سائنس جادو کی طرح ہے

بچوں اور عام لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ سائنس سے جادوئی قسم کے کارنامے سر انجام دیے جاسکتے ہیں؟


کامران امین May 26, 2021
لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ سائنس اور سائنسدان دونوں ہی کوئی خشک اور بورنگ سی چیزیں ہیں۔ (فوٹو: فائل)

''سائنس اتنی حیرت انگیز ہے''، ''سائنس جادو کی طرح ہے''، سائنس سے یہ کیا جاسکتا اور وہ کیا جاسکتا ہے''۔ ایسی لمبی لمبی باتیں آپ بھی اکثر سنتے ہوں گے اور تجربہ گاہ میں سائنسدان بھی بند کمروں میں پتہ نہیں کیا کیا کرتے ہوں گے؟ نہ عام آدمی کو اس کی خبر ہوتی ہے اور نہ آنے والی نسل میں اس کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ واقعی سائنس اگر کوئی جادوئی چیز ہے اور ہمارے کرۂ ارض کو سائنسی تحقیق سے کوئی فائدہ پہنچا ہو تو بچے کیا بوڑھے تک اس کے گرویدہ ہونے چاہیے تھے؟ لیکن ایسا اکثر نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ سارا کام جو تجربہ گاہ میں ہوتا ہے ایک عام آدمی تک اس انداز سے پہنچانا کہ نہ صرف اسے سمجھ میں آسکے بلکہ اس کی دلچسپی بھی پیدا ہو، حد درجہ مشکل کام ہے۔ اور ذرا سوچیے کہ اگر بڑوں کو سمجھانا مشکل ہے تو پھر چھوٹوں کی دلچسپی کیوں کر اور کیسے پیدا ہو؟

ویسے بھی عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ سائنس اور سائنسدان دونوں ہی کوئی خشک اور بورنگ سی چیزیں ہیں، جن کا زندگی کی لطیف حسوں سے شاید ہی کوئی تعلق بنتا ہو۔

اور بات اگر پاکستان کی ہو تو یہاں بچوں میں کسی چیز کا شوق پیدا کرنا ویسے بھی گناہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو بچوں سے مار پیٹ کرکے، ڈرا دھمکا کر یا جذباتی بلیک میلنگ کرکے کام نکلوانے کا طریقہ حد درجہ کامیاب ہے تو کسی اور چیز کی کیا ضرورت؟ اس لیے کہ روایتی طریقہ کار کے تحت ہم ایک مخصوص قسم کے گگو گھوڑے ہی بنا رہے ہیں جو لکیر کے فقیر ہیں۔ یا اگر جملہ غیر مناسب نہ ہو تو فلم تھری ایڈیٹس میں ہیرو جو لڑکی سے کہتا ہے کہ تمہارا باپ ایک ایسی فیکٹری چلا رہا ہے جس میں ہر سال گدھے مینوفیکچر ہوتے ہیں، تو بے جا نہ ہوگا۔ اس لیے کہ ہمارے ہاں جو غلطی سے سائنس پڑھنے چلے جاتے ہیں انہیں بھی سائنس پڑھائی یا سمجھائی نہیں، رٹائی جاتی ہے۔ اور غلطی سے اس لیے کہ ہمارے ہاں سائنس ہنسی خوشی پڑھنے کا رحجان اس لیے بھی کم ہے کہ کوئی واقفیت ہی نہیں ہوتی بچوں کی، اور پیدا ہوتے ہی آرمی آفیسر، ڈاکٹر، انجینئر یا بیوروکریٹ یا پھر وکیل بنانے کی رٹ ہی زور و شور سے لگائی جاتی ہے۔ اور پھر جب بچوں کا اس طرف داخلہ نہیں ہوتا تو مجبوراً ہی وہ فزکس، کیمسٹری پڑھتے اور بے دلی سے پڑھتے ہیں۔ اسی لیے عرصہ دراز ہوا ہم دوسری قوموں کی دریافتوں سے اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور آن کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ اس لیے علامہ صاحب کہہ گئے تھے؎

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

تو پھر بچوں میں کیسے شوق پیدا کیا جائے اور عام لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ سائنس بھی کوئی چیز ہے اور ہم واقعی اس سے جادوئی قسم کے کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں؟ دنیا کے مختلف علاقوں میں اس کےلیے مختلف طرح کی سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ اور مجھے یہاں چائنیز اکیڈمی آف سائنسز بیجنگ میں ہونے والی ایسی ہی ایک سرگرمی بے حد پسند آئی، جسے دیکھتے ہی دل سے بے ساختہ آہ ہی نکلتی ہے کہ کاش ایسا کچھ بچپن میں ہمیں بھی بتایا گیا ہوتا تو...

ہوتا یوں ہے کہ سال میں ایک دن چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے سارے تحقیقی ادارے عوام اور بچوں کےلیے کھول دیے جاتے ہیں، جسے سائنسی دن برائے عوام کا نام دیا جاتا ہے۔ ہر تحقیقی ادارہ اپنی تحقیق کی مناسبت سے ایسے سادہ، دلچسپ اور عام فہم قسم کے تجربات کی نمائش کرتا ہے جسے بغیر کسی دقت کے محدود وقت میں بچوں کے سامنے بھی پرفارم کیا جاسکے اور بچے خود اپنے ہاتھوں سے وہ کرسکیں۔

مثال کے طور پر ہمارا کام چونکہ بیٹریوں پر ہے لہٰذا اس کی مناسبت سے ہم نے لیموں اور آلو سے بیٹری بناکر اس سے ایک ایل ای ڈی بلب روشن کرنے کا مظاہرہ کیا، جسے بچے خود بھی باآسانی ہمارے سامنے کرتے رہے اور خوش ہوتے رہے۔

اسی طرح ایک بڑا جادوئی تصور ہے ایک ایسی ٹرین کا جس کے نہ تو ٹائر ہوں بلکہ وہ زمین سے کافی اونچی ہوا میں معلق ہوکر انتہائی تیز رفتاری سے چلے۔ ایسی ہوا میں چلنے والی ٹرینیں پہلے ہی چین کے ایک شہر میں چل رہی ہیں۔ چونکہ اس کا تعلق مقناطیس کی قوت سے تھا تو فزکس والوں نے یہ تجربہ عوام کےلیے سیٹ کیا ہوا تھا، جہاں لوگوں کی دلچسپی قابل دید تھی۔



میں حیران ہوتا تھا کہ کیسے چھوٹے چھوٹے دودھ پیتے بچے جب یہ مناظر دیکھتے اور خوشی سے تالیاں بجاتے اچھلتے کودتے، خیر بچے تو ایک طرف رہے کچھ چیزیں تو میرے لیے بھی ایسی حیرت انگیز تھیں کہ جیسے، سونا کس طرح سائز تبدیل کرنے سے اپنا رنگ تبدیل کرتا چلا جاتا ہے اور پھر بالخصوص پانی کا ایک قطرہ ہوا میں بغیر کسی سہارے کے روک کر دکھانا۔ ان چیزوں کے بارے میں پہلے سے پڑھ رکھا تھا لیکن انہیں خود کرکے دیکھنا ایک مختلف احساس دیتا ہے۔ اور اپنے کام میں جوش و خروش اور بڑھ جاتا ہے۔



یہ پریکٹس یہاں پر شاید اور بھی یونیورسٹیاں کرتی ہوں گی، لیکن میرا دھیان پھر پاکستان کی طرف جاتا ہے کہ کاش ہماری یونیورسٹیاں بھی، جہاں سائنس کی کچھ تعلیم دی جاتی ہے، اپنے دروازے کسی ایک دن بچوں اور عام لوگوں کےلیے کھول سکیں اور اس طرح عوامی دلچسپی کے پروگرام منعقد کیے جائیں۔

ایک زمانہ تھا پروفیسر این ایم بٹ صاحب سائنس فاؤنڈیشن کے چئیرمین ہوا کرتے تھے تو ایسی موبائل تجربہ گاہیں بنائی گئی تھیں جنہیں بوقت ضرورت کسی بھی اسکول یا عوامی مقام پر لے جاکر لوگوں کو اس طرح کے کچھ تجربات کرکے دکھائے جاتے۔ وہ پتہ نہیں کیوں بند کردیا گیا۔

تو جناب پڑھنے والو! سوچو آپ بھی کہ ہم کیسے اپنے بچوں کو زور زبردستی یا مجبوری کے عالم میں سائنس پڑھانے کے بجائے ان میں سائنس کےلیے شوق پیدا کریں۔ تاکہ شاید ہمارے ہاں بھی سائنسی دریافتوں کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں