کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ

اگرچہ کورونا وائرس نے سبھی کچھ دھندلا دیا ہے لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں ہلچل ہے۔


[email protected]

بظاہر یہ ایک مثال ہے ، لیکن مثال اور محاورے ہماری زندگی اور معاشرے کو سامنے رکھ کر ہی ترتیب دیے جاتے ہیں اور وہ ایسی حقیقت کی طرح سے ہوتے ہیں جن پر ہمارے حالات کا اِنحصار ہوتا ہے اور میرا مقصد بھی اس کالم میں اس مثال کو عنوان بنانے کا یہی ہے کہ میں اس کی بنیاد پر وطنِ عزیز میں درپیش موجودہ حالات کا ایک طائرانہ جائزہ لوں ، ممکن ہے میرے کسی بھی کالم سے جمہور یا جمہوریت کو فائدہ پہنچ جائے۔

اگرچہ کورونا وائرس نے سبھی کچھ دھندلا دیا ہے لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں ہلچل ہے، اور ہلاکتوں کی اس دھند سے کوئی سیاسی آواز بلند ہو ہی جاتی ہے ، اگر افواہوں کو اکٹھا کرنے بیٹھیں تو جو تصویر بنے گی اس میں بہت سے رنگوں کی ایک مالا بنتی نظر آئے گی ، یعنی وزیرِ اعظم اپوزیشن کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آ کر حکومت توڑ دیں گے اور جس کے بعد ایک قومی حکومت تشکیل پا جائے گی جو تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہوگی اور یہ کہ اس حکومت کی ایک خوبی یہ ہوگی کہ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو خوش رکھا جائے گا۔

حصہ دیا جائے گا جب کہ پی ٹی آئی اپنے کچھ وزراء کو کرپشن پر فارغ کرکے آیندہ الیکشن کے لیے عوامی حمایت حاصل کر لے گی ، لیکن ظاہر ہے افواہیں ، افواہیں ہی ہوتی ہیں انھیں بنیاد بنا کر منصوبہ بندی کیسے ممکن ہے ؟ لہٰذا جو کچھ نظر آرہا ہے سچ اُسی کو تسلیم کیا جائے گا اور اُس سچ میں حکومت پی ٹی آئی کے پاس ہے۔

اب یہ ڈیل کیا ہے ، اسے کس کھاتے میں ڈالا جائے سمجھ سے باہر ہے۔ یہ کیسے ہوتی ہے؟ کس سے ہوتی ہے ؟ صحیح سے تو معلوم نہیں لیکن یہ دکھائی دیا کہ کچھ ہوتا ضرور ہے جس کے بعد اکثر حکومتیں اپنی مدت پوری نا کرسکیں اور ہنگامی حالات میں رخصت ہوگئیں۔

بہرحال اسی دوران جمہوریت بھی کہیں نہ کہیں سفرکرتی رہی اور آج جس حال تک پہنچی اُسے پختہ کار تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ شاید آنے والے وقتوں میں ہم ایک بہتر جمہوریت کو دیکھ سکیں ۔ اور اس کے لیے ضروری ہوگا تسلسل ، یعنی کسی بھی طرح کی جمہوری حکومت کو چلنے دیا جائے ، اگرچہ وہ سلیکٹڈ بھی ہو تب بھی ، اسے وقت سے پہلے گھر بھیجنا خود آپ ہی سیاستدانوں ، سیاسی جماعتوں کے لیے ایک برا تجربہ رہا ہے۔

اگر آپ ملک و قوم کی اور خود اپنی بہتری چاہتے ہیں تو پھر آپ کو صبر و تحمل سے اس وقت بھی کام لینا ہوگا جب آپ کی حکومت نا ہو ، کیونکہ بنگلہ دیش کی مثال کو نہ بھولیے وہاں بھی حالات کم و بیش پاکستان جیسے ہی تھے لیکن پھر ایک وقت آیا کہ وہاں سیاستدانوں نے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا ، عدلیہ نے بالغ نظری کا رویہ اپنایا ، تمام اداروں نے جمہوریت کو ملک کا مستقبل قرار دیا اور ملک ایک ڈگر پر آگیا۔

دیکھیے مستقل اور مسلسل نظام حکومت ہی میں کامیابی کا راز پنہاں ہے ۔ ورنہ کل جو الزامات اپوزیشن آپ پر لگا رہی تھی، آج وہ آپ ان پر لگا رہے ہیں ، فرق صرف حکومت کا ہے جس میں کل آپ تھے آج وہ ہیں اور کل پھر ممکن ہے آپ ہوں ، لیکن ملک کی کامیابی، قوم کی کامرانی جمہوریت کے تسلسل میں ہے ، خواہ وہ لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو۔

اِنڈیا ہمارا پڑوسی ملک ہے ، اس حوالے سے ہم پر پڑوس کے حقوق واجب ہوتے ہیں ، بلاشبہ آج وہاں کورونا وائرس کے باعث بد ترین صورتحال ہے ، شاید ناقابلِ بیان۔ ہمیں اپنے فرائض کی بجا آوری میں کسی کوتاہی سے پرہیز کرنا چاہیے ، انسان اور انسانیت ہر چیز پر مقدم ہیں ، لیکن جو کچھ دکھائی دے رہا ہے۔

اس میں ایک تو دونوں ممالک کے مابین اعتماد کا فقدان اور دوسرے وہ دیرینہ دشمنی جس کی بنیاد پر کئی جنگیں لڑی جا چکیں ، اربوں ، کھربوں کے ہتھیار خریدے جاتے ہیں۔ دونوں ممالک اپنے ہر بجٹ کا بڑا حصہ انھی انسان کش ہتھیاروں پر خرچ کرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی جنگ کی تیاری ہے جس کے ہونے کے امکانات اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، لیکن بہت غریب عوام کی بنیادی سہولتیں بھی نہ استعمال ہونے والے میزائلوں اور ٹینکوں کی نذر کر دی جاتی ہیں تو پھر کورونا وائرس جیسا عذاب نہ آئے تو کیا رحمتِ باراں آئے؟

بھارت کی کشمیر پالیسی بھی انسان کش پالیسی ہے، راقم الحروف نے یہاں جان بوجھ کر مسلمان کش کا لفظ استعمال نہیں کیا کیونکہ میرے نزدیک انسان پہلے ہے ، انسانیت کو اوّلیت حاصل ہے اور اِسلام کا اپنا فلسفہ بھی یہی ہے کہ ایک اچھا انسان ہی اچھا مسلمان ہوسکتا ہے یا اچھا مسلمان، اچھا انسان بھی ہوتا ہے۔

اِنڈیا کی کشمیر پالیسی کو دوسرے الفاظ میں بی جے پی وہاں کی بر سر ِاقتدار جماعت کی پالیسی بھی قرار دیا جاسکتا ہے جو مذہب کے نام پر ہر جرم کو جائز قرار دیتی ہے اُس کا منشور ہندو توا دراصل اقلیتوں کا قتلِ عام ہے اُن کا خیال ہے کہ دنیا میں صرف ہندو دھرم سچا ہے ، اور اِسی دھرم کے ماننے والوں کو جینے کا حق ہے باقی لوگوں کو یا تو غلام بن کر جینا ہوگا یا پھر اُن کا قتل کردیا جائے۔ نریندر مودی اس سوچ کو لے کر چل رہے ہیں۔

لہٰذا اُن کی حکومت نے کشمیر میں ایسے ایسے مظالِم ڈھائے جن کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں مِلتی ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو شہید کردیا گیا ، معصوم بچیوں کی عصمت دری جیسے واقعات عام ہیں ، آخر میں پورے کشمیر پر لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ، اور ہنوز لگا ہُوا ہے ۔

اِس پر مستزاد یہ کہ 370کے تحت کشمیر کو اِنڈیا کی ایک ریاست بنانے کی سازش کی گئی ، یہ ایسے مظالم تھے جنھوں نے انڈیا کا سیکولر چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آگیا اور میری ذاتی رائے میں ظلم اور زیادتی جب بھی حد سے بڑھتے ہیں تو قدرت کی چتاؤنی سامنے آتی ہے جو فی الحال کورونا کی شکل میں وارِد ہوئی اور دنیا بھر میں ہوئی، لہٰذا دونوں ممالک کا فرض ہے کہ ایسی خوفناک قدرتی آفات میں ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کریں ، یہ اِنسانی جانوں کی بقاء کا معاملہ ہے جو بہرحال مقدم ہے ہر بغض ہر عناد پر ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔