مورڑو میربحر کی داستانِ شجاعت

کراچی کی تاریخ کے بہادر کردار اور اس کی بہادری وذہانت کا دل چسپ قصہ، جسے فراموش کردیا گیا ہے۔


کراچی کی تاریخ کے بہادر کردار اور اس کی بہادری وذہانت کا دل چسپ قصہ، جسے فراموش کردیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

LONDON: گلبائی کے پُررونق چوک پر سے گزرتے ہوئے آپ نے گیارہ عدد اجاڑ قبریں اور ایک چوبی کھمبے پر درج نوٹ بعنوان ''شش شہید'' بھی ملاحظہ فرمایا ہوگا، جس پر مزید درج ہے کہ:''حضرت مورڑو شاہ، نوٹ حضرت مورڑو شاہ کی تفصیل حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سندھی کتاب ''شاہ جو رسالو'' میں موجود ہے۔''

اسی حوالے سے ایک نجی ٹی وی کی ایک مختصر سی دستاویزی رپورٹ بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہے اور اسی رپورٹ کے حوالے سے '' ایک صحافی کی نجی ویب سائٹ '' پر ایک خبر بھی۔

اس رپورٹ اور خبر کے مطابق،''1051ع میں کراچی ایک بلوچ قبیلے کی بستی تھی، جہاں مورڑو اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا اور جب اس کے بھائی ایک شارک کا شکار ہو گئے، تو مورڑو جو کہ ایک ٹانگ سے معذور بھی تھا، اس نے اس شارک کا شکار کیا اور اپنے بھائیوں کی لاشیں اس کے پیٹ سے برآمد کرکے انہیں موجودہ گلبائی چوک پر دفنا دیا جواس وقت ساحل سمندر تھا۔''

یہ قصہ جزوی طور پر درست ہے لیکن اس میں سب سے اہم غلطی یہ ہے کہ مورڑو، شاہ (سید) نہیں تھے جیسا کہ اس قسم کا دعویٰ آپ مذکورہ بورڈ، رپورٹ اور خبر میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق بلوچوں کا سندھ میں ورود 13ویں صدی عیسوی میں ہوا:

''اسلام کی آمد کے ساتھ ہی 8 ویں صدی عیسوی میں عرب، ایرانی اور ترک الاصل لوگ گروہ در گروہ سندھ پہنچنے لگے: ان سب میں بلوچ سب سے زیادہ تعداد میں تھے، جنہوں نے 13 صدی میں سندھ کی طرف ہجرت کی اور اسے بلوچستان کے بعد اپنا دوسرا وطن بنایا۔''

اگرچہ سیدوں کو سندھ میں ہمیشہ سے وہی احترام حاصل رہا ہے جو کہ ہندوؤں میں برہمنوں کو، اور بلوچ قبائل بھی سندھ کے معتبرین میں سے ہیں، جوکہ سندھ کی سیاست اور اس کی ثقافت کے اہم حصہ ہیں؛ لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ مورڑو نہ تو سید تھے نہ ہی بلوچ، کیوں کہ شاہ جو رسالو جو کہ سندھی کی کوئی عام سی کتاب نہیں بلکہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا منظوم کلام ہے اور اسے سندھ میں الہامی کتب کے بعد کا درجہ دیا جاتا ہے تو اس کلام میں مورڑو کو کہیں بھی سید نہیں پکارا گیا، حالاںکہ شاہ عبداللطیف بھٹائی خود بھی سید ہی تھے، جب کہ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ 1051ع کا ہے تو اس صورت میں بلوچوں کا بھی سندھ میں وردو و وجود نہ تھا۔ یوں سندھ کی معلوم و مرقوم تاریخ کے مطابق مورڑو میر بحر یعنی مچھیرے تھے یا پھر جناب ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ صاحب کے مطابق بہلیم تھے، جو کہ وکیپیڈیا انگریزی کے مطابق ''مسلم راجپوت'' اور ''ترک'' ہیں۔

اسی طرح مذکورہ رپورٹ اور خبر میں کہا گیا ہے کہ، شش شہید شارک کا شکار ہوئے تھے لیکن شاہ جورسالو یا سندھ کی معلوم اور زیادہ مستند تاریخی روایات کے مطابق مورڑو کے بھائی ایک دیوہیکل مگرمچھ کا شکار ہوئے جسے عام طور پر مانگر مچھ یا صرف مچھ کہا جاتا رہا ہے۔ اور یوں بھٹائی کے سر گھاتو اور سندھ کی تاریخ میں مچھ یا مگرمچھ ظالم کا استعارہ بھی ٹھیرا، جو آج وطن عزیز میں ظالم اور بدعنوان انسان کا استعارہ بھی بن چکا ہے۔

اس سلسلے میں ایک اور غلط فہمی کا ازالہ بھی ہوجائے کہ ان قبروں میں مورڑو میربحر کی قبر بھی ہے۔ یہ قبریں صرف ان کے بھائیوں، بہن اور دیگر عزیزوں کی ہیں، جب کہ مورڑو کی قبر مسرور بیس میں ہے جہاں کبھی ان کے مزار پر میلہ بھی لگا کرتا تھا۔

جیسا کہ آصف رضا موریو صاحب ایسوسی ایٹ ایڈیٹر جیول ٹائم نے اپنی ایک تحریر میں نشان دہی کی ہے کہ: مورڑو کا مزار بیس مسرور کے ورانڈے میں ہے۔ وہ اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں کہ:

اب (مورڑو کے مزار کے) مسرور بیس ماڑی پور کے ورانڈے کے اندر موجود ہونے کے باعث عام و خاص تو کیا اوبھایو کی اولاد کو بھی (مورڑو کو قبر پر) دو قل پڑھنے کی اجازت تک نہیں ہے۔ انگریزوں نے جب فوجی بیس تعمیر کیا تھا تو انہوں نے بھی مورڑو نیز ابراہیم شاہ اور سید حیدر شاہ (ابراہیم حیدری) کی مزارات کو عام لوگو ں کی زیارت کے لیے کبھی بند نہیں کیا تھا۔ ابراہیم شاہ اور سید حیدر شاہ کا مزار اس وقت بھی لوگوں کے لیے کھلا ہوا ہے صرف مورڑو کا مزار زیرعتاب ہے۔''

''کراچی شہر کی بنیاد رکھنے والے اس شخص کے مزار کی خبرگیری نہ لوگوں نے کی، نہ ہی محکمۂ ثقافت اور نہ ہی حکومت کے کسی اور ادارے نے۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت سندھ کے اکثر افسران کو یہ علم بھی نہ ہوگا کہ مورڑو کون تھے اور ان کا مزار کہاں ہے تو پھر اس گم نام لیکن بہادر سندھی سورما کی مٹی کا وارث کون اور کیوںکر ہو۔''

ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ کارروائی بلکہ کارستانی کسی ایسے صاحب کی ہے جو کہ مورڑو کے مچھیرے ہونے پر معترض ہیں یا پھر انہیں تاریخ سے شغف نہ ہوتے ہوئے تاریخی شگوفے چھوڑنے کا شوق ہوگا۔ حالاںکہ آبادیوں کی ابتدا آب گاہوں کے پاس سے ہوئی اور مچھیرے ہی گویا تہذیبوں کے نقیب ہوئے۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ قریشی بھی ''قرش'' سے منسوب و ماخوذ ہے جو کہ ایک قسم کی چھوٹی سی شارک مچھلی کا ہی نام ہے۔

علاوہ ازیں اس رپورٹ میں کہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ، چند سال پیشتر کراچی ناردرن بائے پاس اور لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے مورڑو برادران کی اصل قبور کو ڈھا دیا گیا تھا، جن کو کہ 1990ع میں پختہ کیا گیا تھا۔ انہیں اصل مقام سے ہٹا کر کچھ فاصلے پر ڈمی قبور بنائی گئیں تھیں، لیکن فشر فوک فورم کے صدر محمدعلی شاہ اور ان کی ساتھیوں کی جدوجہد کے باعث ان بھائیوں کے آخری آرام گاہوں کی نشان دہی اور بحالی ممکن ہوسکی۔

بہرحال یہ گزارشات کسی تاریخی تحریر کی نہیں بلکہ اسی مورڑے میربحر کے قصے بارے میں ہیں جو اب ہم یہاں پیش کرنے والے ہیں۔



محترم صحافی مختیار آزاد کے ڈان اردو میں مطبوعہ ایک مضمون ''مورڑے سے ماری پور تک'' کے مطابق،''کراچی کا وہ علاقہ جسے آج ہم ماڑی پور کے نام سے جانتے ہیں اس کا قدیم نام مورڑو تھا، جسے برطانوی راج میں موری پور سے بدلا گیا، اور اب یہ علاقہ ماڑی پور کہلاتا ہے۔ ''مورڑو میربحر ایک بہادر شخص اوبھایو کے فرزند تھے۔ اوبھایو کی ذات بہلیم تھی، جو پہلے تو دِلورائے کی نگری میں بستے تھے لیکن بعد میں وہ کلاچی کے ایک ساحلی علاقے میں آ بسے۔ روایات کی مطابق وہاں انہیں دولت اور شہرت دونوں نصیب ہوئے اور یہاں تک کہ اس بستی کا نام ان کی بیوی کے نام پر سون میانی پڑگیا۔''

واضح رہے کہ مورڑو کے مذکورہ چھ بھائی سگے بھی نہیں سوتیلے تھے اور ان کی سگی صرف ایک بہن تھی۔ بہن کا نام سیرھیں تھا جب کہ بھائیوں کے نام پنہیر، انگاریو، مانجھاندو، لَلَو، سانئر اور ہنجھ تھے۔ مورڑو کے یہ چھے بھائی بڑے بہادر تھے۔ ان کا ٹولا میانی میں چھگیر (چھ کی منڈلی) کے نام سے مشہور تھا۔ یہ تمام بھائی شکار کرتے تھے جب کہ مورڑو لنگ کے باعث گھر کی رکھوالی کیا کرتا تھا۔

ساتوں بھائی متاہل تھے۔ مورڑو کی بیوی جب بھی ان کی بھابیوں سے شوہر کا حصہ لینے جاتی تو وہ اسے بے حد مطعون کرتیں، کیوںکہ مورڑو فراخ دل و فراخ دست انسان تھا۔ ایک بار انہوں نے اس سے کہا،''تیرا شوہر کماتا وماتا تو کچھ نہیں لیکن بھائیوں کی کمائی سے لوگوں کو کھلا پلا کر سخی کہلاتا پھرتا ہے۔''

مورڑو کی بیوی نے جواباً کہا،''مورڑو مفت کی روٹیاں نہیں توڑتے، وہ بھائیوں کے پیچھے گھر سنبھالے ہوئے ہیں۔'' اس پر بھابیوں نے مزید استہزا کیا،''لوجی اب لنگڑے بھی گھر سنبھالنے لگے ہیں۔''

اس بے چاری نے آکر شوہر کو دہائی دی،''تیری بھابیاں مجھے تیرے نکمے اور معذور ہونے کی طعن دیتی ہیں۔''

مورڑو نے غصہ سے کہا،''تم ان معاملات میں کیوں پڑتی ہو۔ میں جانوں میرے بھائی جانیں۔''

لیکن ایک دن اس نے اپنے کانوں سے بھابیوں کے طعن سن لیے تو ناراض ہوگیا اور اگلی صبح جال اٹھا کر شکار پر نکل پڑا۔ بہن کو جب پتا چلا تو دوڑ کر دیگر بھائیوں کے پاس پہنچی اور ان کو مطلع کیا کہ،''بھائیو، بھابیاں مورڑو کو طعنے دیتی رہتی ہیں سو وہ آج شکار کو نکل گیا ہے۔'' سوتیلے بھائی مورڑو سے بہت پیار کرتے تھے سو وہ لپک کر اس کے پاس پہنچے اور اسے قسمیں و قرار دے کر واپس لے آئے۔ اگرچہ اس کے بعد کچھ دن بہ عافیت گزرے لیکن آخر ایک دن بھابیوں نے پھر کہیں مورڑو کی سخاوت کی تعریف سنی تو ان سے رہا نہ گیا اور بول پڑیں،''پرائے مال پر سخاوت کرتے اسے شرم تک نہیں آتی؟'' اس طعنے کے بعد مورڑو سخت طیش میں آیا اور بیوی کو ساتھ لے کر بادشاہ وقت دِلورائے کی نگری کی طرف چل پڑا۔ اس بار بھی بھائیوں نے اسے روکنے کی بڑی کوشش کی لیکن اب اس نے ان کی بات مان کر نہ دی۔

دلورائے کی نگری میں مورڑو کرائے کے مکان میں رہنے لگا۔ ایک بار اسے شکار پر جاتا دیکھ کر بادشاہ نے پہچان لیا کہ یہ تو اوبھائے کا بیٹا ہے، کہ جس نے کسی وقت ان کی نگری میں لوگوں کو تنگ کرنے والے ایک خطرناک مگرمچھ کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔ سو اس نے مورڑو کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا اور اس کی اقامت کا بھی بندوبست کردیا۔ مورڑو اس بستی میں اطمینان سے رہتا تھا کہ ایک بار بادشاہ کے علاقے میں کہیں سے ایک شیر آگیا اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے لگا۔ تب بادشاہ نے اعلان کیا کہ،''جوبھی اس شیر کو مارے گا وو اس منہ مانگا انعام دیں گے۔''

لیکن شیر کی ہیبت کے باعث کوئی بھی اس پر آمادہ نہ تھا۔ آخرکار مورڑو نے اس کو ٹھکانے لگانے کی ٹھانی، وہ بادشاہ سے گویا ہوا،''بادشاہ سلامت مال اور دولت کی بندے کے پاس کوئی کمی نہیں۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں لوگوں کے سر سے اس بلا کوٹالنے کی کوشش کروں؟'' بادشاہ معذوری کی باوجود مورڑو کی موروثی شجاعت سے متاثر تھا اس لیے اس نے اسے بخوشی اس کی اجازت دے دی اور خود کچھ فاصلے سے تماشا دیکھنے پہنچ گیا۔

مورڑو شیر کی کچھار پر پہنچا تو شیر ایک انسان کو اپنی طرف آتے دیکھ کر غصہ سے گرج کر اس پر حملہ آور ہوا لیکن مورڑو نے پھرتی سے اپنی ڈھال سامنے دے کر گھنگرو چھنکا کر اوپر کی طرف اچھالے تو شیر حیران پریشان ہوکر گھنکروؤں کی طرف متوجہ ہوا اور مورڑو نے اسی غفلت کا فائدہ اٹھا کر تلوار کے ایک ہی وار سے اس کی گردن اڑادی۔

اس کے بعد مورڑو کا شہرہ ملک کے کونے کونے میں پہنچ گیا۔ بادشاہ نے کہا،''جو چاہو سو مانگ لو۔''مورڑو نے عاجزی سے کہا،''بادشاہ سلامت میرے پاس تو کسی چیز کی کمی نہیں، اگر میرے بھائیوں پر محصول معاف کیا جائے تو نوازش ہوگی۔''

بادشاہ نے فوراً حکم جاری کیا اور محصول معاف کردیا گیا۔

اس کے بعد مورڑو بھائیوں سے ملنے کو گیا اور کچھ دن گزار کر جب واپسی کی اجازت لی تو والد نے اسے روکنا چاہا مورڑو نے انہیں کہا،''بابا بادشاہ سلامت کے ہم پر بڑے احسانات ہیں اور وہ مجھ پر بہت زیادہ اعتماد بھی کرتے ہیں۔ سو مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں ان کی خدمت سے منہ موڑ لوں۔'' یوں باپ کی اجازت سے وہ بادشاہ کے پاس لوٹ آیا۔

دوسری طرف مورڑو کے بھائی جو اب محصول کی معافی اور سمندر میں گھومنے کی آزادی کے باعث پہلے سے زیادہ جری اور پُراعتماد ہو چکے تھے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ کلاچی کے کن (یعنی کلاچی کا بھنور) کے طرف جا کر شکار کریں گے جہاں ایک خطرناک مگر مچھ کے باعث لوگوں نے آناجانا ہی چھوڑ دیا تھا۔

''کلاچی جوکن''ساحل سے چند میل پرے گہرے سمندر میں ایک خوف ناک بھنور تھا جس کو سیکڑوں ایکڑ پر پھیلی ہوئی ساحلی بستیوں کے لوگ کلاچی جو کن کہتے تھے اسبھنور میں بھولی بھٹکی کشتیاں وغیرہ ڈوبتی رہتی تھیں، جب کہ اسی کن کے قریب مانگر مچھ کا بھی ٹھکانا تھا۔

اوبھائے کو جب ان کے ارادوں کا علم ہوا تو انہوں نے بیٹوں کو نصیحت کی،''بچو! وہ مگرمچھ تو پہاڑ سا عفریت ہے اور عافیت اسی میں ہے کہ تم وہاں پھٹکو تک نہیں!''

لیکن بیٹوں نے ان کی بات نہ مانی تو والد نے مورڑو سے شکایت کی۔ اس نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا کہ،''ابا کی بات مانیں وہ ٹھیک کہتے ہیں۔''

اس کے بعد بھائیوں نے بظاہر اپنا ارادہ تبدیل کردیا لیکن ایک دن موقع دیکھ کر وہ چند باہمت ملاحوں کے ساتھ کلاچی جو کن کی طرف روانہ ہوئے۔ بعد ازاں دیگر ساتھی تو بہت سا شکار کر کے لوٹ گئے لیکن ان کا جال مگرمچھ کے پنجے میں آگیا۔ یہ سمجھے کہ جال پانی میں کہیں اٹک گیا ہے اور تمام بھائیوں نے بہت زور لگایا لیکن مگرمچھ جال کو یوں پکڑے تھا کہ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

آخر بڑے بھائی نے کہا،''بھائیو! میں پانی میں جاکر جال چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اگر واپس نہ آسکا تو تم لوگ میری اور جال کی فکر چھوڑ گھر لوٹ جانا۔''

بھائیوں نے اس کی بات مان لی اور وہ پانی میں اتر گیا۔ بہت دیر کے بعد بھی جب وہ نہ لوٹا تو باقی بھائی بھی ایک دوسرے کو واپس جانے کی تاکید کرتے یکے بعد دیگرے پانی میں اترے اور مگرمچھ نما عفریت کا لقمہ بنتے گئے۔ پھر کوئی بھی زندہ کنارے پر نہیں لوٹا۔

تمام شکاریوں کے لوٹنے کے بعد بھی جب مورڑو کے بھائی نہیں لوٹے تو اوبھایوپریشان ہو گیا۔ اس نے لوگوں سے پتا کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے بیٹے تو کلاچی جو کن میں شکار کو گئے ہوئے ہیں۔

صبح کو سب ان کی تلاش میں نکلے اور کن کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ بھائیوں کا تو نام نشان تک نہیں۔ سمجھ گئے کہ تمام بھائی مگرمچھ کا لقمہ بن گئے ہیں۔ اوبھایو روتا پیٹتا لوٹا۔ اور مورڑو کو پیغام بھیجا۔ مورڑو تمام مصروفیات ترک کر بادشاہ سے اجازت لے کر گھر آیا اور قصد کیا کہ مچھ سے بھائیوں کا بدلہ لے کر رہے گا۔ باپ نے دہائی دی کہ،''بیٹا اب ہمارا سہارا تو تم ہی ہو۔ تمہارے بنا ہم کیسے جییں گے؟''

مورڑو نے جواب دیا،''بابا! خدا پر بھروسا رکھ کر مجھے اجازت دیں کہ میں یہ کام کرسکوں۔ اور میں یہ مقابلہ جذباتی ہو کر نہیں بلکہ عقل ودانش سے کروں گا۔'' پھر اس نے والد اور دیگر کو اپنا منصوبہ بتایا تو سب متفق و مدد کے لیے آمادہ ہوگئے۔

مورڑو نے ایک آہنی پنجرہ تیار کرایا جس کے باہر کی طرف آہنی کنڈے اور بڑی بڑی نوک دار کیلیں لگائی ہوئی تھیں۔ ہر کنڈے میں ریشمی رسے بندھے ہوئے تھے جو کہ کتنی ہی بیل گاڑیوں کے جووں (یوک) سے بندھے ہوئے تھے۔ اس اہتمام کے ساتھ وہ سب کلاچی جو کن پر پہنچے اور وہاں پہنچ کر مورڑے نے پنجرے میں بیٹھ کر دوستوں سے کہا،''اس پنجرے کو پانی میں پھینکو اور جب میں رسوں کو ہلاؤں تو اسے کھینچ کر باہر نکال لینا۔''

اس پنجرے کو بہ حفاظت پانی میں اتارا گیا۔ مگرمچھ بھی اپنا بھاڑ سا منہ پھاڑے تیار بیٹھا تھا اس نے مورڑو سمیت پنجرے کو نگلنے کی کوشش کی تو پنجرے میں ابھرے کنڈے اور کیلیں اس کے جبڑوں میں گڑگئیں۔ یوں وہ کسی مچھلی کی طرح پھنس گیا۔ اب مورڑو نے رسے ہلائے تو ساحل پر موجود دوستوں نے بیل گاڑیوں میں جتے ہوئے بیلوں کی پشت پر رکھی تیل میں بھیگی دھجیوں کو آگ دکھا دی۔

آگ کی تپش کے باعث گھبرا کر بیل پوری قوت سے ایک طرف کو بھاگے اور اس طرح آہنی پنجرہ مگرمچھ سمیت ساحل پر کھینچ لایا گیا۔ اب بیلوں کو آزاد کردیا گیا اور مورڑو کو بھی صحیح سلامت پنجرے سے نکال لیا گیا۔ اس کے بعد مشتعل لوگوں نے جس کے ہاتھ جو ہاتھ آیا اسی سے مگرمچھ پر حملہ کردیا۔ یہاں تک کے اس کی جان لے لی۔ آخرکار مگرمچھ کا پیٹ چاک کرکے اس میں سے بھائیوں کی مسخ شدہ لاشوں کو نکالا گیا اور اس جگہ دفنایا گیا جہاں یہ آج موجود ہیں۔

دلورائے بادشاہ نے مورڑو کے اس کارنامے پر خوش ہوکر سون میانی اس کے خاندان کو بہ طور جاگیر عطا کردیا۔

یوں مگرمچھ کا قصہ تو تمام ہوا لیکن افسوس یہ ہے کہ موہن جو دڑو کی طرح ہی مورڑو برادران کی قبور کو حکومتوں اور حکام نے نظرانداز کر چھوڑ دیا ہے، جب کہ یہ قبور اور اس وابستہ تاریخی داستان شجاعت اس کے متقاضی ہیں کہ یہ مرجع خلائق نہ ہوکر بھی مرجع سیاحت ضرور ہونی چاہییں۔ ہمارے خیال میں لاشوں پر سیاست کرنے سے کہیں بہتر ہے شہیدوں پر سیاحت کا اہتمام کیا جائے۔ خاص طور اس وقت جب کہ ماڑی پور ہاکس بے روڈ کی تعمیر ہو رہی ہے تو لگے ہاتھوں وفاق اور صوبے کی متعلقہ وزارتیں، محکمے اور ادارے مورڑو کے مزار اور مورڑو برادران کی قبور کی سابق حیثیت بحال کر انہیں سیاحتی مرکز کی حیثیت دلا کر ملک کی شہرت اور زرمبادلہ میں اضافہ کا ذریعہ بنائیں۔

ماخذ:
الف) شاہ جو رسالو _ہوتچند مولچند گربخشانی۔
ب) مورڑو ائیں مانگر مچھ، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، سندھی ادبی بورڈ.
ج) مضمون: مورڑے سے ماری پور تک: مختیار آزاد ڈان اردو۔
ہ) '' javedch.com
و) https://www.britannica.com/place
/Sindh-province-Pakistan
ز) https://en.wikipedia.org/wiki/Behlim
ح)سندھ جی سامونڈی تاریخ جو سرتاج ، مضمون از آصف رضاموریو https://www.facebook.com
/asif.r.morio/posts/4204547469557796

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں