تارکین وطن اور مغربی ممالک پر تنقید
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک میں بھی آزادی، انصاف اور مساوات جیسی اقدار مسیحی الہیات کے خلاف عام لوگوں کی۔۔۔
گزشتہ دنوں ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو یہ نصیحت کی جارہی تھی کہ انھیں مغربی ممالک میں رہتے ہوئے ان پر کسی بھی طرح کی تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ وجہ اس کی یہ کہ ان ممالک نے پاکستانیوںکو ایک بہتر زندگی عطا کر رکھی ہے، اور مغربی ممالک پاکستانیوں کو شہریت بھی دیتے ہیں، انھیں اپنے نام سے کاروبار کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے، اپنی خواتین کو پاکستانیوں سے شادی کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس اسلامی ممالک کی مثال پیش کرتے ہوئے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اسلامی ممالک پاکستانیوں کو شہریت نہیں دیتے اور نہ ہی پاکستانی وہاں اپنے نام پر کوئی کاروبار کر سکتے ہیں، جب کہ خواتین کی شادی کے معاملے پر بھی کوئی رعایت نہیں دی گئی۔
اگر ان باتوں پر غور کریں تو یہ خیال میں آتا ہے کہ اس موازنے کی بنیاد پر مغربی ممالک پر تنقید نہ کرنے کا نکتہ اٹھانا انتہائی غیر منطقی ہے۔ اگر مغربی ممالک میں عرب ممالک سے آزادی کا احساس زیادہ گہرا ہے تو اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ عرب ممالک کو عالمی تکثیری سماج کے قریب لانے کے لیے ان کے امتیازی رویے پر تنقید کی جائے نہ کہ انھیں مغربی ممالک کی غلط پالیسیوں کے حق میں جواز کے طور پر پیش کیا جائے۔ اگر مغربی ممالک پاکستانیوں کو شہریت دیتے ہیں تو ساتھ میں انھوں نے یہ شرط کہاں عائد کررکھی ہے کہ اگرمغربی حکومتوں کی ظالمانہ و متشدد داخلی و خارجی پالیسیوں پر تنقید کی گئی تو وہ شہریت واپس لے لی جائے گی؟ اور ویسے بھی شہریت کے مسئلے کا متشددانہ پالیسیوں پر تنقید سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ اور اگر اسلامی ممالک میں شہریت نہیں دی جاتی تو یہ بات مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو مغربی ممالک کی ان ظالمانہ اور دہشت انگیز پالیسیوں پر تنقید کے حق سے کیسے روک سکتی ہے جو انھوں نے دنیا کی کمزور اقوام کے حوالے سے اختیار کر رکھی ہیں۔ عراق جنگ کے حوالے سے لندن کی سڑکوں پر 20 لاکھ لوگوں کا جلوس نکلا، جس میں برطانیہ میں رہنے والے ہر رنگ و نسل اور قوم و مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
اس دلیل کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اس جلوس میں شامل لوگوں میں سے صرف پاکستانیوں کو ڈھونڈ نکال کر یہ سمجھانا لازمی ہے کہ ان سب میں سے (موصوف کے الفاظ میں) صرف آپ ہی ''غلط سوچ'' رکھتے ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے پاکستان کے گہرے تعصب میں مبتلا آزاد خیال لوگوں کو تو تسکین مل سکتی ہے مگر حقیقت میں یہ ایک انتہائی کمزور اور ایسا فسطائی نقطہ نظر ہے جس سے ہٹلر کے اعمال و افکار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جب اس نے ''نیشنل سوشلزم'' کے نام پر یہودیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ نائن الیون کے بعد مغربی ممالک میں مسلمانوں کے حوالے سے ظلم و دہشت کی داستان بھی کافی بھیانک ہے۔
اس کی تفصیل میں اپنے آرٹیکلز میں رقم کرچکا ہوں کہ کس طرح مسلمانوں کے قبرستانوں کو مسمار کیا گیا، مساجد پر بم نصب کیے گئے، مسلمان بچیوں کے نقاب نوچے گئے، نسل پرستوں نے بوڑھے اور ضعیف مسلمانوں پر حملے کیے۔ اس پس منظر کے باوجود مسلمانوں کو خاموش رکھ کر مغربی ممالک کے ''نمک'' کا حق ادا کرنے کی جو وہ تلقین کررہے ہیں تو دوسری برطانیہ ہی کی کئی تنظیموں اور یہاں تک کہ ارباب اختیار کی طرف سے بھی مسلمانوں سے کئی بار یہ اپیل کی گئی کہ جب کبھی ان کے ساتھ ظلم و تشدد کا کوئی واقعہ پیش آئے تو اسے اولین ترجیح سمجھ کر رپورٹ کریں۔ اگر مسلمان ایسا نہیں کریں گے تو وہ برطانیہ میں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے مزید مسائل کو پیدا کرنے کے ذمے دار ہوں گے۔
حقیقت پسندانہ سوچ تو یہی ہے کہ جو لوگ جس ملک میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح پر ریاستی، ذرایع ابلاغ یا دیگر سیاسی یا مذہبی پارٹیوں یا پھر طاقت کی مشق کرنے والی کسی بھی تنظیم کے جبر و تعصب کا شکار ہوں تو انھیں اپنے حقوق کے لیے ان سب کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق ہونا چاہیے، کیونکہ جب تک غالب و جبری آئیڈیالوجی کے خلاف نظری و عملی حوالوں سے مزاحمتی آواز بلند نہیں کی جاتی اس وقت تک جبر و تعصب میں کمی کا امکان بھی بہت کم ہوتا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یا اپنی لاعلمی کی بنیاد پر بعض آزاد خیال دانشور پاکستان میں بھی اور ''لبرل و جمہوری'' ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں سے متعلق اپنے گہرے تعصبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک میں بھی آزادی، انصاف اور مساوات جیسی اقدار مسیحی الٰہیات کے خلاف عام لوگوں کی مزاحمت کے نتیجے میں ممکن ہوسکیں۔ مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک مغربی ممالک میں روا رکھا گیا ہے اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھی ہر سطح پر مزاحمتی صدا بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ جب امریکا یا مغربی ممالک کمزور ممالک پر یلغار کرتے ہیں تو ان ممالک کے اپنے شہری ان پر جو تنقید کرتے ہیں پاکستانی ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف فسطائی تنظیمیں ایک عرصے سے سرگرم عمل ہیں، جو اس بات کی متقاضی ہیں کہ مسلمانوں کو اس ملک سے نکال دینا شاید برطانوی ثقافت و تہذیب کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایسی فسطائی تنظیموں کے خلاف "United Against Fascism" جیسی تنظیمیں بھی معرض وجود میں آچکی ہیں، جن میں زیادہ تعداد برطانیہ کے مقامی باشندوں کی ہے۔ فسطائی تنظیمیں جب کبھی مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوتی ہیں تو احترام آدمیت کی غماز ان کی مخالف تنظیمیں بھی مسلمانوں کے دفاع کے لیے متحرک ہوجاتی ہیں۔ ویڈیو میں کی گئی تشریح کے مطابق ان دفاعی تنظیموں میں سے بھی پاکستانی مسلمانوں کو نکال کر ان کی تضحیک کرنی ضروری ہے۔
امریکا کی پالیسیوں پر اگر نوم چومسکی، رابرٹ فسک اور نومی کلین وغیرہ جیسے مفکر تنقید کرتے ہیں تو وہ مظلوم و مقہور اقوام کی آواز بن جاتے ہیں، اور ایسے آزاد خیال دانشور محض اپنی ذہنی تسکین کے لیے ان کے حوالے پیش کرتے ہیں اور جب کبھی انھی ممالک کی جارحانہ و متشدد پالیسیوں پر کوئی پاکستانی تنقید کرتا ہے تو وہ دشمن بن جاتا ہے۔ یہ منطق کسی بھی ذی ہوش انسان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔فاضل دانشور ہمہ وقت پاکستان کی صورتحال پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ صاحب اقتدار طبقات سے لے کر ریڑھی لگانے والوں کو بھی وہ پاکستانی معاشرے کے فکری و اخلاقی انحطاط کا ذمے دار گردانتے ہیں۔ وہ ایک ایسے ملک پر تنقید کرتے ہیں جس میں مقتدر طبقات سے لے کر ہر محکمے تک خواہ کتنی ہی بدعنوانی، اقربا پروری اور ہر طرز اور ہر سطح کی عوام دشمنی کیوں نہ ہو، مگر کتنوں کو تو اسی پاکستان نے عزت و وقار سے سرفرازکیا ہے۔
لہٰذا اگر مغربی ممالک نے پاکستانیوں کو عزت دی ہے اور انھیں نمک کا حق ادا کرتے ہوئے مغربی ممالک پر تنقید نہیں کرنی چاہیے، تو پاکستان جہاں کروڑوں لوگ ذلت و پستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اسی پاکستان میں چند ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنھیں اسی ملک نے عزت اور شناخت عطا کی ہے، تو کیا انھیں اپنے ہی اصول کا اطلاق خود پر بھی کرتے ہوئے ہمہ وقت پاکستانی مقتدر طبقات کی پسی ہوئی عوام کے حوالے سے ظالمانہ پالیسیوں پر تنقید ختم کردینی چاہیے؟ یقیناً یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ، غیر منطقی اور ظالمو ں اور دہشت پسندوں کے مفادات کو منعکس کرنے والی سوچ ہے۔ جب کہ ایمانداری کا تقاضا ہے کہ انسان خواہ کسی بھی ملک میں رہے مقتدر اور ظالم و جابر طبقات کی غیر انسانی و غیر اخلاقی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتا رہے اور جہاں کہیں ضرورت محسوس ہو، عملی سطح پر بھی مزاحمتی تحریکوں کا حصہ بنتا رہے۔ اور ان روایتی و اذعانی نظریاتی آدرشوں کو منہدم کرنے کا وسیلہ تلاش کرتا رہے جو محکومیت اور خود سے متخالف عقائد کو جبری غلام بنانے کا جواز تراشتے رہتے ہیں۔