گڈانی شپ بریکنگ اور کیمیکل بھرا بحری جہاز

انٹر پول کے خبردار کرنے کے باوجود انتہائی خطرناک مرکری ملے تیل سے بھرا بحری جہاز گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پہنچ گیا ہے۔

انٹر پول کے خبردار کرنے کے باوجود انتہائی خطرناک مرکری ملے تیل سے بھرا بحری جہاز گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پہنچ گیا ہے۔ فوٹو : فائل

NEW DELHI/MUMBAI:
ایک اطلاع کے مطابق انٹر پول کے خبردار کرنے کے باوجود انتہائی خطرناک مرکری ملے تیل سے بھرا بحری جہاز گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پہنچ گیا ہے، جہاز کی آمد بیروزگار مزدوروں کے لیے ایک نوید تھی مگر شپ بریکنگ کے قوانین کی سخت خلاف ورزی نے معاملہ کو سنگین بنا دیا ہے، میڈیا کی اطلاع کے مطابق جہاز پر 1500ٹن تیل موجود ہے۔

ناکارہ جہاز توڑے جانے کے لیے 30 اپریل کو گڈانی آیا، جسے بنگلا دیش اور بھارت نے منع کر دیا تھا جب کہ 22 اپریل کو پاکستان انٹرپول اور ایف آئی اے نے ناکارہ بحری جہاز کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کا کہا تھا، بحری جہاز ٹوٹنے کے لیے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ہے۔

بعدازاں تحفظ محکمہ ماحولیات بلوچستان نے نیوز وائرل ہونے کے بعد پلاٹ سیل کر دیا، قبل ازیں ممبئی میں جہاز ''اوراڈینٹ''کا نام ''چیرش '' رکھ دیا گیا تھا، محکمہ تحفظ ماحولیات بلوچستان نے جانچ پڑتال کے بغیر ہی ناکارہ بحری جہاز کو توڑنے کی اجازت دے دی تھی۔


گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ جہاز کو توڑنے کے عمل میں مزدور مختلف قسم کے عوارض کا شکار بھی ہوئے ہیں، مزدور بیروزگاری اور غربت کے باعث اس خطرناک کام کو انجام دینے پر مجبور ہیں، اہم سوال جہاز کا بنگلا دیش اور بھارت سے کراچی تک پہنچنا ہے، ایک کیمیکل بھرا جہاز کس طرح حکام کی نظروں سے بچ کر گڈانی بیچ تک پہنچا اور کیسے جہاز کی مکمل تلاشی اور تحقیقات کے بغیر اسے توڑنے کے لیے مزدوروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا، یہ غیر قانونی اقدام کیسے کیا گیا۔

متعلقہ حکام اس پورے معاملہ کی تحقیقات کریں، ذمے داروں کے خلاف کارروائی کریں اور رپورٹ وزیر اعلیٰ کو ارسال کی جائے۔ یہ انسانی جان، ماحولیات اور سمندری آلودگی کا سنگین مسئلہ ہے۔ صوبائی حکومت جہاز توڑنے والے مزدوروں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کو بھی یقینی بنائے۔

اس سے قبل بھی شپ بریکنگ یارڈ پر آتشزدگی کے سنگین واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، ضروری ہے کہ شپ بریکنگ قوانین کو محنت کشوں کی زندگی سے ہم آہنگ کرنے میں بھی کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ شپ بریکنگ سے سیکڑوں مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے۔
Load Next Story