لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزہ جینے میں

پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے حالات ہمیں کوئی بہت حوصلہ افزا تصویر نہیں دکھاتے

پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے حالات اچھے نظر نہیں آتے۔ (فوٹو: فائل)

وہ مکمل بے ہوش ہوچکی تھی۔ اس کے ہاتھ، پاؤں اکڑ کر ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ اچانک طاری ہونے والی اس کیفیت نے اس کے شوہر کو پریشان کردیا تھا۔ ہاتھ پاؤں ملنے سے، جسم گرم کرنے کی ہر کوشش کے ساتھ وہ اس کے چہرے پر مسلسل پانی کے چھینٹے ڈال رہا تھا۔ پانچ منٹ کے وقفے سے اسے ہوش آیا تو نقاہت عروج پر تھی۔ یہ سب اچانک وارد ہونے والی ایک بلا کی طرح تھا۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرائے اپنے سوالوں میں الجھ رہے تھے۔ آخر ماہر نفسیات سے وقت لیا گیا اور یوں ارم کی زندگی کا پہلا سیشن شروع ہوا۔


یہ مراحل لکھنے میں جتنے سہل ہیں، سہنے میں صدیوں پر طویل۔ ماہر نفسیات سے رجوع کرنا، علاج کروانا ہمارے معاشرے میں اتنا نارمل نہیں، جتنا کسی بھی طبعی معالج کے پاس چلے جانا۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہم چاروں جانب سے ایسے لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں جو الزام لگانا، دل دکھانا اور چہ میگوئی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ہم چاہتے نہ چاہتے ان سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔


ارم بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہے۔ یہ بیماری اسے وراثت میں بھی ملی ہے اور کچھ چوٹ اس پر معاشرتی رویوں اور زندگی کے امتحانوں نے بھی کی۔ مگر وہ بہتر ہے اب۔ خوش گوار زندگی گزار رہی ہے، کیونکہ اس کی فیملی نے اس بیماری سے لڑنے میں اس کا ساتھ دیا۔ ہاتھ تھاما اور بتایا ''سب نارمل ہے''۔


پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو حالات ہمیں کوئی بہت حوصلہ افزا تصویر نہیں دکھاتے۔ ایک سروے کے مطابق تقریباً 33 فیصد لوگ ڈپریشن، 40 فیصد اینگزائٹی، جبکہ 27 فیصد نارمل اسڑیس کا شکار ہیں۔


پاکستان میں ڈپریشن کو اگر صنف کے اعتبار سے دیکھا جائے تو خواتین زیاد ہ تر اس مرض کا شکار ہوتی ہیں، مگر یا تو وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتیں بلکہ وہ اسے بیماری ہی تصور نہیں کرتیں یا پھر ان کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہوتے کہ وہ دوا کے ایک لمبے سلسلے کو شروع کرسکیں۔ علاج نہ کروانے کی تیسری بڑی وجہ غیر ڈاکٹر سے اپنے نجی مسائل کا بیان کرنا ہے اور اکیلے میں ہونے والا سیشن بھی، جس کےلیے یقیناً ان کے گھروں کے مرد اجازت نہیں دیتے۔ ایک اور اہم وجہ یہ بھی تصور کی جاتی ہے کہ ماہر نفسیات عموماً جو دوا تجویز کرتے ہیں ان میں نشہ آور گولیاں بھی دی جاتی ہیں، جن کے استعمال سے مریض کافی سکون مگر غنودگی محسوس کرتا ہے اور ایسی حالت میں گھر داری یا ملازمت تو متاثر ہوگی ہی۔


آگر آپ سے کوئی یہ سوال پوچھے کہ آپ آخری بار کھکھلا کر کب ہنسے؟ شاید آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں۔ چلیے سوال تبدیل کرلیتے ہیں، آپ آخری بار کب روئے؟ مشکل سوالات ہیں ناں...



زندگی کولہو کے بیل کی طرح گزار رہا ہے ہر شخص۔ ہم نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی بڑے بڑے خوابوں کے تکیے تلے مار دیا ہے۔ ہماری زبانیں زہر اگلنے لگی ہیں، کیونکہ ہم نے پاؤں چادر سے باہر نکال لیے ہیں۔ ساس کا حکمرانی کرنے کا خواب بہو کے اپنے گھر کے خوابوں کی کرچیاں بکھیر دیتا ہے اور یہ صدیوں سے ہوتا آرہا ہے اور ہوئے ہی جارہا ہے۔ اولاد کےلیے والدین کا بوجھ بن جانا، والدین کےلیے اولاد کے خواب محض مذاق ہونا، بیٹی کے جہیز کی فکر، بچوں کے نہ ہونے کا دکھ، ہوجائیں تو تعلیم کے خرچے وغیرہ ...


کیا ہم سب خود کو کھو نہیں رہے اس سب میں؟ آپ ڈیکس پر بیٹھے خبر بنا رہے ہیں، ایک لمحہ نکالیے، ساتھ والے ڈیکس کے دوست کے ساتھ ایک چٹکلا شیئر کیجیے۔ پھر قہقہہ لگا کر ہنسیے۔ یقین کیجیے آپ خود کو تروتازہ محسوس کریں گے۔


لمحہ موجود میں رہنا سیکھیے، جو ہے اس پر شکر کیجیے۔ کل کےلیے محنت کیجیے، پھر اجر اللہ پر چھوڑ دیجیے۔ کسی کےلیے کبھی ڈسٹ بن مت بنیے کہ کوئی بھی راہ چلتے اپنا غصہ آپ پر نکالنے لگے اور آپ بھی فوراً جواب کےلیے منہ کھول دیں۔ نہیں یہ آپ کو زیب نہیں دیتا۔


دوست بنائیے کیونکہ ایک کاندھا اہم ہے بہت سا رونے کےلیے۔ یاد رکھیے رونا انسانی جبلت ہے، اس کےلیے رب نے مرد اور عورت کےلیے کوئی خاص اوزان طے نہیں کیے۔ اس لیے جب جی بھاری ہو رو لیجیے۔ مشورہ لیجیے کہ حضرت علیؓ بھی ہمیشہ مشورہ لینے کی تلقین کرتے رہے ہیں۔


ڈپریشن دراصل وہ دکھ ہے جس کو ہم کہیں کہہ نہیں پاتے اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں کسی کی سننے کےلیے وقت ہی نہیں بچتا۔ تو پھر ماہر نفسیات ہی کے پاس چلے جائیے۔ آپ اپنی کہہ بھی لیں گے، آپ کو بہتر مشورہ بھی مل جائے گا اور کچھ لمحے سکون کے بھی (چاہے دوا ہی کے اثر سے سہی)۔


ایک بار سخت اور کٹھن لگتی زندگی کےلیے اپنا لینس بدل کر دیکھیے۔ یقین کیجیے جو خوداعتمادی اور سنبھلنے کی طاقت رب نے ہمیں دی ہے یہ کسی اور کے پاس نہ ہوگی۔ تو ملائیے ہاتھ پھر اور لگائیے زندگی سے بھرپور قہقہہ۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story