زباں فہمی پھر وہی دوچشمی ’ھ‘
اگر اردو ھ کو حروف تہجی میں شامل نہ کیا جائے تو ساری بحث اور مرکب آوازوں کی حیثیت ہی یکسر مٹ جاتی ہے۔
LONDON:
زباں فہمی نمبر 99
خاکسار کے کالم زباں فہمی نمبر 75، بر موضوع ''اردو کے حروف تہجی اور دوچشمی 'ھ' کا مسئلہ'' مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین، مؤرخہ 6دسمبر 2020ء کی اشاعت کے بعد بھی انٹرنیٹ اور واٹس ایپ پر مختلف حلقوں (بشمول واٹس ایپ بزم زباں فہمی) میں اس موضوع کی جزئیات زیرِبحث رہیں، لہٰذا یہ بات ناگزیر محسوس ہوئی کہ اس بابت مزید اظہارِخیال کیا جائے۔
ویسے بھی تحقیق اور جستجو کی راہ کبھی مسدود نہیں ہونی چاہیے۔ مذکورکالم کی ابتداء میں خاکسار نے لکھا تھا کہ مقتدرہ قومی زبان (جدید نام: ادارہ برائے فروغ قومی زبان) یا National Language Promotion Department اور اردو لغت بورڈ کے ماہرین نے اپنے خصوصی اجلاسوں اور مراسلت میں یہ طے کیا کہ اردو کے حروف تہجی کی تعداد چوّن[54] ہے .........یعنی: ا، آ، ب، بھ، پ، پھ، ت، تھ، ٹ، ٹھ، ث، ج، جھ، چ، چھ، ح، خ، د، دھ، ڈ، ڈھ، ذ، ر، رھ، ڑ، ڑھ، ز، ژ، س، ش، ص، ض، ط، ظ،ع،غ، ف،ق، ک، کھ، گ، گھ، ل، لھ، م، مھ، ن، نھ، ں، و، ہ، ء، ی اور ے۔ مسلسل مطالعے میں بعض کارآمد نکات ہاتھ آہی جاتے ہیں۔
سو ہمارے مایہ ناز، خورد معاصر حافظ صفوان محمد نے ایک ویب سائٹ (مکالمہ ڈاٹ کام) پر ''دو چشمی ہا (ھ) کا استعمال'' کے موضوع سے جامع اظہارِخیال کرتے ہوئے برملا کہا کہ '' جمل میں'ھ ' کا عدد 5 شمار ہوتا ہے، یعنی ہائے ہوز (ہ) کے برابر، چنانچہ بھ کی قدر 2 جمع 5 برابر 7 ہے، دھ کی قدر 4 جمع 5 برابر 9 ہے، وغیرہ۔ اس لیے بھ، پھ، تھ، ٹھ، وغیرہ حروف تہجی نہیں ہیں بلکہ مخلوط حروف ہیں جو ب، پ، ت، ٹ، وغیرہ کی بھاری آوازوں کی تحریری علامت کے طور پر مخصوص کر دیے گئے ہیں۔
ھ پر حرکت نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنے سے پچھلے حرفِ تہجی کی حرکت کے تابع ہوتی ہے''۔ ان کے اسی مضمون میں خاکسار کے گزشتہ کالم کے کئی دیگر نکات کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔ گزشتہ کالم کی اشاعت کے بعد جب واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں مکالمہ شروع ہوا تو میرے بزرگ معاصرین پروفیسر محمد رئیس علوی، محترم حیات ؔ امروہوی اور محترمہ آمنہ عالم صاحبہ نے میرے مؤقف کی تائید کی ، جبکہ میری (شعبہ تدریس و ادب میں) بزرگ معاصر ڈاکٹر رخسانہ صباؔصاحبہ نے حسبِ سابق سرکاری مؤقف کی موافقت میں اظہارِخیال کیا۔ ممتاز شاعرہ اور بزم سائنسی ادب کی خازن، محترمہ آمنہ عالم نے فرمایا کہ ''ھ ایک حرف ہے اور اس کے ساتھ دوسرے حروف مل کر بہت سی مرکب آوازیں بناتے ہیں۔ اردو حروف تہجی میں ھ ایک حرف کے طور پر شامل رکھنا ہی ہر لحاظ سے دانش مندی ہے۔
اگر اردو ھ کو حروف تہجی میں شامل نہ کیا جائے تو ساری بحث اور مرکب آوازوں کی حیثیت ہی یکسر مٹ جاتی ہے۔ ھ کو حروف میں شامل رکھ کر اسے'ہ' کے بعد اور'ہ' کی آواز ذرا ہَوا زبان سے باہر پھینکنے کے ساتھ نکلنے والا حرف پڑھایا جائے۔ (ہم گھر میں بچوں کو اسی طرح پڑھاتے ہیں)''۔ انھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ بھ، پھ، کھ، وغیرہ کیوں مرکب حروف نہیں؟ اور پھر جواباً ارشاد کیا کہ ''پہلے مرکب کی وضاحت ہوجائے، دو یا دو سے زیادہ اشیاء، کا ایسا ملاپ جس میں اُن کا اپنا وجود ختم ہوکر ایک نیا آمیزہ بن جائے، مرکب کہلاتا ہے، جیسے پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔ اگر یہ الگ ہوجائیں تو دو گیسیں رہ جائیں گی، پانی نہیں'' پھر انھوں نے یہ سوال کیا کہ '' اگر ھ کو حروف میں شا مل ہی نہ رکھا جائے تو مرکب میں اسے کس طرح شامل کیا جا سکتا ہے''۔
مزید برآں انھوں نے اسی نکتے کی وضاحت میں ارشاد کیا کہ ''اب دیکھئیے کیا ھ کے ساتھ، مل کر بننے والی یہ آوازیں، لکھتے وقت مرکب وجود برقرار رکھتی ہیں؟..... دھول، گدھ، ڈھول، آڑھتی، دھم، گاڑھی وغیرہ وغیرہ بے شمار الفاظ ہیں جہاں یہ نام نہاد مرکب حروف، دو لخت ملتے ہیں۔ کیا دو لخت وجود مرکب کہلانے کے قابل ہو سکتا ہے؟.... اس لیے لازم ہے کہ ہم کسی سے نادانستگی میں ہونے والی اس غلطی کو آگے نہ بڑھائیں، جس زبان میں یہ مرکب حرف، مرکب رہتا ہو، انھیں بے شک مبارک ہو، لیکن اردو حروف تہجی پر غیرمنطقی اور غیرضروری اضافے کا بوجھ نہ ڈالا جائے''۔
گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو محترمہ آمنہ عالم نے میری اس نکتہ آرائی کی بھی تائید کی کہ دیگر عالمی زبانوں کے علاوہ انگریزی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آخرش انھوں نے بجا طور پر استفسار کیا کہ ''کیا آئندہ (اگر) ہمارے ملک میں موجود دیگر زبانوں میں رائج الفاظ کی اردو میں شمولیت ہوئی تو ہم، اُن کے نئےPhoneme کے لیے نئے حروف تہجی بنائیں گے؟''۔ فونیم کیا ہے، اس کی وضاحت ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیے، بابا گوگل کے توسط سے:
A phoneme is the smallest unit of sound in a word that makes a difference in its pronunciation, as well as its meaning, from another word. For instance, the /s/ in 'soar' distinguishes it from /r/ in 'roar', as it becomes different from 'soar' in pronunciation as well as meaning.
اگر ہم پاکستان کی دیگر زبانوں میں شامل متعدد Phoneme المعروف مرکب حروف کی مثال لیں، جیسا کہ ماقبل لکھ چکا ہوں، تو معاملہ بہت گمبھیر ہوجاتا ہے۔ ماقبل، مذکور کالم نمبر 75میں لکھ چکا ہوں کہ ہماری علاقائی زبانوں میں سندھی اور سرائیکی میں بعض ایسے حروف شامل ہیں جنھیں اردو میں لکھ کر سمجھانا ہی محال ہے، مثلاً ڑونڑ کی آواز (جیسے جونیجو کو جونڑینجو کہا جاتا ہے)۔ اسی طرح گلگت، بلتستان اور چترال کی علاقائی زبانوں میں بھی یہ عنصر موجود ہے۔ فضلائے لسان اور ماہرین لسانیات میرے اس نکتے کا جواب دیں۔
{خاکسار نے اپنے کالم زباں فہمی نمبر 75میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ یہاں ایک عجیب انکشاف بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مشہور ویب سائٹ وِکی پیڈیا کے اردو رُوپ، وِکی پیڈیاآزاد دائرۃ المعارف میں یہ عبارت چونکانے والی ہے:''حرف 'ۃ' کو عموماً اُردو ابجد کا حصّہ نہیں مانا جاتا، تاہم کئی الفاظ و اِصطلاحات میں اِس کا اِستعمال ضرور ہے، جس کی ایک مثال مرکب لفظ دائرۃالمعارف ہے۔ اور شاید اِسی اِستعمال کی وجہ سے مقتدرہ قومی زبان نے اُردوحروفِ تہجی میں اِس کو شامل کیا ہے۔
اِس کے ساتھ ساتھ کئی مزید حروف کو بھی شاملِ ابجد کیا گیا ہے جس سے اُردو حروفِ تہجی کی تعداد اٹھاون (58) ہوجاتی ہے''۔ قارئین کرام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس ویب سائٹ پر منقول، اضافی حروف یہ ہیں: وھ، یھ.....معلوم نہیں کہ فاضل مرتبین نے چھپن حروف تہجی کہاں دیکھے کہ اُن میں اِن کا اضافہ کرکے تعداد، اٹھاون تک پہنچادی۔ اب یہ نکتہ ایسا ہے کہ ہمارے معاصر ماہرین بشمول ڈاکٹر شاہد ضمیر صاحب اس کی بابت بھی غور فرمائیں اور اس کے رَدّوقبول کا فیصلہ بھی متفق علیہ ہونا چاہیے۔ جب ہم اس بحث میں پڑ تے ہیں کہ تعداد کیا ہونی چاہیے اور کیا نہیں تو یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اس ضمن میں دلائل کیا دیے گئے ہیں اور کیا ان کا رَدّ بھی ممکن ہے یا محض اس لیے قبول کرنا واجب ہے کہ ہمارے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
جس طرح بعض پرانی کتب میں پہلے مفرد حروف تہجی لکھے جاتے تھے، پھر مرکب، اسی طرح ماضی قریب میں منظرعام پر آنے والی، پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب''اردوقواعدوانشاپردازی'' (برائے جماعت اوّل تا پنجم) از محترمہ شگفتہ صغیر ترمذی میں بھی کیا گیا ہے، البتہ انھوں نے بوجوہ حروف کی تعداد کم (یعنی باون) لکھی ہے۔ (یہ عمدہ کتاب آن لائن دستیاب ہے اور ہماری فاضل معاصر، شاعری اور تدریس میں ہماری بزرگ، ڈاکٹر رخسانہ صبا صاحبہ نے دیگر مواد کے ساتھ ساتھ، اس کا ربط[Link] بھی فراہم کیا)}۔ یہاں ایک دل چسپ نکتہ ملاحظہ فرمائیے: مرکب حروف کی فہرست میں ''لھ'' یعنی لام+ھ بھی شامل ہے، مگر اردو میں اس کے استعمال کی کوئی نظیر موجود نہیں، البتہ عربی میں اس کا رواج ہے، جبکہ عربی میں تو دوچشمی ھ سے الفاظ شروع ہونے کا معاملہ بھی یہاں خارج ازبحث ہے۔
انٹرنیٹ کی سیر میں فورم ڈاٹ آکسفرڈ ڈکشنریز ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر جناب شاہد خان کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اُس کا ایک اقتباس محض امتثال امر کے لیے یہاں نقل کررہا ہوں کہ کہیں دوسرے مؤقف کے حامی یہ نہ سمجھیں کہ ہم ایسی تحریریں پڑھتے ہی نہیں:
''باون حروف کے خاندان میں اگر پندرہ کو خاندان کا حصہ ہی نہ مانا جائے تو خاندان کا نظام کیسے چلے گا۔ اس الجھن کا شکار معمولی پڑھے لکھے افراد سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ لسانیات کے ماہرین اور لغات کے مرتبین بھی ہیں۔ لغت کی بعض کتابوں میں بھی ''ہ'' اور ''ھ'' میں کوئی فرق نہیں سمجھا گیا اور ان کو اس طرح مخلوط و مجہول کردیا گیا کہ ایک عام فرد لفظ کے تلفظ، املا یا معنی سمجھنے کے بجائے مزید الجھاؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ''ہ'' اور ''ھ'' میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے ''منہ''، ''منھ''، ''مونہہ'' اور ''مونھ'' ایک ہی لفظ چار مختلف شکلوں میں لکھا جاتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ اسے کسی اور املا سے بھی لکھا جاتا ہو جو راقم کو معلوم نہ ہو۔ لطف کی بات یہ کہ ان املا کو لغت کی کتابوں میں بھی کسی تصریح کے بغیر کبھی ایک طرح سے اور کبھی دوسری طرح سے لکھا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ''ٹ''، ''ڈ'' اور ''ڑ'' مرکب اور مخلوط حروف نہیں یعنی وہ کسی دوسرے حرف کو ''ط'' سے ملا کر نہیں بنائے گئے، اُسی طرح اردو میں ہائے دو چشمی گروہ کے سارے حروف اپنی اپنی حیثیت میں مستقل اور مفرد حروف ہیں۔ ''ہ'' اور ''ھ'' میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے اردو کے قدیم شعرا اپنے شعری دیوان مرتب کرتے وقت ''ھ'' کی ردیفوں مثلاً ''آنکھ، ساتھ، ہاتھ'' وغیرہ کو ردیف ''ہ'' کی ذیل میں ہی لکھا کرتے تھے۔ اس طرح ''ہ'' کی ردیف میں ''یہ، وہ، نقشہ، جگہ'' کے ساتھ ہی ''آنکھ، بیٹھ، ساتھ، ہاتھ'' وغیرہ بھی موجود ہوتے تھے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ ردیفوں کے نام صرف فارسی حروف پر رکھتے تھے اور ''بھ، ٹھ، چھ، کھ'' وغیرہ کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے تھے''۔
انھی کی تحریر سے متصل ایک اور صاحب نے بھی ایک مضمون ایک دوسری ویب سائٹ[https://www.urduweb.org/] کے لیے تحریر کیا اور کہا کہ ''آج کل لفظ 'منہ' کی ایک نئی املا سامنے آ رہی ہے 'منھ' کی شکل میں۔ پہلے تو میں بھی اس کو لفظ 'منہ' کی صحیح اور اصل املا سمجھا اور چند بار اسی املا کو استعمال بھی کیا۔ پھر ایک دن میں نے ان دونوں املاؤں کے تلفظ پر غور کرنا شروع کر دیا اور ان کے تلفظ کو آہستہ آہستہ اور بار بار ادا کرتا رہا جو بالکل ایک جیسا یا ایک ہی لگ رہا تھا۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ دونوں کا تلفظ بالکل ایک جیسا کیوں ہے۔ اسی طرح کرتے کرتے اچانک مجھے ادراک ہوا کہ 'منھ' کا تلفظ وہ نہیں بنتا جو میں ادا کر رہا ہوں بلکہ میں دونوں بار 'منہ' کا تلفظ ہی ادا کر رہا ہوں۔
پھر میں نے 'مُنھ' (میم پیش نھ) کا جو تلفظ ادا کیا تو وہ اس آواز سے بالکل مختلف تھا جو ہم 'منہ' کی ادا کرتے ہیں۔ لفظ 'منہ ' آوازوں کے مندرجہ ذیل سلسلے پر مشتمل ہے:م+غنی پیش+ہ۔ اس کو مُ ں ہ سے ظاہر کر سکتے ہیں ملا کر (اور تمام اعراب کے ساتھ) مُنہْ لکھیں گے۔ خالص صوتیاتی انداز میں (IPA کا سہارا لیتے ہوئے) اسے mu~h لکھا جائے گا (یہاں تلفظ میں معروف غنی پیش ہے اس لیے u~ استعمال کیا گیا ہے مجہول غنی پیش ہوتی تو ~ استعمال ہوتا)۔ اب ہم توجہ مرکوز کرتے ہیں 'مُنْھ' (م+پیش+نھ)کے تلفظ پر۔ اس کا تلفظ 'مُنْ' سے کافی قریب ہے (جبکہ 'منہ' کا تلفظ بالکل مختلف ہے)۔ 'نھ' کی آواز' ن' کی آواز کے قریب ہے بس اس کو ادا کرتے ہوئے منہ سے ہوا کافی مقدار میں نکالی جاتی ہے۔ صوتیاتی انداز میں'مُنھ' (م+پیش+نھ) کو mun لکھا جائے گا۔
پنجابی جاننے والے اس بات کو اس طرح بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں: پنجابی کے دو لفظ ہیں ایک 'گَل' (بمعنی بات) اور دوسرا 'گَلھ' (بمعنی گال، رخسار)۔ جو فرق اور قربت گَل اور گَلھ کے تلفظ میں ہے بالکل وہی فرق اور قربت مُن اور مُنھ کے تلفظ میں ہے۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 'منھ' کس آواز کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح 'مینہ' (بارش) کو بھی غلط طور پر 'مینھ' لکھا جا رہا ہے اور 'بانہہ'(بمعنی بازو) کو اسی غلط فہمی کی وجہ سے 'بانھ'۔ شاید اور بھی اس طرح کے الفاظ ہوں۔ بہرحال ان سب کی املا 'ں ہ' سے کرنی چاہیے نہ کہ 'نھ' سے۔ اوپر کی گئی بحث سے یہ نتیجہ نہ نکالا جائے کہ 'نھ' وغیرہ کا اردو میں کوئی وجود نہیں۔ اِنھیں، اُنھیں، جِنھیں کو اِ+نھیں، اُ+نھیں، جِ+نھیں سے ہی صحیح ظاہر کیا جا سکتا ہے نہ کہ اِن+ہیں، اُن+ہیں، جِن+ہیں (اِنہیں،اُنہیں، جِنہیں) سے''۔ یہ بحث بہرحال مختلف ہے، مگر ہمارا ان سے اتفاق کرنا بھی لازم نہیں۔ ہماری ایک خورد معاصر، ادبِ اطفال کی فعال قلم کار محترمہ راحت عائشہ نے روشنائی ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر ایک دل چسپ مضمون بعنوان '' ہ نے چشمہ پہنا'' لکھا۔ (ویسے چشمہ پہننا غلط ہے، چشمہ لگایا جاتا ہے)۔
اس مضمون میں حروف تہجی، کہانی کے مرکزی کردار سارا سے بات چیت کرتے ہوئے اُسے فہرست مرتب کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ اچھی کاوش ہے اور ہمیں اپنے بچوں کو ایسے مضامین پڑھوانے چاہییں۔ (بات کی بات ہے کہ عربی الاصل لفظ سارا کا مطلب ہے چادر، جبکہ سارہ قدیم سُریانی وعبرانی زبانوں میں بمعنی شہزادی مستعمل تھا۔ یہی وہ نام ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کا تھا)۔
زباں فہمی نمبر 99
خاکسار کے کالم زباں فہمی نمبر 75، بر موضوع ''اردو کے حروف تہجی اور دوچشمی 'ھ' کا مسئلہ'' مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین، مؤرخہ 6دسمبر 2020ء کی اشاعت کے بعد بھی انٹرنیٹ اور واٹس ایپ پر مختلف حلقوں (بشمول واٹس ایپ بزم زباں فہمی) میں اس موضوع کی جزئیات زیرِبحث رہیں، لہٰذا یہ بات ناگزیر محسوس ہوئی کہ اس بابت مزید اظہارِخیال کیا جائے۔
ویسے بھی تحقیق اور جستجو کی راہ کبھی مسدود نہیں ہونی چاہیے۔ مذکورکالم کی ابتداء میں خاکسار نے لکھا تھا کہ مقتدرہ قومی زبان (جدید نام: ادارہ برائے فروغ قومی زبان) یا National Language Promotion Department اور اردو لغت بورڈ کے ماہرین نے اپنے خصوصی اجلاسوں اور مراسلت میں یہ طے کیا کہ اردو کے حروف تہجی کی تعداد چوّن[54] ہے .........یعنی: ا، آ، ب، بھ، پ، پھ، ت، تھ، ٹ، ٹھ، ث، ج، جھ، چ، چھ، ح، خ، د، دھ، ڈ، ڈھ، ذ، ر، رھ، ڑ، ڑھ، ز، ژ، س، ش، ص، ض، ط، ظ،ع،غ، ف،ق، ک، کھ، گ، گھ، ل، لھ، م، مھ، ن، نھ، ں، و، ہ، ء، ی اور ے۔ مسلسل مطالعے میں بعض کارآمد نکات ہاتھ آہی جاتے ہیں۔
سو ہمارے مایہ ناز، خورد معاصر حافظ صفوان محمد نے ایک ویب سائٹ (مکالمہ ڈاٹ کام) پر ''دو چشمی ہا (ھ) کا استعمال'' کے موضوع سے جامع اظہارِخیال کرتے ہوئے برملا کہا کہ '' جمل میں'ھ ' کا عدد 5 شمار ہوتا ہے، یعنی ہائے ہوز (ہ) کے برابر، چنانچہ بھ کی قدر 2 جمع 5 برابر 7 ہے، دھ کی قدر 4 جمع 5 برابر 9 ہے، وغیرہ۔ اس لیے بھ، پھ، تھ، ٹھ، وغیرہ حروف تہجی نہیں ہیں بلکہ مخلوط حروف ہیں جو ب، پ، ت، ٹ، وغیرہ کی بھاری آوازوں کی تحریری علامت کے طور پر مخصوص کر دیے گئے ہیں۔
ھ پر حرکت نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنے سے پچھلے حرفِ تہجی کی حرکت کے تابع ہوتی ہے''۔ ان کے اسی مضمون میں خاکسار کے گزشتہ کالم کے کئی دیگر نکات کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔ گزشتہ کالم کی اشاعت کے بعد جب واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں مکالمہ شروع ہوا تو میرے بزرگ معاصرین پروفیسر محمد رئیس علوی، محترم حیات ؔ امروہوی اور محترمہ آمنہ عالم صاحبہ نے میرے مؤقف کی تائید کی ، جبکہ میری (شعبہ تدریس و ادب میں) بزرگ معاصر ڈاکٹر رخسانہ صباؔصاحبہ نے حسبِ سابق سرکاری مؤقف کی موافقت میں اظہارِخیال کیا۔ ممتاز شاعرہ اور بزم سائنسی ادب کی خازن، محترمہ آمنہ عالم نے فرمایا کہ ''ھ ایک حرف ہے اور اس کے ساتھ دوسرے حروف مل کر بہت سی مرکب آوازیں بناتے ہیں۔ اردو حروف تہجی میں ھ ایک حرف کے طور پر شامل رکھنا ہی ہر لحاظ سے دانش مندی ہے۔
اگر اردو ھ کو حروف تہجی میں شامل نہ کیا جائے تو ساری بحث اور مرکب آوازوں کی حیثیت ہی یکسر مٹ جاتی ہے۔ ھ کو حروف میں شامل رکھ کر اسے'ہ' کے بعد اور'ہ' کی آواز ذرا ہَوا زبان سے باہر پھینکنے کے ساتھ نکلنے والا حرف پڑھایا جائے۔ (ہم گھر میں بچوں کو اسی طرح پڑھاتے ہیں)''۔ انھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ بھ، پھ، کھ، وغیرہ کیوں مرکب حروف نہیں؟ اور پھر جواباً ارشاد کیا کہ ''پہلے مرکب کی وضاحت ہوجائے، دو یا دو سے زیادہ اشیاء، کا ایسا ملاپ جس میں اُن کا اپنا وجود ختم ہوکر ایک نیا آمیزہ بن جائے، مرکب کہلاتا ہے، جیسے پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔ اگر یہ الگ ہوجائیں تو دو گیسیں رہ جائیں گی، پانی نہیں'' پھر انھوں نے یہ سوال کیا کہ '' اگر ھ کو حروف میں شا مل ہی نہ رکھا جائے تو مرکب میں اسے کس طرح شامل کیا جا سکتا ہے''۔
مزید برآں انھوں نے اسی نکتے کی وضاحت میں ارشاد کیا کہ ''اب دیکھئیے کیا ھ کے ساتھ، مل کر بننے والی یہ آوازیں، لکھتے وقت مرکب وجود برقرار رکھتی ہیں؟..... دھول، گدھ، ڈھول، آڑھتی، دھم، گاڑھی وغیرہ وغیرہ بے شمار الفاظ ہیں جہاں یہ نام نہاد مرکب حروف، دو لخت ملتے ہیں۔ کیا دو لخت وجود مرکب کہلانے کے قابل ہو سکتا ہے؟.... اس لیے لازم ہے کہ ہم کسی سے نادانستگی میں ہونے والی اس غلطی کو آگے نہ بڑھائیں، جس زبان میں یہ مرکب حرف، مرکب رہتا ہو، انھیں بے شک مبارک ہو، لیکن اردو حروف تہجی پر غیرمنطقی اور غیرضروری اضافے کا بوجھ نہ ڈالا جائے''۔
گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو محترمہ آمنہ عالم نے میری اس نکتہ آرائی کی بھی تائید کی کہ دیگر عالمی زبانوں کے علاوہ انگریزی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آخرش انھوں نے بجا طور پر استفسار کیا کہ ''کیا آئندہ (اگر) ہمارے ملک میں موجود دیگر زبانوں میں رائج الفاظ کی اردو میں شمولیت ہوئی تو ہم، اُن کے نئےPhoneme کے لیے نئے حروف تہجی بنائیں گے؟''۔ فونیم کیا ہے، اس کی وضاحت ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیے، بابا گوگل کے توسط سے:
A phoneme is the smallest unit of sound in a word that makes a difference in its pronunciation, as well as its meaning, from another word. For instance, the /s/ in 'soar' distinguishes it from /r/ in 'roar', as it becomes different from 'soar' in pronunciation as well as meaning.
اگر ہم پاکستان کی دیگر زبانوں میں شامل متعدد Phoneme المعروف مرکب حروف کی مثال لیں، جیسا کہ ماقبل لکھ چکا ہوں، تو معاملہ بہت گمبھیر ہوجاتا ہے۔ ماقبل، مذکور کالم نمبر 75میں لکھ چکا ہوں کہ ہماری علاقائی زبانوں میں سندھی اور سرائیکی میں بعض ایسے حروف شامل ہیں جنھیں اردو میں لکھ کر سمجھانا ہی محال ہے، مثلاً ڑونڑ کی آواز (جیسے جونیجو کو جونڑینجو کہا جاتا ہے)۔ اسی طرح گلگت، بلتستان اور چترال کی علاقائی زبانوں میں بھی یہ عنصر موجود ہے۔ فضلائے لسان اور ماہرین لسانیات میرے اس نکتے کا جواب دیں۔
{خاکسار نے اپنے کالم زباں فہمی نمبر 75میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ یہاں ایک عجیب انکشاف بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مشہور ویب سائٹ وِکی پیڈیا کے اردو رُوپ، وِکی پیڈیاآزاد دائرۃ المعارف میں یہ عبارت چونکانے والی ہے:''حرف 'ۃ' کو عموماً اُردو ابجد کا حصّہ نہیں مانا جاتا، تاہم کئی الفاظ و اِصطلاحات میں اِس کا اِستعمال ضرور ہے، جس کی ایک مثال مرکب لفظ دائرۃالمعارف ہے۔ اور شاید اِسی اِستعمال کی وجہ سے مقتدرہ قومی زبان نے اُردوحروفِ تہجی میں اِس کو شامل کیا ہے۔
اِس کے ساتھ ساتھ کئی مزید حروف کو بھی شاملِ ابجد کیا گیا ہے جس سے اُردو حروفِ تہجی کی تعداد اٹھاون (58) ہوجاتی ہے''۔ قارئین کرام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس ویب سائٹ پر منقول، اضافی حروف یہ ہیں: وھ، یھ.....معلوم نہیں کہ فاضل مرتبین نے چھپن حروف تہجی کہاں دیکھے کہ اُن میں اِن کا اضافہ کرکے تعداد، اٹھاون تک پہنچادی۔ اب یہ نکتہ ایسا ہے کہ ہمارے معاصر ماہرین بشمول ڈاکٹر شاہد ضمیر صاحب اس کی بابت بھی غور فرمائیں اور اس کے رَدّوقبول کا فیصلہ بھی متفق علیہ ہونا چاہیے۔ جب ہم اس بحث میں پڑ تے ہیں کہ تعداد کیا ہونی چاہیے اور کیا نہیں تو یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اس ضمن میں دلائل کیا دیے گئے ہیں اور کیا ان کا رَدّ بھی ممکن ہے یا محض اس لیے قبول کرنا واجب ہے کہ ہمارے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
جس طرح بعض پرانی کتب میں پہلے مفرد حروف تہجی لکھے جاتے تھے، پھر مرکب، اسی طرح ماضی قریب میں منظرعام پر آنے والی، پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب''اردوقواعدوانشاپردازی'' (برائے جماعت اوّل تا پنجم) از محترمہ شگفتہ صغیر ترمذی میں بھی کیا گیا ہے، البتہ انھوں نے بوجوہ حروف کی تعداد کم (یعنی باون) لکھی ہے۔ (یہ عمدہ کتاب آن لائن دستیاب ہے اور ہماری فاضل معاصر، شاعری اور تدریس میں ہماری بزرگ، ڈاکٹر رخسانہ صبا صاحبہ نے دیگر مواد کے ساتھ ساتھ، اس کا ربط[Link] بھی فراہم کیا)}۔ یہاں ایک دل چسپ نکتہ ملاحظہ فرمائیے: مرکب حروف کی فہرست میں ''لھ'' یعنی لام+ھ بھی شامل ہے، مگر اردو میں اس کے استعمال کی کوئی نظیر موجود نہیں، البتہ عربی میں اس کا رواج ہے، جبکہ عربی میں تو دوچشمی ھ سے الفاظ شروع ہونے کا معاملہ بھی یہاں خارج ازبحث ہے۔
انٹرنیٹ کی سیر میں فورم ڈاٹ آکسفرڈ ڈکشنریز ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر جناب شاہد خان کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اُس کا ایک اقتباس محض امتثال امر کے لیے یہاں نقل کررہا ہوں کہ کہیں دوسرے مؤقف کے حامی یہ نہ سمجھیں کہ ہم ایسی تحریریں پڑھتے ہی نہیں:
''باون حروف کے خاندان میں اگر پندرہ کو خاندان کا حصہ ہی نہ مانا جائے تو خاندان کا نظام کیسے چلے گا۔ اس الجھن کا شکار معمولی پڑھے لکھے افراد سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ لسانیات کے ماہرین اور لغات کے مرتبین بھی ہیں۔ لغت کی بعض کتابوں میں بھی ''ہ'' اور ''ھ'' میں کوئی فرق نہیں سمجھا گیا اور ان کو اس طرح مخلوط و مجہول کردیا گیا کہ ایک عام فرد لفظ کے تلفظ، املا یا معنی سمجھنے کے بجائے مزید الجھاؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ''ہ'' اور ''ھ'' میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے ''منہ''، ''منھ''، ''مونہہ'' اور ''مونھ'' ایک ہی لفظ چار مختلف شکلوں میں لکھا جاتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ اسے کسی اور املا سے بھی لکھا جاتا ہو جو راقم کو معلوم نہ ہو۔ لطف کی بات یہ کہ ان املا کو لغت کی کتابوں میں بھی کسی تصریح کے بغیر کبھی ایک طرح سے اور کبھی دوسری طرح سے لکھا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ''ٹ''، ''ڈ'' اور ''ڑ'' مرکب اور مخلوط حروف نہیں یعنی وہ کسی دوسرے حرف کو ''ط'' سے ملا کر نہیں بنائے گئے، اُسی طرح اردو میں ہائے دو چشمی گروہ کے سارے حروف اپنی اپنی حیثیت میں مستقل اور مفرد حروف ہیں۔ ''ہ'' اور ''ھ'' میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے اردو کے قدیم شعرا اپنے شعری دیوان مرتب کرتے وقت ''ھ'' کی ردیفوں مثلاً ''آنکھ، ساتھ، ہاتھ'' وغیرہ کو ردیف ''ہ'' کی ذیل میں ہی لکھا کرتے تھے۔ اس طرح ''ہ'' کی ردیف میں ''یہ، وہ، نقشہ، جگہ'' کے ساتھ ہی ''آنکھ، بیٹھ، ساتھ، ہاتھ'' وغیرہ بھی موجود ہوتے تھے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ ردیفوں کے نام صرف فارسی حروف پر رکھتے تھے اور ''بھ، ٹھ، چھ، کھ'' وغیرہ کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے تھے''۔
انھی کی تحریر سے متصل ایک اور صاحب نے بھی ایک مضمون ایک دوسری ویب سائٹ[https://www.urduweb.org/] کے لیے تحریر کیا اور کہا کہ ''آج کل لفظ 'منہ' کی ایک نئی املا سامنے آ رہی ہے 'منھ' کی شکل میں۔ پہلے تو میں بھی اس کو لفظ 'منہ' کی صحیح اور اصل املا سمجھا اور چند بار اسی املا کو استعمال بھی کیا۔ پھر ایک دن میں نے ان دونوں املاؤں کے تلفظ پر غور کرنا شروع کر دیا اور ان کے تلفظ کو آہستہ آہستہ اور بار بار ادا کرتا رہا جو بالکل ایک جیسا یا ایک ہی لگ رہا تھا۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ دونوں کا تلفظ بالکل ایک جیسا کیوں ہے۔ اسی طرح کرتے کرتے اچانک مجھے ادراک ہوا کہ 'منھ' کا تلفظ وہ نہیں بنتا جو میں ادا کر رہا ہوں بلکہ میں دونوں بار 'منہ' کا تلفظ ہی ادا کر رہا ہوں۔
پھر میں نے 'مُنھ' (میم پیش نھ) کا جو تلفظ ادا کیا تو وہ اس آواز سے بالکل مختلف تھا جو ہم 'منہ' کی ادا کرتے ہیں۔ لفظ 'منہ ' آوازوں کے مندرجہ ذیل سلسلے پر مشتمل ہے:م+غنی پیش+ہ۔ اس کو مُ ں ہ سے ظاہر کر سکتے ہیں ملا کر (اور تمام اعراب کے ساتھ) مُنہْ لکھیں گے۔ خالص صوتیاتی انداز میں (IPA کا سہارا لیتے ہوئے) اسے mu~h لکھا جائے گا (یہاں تلفظ میں معروف غنی پیش ہے اس لیے u~ استعمال کیا گیا ہے مجہول غنی پیش ہوتی تو ~ استعمال ہوتا)۔ اب ہم توجہ مرکوز کرتے ہیں 'مُنْھ' (م+پیش+نھ)کے تلفظ پر۔ اس کا تلفظ 'مُنْ' سے کافی قریب ہے (جبکہ 'منہ' کا تلفظ بالکل مختلف ہے)۔ 'نھ' کی آواز' ن' کی آواز کے قریب ہے بس اس کو ادا کرتے ہوئے منہ سے ہوا کافی مقدار میں نکالی جاتی ہے۔ صوتیاتی انداز میں'مُنھ' (م+پیش+نھ) کو mun لکھا جائے گا۔
پنجابی جاننے والے اس بات کو اس طرح بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں: پنجابی کے دو لفظ ہیں ایک 'گَل' (بمعنی بات) اور دوسرا 'گَلھ' (بمعنی گال، رخسار)۔ جو فرق اور قربت گَل اور گَلھ کے تلفظ میں ہے بالکل وہی فرق اور قربت مُن اور مُنھ کے تلفظ میں ہے۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 'منھ' کس آواز کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح 'مینہ' (بارش) کو بھی غلط طور پر 'مینھ' لکھا جا رہا ہے اور 'بانہہ'(بمعنی بازو) کو اسی غلط فہمی کی وجہ سے 'بانھ'۔ شاید اور بھی اس طرح کے الفاظ ہوں۔ بہرحال ان سب کی املا 'ں ہ' سے کرنی چاہیے نہ کہ 'نھ' سے۔ اوپر کی گئی بحث سے یہ نتیجہ نہ نکالا جائے کہ 'نھ' وغیرہ کا اردو میں کوئی وجود نہیں۔ اِنھیں، اُنھیں، جِنھیں کو اِ+نھیں، اُ+نھیں، جِ+نھیں سے ہی صحیح ظاہر کیا جا سکتا ہے نہ کہ اِن+ہیں، اُن+ہیں، جِن+ہیں (اِنہیں،اُنہیں، جِنہیں) سے''۔ یہ بحث بہرحال مختلف ہے، مگر ہمارا ان سے اتفاق کرنا بھی لازم نہیں۔ ہماری ایک خورد معاصر، ادبِ اطفال کی فعال قلم کار محترمہ راحت عائشہ نے روشنائی ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر ایک دل چسپ مضمون بعنوان '' ہ نے چشمہ پہنا'' لکھا۔ (ویسے چشمہ پہننا غلط ہے، چشمہ لگایا جاتا ہے)۔
اس مضمون میں حروف تہجی، کہانی کے مرکزی کردار سارا سے بات چیت کرتے ہوئے اُسے فہرست مرتب کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ اچھی کاوش ہے اور ہمیں اپنے بچوں کو ایسے مضامین پڑھوانے چاہییں۔ (بات کی بات ہے کہ عربی الاصل لفظ سارا کا مطلب ہے چادر، جبکہ سارہ قدیم سُریانی وعبرانی زبانوں میں بمعنی شہزادی مستعمل تھا۔ یہی وہ نام ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کا تھا)۔