عمران احمد کہتے ہیں کہ شام 6 بجے سے جب تمام کاروبار بند کردیا جاتا ہے وہ تو روزگار کماتے ہیں لیکن ایسے بہت سے لوگ ہیں جو معذور نہیں ہیں لیکن مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثر ہیں ان کیلیے روزگار کا راستہ بند ہوجاتا ہے، عمران احمد کہتے ہیں کہ سندھ حکومت اور انتظامیہ کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور کاروباری اوقات کار بڑھانے چاہئیں تاکہ عوام احتیاط کے ساتھ کام کاروبار بھی کر سکیں۔
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
عمران احمد کہتے ہیں کہ وہ اتنے مشکل حالات سے گزرے ہیں کہ اب کوئی مشکل مشکل نہیں لگتی، پولیس اور انتظامیہ معذور ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ رعایت کرتی ہے لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو معذور نہیں ہیں اور عین اس وقت جب کہ کاروبار شروع ہوتا ہے دکانیں اور کاروبار بندکرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو انھیں بہت دکھ ہوتا ہے۔