کورونا سے بچاؤ کے لیے احتیاط

حکومت زیادہ سے زیادہ ویکسین منگوائے اور ویکسین لگوانے کے سینٹرز کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ کرے۔

حکومت زیادہ سے زیادہ ویکسین منگوائے اور ویکسین لگوانے کے سینٹرز کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ کرے۔ فوٹو:فائل

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق ملک بھر میں کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد20 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ متاثرین کی تعداد 9 لاکھ سے زائد ہے۔ تقریباً ساڑھے 8 لاکھ مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ روز پنجاب میں16، خیبر پختونخوا26 اور سندھ میں 11مریض انتقال کر گئے۔ آزاد کشمیر میں کورونا سے 5 اموات ہوئیں۔ گزشتہ روز تک پنجاب میں9 ہزار784، خیبرپختونخوا 3ہزار950، سندھ4 ہزار 920، اسلام آباد45، بلوچستان270، گلگت بلتستان107 اور آزاد کشمیر میں532 اموات ہو چکی ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی ہدایات کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں تعلیمی اور سیاحتی سرگرمیاں مرحلہ وار بحال ہوگئی ہیں۔ پنجاب کے16، خیبر پختونخوا21 اور بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ تمام اضلاع میں تعلیمی اور سیاحتی سرگرمیاں ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کرنے کی شرط پر بحال ہوگئی ہیں۔ تاہم اسلام آباد، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور سندھ بھر میں بدستور پابندیاں عائد ہیں۔

19مئی کو ہونے والے این سی اوسی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق ملک بھر میں 5 فیصد سے کم مثبت شرح کے حامل اضلاع میں 24 مئی سے تعلیمی ادارے مشروط طور پر کھول دیے گئے ہیں۔ آؤٹ ڈور ریسٹورنٹس رات 12بجے تک جب کہ کھانا ساتھ لے جانے کی سہولت 24گھنٹے دستیاب ہوگی۔

27 مئی کو جائزہ لینے کے بعد یکم جون سے کھلے مقامات میں شادی کی تقریبات کی اجازت ہوگی تاہم شرکا کی تعداد 150تک محدود ہوگی۔ جو تعلیمی ادارے 24مئی کو نہیں کھلے ہوں وہ بھی7جون کو کھلیں گے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے تمام امتحانات20 جون کے بعد منعقد ہوں گے۔

ملک بھر کے منظر نامہ پر زندگی کے مختلف شعبوں کو بحال کرنے کا جو نظام الاوقات سامنے آتا ہے وہ ابھی تک گنجلک اور قابل فہم نہیں، وفاقی اور صوبائی انتظامیہ کے شیڈول، اقدامات اور مقامی ضروریات کے مطابق فیصلوں میں تضاد موجودہے، مثلاً وزیر اعلیٰ سندھ کی زیرصدارت کورونا ٹاسک فورس کا اجلاس ہوا، صوبائی حکومت نے صوبے بھر میں25 مئی کی رات8بجے کے بعد شہریوں کے گھروں سے غیر ضروری نکلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے آئی جی پولیس کو ہدایت جاری کی ہے کہ شہریوں کو غیر ضروری طور پر گاڑیوں میں گھومنے سے بھی روکا جائے۔ جب کہ پارکس کی لائٹس بھی مغرب کے بعد بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ دکانیں شام 6 بجے بند کی جائیں گی اور پھر 2گھنٹے تک لوگوں کو گھروں کو واپس جانے کا وقت دیا جائے گا۔ رات 8 بجے کے بعد پولیس غیر ضروری عوامی نقل و حرکت کی حوصلہ شکنی کے لیے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دے گی۔

مراد علی شاہ نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ رات 8 بجے ٹہلنے/ جاگنگ والے پارکوں کی لائٹس بند کر دیں۔ اگر ہم نے2 ہفتے پابندیوں پر مکمل عملدرآمد کیا تو آگے آسانی ہوگی۔

مرتضی وہاب نے کہا کہ ٹرانسپورٹ بھی6 بجے کے بعد نہیں ہوگی۔ مغرب کے بعد جو لوگ غیر ضروری طور پر نکلیں گے اس کے بعد ان سے پوچھ گچھ ہوگی اور سندھ میں تمام تر تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔

ادھر پنجاب حکومت نے کووڈ19ویکسینیشن کارڈ کا اجراء کر دیا ہے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی زیر صدارت اجلاس میں میڈیکل یونیورسٹیز اور کالجز کے تمام طلباء کو ویکسین لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔

ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ بینکس، صنعتوں، تعلیمی اداروں سمیت 30 اہم شعبوں کے افراد کی ترجیحی ویکسینیشن کی تجویز زیر غور ہے۔ ادھر این سی او سی نے ہوٹلوں کے اندر کھانے سمیت کھیل، میلے، ثقافتی، موسیقی اور دیگر پروگراموں پر پابندی برقرار رکھی ہے۔ تمام مزارات، سینما گھر، پارکس اور انڈور جم بھی بدستور بند رہیں گے۔


اے پی پی کے مطابق حکومت نے طلبا کو کسی صورت بغیر امتحانات کے پروموٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بین الصوبائی وزرائے تعلیم کمیٹی کا 29 واں اجلاس پیر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت ہوا۔ بین الصوبائی وزرائے تعلیم کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ رواں سال ایس او پیز کے تحت ہر صورت امتحانات ہوںگے۔ امتحانات 20 جون کے بعد سے شروع کیے جائیں گے۔ پہلے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات لیے جائیں گے۔ تاہم تاریخ کا اعلان متعلقہ صوبے خود کریں گے۔

گرمیوں کی چھٹیوں کے حوالے سے بین الصوبائی وزراء تعلیم کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ محدود تعداد میں ہوں گی۔ چیئرمین بین الصوبائی وزرائے تعلیم کمیٹی شفقت محمود نے تمام وفاقی اکائیوں کو اساتذہ، نگران عملے اور دیگر انتظامی اسٹاف کی بروقت ویکسی نیشن کو یقینی بنانے پر زور دیا ،جن کے پاس ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ نہیں ہوگا، وہ انویجیلیشن کے لیے نہیں بلائے جائیں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کی روشنی میں این سی ایچ ڈی اور بیکس کے اسٹاف کی 30 جون کے بعد صوبوں کو منتقلی کے معاملے پر بھی کمیٹی میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس ضمن میں صوبے جلد نوٹیفکیشن جاری کریں۔

لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبوں کو بھی ایک مربوط گائیڈ لائن دی جائے، سندھ اور وفاق کے مابین فیصلہ جاتی اتفاق رائے کا فقدان ہے اور ابھی تک کشمکش اور مسابقت کی فضا قائم ہے، سندھ کے وزیر اعلیٰ کا انداز نظر وفاق سے مطابقت کا نہیں بلکہ یہ اصرار ہے کہ صوبہ کی کورونا سے نمٹنے اور لاک ڈاؤن کی پالیسی زیادہ موثر اور نتیجہ خیز رہی، اس اختلاف کو جلد ختم ہونا چاہیے۔

جہاں ایک طرف سیاحت اور ٹرانسپورٹ کو کھولا جا رہا ہے تو دوسری طرف رات کو آٹھ بجے شہریوں سے کہا جا رہا ہے کہ گھروں میں رہیں اور غیر ضروری طور پر مٹر گشت کے لیے انھیں باہر نہیں نکلنا چاہیے، عوام اس پابندی کو ویکسین لگانے کے فوائد سے متصادم سمجھتے ہیں، ان کا خیال یہ ہے کہ کورونا کے انسداد کی یکساں پالیسی کا نفاذ ہو، اسی طرح ضروری یا غیر ضروری طور پر رات کو باہر نکلنے کی پابندی بھی غیر منطقی ہوگی، اس سے سماجی زندگی میں ویکسین کے استعمال سے ملنے والی تسکین بھی شہریوں کیلیے بے فائدہ ہوگئی ہے، کیونکہ ویکسین کے ماخذ کی بحث بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔امریکا میں یہ بحث ہورہی ہے۔

چین کی جانب سے عالمی ادارہ صحت کو بتایا گیا تھا کہ کووڈ جیسی علامات والا پہلا مریض ووہان میں 8 دسمبر 2019 کو سامنے آیا تھا۔ اس وقت تک یہی کہا جارہا ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر قدرتی ہے جو کسی جانور سے انسان میں منتقل ہوا، مگر اس امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ حادثاتی طور پر لیب سے لیک ہوا ہو۔

فروری میں کورونا وائرس کے ماخذ کی تحقیقات کرنے والی عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے کہا تھا کہ کسی حادثے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ دسمبر 2019 سے قبل کووڈ جیسی نظام تنفس کی بیماری رپورٹ نہیں ہوئی اور نہ ایسے کوئی شواہد ملے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او ٹیم کے عہدیدار پیٹر بین ایماریک نے ووہان میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی لیبارٹری سے لیک ہوکر وائرس کے پھیلنے کا خیال درست نہیں۔ انھوں نے کہا کہ لیبارٹری سے وائرس پھیلنے کے خیال پر مزید تحقیق کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ درست نہیں۔ مگر عالمی ادارے کی اس تحقیقات کو امریکا، برطانیہ اور چند دیگر ممالک کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

بہر کیف ویکسین کے ماخذ کی بحث کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، عوام کو منظور شدہ ویکسین کے استعمال میں کسی قسم کا واہمہ یا تشویش دامن گیر نہیں ہونی چاہیے اور عوام اب یقین واعتماد سے ویکسین کا ٹیکہ لگوائیں تاکہ اس وباء کا جلد ازجلد خاتمہ ممکن ہوسکے۔

پاکستان کو کورونا وباء کی گرفت میں سے جلد از جلد نکلنا ہو گا کیونکہ کورونا وباء کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ' ان کی وجہ سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ بیروز گاری انتہا کو چھو رہی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد بیروز گاری کا شکار ہے۔ درمیانے درجے کا تاجر طبقہ بدحالی کا شکار ہو گیا ہے۔جب کہ مینوفیکچررز بھی شدید پریشان ہیں۔ گو امیر طبقے کو کوئی موجودہ بحران نے متاثر نہیں کیا لیکن امیر کاروباری طبقہ شدید قسم کی ذہنی اذیت کا شکار ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ضروری ہے کہ اس کی معیشت کے تمام شعبے پوری صلاحیت سے فعال رہیں تاکہ حکومت کی ٹیکس آمدنی میں بھی اضافہ ہو اور درمیانے طبقے میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روز گار کے مواقع بھی ملتے رہیں۔اب چونکہ کورونا وبا ء کی وجہ سے حکومت کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا بھی لازم ہے' اس لیے حکومت کی تمام تر توجہ عوام کو کورونا ویکسین لگوانے کی سہولتیں فراہم کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔

پاکستان میں کورونا ویکسین لگنے کی رفتار خاصی سلو ہے۔ یہی رفتار جاری رہی تو تمام افراد کو ویکسین لگانے کے لیے طویل المدت لگے گی۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ ویکسین منگوائے اور ویکسین لگوانے کے سینٹرز کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ کرے۔ایسا ہوا تو پاکستان بھی امریکا' مغربی یورپ 'لاطینی امریکا 'چین اور متحدہ امارات کی طرح اوپن ہو جائے گا۔
Load Next Story