سماجی انصاف کی ضرورت
ہمارا معاشرہ کئی سطحی ظلم، زیادتیوں، ناانصافیوں اور خراب سماجی رویوں کے عتاب میں مبتلا ہے، جن سے بہت ہی کم خاندان۔۔۔
ماضی کی مقبول اداکارہ شبنم کی ایک مشہور فلم جس کا نام انوکھی تھا، واقعتاً ایک انوکھی قسم کی کہانی پر مبنی تھی۔ اس فلم کی ہیروئن شبنم کی محبت ایک ایسے ہیرو سے ہوجاتی ہے جو عام شخص اور غریبوں اور مزدوروں کا ہمدرد ہوتا ہے، ان کے درمیان کچھ بدگمانیاں اور اختلافات رونما ہوتے ہیں تو فلم کا ہیرو اس امیر کبیر ہیروئن سے لاتعلق ہوکر ایک فیکٹری میں ملازم ہوجاتا ہے۔
ہیروئن اس فیکٹری کو خرید کر بند اور تمام مزدوروں کو بیروزگار کردیتی ہے۔ ہیرو کو بڑی مایوسی ہوتی ہے، وہ کسی دوسری فیکٹری میں ملازمت کرلیتا ہے۔ ہیروئن یہ فیکٹری بھی خرید لیتی ہے پھر ان دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ ہیرو اور ہیروئن کے درمیان ہونے والے مکالمات تو ذہن میں نہیں ہیں لیکن یہ تمام کہانی فلم کے ہیرو کی خودداری اور ہیروئن کی اس سے محبت اور اسے پا لینے کی جستجو کے گرد گھوم رہی تھی۔ ہیروئن سگریٹ نوشی بھی کرتی تھی اور سگریٹ جلانے کے لیے اپنے لائٹر سے اس زمانے کے سب سے بڑے کرنسی نوٹ یعنی 500 روپے کو رول کرکے آگ لگاتی تھی اور اس سے اپنی سگریٹ سلگایا کرتی تھی، یہ منظر دیکھ کر اس کا منیجر اور دیگر افراد اس کی طرف بڑھتے تھے کہ میڈم یہ آپ کیا کر رہی ہیں۔ وہ کہتی تھی کہ میں اس دولت سے انتقام لے رہی ہوں۔ اس رویے کو احساس محرومی کا نام دیا جائے یا نفسیاتی و ذہنی بیماری کا، فیصلہ مشکل ہے۔
یہ فلمی منظر یاد آجانے کا سبب جہلم سے آنے والی وہ خبر ہے کہ جس میں بتایا گیا کہ دو بہنوں نے بینک سے 17 لاکھ روپے نکلوا کر پہلے قینچی سے ان کے نمبر کاٹے پھر بینک کے باہر رکھ کر آگ لگادی۔ کچھ افراد نے روکنے کی کوشش اور وجوہات پتہ کرنے کی کوششیں کیں تو ایک بہن نے پستول نکال کر دھمکی دی کہ بھاگ جاؤ ورنہ گولی مار دوں گی۔ لڑکیوں کے بھائی نے بتایا ہے کہ وہ نفسیاتی مریضہ ہیں۔ بینک منیجر کو قبل از وقت بتادیا گیا تھا کہ انھیں کسی صورت کثیر رقم نہ دی جائے، پھر انھیں اتنی بڑی رقم کیوں دی گئی؟ یہ سب کچھ بینک عملے کی غیر ذمے داری کا نتیجہ ہے۔ متعلقہ ایس ایچ او نے دونوں بہنوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ اس کے مطابق دونوں ذہنی مریضہ ہیں، انھوں نے پہلے بھی اپنے والدین کی جمع پونجی ضایع کی ہے، دونوں کی عمریں 30 سے 35 سال ہیں، غیر شادی شدہ ہیں، دونوں کا شادی کے مسئلے پر والد سے تنازعہ چل رہا تھا، جائیداد کی تقسیم کے خوف سے باپ ان کی شادی نہیں کر رہا تھا۔
پہلی کہانی تو فرضی اور فلمی کہانی تھی لیکن دوسری کہانی حقیقی کہانی ہے، جب کہ بہت سے پہلو غور طلب ہیں جن پر ماہرانہ و مستند رائے تو ماہر عمرانیات و نفسیات ہی دے سکتے ہیں۔ بھاری رقم اور انوکھے رویے کی وجہ سے یہ واقعہ زیادہ نمایاں اور توجہ کا مرکز بن گیا۔ ورنہ اس قسم کے واقعات اور رویہ ہمارے معاشرے میں عام ہیں جن پر عوام و خواص غور و خوض اور توجہ دینے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے بلکہ بعض مرتبہ تو تفریح وچٹخارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی عورت انصاف کے حصول اور حکمرانوں کی توجہ دلانے کے لیے کھمبے پر چڑھ کر احتجاج کرتی ہے تو میڈیا اس کو براہ راست دکھاتا ہے، اخبارات میں تصاویر بھی چھپ جاتی ہیں، تمام معاشرہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ظلم کو پس پشت ڈال کر محض اس کے طرز عمل اور رویے کو موضوع بحث بنا لیتا ہے جوکہ بذات خود اس متاثرہ کے ساتھ معاشرتی زیادتی کے مترادف ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ کئی سطحی ظلم، زیادتیوں، ناانصافیوں اور خراب سماجی رویوں کے عتاب میں مبتلا ہے، جن سے بہت ہی کم خاندان بچے ہوں گے۔
حکومتی اداروں، ایجنسیوں، جرائم پیشہ عناصر کے ظلم، زیادتیاں اور حق تلفیوں کے واقعات تو سامنے آجاتے ہیں لیکن خاندانوں، برادریوں وغیرہ میں رونما ہونے والے حق تلفیوں اور ظلم وزیادتیوں کے واقعات شاذ و نادر ہی سامنے آتے ہیں۔ جیساکہ مذکورہ دونوں بہنوں کے واقعات سامنے آئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاندانی معاملات میں مادیت پرستانہ سوچ، عدم ہم آہنگی اور احساس عدم تحفظ اور ناامیدی و مایوسی نے لڑکیوں کو ذہنی و نفسیاتی یا اشتعال کی اس سطح تک پہنچادیا کہ انھوں نے اس ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ عدم برداشت، اخلاقی گراوٹ، مذہب سے دوری اور مادہ پرستی، خود غرضی نے ہمارے خاندانوں تک میں جڑیں پکڑ لی ہیں جس کی وجہ سے خاندان کے افراد کے مابین لڑائی جھگڑے، قتل وغارت گری تک پہنچ گئے ہیں، مقدمات، کورٹ میرج اور طلاقوں کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ کبھی کوئی بیوی اپنے بچوں کو زہر پلا کر یا ان کے ساتھ کنوئیں میں کود کر زندگی کا خاتمہ کرلیتی ہے تو کبھی شوہر کورٹ نوٹس ملنے پر بچوں کے چھن جانے کے خوف سے یا فریق مخالف کو بچوں سے محروم رکھنے کے لیے دریا میں کود کر زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ ایسے واقعات کو شدید ذہنی انتشار و دباؤ کا شاخسانہ قرار دیا جائے، ذہنی یا نفسیاتی پاگل پن یا جذبہ انتقام یا پھر احساس عدم تحفظ اور مایوسی و ناامیدی؟
ہیومن رائٹس کے مطابق 2013 میں کراچی جیسے شہر میں مختلف واقعات میں 153 خواتین ہلاک ہوئیں، جن میں سے 67 کی اموات رشتے داروں کے ہاتھوں جب کہ 36 نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ 11 خواتین کی زندگیاں کاروکاری کی نذر ہوئیں۔ رپورٹ میں بچوں سے متعلق انتہائی تشویشناک اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جس کے مطابق سال بھر میں 136 بچے لقمہ اجل بنے جن میں 33 نامعلوم سمت سے گولیاں لگنے، 34 دشمنی کے نتیجے میں، 3 فرقہ وارانہ واردات میں اور 2 بچے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیے گئے، 13 بچے اغوا کے بعد قتل کیے گئے، دیگر افراد میں 178 ذاتی دشمنی کی بنا پر، 77 ڈاکوؤں کی فائرنگ سے، 194 قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلے میں، 5 سیکیورٹی گارڈ کی گولیوں اور 5 پولیس تشدد سے ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق ڈویژن نے بھی گزشتہ تین سال میں غیرت کے نام پر 1705 خواتین کے قتل، 102 پر تیزاب پھینکے جانے اور 595 کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات کی تصدیق کی ہے۔
ان واقعات میں ایک جانب تو سماج دشمن عناصر کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی بڑی تعداد لمحہ فکریہ ہے دوسری جانب اپنے ہی خاندان اور رشتے داروں کے ہاتھوں قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد اور معصوم بچوں کی زندگیوں کو تلف کرنے کے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔ اس قسم کی حق تلفیاں، ظلم و زیادتی، مایوسی و ناامیدی کی وجہ لوگوں میں خودکشیوں کا رجحان بھی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ نہ جانے ہماری سول سوسائٹی، سماجی، انسانی، مذہبی و سیاسی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور میڈیا کہاں ہیں جو صرف چند واقعات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، حالانکہ یہ تمام کسی بھی ہیرو کو زیرو اور کسی زیرو کو ہیرو بنا دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اگر اب بھی سماجی انصاف کے لیے کوششیں نہ کی گئیں تو ہمارا معاشرہ مکمل طور پر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجائے گا۔
ہیروئن اس فیکٹری کو خرید کر بند اور تمام مزدوروں کو بیروزگار کردیتی ہے۔ ہیرو کو بڑی مایوسی ہوتی ہے، وہ کسی دوسری فیکٹری میں ملازمت کرلیتا ہے۔ ہیروئن یہ فیکٹری بھی خرید لیتی ہے پھر ان دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ ہیرو اور ہیروئن کے درمیان ہونے والے مکالمات تو ذہن میں نہیں ہیں لیکن یہ تمام کہانی فلم کے ہیرو کی خودداری اور ہیروئن کی اس سے محبت اور اسے پا لینے کی جستجو کے گرد گھوم رہی تھی۔ ہیروئن سگریٹ نوشی بھی کرتی تھی اور سگریٹ جلانے کے لیے اپنے لائٹر سے اس زمانے کے سب سے بڑے کرنسی نوٹ یعنی 500 روپے کو رول کرکے آگ لگاتی تھی اور اس سے اپنی سگریٹ سلگایا کرتی تھی، یہ منظر دیکھ کر اس کا منیجر اور دیگر افراد اس کی طرف بڑھتے تھے کہ میڈم یہ آپ کیا کر رہی ہیں۔ وہ کہتی تھی کہ میں اس دولت سے انتقام لے رہی ہوں۔ اس رویے کو احساس محرومی کا نام دیا جائے یا نفسیاتی و ذہنی بیماری کا، فیصلہ مشکل ہے۔
یہ فلمی منظر یاد آجانے کا سبب جہلم سے آنے والی وہ خبر ہے کہ جس میں بتایا گیا کہ دو بہنوں نے بینک سے 17 لاکھ روپے نکلوا کر پہلے قینچی سے ان کے نمبر کاٹے پھر بینک کے باہر رکھ کر آگ لگادی۔ کچھ افراد نے روکنے کی کوشش اور وجوہات پتہ کرنے کی کوششیں کیں تو ایک بہن نے پستول نکال کر دھمکی دی کہ بھاگ جاؤ ورنہ گولی مار دوں گی۔ لڑکیوں کے بھائی نے بتایا ہے کہ وہ نفسیاتی مریضہ ہیں۔ بینک منیجر کو قبل از وقت بتادیا گیا تھا کہ انھیں کسی صورت کثیر رقم نہ دی جائے، پھر انھیں اتنی بڑی رقم کیوں دی گئی؟ یہ سب کچھ بینک عملے کی غیر ذمے داری کا نتیجہ ہے۔ متعلقہ ایس ایچ او نے دونوں بہنوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ اس کے مطابق دونوں ذہنی مریضہ ہیں، انھوں نے پہلے بھی اپنے والدین کی جمع پونجی ضایع کی ہے، دونوں کی عمریں 30 سے 35 سال ہیں، غیر شادی شدہ ہیں، دونوں کا شادی کے مسئلے پر والد سے تنازعہ چل رہا تھا، جائیداد کی تقسیم کے خوف سے باپ ان کی شادی نہیں کر رہا تھا۔
پہلی کہانی تو فرضی اور فلمی کہانی تھی لیکن دوسری کہانی حقیقی کہانی ہے، جب کہ بہت سے پہلو غور طلب ہیں جن پر ماہرانہ و مستند رائے تو ماہر عمرانیات و نفسیات ہی دے سکتے ہیں۔ بھاری رقم اور انوکھے رویے کی وجہ سے یہ واقعہ زیادہ نمایاں اور توجہ کا مرکز بن گیا۔ ورنہ اس قسم کے واقعات اور رویہ ہمارے معاشرے میں عام ہیں جن پر عوام و خواص غور و خوض اور توجہ دینے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے بلکہ بعض مرتبہ تو تفریح وچٹخارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی عورت انصاف کے حصول اور حکمرانوں کی توجہ دلانے کے لیے کھمبے پر چڑھ کر احتجاج کرتی ہے تو میڈیا اس کو براہ راست دکھاتا ہے، اخبارات میں تصاویر بھی چھپ جاتی ہیں، تمام معاشرہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ظلم کو پس پشت ڈال کر محض اس کے طرز عمل اور رویے کو موضوع بحث بنا لیتا ہے جوکہ بذات خود اس متاثرہ کے ساتھ معاشرتی زیادتی کے مترادف ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ کئی سطحی ظلم، زیادتیوں، ناانصافیوں اور خراب سماجی رویوں کے عتاب میں مبتلا ہے، جن سے بہت ہی کم خاندان بچے ہوں گے۔
حکومتی اداروں، ایجنسیوں، جرائم پیشہ عناصر کے ظلم، زیادتیاں اور حق تلفیوں کے واقعات تو سامنے آجاتے ہیں لیکن خاندانوں، برادریوں وغیرہ میں رونما ہونے والے حق تلفیوں اور ظلم وزیادتیوں کے واقعات شاذ و نادر ہی سامنے آتے ہیں۔ جیساکہ مذکورہ دونوں بہنوں کے واقعات سامنے آئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاندانی معاملات میں مادیت پرستانہ سوچ، عدم ہم آہنگی اور احساس عدم تحفظ اور ناامیدی و مایوسی نے لڑکیوں کو ذہنی و نفسیاتی یا اشتعال کی اس سطح تک پہنچادیا کہ انھوں نے اس ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ عدم برداشت، اخلاقی گراوٹ، مذہب سے دوری اور مادہ پرستی، خود غرضی نے ہمارے خاندانوں تک میں جڑیں پکڑ لی ہیں جس کی وجہ سے خاندان کے افراد کے مابین لڑائی جھگڑے، قتل وغارت گری تک پہنچ گئے ہیں، مقدمات، کورٹ میرج اور طلاقوں کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ کبھی کوئی بیوی اپنے بچوں کو زہر پلا کر یا ان کے ساتھ کنوئیں میں کود کر زندگی کا خاتمہ کرلیتی ہے تو کبھی شوہر کورٹ نوٹس ملنے پر بچوں کے چھن جانے کے خوف سے یا فریق مخالف کو بچوں سے محروم رکھنے کے لیے دریا میں کود کر زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ ایسے واقعات کو شدید ذہنی انتشار و دباؤ کا شاخسانہ قرار دیا جائے، ذہنی یا نفسیاتی پاگل پن یا جذبہ انتقام یا پھر احساس عدم تحفظ اور مایوسی و ناامیدی؟
ہیومن رائٹس کے مطابق 2013 میں کراچی جیسے شہر میں مختلف واقعات میں 153 خواتین ہلاک ہوئیں، جن میں سے 67 کی اموات رشتے داروں کے ہاتھوں جب کہ 36 نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ 11 خواتین کی زندگیاں کاروکاری کی نذر ہوئیں۔ رپورٹ میں بچوں سے متعلق انتہائی تشویشناک اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جس کے مطابق سال بھر میں 136 بچے لقمہ اجل بنے جن میں 33 نامعلوم سمت سے گولیاں لگنے، 34 دشمنی کے نتیجے میں، 3 فرقہ وارانہ واردات میں اور 2 بچے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیے گئے، 13 بچے اغوا کے بعد قتل کیے گئے، دیگر افراد میں 178 ذاتی دشمنی کی بنا پر، 77 ڈاکوؤں کی فائرنگ سے، 194 قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلے میں، 5 سیکیورٹی گارڈ کی گولیوں اور 5 پولیس تشدد سے ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق ڈویژن نے بھی گزشتہ تین سال میں غیرت کے نام پر 1705 خواتین کے قتل، 102 پر تیزاب پھینکے جانے اور 595 کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات کی تصدیق کی ہے۔
ان واقعات میں ایک جانب تو سماج دشمن عناصر کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی بڑی تعداد لمحہ فکریہ ہے دوسری جانب اپنے ہی خاندان اور رشتے داروں کے ہاتھوں قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد اور معصوم بچوں کی زندگیوں کو تلف کرنے کے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔ اس قسم کی حق تلفیاں، ظلم و زیادتی، مایوسی و ناامیدی کی وجہ لوگوں میں خودکشیوں کا رجحان بھی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ نہ جانے ہماری سول سوسائٹی، سماجی، انسانی، مذہبی و سیاسی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور میڈیا کہاں ہیں جو صرف چند واقعات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، حالانکہ یہ تمام کسی بھی ہیرو کو زیرو اور کسی زیرو کو ہیرو بنا دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اگر اب بھی سماجی انصاف کے لیے کوششیں نہ کی گئیں تو ہمارا معاشرہ مکمل طور پر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجائے گا۔