برطانیہ ایگزیکٹو آرڈر سے نواز شریف کو ڈی پورٹ کرسکتا ہے شہزاد اکبر
ہماری اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے وہاں ایک ٹیکا بھی نہیں لگوایا، مشیر داخلہ
مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ برطانیہ ایگزیکٹو آرڈر سے نواز شریف کو ڈی پورٹ کرسکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن سے گفتگو میں مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ برطانیہ کا قانون ہے سزا یافتہ شخص کو وزٹ ویزہ نہیں دیا جا سکتا، برطانیہ کو بتایا ہے کہ نواز شریف سزا یافتہ ہیں اور وہ وہاں کوئی علاج نہیں کروا رہے، ہماری اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے وہاں ایک ٹیکا بھی نہیں لگوایا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ برطانیہ سے کہا ہے معاملہ خود دیکھ کر قانون کے مطابق فیصلہ کریں، برطانیہ ایگزیکٹو آرڈر سے نواز شریف کو ڈی پورٹ کر سکتا ہے، برطانیہ نے ہمیں نواز شریف کی حوالگی کی درخواست دینے کا کہا جس پر ہم نے برطانیہ سے کہا آپ پہلے یہ دیکھیں آپ کا قانون نواز شریف کو وزٹ پر قیام کی اجازت دیتا ہے یا نہیں، حوالگی کی درخواست طویل عمل ہے اسے بعد میں دیکھیں گے۔
مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو واپس لانا ایک ٹیکنکل ٹاسک ہے، برطانیہ میں بھی نوازشریف نے طبی بنیادوں پر علاج کے لیے ویزہ کی معیاد بڑھانے کی درخواست دی ہے لہذا ہم نے برطانیہ کو بتایا ہے یہ علاج کے لیے گئے ہیں، دیکھا جائے وہاں کونسا اور کتنا علاج کروایا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن سے گفتگو میں مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ برطانیہ کا قانون ہے سزا یافتہ شخص کو وزٹ ویزہ نہیں دیا جا سکتا، برطانیہ کو بتایا ہے کہ نواز شریف سزا یافتہ ہیں اور وہ وہاں کوئی علاج نہیں کروا رہے، ہماری اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے وہاں ایک ٹیکا بھی نہیں لگوایا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ برطانیہ سے کہا ہے معاملہ خود دیکھ کر قانون کے مطابق فیصلہ کریں، برطانیہ ایگزیکٹو آرڈر سے نواز شریف کو ڈی پورٹ کر سکتا ہے، برطانیہ نے ہمیں نواز شریف کی حوالگی کی درخواست دینے کا کہا جس پر ہم نے برطانیہ سے کہا آپ پہلے یہ دیکھیں آپ کا قانون نواز شریف کو وزٹ پر قیام کی اجازت دیتا ہے یا نہیں، حوالگی کی درخواست طویل عمل ہے اسے بعد میں دیکھیں گے۔
مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو واپس لانا ایک ٹیکنکل ٹاسک ہے، برطانیہ میں بھی نوازشریف نے طبی بنیادوں پر علاج کے لیے ویزہ کی معیاد بڑھانے کی درخواست دی ہے لہذا ہم نے برطانیہ کو بتایا ہے یہ علاج کے لیے گئے ہیں، دیکھا جائے وہاں کونسا اور کتنا علاج کروایا۔