کرونا وبا کے باعث پاکستان میں غیرملکی پرندوں کی قیمتوں میں 3 گنااضافہ
قیمتی فینسی پرندے پالنے کا شوق ہی نہیں بلکہ ان کے روزگار کا بھی ذریعہ ہے
ISLAMABAD / RAWALPINDI:
کوویڈ 19 کی وجہ سے پاکستان میں غیرملکی جانوروں اور پرندوں کی خریدوفروخت بھی متاثرہوئی ہے جبکہ میکاؤ طوطے سمیت کئی اقسام کے غیرملکی پرندوں اور جانوروں کی مارکیٹ میں شدید قلت ہے ، مقامی سطح پربریڈنگ کے ذریعے حاصل کئے گئے غیرملکی پرندوں کی قیمتیں 3 گنا تک بڑھ گئی ہیں۔
رانا محمد نعیم کو قیمتی فینسی پرندے پالنے کا شوق ہی نہیں بلکہ ان کے روزگار کا بھی ذریعہ ہے۔ کیونکہ وہ لاہور سمیت مختلف شہروں کے چڑیا گھروں اوربڑے شاپنگ مالز میں فینسی پرندوں کے ساتھ تصاویربنانے کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔
رانا محمد نعیم نے بتایا کہ کوریڈ کی پہلی اوردوسری لہر کے دوران جب شاپنگ مال اورچڑیا گھر بند ہوئے تو ان کے لیے انتہائی قیمتی پرندوں خاص طور پر میکاؤ طوطوں کو گھر میں رکھنا مشکل ہوگیا تھا، ان کے کئی قیمتی پرندے مر گئے اور کچھ انہوں نے بیچ دیئے ۔ اب کورونا کی تیسری لہر سے قبل جب حالات کچھ بہترتھے توانہوں نےدوبارہ مارکیٹ سے طوطے خریدنے کا فیصلہ کیا تومارکٹ میں غیرملکی طوطے دستیاب ہی نہیں تھے،آن لائن چند افرادسے رابطہ ہوا تو اسکارلیٹ میکاؤ جو امریکن نسل کے طوطے ہیں ایک جوڑے کی مالیت 10 لاکھ روپے تھی وہ 15 سے 20 لاکھ روپے میں مل رہا تھا،انہوں نے چندایک جوڑے دوبارہ خریدے مگراب پھر کورونا کی تیسری لہراورلاک ڈاؤن کی وجہ سے انہوں نے پرندوں کو گھرمیں ہی رکھا ہے جہاں ان کی خوراک اورصحت کا خیال رکھاجاتا ہے۔
برڈ مارکیٹ اورپرندے پالنے کے شوقین افراد سے لی گئی معلومات کے مطابق اس وقت گرین ونگ میکاؤ کی قیمت دولاکھ سے بڑھ کرچارلاکھ ہوگئی ہے، بلیو اینڈ گولڈ میکاؤ ایک لاکھ 30 ہزار سے بڑھ کر ڈھائی لاکھ روپے کا مل رہا ہے، کوکاٹو طوطے کی قیمت سوا لاکھ سے بڑھ کر ڈھائی لاکھ ہوگئی ہے جبکہ گرے پیرٹ پچاس ہزار سے بڑھ کر 90 ہزاراورایک لاکھ روپے تک میں مل رہا ہے۔ بلیو اور گولڈن فینچیز کا جوڑا جو چھ، سات ہزار روپے کا تھا وہ اب 30 ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر میکاؤ امریکا سے امپورٹ کئے جاتے ہیں، قیمتی غیرملکی جانور اور پرندے امپورٹ کرنے کے لئے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے این اوسی اور پرندوں کی مختلف اقسام کے لئے الگ الگ پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ اسی طرح کسٹم اور امپورٹ ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد صوبائی محکمہ وائلڈلائف سے پرمٹ لینا پڑتا ہے۔
برڈڈیلرایسوسی ایشن پنجاب کے صدر خالداقبال کہتے ہیں کوریڈ19 نے غیرملکی پرندوں اور جانوروں کی خرید وفروخت پربہت زیادہ منفی اثرڈالا ہے۔ موجودہ حالات میں جب لوگ اپنے اوربچوں کے لئے روٹی کا انتظام کریں یا فینسی پرندوں کے خرچےبرداشت کریں۔ خالد اقبال نے بتایا ایک سال سے زائدعرصہ ہوگیا ہے بیرون ملک سے جانور اور پرندے امپورٹ نہیں کئے جاسکے ہیں۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ان کی شدید قلت ہے۔ مقامی بریڈنگ سینٹرز سے جو بریڈ حاصل ہورہی ہے وہ طلب پوری کرنے کے لئے ناکافی ہے اس لئے برڈسیلرز نے اپنی مرضی کے ریٹ مقرر کردیئے ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ جو پرندہ کوریڈ 19 کی وبا سے پہلے 10 ہزار روپے کا تھا اب اس کی قیمت 40 ہزار روپے ہے۔ غیرملکی جانوروں اور پرندوں کی قیمت کے تعین کا کوئی سرکاری طریقہ کار نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مجاز اتھارٹی ہے۔ یہ بریڈرز اوردکاندار کی مرضی ہے وہ اپنے جانور اور پرندے کی جوچاہے قیمت مقرر کرسکتا ہے
پنجاب وائلڈلائف لاہورکے ڈپٹی ڈائریکٹرتنویراحمد جنجوعہ نے بتایا کہ غیرملکی جانوراورپرندے(جو پاکستان کے جنگلی ماحول میں نہیں پائے جاتے ) ان کی امپورٹ پر 31 دسمبر 2020 تک پابندی عائدتھی تاہم اب وزارت موسمیاتی تبدیلی نے وہ پابندی ختم کردی ہے ،اب مسلہ ہے ان جانوروں اورپرندوں کی امپورٹ اورایکسپورٹ کا،وزارت نے توپابندی ختم کردی ہے لیکن مختلف ممالک کے ساتھ پروازوں کا سلسلہ بندہے۔دبئی ، لبنان سمیت جن ممالک کے ساتھ فضائی رابطے بحال ہوگئے ہیں وہاں سے غیرملکی پرندے امپورٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں
تنویر جنجوعہ نے بتایا غیر ملکی جانوروں کی بات کی جائے توان میں شیر،ٹائیگر،پوما،چمپپینزی، زرافہ وغیرہ قابل ذکرہیں۔ لاہور میں اس وقت 32 بریڈنگ سینٹرز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 10 ایسے ہیں جن کے پاس بگ کیٹس یعنی شیراورلائن موجود ہیں اوروہ ان کی بریڈنگ بھی کروا رہے ہیں۔ شیراورٹائیگرکے بچوں کوپھرمقامی مارکیٹ میں فروخت کردیاجاتا ہے۔ یہ سلسلہ کورونا کے باوجود بندنہیں ہوا ہے تاہم شیراورٹائیگر کے بچوں کی قیمتیں کئی گنا تک بڑھ گئی ہیں۔ 6 ماہ تک کی عمرکا شیرکا بچہ پانچ سے سات لاکھ روپے تک میں مل جاتا ہے جبکہ سفید شیرکے بچے کی قیمت 10 لاکھ روپے تک ہے۔
کوویڈ 19 کی وجہ سے پاکستان میں غیرملکی جانوروں اور پرندوں کی خریدوفروخت بھی متاثرہوئی ہے جبکہ میکاؤ طوطے سمیت کئی اقسام کے غیرملکی پرندوں اور جانوروں کی مارکیٹ میں شدید قلت ہے ، مقامی سطح پربریڈنگ کے ذریعے حاصل کئے گئے غیرملکی پرندوں کی قیمتیں 3 گنا تک بڑھ گئی ہیں۔
رانا محمد نعیم کو قیمتی فینسی پرندے پالنے کا شوق ہی نہیں بلکہ ان کے روزگار کا بھی ذریعہ ہے۔ کیونکہ وہ لاہور سمیت مختلف شہروں کے چڑیا گھروں اوربڑے شاپنگ مالز میں فینسی پرندوں کے ساتھ تصاویربنانے کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔
رانا محمد نعیم نے بتایا کہ کوریڈ کی پہلی اوردوسری لہر کے دوران جب شاپنگ مال اورچڑیا گھر بند ہوئے تو ان کے لیے انتہائی قیمتی پرندوں خاص طور پر میکاؤ طوطوں کو گھر میں رکھنا مشکل ہوگیا تھا، ان کے کئی قیمتی پرندے مر گئے اور کچھ انہوں نے بیچ دیئے ۔ اب کورونا کی تیسری لہر سے قبل جب حالات کچھ بہترتھے توانہوں نےدوبارہ مارکیٹ سے طوطے خریدنے کا فیصلہ کیا تومارکٹ میں غیرملکی طوطے دستیاب ہی نہیں تھے،آن لائن چند افرادسے رابطہ ہوا تو اسکارلیٹ میکاؤ جو امریکن نسل کے طوطے ہیں ایک جوڑے کی مالیت 10 لاکھ روپے تھی وہ 15 سے 20 لاکھ روپے میں مل رہا تھا،انہوں نے چندایک جوڑے دوبارہ خریدے مگراب پھر کورونا کی تیسری لہراورلاک ڈاؤن کی وجہ سے انہوں نے پرندوں کو گھرمیں ہی رکھا ہے جہاں ان کی خوراک اورصحت کا خیال رکھاجاتا ہے۔
برڈ مارکیٹ اورپرندے پالنے کے شوقین افراد سے لی گئی معلومات کے مطابق اس وقت گرین ونگ میکاؤ کی قیمت دولاکھ سے بڑھ کرچارلاکھ ہوگئی ہے، بلیو اینڈ گولڈ میکاؤ ایک لاکھ 30 ہزار سے بڑھ کر ڈھائی لاکھ روپے کا مل رہا ہے، کوکاٹو طوطے کی قیمت سوا لاکھ سے بڑھ کر ڈھائی لاکھ ہوگئی ہے جبکہ گرے پیرٹ پچاس ہزار سے بڑھ کر 90 ہزاراورایک لاکھ روپے تک میں مل رہا ہے۔ بلیو اور گولڈن فینچیز کا جوڑا جو چھ، سات ہزار روپے کا تھا وہ اب 30 ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر میکاؤ امریکا سے امپورٹ کئے جاتے ہیں، قیمتی غیرملکی جانور اور پرندے امپورٹ کرنے کے لئے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے این اوسی اور پرندوں کی مختلف اقسام کے لئے الگ الگ پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ اسی طرح کسٹم اور امپورٹ ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد صوبائی محکمہ وائلڈلائف سے پرمٹ لینا پڑتا ہے۔
برڈڈیلرایسوسی ایشن پنجاب کے صدر خالداقبال کہتے ہیں کوریڈ19 نے غیرملکی پرندوں اور جانوروں کی خرید وفروخت پربہت زیادہ منفی اثرڈالا ہے۔ موجودہ حالات میں جب لوگ اپنے اوربچوں کے لئے روٹی کا انتظام کریں یا فینسی پرندوں کے خرچےبرداشت کریں۔ خالد اقبال نے بتایا ایک سال سے زائدعرصہ ہوگیا ہے بیرون ملک سے جانور اور پرندے امپورٹ نہیں کئے جاسکے ہیں۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ان کی شدید قلت ہے۔ مقامی بریڈنگ سینٹرز سے جو بریڈ حاصل ہورہی ہے وہ طلب پوری کرنے کے لئے ناکافی ہے اس لئے برڈسیلرز نے اپنی مرضی کے ریٹ مقرر کردیئے ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ جو پرندہ کوریڈ 19 کی وبا سے پہلے 10 ہزار روپے کا تھا اب اس کی قیمت 40 ہزار روپے ہے۔ غیرملکی جانوروں اور پرندوں کی قیمت کے تعین کا کوئی سرکاری طریقہ کار نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مجاز اتھارٹی ہے۔ یہ بریڈرز اوردکاندار کی مرضی ہے وہ اپنے جانور اور پرندے کی جوچاہے قیمت مقرر کرسکتا ہے
پنجاب وائلڈلائف لاہورکے ڈپٹی ڈائریکٹرتنویراحمد جنجوعہ نے بتایا کہ غیرملکی جانوراورپرندے(جو پاکستان کے جنگلی ماحول میں نہیں پائے جاتے ) ان کی امپورٹ پر 31 دسمبر 2020 تک پابندی عائدتھی تاہم اب وزارت موسمیاتی تبدیلی نے وہ پابندی ختم کردی ہے ،اب مسلہ ہے ان جانوروں اورپرندوں کی امپورٹ اورایکسپورٹ کا،وزارت نے توپابندی ختم کردی ہے لیکن مختلف ممالک کے ساتھ پروازوں کا سلسلہ بندہے۔دبئی ، لبنان سمیت جن ممالک کے ساتھ فضائی رابطے بحال ہوگئے ہیں وہاں سے غیرملکی پرندے امپورٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں
تنویر جنجوعہ نے بتایا غیر ملکی جانوروں کی بات کی جائے توان میں شیر،ٹائیگر،پوما،چمپپینزی، زرافہ وغیرہ قابل ذکرہیں۔ لاہور میں اس وقت 32 بریڈنگ سینٹرز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 10 ایسے ہیں جن کے پاس بگ کیٹس یعنی شیراورلائن موجود ہیں اوروہ ان کی بریڈنگ بھی کروا رہے ہیں۔ شیراورٹائیگرکے بچوں کوپھرمقامی مارکیٹ میں فروخت کردیاجاتا ہے۔ یہ سلسلہ کورونا کے باوجود بندنہیں ہوا ہے تاہم شیراورٹائیگر کے بچوں کی قیمتیں کئی گنا تک بڑھ گئی ہیں۔ 6 ماہ تک کی عمرکا شیرکا بچہ پانچ سے سات لاکھ روپے تک میں مل جاتا ہے جبکہ سفید شیرکے بچے کی قیمت 10 لاکھ روپے تک ہے۔