روشنی سے ڈرتے ہو
ایک عرصے سے لگتا یوں ہے کہ ’حرف گیری‘ اب لکھنے والوں کی قلبی راحت کا سامان ہو تو ہو، باقی سماج میں اس کی اثر پذیری۔۔۔
شیخ ایاز نے کہا تھا حرف اس خنجر کی مانند ہے، جو جابر کے سینے میں جا اترتا ہے، یہ ہرآمر کی آنکھ میں کھٹکنے والا کانٹا ہے، اسی لیے دنیا کے سبھی جابر و آمر حرف ایجاد کرنے اور تحریر کرنے والوں سے ڈرتے ہیں۔ اس عہد بے توقیری میں لیکن جس طرح ہم نے ہر پروقار چیز کو بے وقار ہوتے دیکھا، حرف کی حرمت کو لٹتے بھی دیکھا، بکتے بھی دیکھا۔
ایک عرصے سے لگتا یوں ہے کہ 'حرف گیری' اب لکھنے والوں کی قلبی راحت کا سامان ہو تو ہو، باقی سماج میں اس کی اثر پذیری تو گویا اب خواب ہوئی۔ جابروں کے سینے میں خنجر بن کے اترنے اور آمروں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والے نہ الفاظ رہے، نہ ان کے تحریر کرنے والے۔ الفاظ کی بے حرمتی کا یہ عالم ہوا کہ اب تو خون دل سے لکھے گئے حرف بھی کہیں قابل مطالعہ نہ رہے۔ بھئی جب لکھنے والے قلم کان میں رکھے سرکار دربار میں قصیدہ خوانی پہ مامور ہوں تو حرف بھلا اثرانگیز ہوں بھی توکیوں کر۔ ہم نے حرف کی بے توقیری کی تو الفاظ نے احتجاجاً اپنے معنی و مفہوم ہی بدل دیے۔ سبھی متبرک و پاکیزہ الفاظ کے حقیقی معنی، اب چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈیے تو بھی نہ ملیں۔
بھلا ہو لیکن بلوچستان میں امن و امان قائم کرنے کے نام پر مامور امن و امان کو تہہ تیغ کرنے والے ریاستی اداروں کا جنہوں نے تربت کالج میں چھاپہ مار کر 'خطرناک الفاظ' سے بھری کتابیں برآمد کر کے ہمارے متزلزل ایمان کو سہارا بخشا اور ایک عرصے بعد ہمیں یقین آیا کہ جابروں کے سینے میں خنجر بن بن کے اترنے اور آمروں کی آنکھ میں کانٹا بن کے کھٹکنے والے الفاظ ابھی زندہ ہیں، ان کی تاثیر ابھی باقی ہے۔ وگرنہ روز ردی کے حساب سے بے فیض تحریریں لکھنے والے ہم ایسے بے ہنر اپنے اس یکتا ہنر سے متعلق سماج کے طنز و تشنیع اور تحقیر آمیز رویے سے کب کے بے زار آئے ہوئے تھے۔
اپنے الفاظ کو مسلسل بے اثر دیکھ کر مخالفین کے 'لکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بھلا تحریروں سے آج تک کوئی سماج بدلا ہے؟ اتنے لوگ اتنا کچھ لکھ رہے ہیں، آج تک کیا فرق پڑا ہے؟' ... جیسے اور دیگر الزامات بلاجوا ز نہ لگتے تھے۔ قلم و حرف آشنائی دینے والے اساتذہ کی دلیلیں کہ 'پانی بھی پتھر پہ مسلسل برستا رہے تو اس میں دراڑ ڈال دیتا ہے' اور 'قلم تلوار سے تیز ہے' جیسی روایتی باتیں روکھی پھیکی لگنے لگی تھیں۔ سچ پوچھیے تو عطا شاد ڈگری کالج کے ہاسٹل میں طلبہ کے کمروں میں چھاپے کے دوران 'خطرناک کتابوں' کی برآمدگی نے ہم ایسے 'قلم مزدوروں' کے حوصلے بڑھا دیے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ حرف اثر رکھتے ہیں، الفاظ آج بھی خنجر بن کے کسی کے سینے میں اترنے کی قوت رکھتے ہیں، کتابیں آج بھی 'ملک توڑنے' کی صلاحیت رکھتی ہیں!
اب اس بات کو رہنے دیں کہ جو 'خطرناک مواد' برآمد کیا گیا ہے، اس میں سے نوے فیصد وہ کتابیں ہیں جو پاکستان میں کسی بھی صاحب ذوق کے نجی کتب خانے سے لے کر پاکستان کی ہر پبلک و گورنمنٹ لائبریری میں موجود ہیں، ہر بک شاپ پہ سرعام بک رہی ہیں۔ باقی دس فیصد دراصل وہ 'خطرناک مواد' ہے جس کے پڑھنے سے بچے باغی ہوسکتے ہیں، ملک دشمن بن سکتے ہیں، ملک توڑنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہوگا، جس کو یہ خدشہ ہے کہ خطرناک مواد کی حامل چند کتابیں اسے توڑ سکتی ہیں۔
ابھی کچھ برس ادھر، اپنے ظریفانہ انداز کے لیے مشہور نواب رئیسانی کی حکومت نے اپنے قیام کے ابتدائی ایام میں ہی ڈاکٹر نصیر دشتی کی مرتب کردہ دو انگریزی کتابوں پر یہ کہہ کر پابندی عائد کردی کہ ان میں ایسا ملک دشمن مواد پایا جاتا ہے جس سے انتشار اور فساد پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اس میں دلچسپ امر یہ کہ ان کتابوں میں شامل انگریزی مضامین جن اردو کتابوں سے ترجمہ کیے گئے، وہ مارکیٹ میں موجود رہیں اور بکتی رہیں، انھیں کسی نے نہ پوچھا۔ اس سے کہیں زیادہ سخت مواد کی حامل دیگر کتب چھپتی اور بکتی رہیں، ان پہ سرکار کی 'نظر کرم' نہ پڑی۔
ڈاکٹر نصیر دشتی نے ان دنوں نوجوان صحافی ملک سراج اکبر کواس بابت دیے گئے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں مسکراتے ہوئے خوب کہا کہ 'جس ملک کو دو کتابوں سے ٹوٹنے کا خطرہ ہو، اسے دنیا کی کوئی طاقت متحد نہیں رکھ سکتی۔' یہ خوب صورت بات بھی اسی صحافی دوست نے حال ہی میں اپنے تازہ بلاگ میں لکھی کہ نوجوان اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کس قسم کی کتابیں پڑھنی چاہئیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ ایسی کتابیں پڑھنے کی کوشش کرو، جن پہ کسی نہ کسی عہد میں پابندی لگائی گئی ہو، کیونکہ یقیناً ان میں یا ایسی باتیں لکھی ہیں، جو طاقت ور قوتیں آپ سے چھپانا چاہتی ہیں۔
سو صاحب، سوال تو بنتا ہے کہ آخر ان کتابوں میں ایسی کون سی بات تھی جو انھیں 'خطرناک' بناتی ہے؟ ریاست مخالف مواد کی تعریف کون متعین کرے گا؟ اس سے بھی کہیں زیادہ اہم سوال یہ کہ ریاستیں، ریاست مخالف مواد لکھنے یا پڑھنے والوں کے خاتمے پر تو یقین رکھتی ہیں، آخر یہ کھوج کیوں نہیں لگاتیں کہ لوگ ریاست مخالف ہوتے کیوں ہیں؟ لکھنے والے، ریاست مخالف مواد کیوں تخلیق کرنے لگتے ہیں۔ چلیے 'شارٹ کٹ' مارتے ہوئے مان لیا کہ انھیں اس 'مزدوری' کا 'معاوضہ' ملتا ہے، لیکن پڑھنے والے آخر اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے ایسے 'خطرناک' مواد کو کیوں پڑھتے ہیں، جب کہ انھیں معلوم ہو کہ ایسے 'تخریبی' مواد کی برآمدگی ان کی موت کا سامان بھی ہو سکتی ہے؟ بغاوت میں آخر ایسا کیا ہے کہ یہ آدم کو اچھی بھلی جنت سے بے دخلی پہ مجبور کر دیتی ہے؟
اس واقعے نے پاکستان میں عمومی سطح پر پھیلائی گئی ایک اور غلط فہمی کا پول بھی کھول دیا کہ 'بلوچ پڑھتے نہیں'۔ آیندہ اس الزام کو یوں بدل دیا جائے کہ 'بلوچ وہ نہیں پڑھتے، جو ہم انھیں پڑھانا چاہتے ہیں۔' جب کہ سادہ سی اتنی بات یہ ہے جناب کہ بلوچ کچھ بھی 'تھوپا' ہوا قبول نہیں کرتا۔ جبراً تو یہ عقیدہ بھی قبول نہیں کرتا، نصاب کیا خاک کرے گا۔ اور اگر دوست بن کے اس کے ساتھ احترام سے پیش آئیں تو یہ آپ کے لیے دن کو رات بھی قبول کر لے، تن کے کپڑوں کے سوا اپنا سب کچھ آپ کو دان کردے۔ بلوچ نوجوانوں کو اور ان کی ماؤں کو بھی بَدھائی ہو کہ مدہوش کردینے والی جوانی میں ان کے کمروں سے نہ چرس برآمد ہوئی نہ افیون، نہ تاش کے پتے نکلے نہ شراب کی بوتلیں، نہ تصویر بُتاں نہ حسینوں کے خطوط... نکلی بھی تو کتابیں نکلیں۔ کتابیں جو علم کا ماخذ ہیں، جو شعور کی سیڑھی ہیں، جو آگہی کا راستہ ہیں۔ کتابیں، جو آدمی کو انسان بناتی ہیں، جو انسانوں کا معاشرہ بناتی ہیں، جو معاشرے کو انسانوں کے رہنے کے قابل بناتی ہیں۔ کتابیں، جو خیر لاتی ہیں، نیکی سکھاتی ہیں، روشنی پھیلاتی ہیں... اور روشنی سے، سوائے تاریکی کے بھلا اور کون ڈرتا ہے!!