’’او آئی سی‘‘۔۔۔’’فیر کتھے گئی سی‘‘

او آئی سی کی بابت مسلمانوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ یہ مصیبت کے وقت مسلمانوں کے کام آئے گی۔


Muhammad Usman Jami May 30, 2021
او آئی سی کی بابت مسلمانوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ یہ مصیبت کے وقت مسلمانوں کے کام آئے گی۔

ہم نے جب پہلی بار ''او آئی سی'' کا نام سُنا تو سمجھے یہ پنجابی کا کوئی نعرہ ہے، ایک شخص نعرہ لگاتا ہوگا ''او آئی سی'' جواب میں لوگ کہتے ہوں گے ''فیر کتھے گئی سی۔'' ہم یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہے کہ ''او'' آخر ہے کون جو ''آئی سی'' اور ''کہاں آئی سی''،''کیوں آئی سی''،''کب آئی سی۔'' آخر یہ عقدہ کھلا کہ یہ کوئی نعرہ نہیں بلکہ مسلم ممالک کی تنظیم ہے۔

یہ سُننے کے بعد جب ہم نے اس تنظیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا تو سوچا اس کا نام ''او آئی سی'' کے بجائے پنجابی ہی میں ''سانوں کی''،''مٹی پاؤ'' یا ''او کوئی نئیں'' ہونا چاہیے تھا۔ اب جاکر یہ معلوم ہوا کہ بھیا یہ پنجابی کا او آئی سی نہیں انگریزی کا OIC ہے، جو ''آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن'' (Organisation of Islamic Cooperation) کا مخفف ہے۔

یہ جان کر یہ بھی جانا کہ یہ تنظیم مسلمانوں کے مفادات تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔۔۔۔تو ہماری جان میں جان آئی کہ دنیا میں ایک تنظیم ہے جو چُپکے چُپکے سب سے چھپ کے ہم مسلمانوں کے مفادات کے لیے کام کر رہی ہے۔ ہمیں یقین ہیں کہ ہماری طرح آپ بھی اس تنظیم سے لاعلم ہوں گے، افسوس کی بات ہے، ایک تنظیم خاموشی سے آپ مسلمانوں مفادات کے لیے کام کر رہی ہے اور آپ کو اس کی خبر ہی نہیں۔ چلیے ہم آپ کے علم میں اضافہ کیے دیتے ہیں۔

تو صاحب! یہ جو تنظیم ہے یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن یا ''تنظیم تعاون اسلامی'' جیسا کے نام سے ظاہر ہے تعاون کے لیے وجود میں آئی۔ کس سے تعاون کے لیے؟ یہ معاملہ صیغہ راز میں ہے۔ گمان ہے کہ اسے مسلم ممالک کے باہمی تعاون کے لیے قائم کیا گیا۔

ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ محض تعاون کے لیے اتنی بڑی تنظیم بنانے کی کیا ضرورت تھی، اس سے مُراد مالی تعاون ہے تو یہ ایک کمیٹی بناکر یا کمیٹی ڈال کر بھی کیا جاسکتا تھا، بس یہ مسئلہ ہوتا کہ کوئی ریاست مُصر ہوجاتی کہ ''خالہ پہلی کمیٹی میں لوں گی'' یا سعودی عرب کے فرماں روا کا مطالبہ ہوتا،''لڑکے کی شادی ہونے والی ہے، یمن پر حملہ بھی کرنا ہے، خرچہ ہی خرچہ، پہلی کمیٹی مجھے دینا'' دوسری طرف ایران کا اصرار ہوتا،''حوثیوں کو میزائل دینا ہیں، شام میں لڑاکے بھیجنا ہیں، اخراجات ہی اخراجات، پہلی کمیٹی مجھے ہی دو۔'' ایسا ہوتا بھی تو کیا تھا یہ مسئلہ قرعہ اندازی کے ذریعے حل ہوجاتا۔

بہ ہر حال، جو ہونا تھا ہوگیا۔

یوں تو مسلمانوں پر سے بُرا وقت جاتا ہی نہیں لیکن جب یہ زیادہ بُرا ہوکر آتا ہے تو او آئی سی ایک عدد اجلاس ضرور منعقد کرتی ہے۔ اور بھیے یہ اجلاس بلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے، اس کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی عام سی دعوت ہے کہ کہہ دیا ''منگل کو ننھے کی ختنہ ہے، خوشی میں کھانا کھلا ریا ہوں، دیکھیو بھولیو مَتّی جرور آئیو'' یا محلے کی کوئی میٹنگ ہے کہ گھرگھر پرچہ پہنچ گیا،''محلے میں کتوں کی بہتات اور کتوں کے کاٹنے کے واقعات کے پیش نظر رات آٹھ بجے ببن بھائی (وضاحت: نگینہ قیامت کے والد صاحب نہیں انور باؤلے کے اَبا ببن) کے گھر میٹنگ بلائی گئی ہے (دوسری وضاحت: کُتوں کی نہیں اہل محلہ کی) سب اہل محلہ ٹیم پر آجائیں اور نہ آئیں تو کتوں کا کتاپن برداشت کرتے رہیں ہماری بلا سے'' اور اس بلاوے اور پرچے پر لوگ پہنچ گئے۔

اوآئی سی کے اجلاس کے لیے پہلے سوچا جاتا ہے، خوب غور کیا جاتا ہے، پھر باہمی مشورے ہوتے ہیں کہ اجلاس ابھی بلائیں یا اس بھی بُرے وقت کا انتظار کریں؟ بلائیں تو سب کو بلائیں یا فلاں فلاں ریاست کو رہنے دیں کیوں کہ اس کے حکم راں کی پھوپھو کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی تو ہمیں پوچھا تک نہیں تھا۔

پھر جب فیصلہ ہوجاتا ہے کہ اجلاس بلانا ہے تو چائے پانی، خاطرمدارات کی تفصیلات طے کی جاتی ہیں۔ پھر رابطے کیے جاتے ہیں۔ کوئی حکم راں کہتا ہے بھئی فلاں تاریخ کو اجلاس مت رکھنا میں نہیں آپاؤں گا، آپا کی بارات ہے، کوئی جواب دیتا ہے ''ٹھیک ہے آجاؤں گا، مگر کھانے میں کیا ہوگا'' کہیں سے جواب آتا ہے،''پوچھ کر بتائیں گے۔'' بالآخر اوآئی سی کے تمام رکن ممالک اجلاس پر تیار اور آنے پر راضی ہوجاتے ہیں تو کہیں جاکر اجلاس طلب کیا جاتا ہے، اور تنظیم کے رکن ممالک کو کچھ یوں دعوت دی جاتی ہے،''آپ جانتے ہی ہیں کہ موئے اسرائیل نے غزہ پر پھر حملہ کردیا ہے، اب دنیا بھر کے مسلمان پھیل گئے ہیں اور بہت چراند کر رہے ہیں کہ مسلم حکم راں کچھ نہیں کر رہے۔

تو ایسا ہے کہ کہیں مل بیٹھتے ہیں، مذمت وزمت کرلیں گے، بہت دنوں سے ملے بھی نہیں، گپ شب بھی ہوجائے گی۔'' اس دعوت پر اجلاس منعقد ہوتا ہے، جس میں سارے رکن ممالک مل جُل کر جو قرارداد منظور کرتے ہیں اس کے الفاظ کچھ بھی ہوں مفہوم یہ ہوتا ہے:

''یہ اجلاس مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی بہت زور سے مذمت کرتا ہے۔ اگر اسرائیل نے اپنی ظالمانہ کارروائیاں بند نہ کیں نا تو ہم اور زور سے مذمت کریں گے، اور کوسنے دے دے کر اسے پریشان کردیں گے۔ شرافت کی زبان سمجھتا ہی نہیں بدتمیز۔ دیکھو بھائی اسرائیل! غزہ پر اپنے حملے فوری بند کردو، دیکھو بیٹا! تم حملے کرتے کرتے تھک گئے ہوگے، کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑتے لڑتے بیمار ہوجاؤ۔ بہت کھیل لیے، بس اب گھر جاؤ، شاباش، اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔ اور دیکھو! آئندہ حملے دوتین سال بعد کرنا، ہم جلدی جلدی اجلاس نہیں بلاسکتے، بہت وقت اور پیسہ ضائع ہوجاتا ہے یار، کچھ تو خیال کرو۔''

ایسی قراردادوں پر یہ حکم راں سینہ پھلا کر داد بھی وصول کرنا چاہتے ہیں۔

او آئی سی کی بابت مسلمانوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ یہ مصیبت کے وقت مسلمانوں کے کام آئے گی۔ اس غلط فہمی کا سبب تنظیم کے نام میں موجود حرف ''آئی'' ہے۔ چناں چہ کشمیر ہو یا فلسطین، عراق ہو یا افغانستان، چیچنیا ہو یا بوسنیا، شام ہو یا عراق، جب اور جہاں مسلمان مارے جارہے ہوں امت مسلمہ امید باندھ لیتی ہے کہ اوآئی سی بس اب آئی۔

جب وہ نہیں آتی تو شور مچاتے ہیں اور برہم ہوجاتے ہیں کہ دُہائی ہے دُہائی تو کیوں نہ آئی۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ اوآئی سی مشکل وقت میں نہیں آتی، وہ آتی تو ہے لیکن ''جائے وقوعہ'' پر نہیں بلکہ دور دور یعنی پنجاب کے بس کنڈکٹروں کی زبان میں ''باہروں بار'' اجلاس کرکے واپس چلی جاتی ہے۔ اگر وہ اتنا بھی نہ آتی تب بھی اس پر غصہ کرنے کا کوئی جواز نہیں، ہم نے بتایا تو اوآئی سی مسلمانوں کے مسئلے حل کرنے کے لیے نہیں تعاون کے لیے بنی ہے اور جن سے تعاون کے لیے بنی ہے ان سے پورا تعاون کررہی ہے۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں