صیہونی ریاست کی ملامت کے لیے اٹھ
مسلم ممالک کے حکمران اپنے ملکوں کے عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں۔
PESHAWAR:
مسلم امہ تاریخ کے سیاہ ترین دور سے گزر رہی ہے، اس دور کی تاریکی سیاہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوفناک اور خون آشام بھی ہے، اس کی سیاہ بختی اور خون آشامی روئے زمین کے ایک کونے سے شروع اور دوسرے کونے پر اختتام پذیر ہوتی ہے، جگہ جگہ خونِ مسلم بکھرا نظر آتا ہے۔
اس نامبارک و نحس دور کے اثرات نے ہمہ وقت پْرامید مسلمانوں کو نوحہ گروں میں اور نتائج نے مرثیہ خوانوں میں بدل رکھا ہے۔ ہم اس دور سیاہ کا ماتم نجانے کس دور سے منارہے ہیں، نہ ماتم کٹتا ہے اور نہ ہی سختی۔ مسلم امہ مسلسل بھنور اور خون آشامی کی زد میں ہے۔ روئے زمین پر جہاں جہاں مسلمان ہیں وہاں وہاں خون ہی خون ہے، ذلت و ہزیمت، بے آبروئی و بے چارگی، تباہی و بربادی اور آزمائشیں ہی آزمائشیں ہیں۔
پوری مسلم دنیا کے لیے تازہ آزمائش القدس پر صیہونی جارحیت کی شکل میں ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ ماہ رمضان کی آخری مقدس راتوں میں مسجد اقصیٰ میں عبادت میں مصروف فلسطینیوں پر صیہونی فوجیوں اور انتہا پسند یہودیوں نے دھاوا بولا، انھیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، خواتین کی آبروریزی کی، معصوم بچوں کا قتل عام کیا گیا، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی گئی، صیہونیوں کا یہ عمل انتہا درجہ انسانیت سوز اور کھلی دہشت گردی تھا۔ 11 دن تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں فلسطین کے اڑھائی سو سے زائد مسلمانوں کی شہادت ہوئی، جن میں سو سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔
غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، فلسطینیوں کے گھر اور دفاتر میزائل حملوں میں تباہ کردیے گئے، سرکاری و غیر سرکاری املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، میڈیا ہاؤسز پر میزائل داغے گئے، سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والی ویڈیوز میں کثرالمنزلہ عمارتیں لمحوں میں مٹی کا ڈھیر بنتے دیکھیںگئیں اور جن مساجد سے حی علی الفلاح کی صدائیں گونج رہی تھیں انھیں صفحہ ہستی سے مٹتے ہوئے دیکھا۔ اس صیہونی بربریت کے سامنے نہتے فلسطینی بے یارو مددگار تھے، اﷲ سے مدد کے لیے صدائیں بلند کررہے تھے۔
وہ راہ تکتے رہے کہ ستاون اسلامی ممالک ان کی مدد کو آئیں گے، چالیس سے زائد اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج ان کا دفاع کرنے کے لیے آگے بڑھے گی، وہ راہ تکتے رہے، ان کے بدن زخموں سے چور چور تھے، آنکھوں میں برسات کی جھڑی تھی، ہاتھ اﷲ کی رحمت کے طلب گار بن کر پھیلے ہوئے تھے، ان کی مدد کے لیے کوئی اسلامی ملک تو نہیں آیا، چالیس سے زائد اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج بھی خواب خرگوش کے مزے چھوڑنے کو تیار نہ دکھائی دی لیکن اﷲ اپنے مظلوم بندوں کو تنہا کیسے چھوڑ سکتا تھا، اﷲ نے اپنی رحمت کا نزول فرمایا، ایک دم فضا میں روشنیاں نمودار ہوئیں۔
فلسطینیوں کے آزردہ چہرے کھل اٹھے، آنسوؤں سے نمناک آنکھوں میں خوشی کی چمک دکھائی دینے لگی اور ہر جانب فضا اﷲ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی کیونکہ صیہونیوں کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے حماس میدان میں اتر چکی تھی۔ حماس کی جانب سے جنوبی اور وسطی اسرائیل پر چار ہزار تین سو سے زائد چھوٹے میزائل داغے گئے۔ اسرائیل کو جس دفاعی نظام آئرن ڈوم پر بڑا ناز تھا وہ ان حملوں کی تاب نہ لاسکا اور بری طرح ناکارہ ہوگیا۔ ان حملوں نے جہاں اسرائیل کے دفاع کے پرخچے اڑادیے وہاں اسرائیل سمیت دنیا کو حماس کی طاقت کا اندازہ بھی ہوگیا۔ان حملوں کے بعد اسرائیل نے گھٹنے ٹیک دیے اور غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا۔
جنگ بندی کی خبر جیسے ہی فلسطین میں پھیلی ویسے ہی غزہ کے لوگوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔ لوگوں نے خوشی میں اپنی گاڑیوں کے ہارن بجانے شروع کر دیے اور نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل پڑے۔ بلاشبہ یہ عارضی خوشی اور عارضی جشن ہے کیونکہ جب تک عرب سرزمین کے سینے پر اسرائیل نام کا خنجر موجود ہے تب تک ہر جشن اور ہر خوشی عارضی ہے، جنگ ابھی ٹلی ہے ختم نہیں ہوئی۔ ہمیں اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں کہ اسرائیل کا دخل دنیا کے ہر ملک کی حکومت میں نظر آ تا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ غزہ میں کون کون سی تنظیمیں ہیں اور ان کے پاس کیسے کیسے ہتھیار ہیں، ہمیں شائد اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیل کو حماس یا اسلامک جہاد نامی تنظیموں کے بارے میں سرسری سا علم رہا ہوگا۔ ویسے تو ہر ملک اور ہر حکومت اپنے مخالفین کی ایک ایک چیز پر نظر رکھتی ہے اور اسرائیل تو اس میں کچھ زیادہ ہی آگے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی مرضی سے حملے کیے اور اپنی مرضی سے جنگ بندی کی۔ یہ غیر مشروط جنگ بندی صیہونیوں کی چال ہے، وہ اس جنگ بندی کی آڑ میں نئی حکمت عملی کے تحت تیاری میں مصروف ہوگا اور پہلے سے زیادہ طاقتور حملہ کریگا۔
فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ناقابل تردید عالمی حقیقت ہے۔ اسرائیلی 1948 سے ایک ناجائز ریاست کی شکل میں ارض فلسطین پر قابض ہے، اس دوران 1967میں عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف جنگی کارروائی بھی کی، لیکن امریکا اور اس کی اتحادی قوتوں نے اسرائیل کی مکمل مدد کی۔ اس بار بھی جوبائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں پر صیہونی حملوں کو دفاع کے حق کا عنوان دیتے ہوئے جائز قرار دیتی رہی۔ اسے اسرائیل کی اندھا دھند بمباری کے نتیجے میں محض گیارہ دنوں میں بچوں، بزرگوں، خواتین سمیت اڑھائی سو سے زیادہ زندگیاں موت کا نوالہ بنتی دکھائی نہ دیں، زخموں سے چور سیکڑوں افراد نظر نہیں آئے، جنھیں علاج معالجے کی سہولتیں تک میسر نہ تھی۔
غزہ میں کھانے پینے کی اشیائے، ضرورت کی چیزیں، ادویات اور رہائش گاہوں تک کی شدید قلت کا اسے پتا نہی چل سکا۔ اسے اسرائیل کی دہشت گردی دفاع کا حق لگی۔ دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور امریکا اس کا سرپرست ہے اور اس نے ہر فورم پر اس کا دفاع کیا۔ اسی کی مدد اور آشیر باد سے اسرائیل فلسطینیوں کے لیے ان ہی کی سرزمین تنگ کرنے پر تلا ہوا ہے اور جیسا کہ پہلے کہا وہ اس بار پہلے سے زیادہ طاقتور حملے کی تیاری میں مصروف ہے جسے روکنے کے لیے اسلامی دنیا کوآگے بڑھنا ہو گا، وہ اسلامی دنیا جس نے آج تک ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو مایوس کیا۔
اب غفلت کی چادر اتارنا ہوگی، او آئی سی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنا ہوگی۔ تمام اسلامی ممالک کو اقوام متحدہ میں متفقہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی، او آئی سی کی سطح پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کی جدوجہد کرنا ہوگی، دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو ایک مستقل نشست جب تک نہیں ملے گی تب تک دنیا کسی اسلامی ملک کو سنجیدہ نہیں لے گی، اگرسلامتی کونسل میں مستقل نشست نہیں ملتی تو اقوام متحدہ ایسے ادارے سے علیحدگی میں ہی عافیت ہے پھر اس کا حشر لیگ آف نیشن کی طرح ہونے دیا جائے۔
روئے زمین پر 57 مسلم ممالک موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر نعمت سے مالا مال کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی دنیا میں ان کی کوئی یکجا آواز نہیں، ہر ملک اپنے اپنے مفاد کا سوچ رہا ہے، اجتماعی مفاد کی کسی کو کوئی پروا نہیں بلکہ ہر حکمران اپنے اقتدار کا سوچ رہا ہے کہ وہ کیسے مغرب کی سامراجی طاقتوں کا آلہ کار بن کر حکومت کر سکتاہے اور وہ اپنے ہی عوام پر ظلم وستم ڈھانے کے لیے تیار ہے لیکن کفر کی طاقتوں کے سامنے وہ بزدلی کی علامت بناہے۔
مسلم ممالک کے حکمران اپنے ملکوں کے عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کے عوام اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں۔ اگر یہ حکمران مغرب کی غلامی سے باہر نہ نکلے تو ان کے خلاف عوام باہر نکل سکتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے اس وقت پوری اسلامی دنیا میں دھوم مچ گئی تھی، پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں نے جشن منایا تھا ،وہ پاکستان آج امت مسلمہ کے معاملات پر معذرت خواہانہ کردار ادا کررہا ہے۔ اگر مغرب دہشت و بربریت پھیلانے کے لیے چالیس سے زائد ممالک پر مشتمل مشترکہ فوج نیٹو کے عنوان سے کھڑی کرسکتا ہے تو کیا مسلم ممالک مل کر حقیقی اسلامی فوج تیار نہیں کرسکتے؟ یہ مشکل کام نہیں اور پاکستان کو اس مسئلے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
اسلامی فوج تشکیل دینے کے بعد کشمیر و فلسطین جیسے دیرینہ حل طلب مسئلوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہیے۔ پھر دیکھیں اسلامی دنیا کے مسائل کیسے حل ہوتے ہیں۔ اگر اسلامی دنیا نے مشکل فیصلے نہ کیے تو آج فلسطین کی باری ہے کل کسی اور کی باری ہوسکتی ہے۔ جو اسلامی ممالک ابھی تک اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کیے بیٹھے ہیں انھیں فوری طور پر ایسے معاہدوں اور ایسی ڈیل سے باہر نکلنا ہوگا جو اسرائیل سے تعلقات پر مجبور کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو مسلم دنیا کو تاریکی اور خون آشامی سے نکال سکتا ہے۔
آخر میں اثر جونپوری کے اشعار یاد آگئے جو آپ کی خدمت میں پیش ہیں:
غفلت سے نکل، دین کی دعوت کے لیے اٹھ
اب گنبدخضریٰ کی حفاظت کے لیے اٹھ
ظالم کے شکنجے سے چھڑا اہل وفا کو
مظلوم زمانہ کی حمایت کے لیے اٹھ
جو جسم عرب کے لیے ناسور بنا ہے
اس خطۂ موذی کی جراحت کے لیے اٹھ
دے ارض فلسطین کو نذرانہ لہو کا
صیہونی ریاست کی ملامت کے لیے اٹھ
مسلم امہ تاریخ کے سیاہ ترین دور سے گزر رہی ہے، اس دور کی تاریکی سیاہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوفناک اور خون آشام بھی ہے، اس کی سیاہ بختی اور خون آشامی روئے زمین کے ایک کونے سے شروع اور دوسرے کونے پر اختتام پذیر ہوتی ہے، جگہ جگہ خونِ مسلم بکھرا نظر آتا ہے۔
اس نامبارک و نحس دور کے اثرات نے ہمہ وقت پْرامید مسلمانوں کو نوحہ گروں میں اور نتائج نے مرثیہ خوانوں میں بدل رکھا ہے۔ ہم اس دور سیاہ کا ماتم نجانے کس دور سے منارہے ہیں، نہ ماتم کٹتا ہے اور نہ ہی سختی۔ مسلم امہ مسلسل بھنور اور خون آشامی کی زد میں ہے۔ روئے زمین پر جہاں جہاں مسلمان ہیں وہاں وہاں خون ہی خون ہے، ذلت و ہزیمت، بے آبروئی و بے چارگی، تباہی و بربادی اور آزمائشیں ہی آزمائشیں ہیں۔
پوری مسلم دنیا کے لیے تازہ آزمائش القدس پر صیہونی جارحیت کی شکل میں ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ ماہ رمضان کی آخری مقدس راتوں میں مسجد اقصیٰ میں عبادت میں مصروف فلسطینیوں پر صیہونی فوجیوں اور انتہا پسند یہودیوں نے دھاوا بولا، انھیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، خواتین کی آبروریزی کی، معصوم بچوں کا قتل عام کیا گیا، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی گئی، صیہونیوں کا یہ عمل انتہا درجہ انسانیت سوز اور کھلی دہشت گردی تھا۔ 11 دن تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں فلسطین کے اڑھائی سو سے زائد مسلمانوں کی شہادت ہوئی، جن میں سو سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔
غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، فلسطینیوں کے گھر اور دفاتر میزائل حملوں میں تباہ کردیے گئے، سرکاری و غیر سرکاری املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، میڈیا ہاؤسز پر میزائل داغے گئے، سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والی ویڈیوز میں کثرالمنزلہ عمارتیں لمحوں میں مٹی کا ڈھیر بنتے دیکھیںگئیں اور جن مساجد سے حی علی الفلاح کی صدائیں گونج رہی تھیں انھیں صفحہ ہستی سے مٹتے ہوئے دیکھا۔ اس صیہونی بربریت کے سامنے نہتے فلسطینی بے یارو مددگار تھے، اﷲ سے مدد کے لیے صدائیں بلند کررہے تھے۔
وہ راہ تکتے رہے کہ ستاون اسلامی ممالک ان کی مدد کو آئیں گے، چالیس سے زائد اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج ان کا دفاع کرنے کے لیے آگے بڑھے گی، وہ راہ تکتے رہے، ان کے بدن زخموں سے چور چور تھے، آنکھوں میں برسات کی جھڑی تھی، ہاتھ اﷲ کی رحمت کے طلب گار بن کر پھیلے ہوئے تھے، ان کی مدد کے لیے کوئی اسلامی ملک تو نہیں آیا، چالیس سے زائد اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج بھی خواب خرگوش کے مزے چھوڑنے کو تیار نہ دکھائی دی لیکن اﷲ اپنے مظلوم بندوں کو تنہا کیسے چھوڑ سکتا تھا، اﷲ نے اپنی رحمت کا نزول فرمایا، ایک دم فضا میں روشنیاں نمودار ہوئیں۔
فلسطینیوں کے آزردہ چہرے کھل اٹھے، آنسوؤں سے نمناک آنکھوں میں خوشی کی چمک دکھائی دینے لگی اور ہر جانب فضا اﷲ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی کیونکہ صیہونیوں کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے حماس میدان میں اتر چکی تھی۔ حماس کی جانب سے جنوبی اور وسطی اسرائیل پر چار ہزار تین سو سے زائد چھوٹے میزائل داغے گئے۔ اسرائیل کو جس دفاعی نظام آئرن ڈوم پر بڑا ناز تھا وہ ان حملوں کی تاب نہ لاسکا اور بری طرح ناکارہ ہوگیا۔ ان حملوں نے جہاں اسرائیل کے دفاع کے پرخچے اڑادیے وہاں اسرائیل سمیت دنیا کو حماس کی طاقت کا اندازہ بھی ہوگیا۔ان حملوں کے بعد اسرائیل نے گھٹنے ٹیک دیے اور غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا۔
جنگ بندی کی خبر جیسے ہی فلسطین میں پھیلی ویسے ہی غزہ کے لوگوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔ لوگوں نے خوشی میں اپنی گاڑیوں کے ہارن بجانے شروع کر دیے اور نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل پڑے۔ بلاشبہ یہ عارضی خوشی اور عارضی جشن ہے کیونکہ جب تک عرب سرزمین کے سینے پر اسرائیل نام کا خنجر موجود ہے تب تک ہر جشن اور ہر خوشی عارضی ہے، جنگ ابھی ٹلی ہے ختم نہیں ہوئی۔ ہمیں اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں کہ اسرائیل کا دخل دنیا کے ہر ملک کی حکومت میں نظر آ تا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ غزہ میں کون کون سی تنظیمیں ہیں اور ان کے پاس کیسے کیسے ہتھیار ہیں، ہمیں شائد اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیل کو حماس یا اسلامک جہاد نامی تنظیموں کے بارے میں سرسری سا علم رہا ہوگا۔ ویسے تو ہر ملک اور ہر حکومت اپنے مخالفین کی ایک ایک چیز پر نظر رکھتی ہے اور اسرائیل تو اس میں کچھ زیادہ ہی آگے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی مرضی سے حملے کیے اور اپنی مرضی سے جنگ بندی کی۔ یہ غیر مشروط جنگ بندی صیہونیوں کی چال ہے، وہ اس جنگ بندی کی آڑ میں نئی حکمت عملی کے تحت تیاری میں مصروف ہوگا اور پہلے سے زیادہ طاقتور حملہ کریگا۔
فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ناقابل تردید عالمی حقیقت ہے۔ اسرائیلی 1948 سے ایک ناجائز ریاست کی شکل میں ارض فلسطین پر قابض ہے، اس دوران 1967میں عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف جنگی کارروائی بھی کی، لیکن امریکا اور اس کی اتحادی قوتوں نے اسرائیل کی مکمل مدد کی۔ اس بار بھی جوبائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں پر صیہونی حملوں کو دفاع کے حق کا عنوان دیتے ہوئے جائز قرار دیتی رہی۔ اسے اسرائیل کی اندھا دھند بمباری کے نتیجے میں محض گیارہ دنوں میں بچوں، بزرگوں، خواتین سمیت اڑھائی سو سے زیادہ زندگیاں موت کا نوالہ بنتی دکھائی نہ دیں، زخموں سے چور سیکڑوں افراد نظر نہیں آئے، جنھیں علاج معالجے کی سہولتیں تک میسر نہ تھی۔
غزہ میں کھانے پینے کی اشیائے، ضرورت کی چیزیں، ادویات اور رہائش گاہوں تک کی شدید قلت کا اسے پتا نہی چل سکا۔ اسے اسرائیل کی دہشت گردی دفاع کا حق لگی۔ دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور امریکا اس کا سرپرست ہے اور اس نے ہر فورم پر اس کا دفاع کیا۔ اسی کی مدد اور آشیر باد سے اسرائیل فلسطینیوں کے لیے ان ہی کی سرزمین تنگ کرنے پر تلا ہوا ہے اور جیسا کہ پہلے کہا وہ اس بار پہلے سے زیادہ طاقتور حملے کی تیاری میں مصروف ہے جسے روکنے کے لیے اسلامی دنیا کوآگے بڑھنا ہو گا، وہ اسلامی دنیا جس نے آج تک ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو مایوس کیا۔
اب غفلت کی چادر اتارنا ہوگی، او آئی سی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنا ہوگی۔ تمام اسلامی ممالک کو اقوام متحدہ میں متفقہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی، او آئی سی کی سطح پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کی جدوجہد کرنا ہوگی، دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو ایک مستقل نشست جب تک نہیں ملے گی تب تک دنیا کسی اسلامی ملک کو سنجیدہ نہیں لے گی، اگرسلامتی کونسل میں مستقل نشست نہیں ملتی تو اقوام متحدہ ایسے ادارے سے علیحدگی میں ہی عافیت ہے پھر اس کا حشر لیگ آف نیشن کی طرح ہونے دیا جائے۔
روئے زمین پر 57 مسلم ممالک موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر نعمت سے مالا مال کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی دنیا میں ان کی کوئی یکجا آواز نہیں، ہر ملک اپنے اپنے مفاد کا سوچ رہا ہے، اجتماعی مفاد کی کسی کو کوئی پروا نہیں بلکہ ہر حکمران اپنے اقتدار کا سوچ رہا ہے کہ وہ کیسے مغرب کی سامراجی طاقتوں کا آلہ کار بن کر حکومت کر سکتاہے اور وہ اپنے ہی عوام پر ظلم وستم ڈھانے کے لیے تیار ہے لیکن کفر کی طاقتوں کے سامنے وہ بزدلی کی علامت بناہے۔
مسلم ممالک کے حکمران اپنے ملکوں کے عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کے عوام اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں۔ اگر یہ حکمران مغرب کی غلامی سے باہر نہ نکلے تو ان کے خلاف عوام باہر نکل سکتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے اس وقت پوری اسلامی دنیا میں دھوم مچ گئی تھی، پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں نے جشن منایا تھا ،وہ پاکستان آج امت مسلمہ کے معاملات پر معذرت خواہانہ کردار ادا کررہا ہے۔ اگر مغرب دہشت و بربریت پھیلانے کے لیے چالیس سے زائد ممالک پر مشتمل مشترکہ فوج نیٹو کے عنوان سے کھڑی کرسکتا ہے تو کیا مسلم ممالک مل کر حقیقی اسلامی فوج تیار نہیں کرسکتے؟ یہ مشکل کام نہیں اور پاکستان کو اس مسئلے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
اسلامی فوج تشکیل دینے کے بعد کشمیر و فلسطین جیسے دیرینہ حل طلب مسئلوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہیے۔ پھر دیکھیں اسلامی دنیا کے مسائل کیسے حل ہوتے ہیں۔ اگر اسلامی دنیا نے مشکل فیصلے نہ کیے تو آج فلسطین کی باری ہے کل کسی اور کی باری ہوسکتی ہے۔ جو اسلامی ممالک ابھی تک اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کیے بیٹھے ہیں انھیں فوری طور پر ایسے معاہدوں اور ایسی ڈیل سے باہر نکلنا ہوگا جو اسرائیل سے تعلقات پر مجبور کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو مسلم دنیا کو تاریکی اور خون آشامی سے نکال سکتا ہے۔
آخر میں اثر جونپوری کے اشعار یاد آگئے جو آپ کی خدمت میں پیش ہیں:
غفلت سے نکل، دین کی دعوت کے لیے اٹھ
اب گنبدخضریٰ کی حفاظت کے لیے اٹھ
ظالم کے شکنجے سے چھڑا اہل وفا کو
مظلوم زمانہ کی حمایت کے لیے اٹھ
جو جسم عرب کے لیے ناسور بنا ہے
اس خطۂ موذی کی جراحت کے لیے اٹھ
دے ارض فلسطین کو نذرانہ لہو کا
صیہونی ریاست کی ملامت کے لیے اٹھ