آقا اور غلام
انسانی اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ بچوں کو روزگار پر لگایا جائے، مگر ہماری معاشی حقیقتیں بہت ظالم ہیں۔
''یہ بس ایک حادثہ تھا۔ اس نے تین مرتبہ میرے پیسے چرائے تھے۔'' وہ بڑے آرام سے چائے کی چسکیاں لیتے اور بسکٹ کھاتے ہوئے بہت سکون سے اپنے فعل کا جواز پیش کر رہی تھی۔ کسی بے ضرر یا عام سے فعل کا نہیں، ایک قتل کا، وہ بھی ایک دس سالہ معصوم بچی کے قتل کا۔ ٹھیک ہی تو ہے، کیسی شرمندگی، کہاں کی ندامت، کیسا خوف اور کیوں ہو دکھ، تشدد کے باعث جان سے جانے والی ایک غریب گھر کی لڑکی تھی، وہ بھی ملازمہ، انسان تھوڑی تھی، غصہ آیا، لوہے کا پائپ اٹھایا اور پیٹنا شروع کردیا، قصور تو اس کا ہے نا، وہ کیوں تھی اتنی نازک کہ مار نہ سہہ سکی اور مرگئی۔
لاہور میں مالکن کے تشدد کے باعث ہلاک ہوجانے والی دس سالہ گھریلو ملازمہ کی ہلاکت سے متعلق تفصیلی خبر میں خاتون رپورٹر نے اس لڑکی کی جان لینے والی مالکن کی بے اعتنائی اور پرسکون کیفیت کو بڑی حیرت سے بیان کیا ہے۔ ایک بچی کی جان لے کر بھی پوری طرح مطمئن یہ عورت جو ماں کے درجے پر بھی فائز ہے ہمارے اس طبقے کی عکاسی کر رہی ہے جس کے دل و دماغ میں آقا اور غلام کا سیاہ تصور اب تک اپنی پوری کالک کے ساتھ مسلط ہے اور یہ طبقہ ہم پر اپنا تسلط جمائے ہوئے ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک انسان نامی کوئی مخلوق دنیا میں موجود نہیں، بس اشراف ہیں یا اجلاف۔ وہ افراد جو ان کے غلیظ معیار کے مطابق کم ذات ہیں ان پر ہر ظلم ڈھانا، تشدد کرنا یہاں تک کہ جان بھی لے لینا یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کسی غریب بچے پر باغ سے پھل توڑنے پر کتے چھوڑ دینے، کسی کسان کی بیٹی کو بے آبرو کردینے اور ہاریوں کو نجی جیلوں میں بند رکھنے سے متعلق خبریں میڈیا پر نشر اور شایع ہوتی رہتی ہیں۔ یہ سب اسی آقا اور غلام کی سوچ کا شاخسانہ ہے۔ خود کو آقا سمجھنے والے جانتے ہیں کہ اثر و رسوخ اور دولت کے انبار قانون کے سامنے ان کی ڈھال بنے رہیں گے، سو ان کی جاگیردارانہ اور شاہانہ سوچ کو کوئی خوف نہیں ہوتا۔
گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں ننھے منے ہاتھوں سے برتن اور کپڑے دھونے اور جھاڑو دینے پر مجبور کردی جانے والی گڑیا ارم رمضان جس گاؤں سے تعلق رکھتی تھی اس کا نام ہے ''جند رکھا'' اس پنجابی نام کا مطلب ہوا، وہ جگہ جہاں زندگی محفوظ ہے۔ افلاس کے عذاب نے اس سے اپنا گاؤں چھڑوا دیا۔ اسے گھریلو ملازمہ کے طور پر لاہور بھیج دیا گیا، جہاں وہ متوسط طبقے کے ایک خاندان میں کھانا پکا کر روزی کمانے لگی۔ یوں شرارتوں اور معصوم فرمائشوں کی عمر غربت کی بھینٹ چڑھ کر روزگار کی مشقتوں کی نذر ہونے لگی۔
مالکن کے مطابق ارم کا ''سنگین جرم'' یہ تھا کہ اس نے پیسے چرائے تھے، چلیے مان لیا، یہی کام اپنا بچہ کرتا تو اسے غلطی جان کر اور مان کر ڈانٹ دیا جاتا، سمجھا دیا جاتا یا زیادہ سے زیادہ ایک تھپڑ لگادیا جاتا، مگر وہ بچی تھوڑی تھی، وہ تو ملازمہ تھی، اسے اس جرم کی پوری سزا دی گئی۔ غصے سے بھری مالکن نے لوہے کے پائپ سے اسے مارنا شروع کیا اور مارتی ہی چلی گئی۔ اس کا سولہ سالہ بیٹا وہیں کھڑا ماں کی ''تادیبی کارروائی'' دیکھتا رہا۔ بچے کی تربیت کے لیے یہ ضروری تھا، اسی طرح تو معاشرے کو بے رحم اور ذرا سی طاقت پاکر فرعون بن جانے والے افراد ملیں گے۔
ارم کی تصویر میں اس کی دمکتی آنکھیں بتاتی ہیں کہ اسے زندگی سے کتنی محبت تھی۔ اب یہ آنکھیں اپنی دمک اور جینے کی لگن سمیت ہمیشہ کے لیے بند ہوچکی ہیں۔ ارم کے ساتھ ہونے والا سفاکانہ سلوک ہمارے ملک میں گھریلو ملازمین خا ص طور پر کم سن گھریلو ملازمین کی زندگیوں کی کہانی سامنے لاتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے کے لیے بچوں کو اس لیے ترجیح دی جاتی ہے کہ انھیں بڑوں کے مقابلے میں بہت کم تنخواہ دینا پڑتی ہے۔ میرے ایک واقف نے مجھے بڑے دکھ کے ساتھ بتایا تھا کہ اندرون سندھ کے سفر کے دوران وہ جس گھر میں مہمان ہوئے تھے، وہاں کام کرنے والا آٹھ دس سال کا بچہ پورا دن اس گھر میں خدمات انجام دیتا تھا اور اس کی تنخواہ تھی فقط تین سو روپے ماہانہ۔ کوئی ہے جو اس ظلم پر توجہ دے؟
انسانی اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ بچوں کو روزگار پر لگایا جائے، مگر ہماری معاشی حقیقتیں بہت ظالم ہیں۔ غربت کی دلدل میں پھنسے گھرانوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کسی ہوٹل یا گیراج میں بطور ''چھوٹا'' لگا دیں یا انھیں حصول روزگار کے لیے کھردری زندگی کے حوالے کردیں۔ صنعتوں سے دکانوں اور گھروں تک اس مجبوری کا خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ہماری معاشی صورت حال اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ بچوں کے کام کرنے پر پابندی لگادی جائے، لیکن ان کے تحفظ اور ان کی زندگی سنوارنے کا اہتمام تو کیا جاسکتا ہے اور یہ فریضہ حکومت اور معاشرہ دونوں انجام دے سکتے ہیں اور انھیں دینا چاہیے۔ کاش لوہے کے پائپ کی ضربیں کھاتی ارم کی چیخیں منتخب ایوانوں اور صاحب ثروت افراد کے کانوں تک پہنچیں۔
ریاست معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کی ذمے دار ہوتی ہے، تو گھریلو ملازمین کے حقوق سے بے اعتنائی کیوں؟ ضرورت ہے کہ گھریلو ملازمین کے حقوق کے لیے قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ خاص طور پر گھروں میں ملازمت کرنے والے بچوں کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ ان کے لیے اوقات کار کا تعین کیا جائے۔ مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ کم سن ملازمین سے کوئی بھاری کام نہیں لیں گے اور ان پر ان کی عمر کے حساب سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ ان بچوں کے لیے تعلیم کا خصوصی اہتمام کرنا بھی حکومت کا فرض ہے۔ ان کے لیے سرکاری اسکولوں میں شام کی کلاسیں شروع کی جاسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ نجی اسکولوں کو پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ شام کے اوقات میں ان بچوں کے لیے خصوصی تعلیم کا اہتمام کریں۔ سرکاری اور نجی اسکولوں کی ان خصوصی کلاسوں میں تیکنیکی تعلیم بھی دی جائے۔ یہی راستہ ان بچوں کی زندگی سنوار سکتا ہے۔
ارم کی مالکن جیسے افراد کو گھریلو ملازمین کے بارے میں اپنی سوچ بدلنا چاہیے، یہ غلام نہیں آپ کے کاموں میں آپ کے مددگار ہیں۔ یہ ان بچوں اور ان کے والدین کا ہم پر احسان ہے کہ بھوک سے مجبور ہوکر انھوں نے جرم کو سہارا نہیں بنایا، محنت کو پیٹ بھرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ انھیں مجبور نہ کیجیے کہ وہ محنت میں عظمت کے بجائے ذلت کا سامنا کرکے جرم اور دہشت کی تاریک راہوں کے مسافر بن جائیں۔