عالمی ادارہ صحت نے پشاور کو پولیو کا سب سے بڑا گڑھ قرار دے دیا
گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے کل 93 کیسز سامنے آئے جن میں سے 81 کا تعلق فاٹا اور خیبر پختونخوا سے ہے، ڈبلیو ایچ او
عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کو پولیو کا سب سے بڑا گڑھ قرار دے دیا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 2013 میں 2012 کے مقابلے میں پولیو کیسز کی تعداد سب سے زیادہ سامنے آئی ہے، گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے کل 93 کیسز سامنے آئے جن میں سے 81 کا تعلق فاٹا اور خیبر پختونخوا سے ہے، رپورٹ میں پشاور کو پولیو کا گڑھ قرار دیتے ہوئے یہاں بار بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی سفارش کی گئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پشاور سے پانی کے 72 نمونے حاصل کئے گئے جن میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، پچھلے 5 برسوں میں پشاور میں پولیو کے 45 کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ 2013 میں پولیو کے 4 کیس سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پولیو مہم متاثر ہوئی جس کے باعث 5 سال سے کم عمر بچوں کو پولیس کے قطرے نہیں پلائے جاسکے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخو اور قبائلی علاقوں میں یہ تاثر عام کردیا گیا ہے کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے ان کے بچوں میں مردانہ بانچھ پن کا سبب بن سکتے ہیں جس کے باعث وہ کم علمی کے باعث اپنے بچوں کو یہ قطرے پلانے سے گریز کرتے ہیں جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیموں کا کہنا ہے کہ پولیو مہم کو حکومت جاسوسی کے طور پر استعمال کرتی ہے جس کے باعث انسداد پولیو مہم کی ٹیموں پر حملے بھی کئے جاتے ہیں اوران حملوں میں کئی پولیو رضاکاراوران کی حفاظت پرمامورمتعدد پولیس اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 2013 میں 2012 کے مقابلے میں پولیو کیسز کی تعداد سب سے زیادہ سامنے آئی ہے، گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے کل 93 کیسز سامنے آئے جن میں سے 81 کا تعلق فاٹا اور خیبر پختونخوا سے ہے، رپورٹ میں پشاور کو پولیو کا گڑھ قرار دیتے ہوئے یہاں بار بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی سفارش کی گئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پشاور سے پانی کے 72 نمونے حاصل کئے گئے جن میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، پچھلے 5 برسوں میں پشاور میں پولیو کے 45 کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ 2013 میں پولیو کے 4 کیس سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پولیو مہم متاثر ہوئی جس کے باعث 5 سال سے کم عمر بچوں کو پولیس کے قطرے نہیں پلائے جاسکے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخو اور قبائلی علاقوں میں یہ تاثر عام کردیا گیا ہے کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے ان کے بچوں میں مردانہ بانچھ پن کا سبب بن سکتے ہیں جس کے باعث وہ کم علمی کے باعث اپنے بچوں کو یہ قطرے پلانے سے گریز کرتے ہیں جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیموں کا کہنا ہے کہ پولیو مہم کو حکومت جاسوسی کے طور پر استعمال کرتی ہے جس کے باعث انسداد پولیو مہم کی ٹیموں پر حملے بھی کئے جاتے ہیں اوران حملوں میں کئی پولیو رضاکاراوران کی حفاظت پرمامورمتعدد پولیس اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔