بھارت کا میڈیا کتنا آزاد ہے

ظاہر ہے بی جے پی کے ترجمان نے یہ کہاں تسلیم کرنا تھا کہ مودی سرکار میں بھارتی میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

یکم اپریل 2021 کو Freedom of Expression assesment Index نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ عالمی اظہارِ آزادی کے ''امتحان'' میں پاکستان کو صرف 30پوائنٹ ملے ہیں ۔ ہمارے تبدیلی والے حکمران بھی میڈیا کی آزادی کے حوالے سے اپنے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر سکے ہیں ۔

ایسے میں وطنِ عزیز کے سوشل میڈیا میں غیر محتاط عنصر بھی بڑھتا ہُوا محسوس ہورہا ہے۔بھارت میں بھی جب سے نریندر مودی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہیں ، وہاں وہی صحافی اور میڈیا ئی ادارے پنپ رہے ہیں جو مودی جی اور اُن کے سنگی ساتھیوں کی ہمنوائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ابھی حال ہی میں یورپین یونین (EU) نے کہا ہے کہ اگر بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی اور میڈیا پر پابندیاں جاری رہیںتو بھارت پر معاشی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔

اسی سلسلے میں امریکا میں یونیورسٹی آف وسکونسن میں زیر تعلیم بھارتی اسکالر، امن ابھیشک، نے اپنے ایک مفصل آرٹیکل میں اس امر کا تحقیقی جائزہ لیا ہے کہ بھارت میں میڈیا کتنا آزاد ہے ؟ اس مقالے کو انھوں نے Academic Freedom is Under Attack in Modi,s Indiaکا عنوان دیا ہے ۔ابھیشک صاحب نے مذکورہ آرٹیکل میں کئی بھارتی صحافیوں اور دانشوروں کے نام لے کر بتایا ہے کہ بھارت میں مودی حکومت کے ہر مخالف اور نقاد کی زبان بندی کی جارہی ہے۔

اسی سلسلے کا ایک واقعہ مارچ2021کے تیسرے ہفتے پیش آیا ہے جب بھارت کے ایک مشہور دانشور ، لکھاری اور مصنف ، پرتاب بھانو مہتا، کو مودی حکومت کے سخت دباؤ پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا ہے۔ پرتاب بھانو مہتا کے چشم کشا آرٹیکلز کئی بھارتی و عالمی جرائد میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ بھانو صاحب اپنے ہر آرٹیکل میں قارئین کو بتاتے ہیں کہ جب سے نریندر مودی بھارتی اقتدار پر براجمان ہُوئے ہیں، بھارت میں فرقہ پرستی و تعصب بھی بڑھا ہے اور میڈیا کی آزادی کا گلہ بھی گھونٹ دیا گیا ہے ۔

بھارت کی صفِ اول کی جامعہ( اشوک یونیورسٹی)سے ملک کے بہترین دانشور اور مودی حکومت کے ناقد، پرتاب بھانو مہتا، کے مستعفی ہونے پر بھارتی طلبا، پروفیسر اور دانشور'' دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت''میں آزادیِ اظہارِ رائے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ سیاست اور آئینی قوانین پرعبور رکھنے والے ، پرتاب بھانو مہتا ، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر عدم اطمینان کا اظہار کر تے ہُوئے اپنے چبھتے ہوئے تجزیاتی مضامین اور تقاریر سے ملک میں لبرل ازم کی موت کی مذمت کرتے رہتے ہیں۔

اوکسفرڈ اور پرنسٹن ایسی عالمی معیار کی جامعات سے وابستہ رہنے والے نامور محقق، پرتاب بھانو مہتا، نے 2019 میں بھی ''اشوک یونیورسٹی'' کے وائس چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ مبینہ طور پر یونیورسٹی کے ٹرسٹیز اُن کے بے باک خیالات سے پریشان تھے؛ البتہ انھوں نے یونیورسٹی میں بطور پروفیسر پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ تاہم گزشتہ دنوں انھوں نے یہ کہتے ہوئے شکست تسلیم کر لی تھی کہ اب حکومتی دباؤ ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔


پرتاب بھانو مہتا نے اپنے استعفے میں لکھا:'' آزادی کی آئینی اقدار کے تحفظ اور تمام شہریوں کے لیے یکساں احترام کی کوششوں کے لیے لکھی جانے والی میری تحریروں کو یونیورسٹی کے لیے خطرہ تصور کیا جا رہا ہے ،اس لیے مستعفی ہوتا ہُوں۔''ایک بھارتی اخبار کے مطابق: اشوک یونیورسٹی کے بانیان نے بھی حال ہی میں پرتاب بھانو مہتا سے ملاقات کر کے کہا تھا کہ موجودہ سیاسی ماحول میں اب وہ ان کا مزید تحفظ نہیں کر سکتے۔ گزشتہ ہفتے اس تنازعے میں اُس وقت اضافہ ہوا جب سابق چیف حکومتی اقتصادی مشیر (اروند سبرامنیم) نے بھی پرتاب بھانو سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اشوک یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا۔

میڈیا رپورٹس میں ان کے استعفے کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ '' یونیورسٹی میں اظہارِ آزادی کا گلہ گھونٹا جارہا ہے جو ایک پریشان کن امر ہے''۔طلبہ نے نئی دہلی کے باہر اشوک کیمپس میں کئی روز تک مظاہرے بھی کیے اور کلاسوں کا بائیکاٹ بھی کیا۔

یونیورسٹی کے اساتذہ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ پرتاب بھانو مہتا کی رخصتی سے یونیورسٹی کی تعلیمی آزادی بارے کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔کولمبیا، ییل اور اوکسفرڈ سمیت دنیا بھر میں 150 سے زائد ماہرینِ تعلیم نے ایک کھلے خط میں کہا :'' ہم اس بات پر شدید پریشان ہیں کہ مہتا نے مودی کے حکومتی دباؤ کے تحت استعفیٰ دیا۔مودی حکومت نَوآبادیاتی دَور کے قوانین کے استعمال سے نقاد لکھاریوں کو حراست میں لے رہی ہے۔ یہاں تک کہ ممتاز بھارتی مزاح نگار( منور فاروقی) پر بھی ہاتھ ڈالا جا چکا ہے۔یہ آزادیِ اظہار کا قتل ہے۔''

مودی حکومت کے جبریہ اور جہلیہ ہتھکنڈوں کے کارن بھارتی میڈیا دبک کر تورہ گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مودی حکومت کی عوام اور میڈیا دشمن پالیسیوں کے بارے میں کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی ۔ یہ کسر بھارتی سوشل میڈیا اور ویب سائیٹ اخبارات پر خوب نکل رہی ہے۔بھارتی کسانوں نے گذشتہ کئی مہینوں سے مودی حکومت کے وضع کردہ کسان دشمن قوانین کے خلاف جو منظم اور متحدہ مورچے لگا رکھے ہیں، ان کی اگرچہ حکومتی دباؤ پر بھارتی میڈیا میں کوریج نہ ہونے کے برابر ہے لیکن بھارتی سوشل میڈیا پر ان کی سرگرمیاں پوری طرح جھلک رہی ہیں۔

غیر ملکی میڈیا میں بھی یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ مودی سرکار کے جبریہ ہتھکنڈوں کے کارن بھارتی میڈیا سیکولر و جمہوری اقدار کا ساتھ دینے سے قاصر ہے اور سچائی کا دامن تھامنے سے کترا بھی رہا ہے ؛ چنانچہ اسی موضوع پر گزشتہ روز''الجزیرہ'' ٹی وی نے ایک مفصل پروگرام(Up Front) نشر کیا جس کا عنوان ہی یہ تھا:Is Narendra Modi Dismantling Democracy in India? پروگرام کے میزبان نے مذکورہ ٹاک شو میں بھارتی حکمران پارٹی ( بی جے پی) کے مرکزی ترجمان کی خوب خبر لی ہے ۔

ظاہر ہے بی جے پی کے ترجمان نے یہ کہاں تسلیم کرنا تھا کہ مودی سرکار میں بھارتی میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے لیکن انھوں نے میزبان کے سوالات کی بوچھاڑ میں بہرحال بین السطور یہ تسلیم کر لیا کہ انڈین میڈیا کو آزاد ماحول میں کام کرنے کے حوالے سے ''کچھ شکایات'' ضرور ہیں۔
Load Next Story