مشرف امریکا اور وڈھے لوگ
پرویز مشرف جب مئی کے انتخابات سے پہلے اچانک پاکستان آ گئے تو میں ان لوگوں میں شامل تھا جو بڑے غیر جذباتی انداز میں۔۔۔
نواز شریف کو ''ہم تمہارے ساتھ ہیں'' کا یقین دلا کر ''قدم بڑھاؤ'' کا مشورہ دینے والے 12 اکتوبر 1999ء کے بعد پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئے تھے۔ ان دنوں ایسا ہی کچھ واقعہ افتخار چوہدری کے ساتھ بھی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ 2007ء سے ان کی ریٹائرمنٹ تک ان کے ''بے شمار'' جاں نثار ہوا کرتے تھے۔
ایسے بے شمار جاں نثاروں کے ہوتے ہوئے بھی چوہدری صاحب کو اپنے اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے بلٹ پروف گاڑی ہائی کورٹ کو ایک درخواست دے کر حاصل کرنا پڑی۔ سپریم کورٹ کی سربراہی سے الگ ہونے کے بعد انھیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی ایک طویل اور تاریخی تحریک کے باوجود ''ریاست ماں کے جیسے'' نہیں ہو سکی۔ ریاست اگر اس ملک کے شہریوں کو ماؤں جیسی شفقت نہ دے پائی تو ساری ذمے داری صرف سیاستدانوں پر نہیں تھونپی جا سکتی۔ چوہدری صاحب نے اس ضمن میں اپنے حصے آنے والا فرض بھی پوری طرح ادا نہیں کیا۔ وہ بھی بالآخر ہماری اشرافیہ کے عمومی رویے کی ایک بھاری بھر کم مثال ہی بنے رہے۔ کڑوی مگر سچی بات یہی ہے کہ پاکستان میں ''ابھی وہ منزل'' نہیں آئی۔ ''وڈھے لوگ'' اپنی جگہ موجود ہیں اور انھیں عام آدمیوں کی سطح پر لانے کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سوال مگر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سوچنے سمجھنے والوں کی اکثریت ایسا کرنے کو تیار ہے بھی یا نہیں۔
ہمالیہ کی چوٹیوں سے بحیرۂ عرب تک پھیلی پانچ دریاؤں اور پھر سندھ کے پانیوں سے پالی یہ سرزمین بڑی تاریخی ہے۔ موہنجودڑو اور ہڑپہ کے زمانے سے تہذیب سے آشنا۔ مگر اس کی خوش حالی نے اس کے لوگوں کو کاہل بنا دیا۔ منگولیا اور وسطی ایشیاکے بیابانوں سے حملہ آوروں کے لشکر اسی کاہلی کا فائدہ اُٹھا کر اسے اپنا محکوم بناتے چلے گئے۔ فکری اور انفرادی آزادی کی رہی سہی خواہش کو انگریزوں نے بہت مکاری سے ایک باقاعدہ اور منصفانہ نظر آنے والے System کے ذریعے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اقبالؔ نے ہماری اس ''خوئے غلامی'' کو خوب پہچانا تھا۔ خودی والے شاہین بنا کر انھیں پہاڑوں کی چٹانوں پر بسانے کے خواب دیکھتے رہے۔ خواب مگر خواب ہوتے ہیں اور لفظ حقیقتوں کا روپ دھارنے میں صدیاں لیتے ہیں۔
پرویز مشرف جب مئی کے انتخابات سے پہلے اچانک پاکستان آ گئے تو میں ان لوگوں میں شامل تھا جو بڑے غیر جذباتی انداز میں یہ سوچتے تھے کہ وہ غلطی کر بیٹھے ہیں۔ نواز شریف صاحب تیسری بار اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے تو میں نے اپنی دانست میں انھیں صیاد کے جال میں آ پھنسا بے بس پرندہ ہی سمجھا۔ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم ہونے کے فوراََ بعد البتہ میری آنکھ کھلنا شروع ہو گئی۔ خوب سمجھ آ گئی کہ اقتدار کے کھیل کو جبلی طور پر سمجھنے والے آصف علی زرداری نے انھیں گارڈ آف آنرز دے کر فارغ کیوں کیا تھا۔ میاں صاحب اس گارڈ آف آنرز کے بارے میں طویل عرصے تک بڑے شاکی رہے۔
انھیں اس بات کا بھی بہت دُکھ رہا کہ باچا خان کا پوتا اور ولی خان کا جانشین ان کے پاس یہ پیغام لایا کہ مشرف کی نومبر 2007ء میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کو ویسیIndemnity دے دی جائے جو اس سے پہلے والی منتخب اسمبلیاں ضیاء الحق اور جنرل مشرف کو آٹھویں اور سترویں ترمیم کے ذریعے فراہم کر چکی تھیں۔ ایسے بہت سارے واقعات جانتے ہوئے مجھے بڑی حیرت ہوئی جب آصف علی زرداری نے 27 دسمبر 2013ء کو گڑھی خدا بخش میں کھڑے ہو کر ''بلّے'' والی بات کر دی۔ مجھے تو بلکہ یہ محسوس ہوا کہ وہ نواز شریف کو ''شیر بن شیر'' والا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس مشورے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اسی کالم میں آپ کو رائے ونڈ میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں بتایا جہاں نواز شریف مشرف کی عزت سے فراغت کا گلہ کرتے رہے اور زرداری انھیں اپنی سندھی ٹوپی دکھا کر اعتراف کرتے رہے کہ ان میں اب مزید لاشیں اٹھانے کی سکت باقی نہیں رہی۔
گزشتہ ہفتے آصف علی زرداری چند روز اسلام آباد میں رہے۔ بظاہر تو وہ عدالت میں پیش ہونے آئے تھے مگر اس شہر میں اپنے قیام کے دوران وہ امریکی سفیر کے گھر گزشتہ جمعہ کی رات کھانے کی دعوت پر بھی گئے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح یہ جان سکوں کہ ان دونوں کے درمیان کیا گفتگو ہوئی۔ آصف علی زرداری مگر اب کسی کو کام کی کوئی بات نہیں بتاتے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کے کسی رہنما سے اس سلسلے میں پوچھ تاچھ کا میں نے تردد ہی نہ کیا۔ چند سفارت کار دوستوں کو زحمت دینا پڑی۔ بالآخر یورپی ملکوں میں سے ایک بڑے ہی تگڑے سفیر کے ذریعے پتہ لگا کہ آصف علی زرداری کو اس کھانے کے دوران پرویز مشرف کے بارے میں ''ہتھ ہولا'' رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ مجھے ہرگز علم نہیں کہ زرداری صاحب نے اس ملاقات کے بعد اپنا رویہ بدلا یا نہیں۔ مگر ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ امریکا کے کچھ طاقتور عناصر اب پرویز مشرف کی مدد کرنے کو کھل کر سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ امریکا میں مقیم ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر کا خط اس حوالے سے پہلی قسط کے طور پر دیکھنا ہو گا۔
اصل سوال مگر یہ ہے کہ 2007ء کے بعد ہمارے ملک میں ایک ''سول سوسائٹی'' ہوا کرتی تھی جس نے عدلیہ بحالی کی تحریک میں بڑا اہم کردار کیا تھا۔ پھر کالے کوٹوں والوں کا ایک لشکر بھی تو ہوا کرتا تھا۔ چیف کی جاں نثاری کے نام پر یہ لشکر پاکستان میں آئین اور قانون کی بحالی کے لیے مرمٹنے کو تیار نظر آیا کرتا تھا۔ مشرف پر غداری کے مقدمے کا قصہ شروع ہوا تو یہ لشکر نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔ اب سڑکوں اور میڈیا پر بلند آوازیں تو ان کی سنائی دی جا رہی ہیں جو ''3 نومبر نہیں 12 اکتوبر 1999ء'' کے نام پر جنرل مشرف کے تحفظ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔