وعدے خواب دعوے در خواب
سچ تو یہ ہے کہ حکومت بدلنے کے بعد مہنگائی نے روز افزوں ترقی کی۔ کرپشن بھی کچھ کمی بیشی کے ساتھ جاری ہے۔
پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت کو رخصت ہوئے اب تقریباً 8 ماہ ہوچکے لیکن وہ نوید سرخوشی جس کا انتظار تھا لگتا ہے کہیں راستے میں بھٹک گئی۔ مجھے یاد ہے کہ مئی 2013 کے الیکشنز میں جس جماعت نے بھی سیاسی جلسے منعقد کیے وہ اجتماع کے لحاظ سے متاثر کن تھے لیکن زیادہ متاثر کن وہ خوش کن وعدے، دعوے اور ارادے تھے جو سیاسی قائدین نے دوران خطاب عوام سے کیے تھے، مثال کے طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بشرط اقتدار صرف 90 دن میں ملک کا سارا نظام ازسر نو بدل رہے تھے۔ پولیس، خزانہ، صحت، تعلیم، انصاف اور بالخصوص پٹواری سسٹم میں انقلابی تبدیلیوں کا مژدہ سنا رہے تھے، جب کہ بعد از انتخاب عمران خان کی جماعت PTI ملک کے ایک صوبے خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار ہے، علاوہ ازیں پنجاب میں ان کی جماعت کو اپوزیشن کی سربراہی حاصل ہے اور قومی اسمبلی میں بھی ان کے پاس 33 نشستیں موجود ہیں۔
میاں شہباز شریف کا نعرہ تھا کہ جیتنے کے بعد وہ پہلے کام کے طور پر ''علی بابا اور چالیس چوروں'' کا محاصرہ کریں گے اور اگر نہ کریں تو ان کا نام بدل دیا جائے۔ صرف 90 دن کی قلیل مدت میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے۔ مہنگائی کی شرح کو کم ترین سطح پر لے آئیں گے۔ کرپشن اور کرپٹ بیورو کریسی کا محاسبہ کریں گے، انھیں کڑی سے کڑی سزائیں دیں گے۔ شہباز شریف اب ملک کے سب سے بڑے اور بلحاظ آبادی 68 فیصد صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔ میاں محمد نواز شریف جو اب وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں کا دعویٰ تھا ''ملک سے بجلی اور توانائی کا بحران 90 دن میں مکمل نہیں لیکن 365 دنوں میں ضرور کردیا جائے گا۔ مہنگائی کے لیے انھوں نے فرمایا تھا کہ اس ملک میں غریبوں کا خون چوسنے والو! سن لو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔
اب حساب ہوگا۔ اگر قوم نے مجھے وزارت عظمیٰ کی ذمے داری کے لائق سمجھا تو اس ملک پر کوئی باہر سے آکر ڈرون اٹیکس نہیں کرسکے گا۔ ملک میں پانی کی اور بجلی کی قلت مصنوعی طور پر پیدا کی گئی ہے۔ میں نئے ڈیمز تعمیر کروں گا۔ اور سنو! پیپلزپارٹی کی کرپٹ حکومت نے قوم کے ہزاروں ارب روپے ہڑپ لیے ہیں۔ مسلم لیگ اقتدار میں آکر ان سے لوٹی ہوئی دولت کی ایک ایک پائی وصول کرے گی۔ اب فیصلے صرف میرٹ پر ہوں گے۔ میرٹ کا خون کرنے والو! اب تمہاری خیر نہیں۔ شیر آرہا ہے۔ جب کہ موجودہ صورت حال میں میاں صاحب ملک کے وزیراعظم ہیں۔ پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں ان کی مدد سے قائم کی گئی حکومت ہے۔ KPK میں ان کی جماعت مضبوط اپوزیشن رکھتی ہے۔
ادھر سندھ میں ایک طرف تو آصف علی زرداری و اہل خانہ شہید محترمہ کی شہادت کا دکھ پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی منارہے تھے، جب کہ دوران الیکشن وہ معلوم قاتلوں کے گرفتار نہ ہونے کا گلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ حالانکہ وہ الیکشن کے چند ماہ بعد تک بھی ملک کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ اب ان کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی حکومت سندھ کی اکثریتی جماعت ہونے کے ناتے برسر اقتدار ہے۔
دیگر جماعتیں الیکشن میں خاطر خواہ نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ ان کے قائدین کے دعوے بھی پر زور رہے۔ لیکن سر دست کیوں کہ وہ اقتدار کا حصہ نہیں ہیں لہٰذا ان کے لیے اپنی کہی گئی باتوں سے جان چھڑانا آسان ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنہوں نے وعدے کیے تھے وہ تو برسر اقتدار ہیں، گویا اس حد تک ثابت ہوا کہ عوام نے کم از کم اپنا وعدہ پورا کیا اور ان پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مئی کی شدید گرمی میں قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہوکر انھیں ووٹ دیے۔ لیکن الیکشن کو گزرے ہوئے اور حکومتوں کو بنے ہوئے 8 ماہ کی مدت گزر جانے کے بعد ملک جس طرح کے حالات سے دو چار ہے، عوام کا جو حال ہے اسے دیکھ کر صاحبان اقتدار کے تمام دعوے اور وعدے صرف دعوے اور وعدے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت بدلنے کے بعد مہنگائی نے روز افزوں ترقی کی۔ کرپشن بھی کچھ کمی بیشی کے ساتھ جاری ہے۔ انرجی کا بحران مزید بڑھ رہا ہے، گیس، پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ بے روزگاری، بدامنی اور غیر یقینی کی صورتحال بھی جوں کی توں ہے۔ کراچی میں ایس ایس پی چوہدری اسلم کو شہید کرکے طالبان نے اپنے پہلے سے زیادہ مستحکم ہونے کا یقین دلادیا ہے۔ البتہ صرف بلوچستان کے لیے اب 20 کے بجائے 18 فیصد یہ کہہ کر استعمال کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کچھ محسوس سی بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔
لیکن سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملک میں جمہوریت کے باوصف صوبائیت یا عصبیت میں اضافہ کیوں ہے۔ کیوں یہ محسوس ہورہا ہے کہ خدانخواستہ کوئی بڑا لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے اور کسی جوالا مکھی کی طرح پھٹنے کے قریب تر ہے۔ بین الصوبائی نفرتیں کیوں بڑھ رہی ہیں، سندھ میں لوگ الیکشن کے نتیجے پر شاکی دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی نمایندہ جماعت PPP کو پنجاب سے ووٹ نہ ہونے کے برابر ملے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں محرومی کا نعرہ لگانے والے اب تک پہاڑوں پر آباد ہیں اور انڈیا و اسرائیل کے ساتھ مل کر بلوچستان کی آزادی کے منصوبے بنارہے ہیں۔ KPK کے ٹرائبل ایریاز پر طالبان کی بادشاہت قائم ہے۔ سندھ 1، سندھ 2 کا مطالبہ سامنے آچکا ہے۔
ایسے رجحانات ملک کی سالمیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ لہٰذا برسر اقتدار حکومت یا حکومتوں پر ایک بڑی ذمے داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے منصوبے بنائیں۔ ایسا راستہ اپنائیں کہ ملک میں (Nationalism) حب الوطنی کا جذبہ مضبوط ہو۔ اس احساس کو تقویت ملے کہ ہم پہلے پاکستانی ہیں پھر کچھ اور۔ علاوہ ازیں ملک کے مختلف حصوں میں باقاعدگی سے جاری بدامنی کے ضمن میں یہ عرض کرنا چاہوںگا کہ صرف قانون سازی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف ایک صدارتی آرڈیننس بندوق کی گولی اور خودکش بمبار کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔ آپ کو ایکشن لینا ہوگا، ایک سخت ایکشن۔
حضرت عمر فاروقؓ کا دور سب سے زیادہ پرامن، انصاف و عدل سے مزین اور اسلامی فتوحات کے حوالے سے مضبوط تر دکھائی دیتا ہے۔ آپؓ کے دور کی کامیابی و بہتری کی سب سے بڑی وجہ Administration کا مضبوط ہونا تھا۔ انصاف کو قائم کرنے کے لیے بلا دریغ و بلا تخصیص قدم اٹھانا تھا، ریاست کی طاقت اور رٹ کو قائم کرنا تھا۔
عوام سے التماس ہے کہ مئی 2013 کے دوران سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کیے گئے تمام وعدوں، دعوؤں کو حفظ کرلیں اور اپنے ذہن میں محفوظ رکھیں، ان کا ایک ایک لفظ، پھر باریک بینی سے جائزہ لیں کہ وہ کس قدر پورے ہوئے اور کتنے نہیں اور اسی کو آیندہ کے الیکشن میں اپنے انتخاب کی بنیاد بنائیں۔ ووٹ صرف اس کو دیں جس نے جو کہا اسے پورا کیا یا اغلباً اس کی تکمیل کی۔ براہ کرم آیندہ اپنے انتخاب کی وجہ اپنی ذات، قوم، برادری، زبان، کلچر یا صوبے کو مت قرار دیں۔
یہ وجوہات ہمیں ایک قوم بننے سے روک رہی ہیں، ہمارے ایک گروہ، ایک جتھا بننے کی راہ میں حائل ہیں۔ ہمارے ایک قومی طاقت بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ لہٰذا ہمارے مظاہرے، ہمارے احتجاج کمزور پڑ جاتے ہیں، کیوں کہ ہم سندھی، پنجابی، بلوچ، پٹھان، مہاجر بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم اگر کچھ ہیں تو صرف مظلوم ہیں اور ہمیں مظلومیت کو ختم کرنے کے ایک نقطے پر اکٹھا ہونا ہے۔
میاں شہباز شریف کا نعرہ تھا کہ جیتنے کے بعد وہ پہلے کام کے طور پر ''علی بابا اور چالیس چوروں'' کا محاصرہ کریں گے اور اگر نہ کریں تو ان کا نام بدل دیا جائے۔ صرف 90 دن کی قلیل مدت میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے۔ مہنگائی کی شرح کو کم ترین سطح پر لے آئیں گے۔ کرپشن اور کرپٹ بیورو کریسی کا محاسبہ کریں گے، انھیں کڑی سے کڑی سزائیں دیں گے۔ شہباز شریف اب ملک کے سب سے بڑے اور بلحاظ آبادی 68 فیصد صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔ میاں محمد نواز شریف جو اب وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں کا دعویٰ تھا ''ملک سے بجلی اور توانائی کا بحران 90 دن میں مکمل نہیں لیکن 365 دنوں میں ضرور کردیا جائے گا۔ مہنگائی کے لیے انھوں نے فرمایا تھا کہ اس ملک میں غریبوں کا خون چوسنے والو! سن لو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔
اب حساب ہوگا۔ اگر قوم نے مجھے وزارت عظمیٰ کی ذمے داری کے لائق سمجھا تو اس ملک پر کوئی باہر سے آکر ڈرون اٹیکس نہیں کرسکے گا۔ ملک میں پانی کی اور بجلی کی قلت مصنوعی طور پر پیدا کی گئی ہے۔ میں نئے ڈیمز تعمیر کروں گا۔ اور سنو! پیپلزپارٹی کی کرپٹ حکومت نے قوم کے ہزاروں ارب روپے ہڑپ لیے ہیں۔ مسلم لیگ اقتدار میں آکر ان سے لوٹی ہوئی دولت کی ایک ایک پائی وصول کرے گی۔ اب فیصلے صرف میرٹ پر ہوں گے۔ میرٹ کا خون کرنے والو! اب تمہاری خیر نہیں۔ شیر آرہا ہے۔ جب کہ موجودہ صورت حال میں میاں صاحب ملک کے وزیراعظم ہیں۔ پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں ان کی مدد سے قائم کی گئی حکومت ہے۔ KPK میں ان کی جماعت مضبوط اپوزیشن رکھتی ہے۔
ادھر سندھ میں ایک طرف تو آصف علی زرداری و اہل خانہ شہید محترمہ کی شہادت کا دکھ پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی منارہے تھے، جب کہ دوران الیکشن وہ معلوم قاتلوں کے گرفتار نہ ہونے کا گلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ حالانکہ وہ الیکشن کے چند ماہ بعد تک بھی ملک کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ اب ان کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی حکومت سندھ کی اکثریتی جماعت ہونے کے ناتے برسر اقتدار ہے۔
دیگر جماعتیں الیکشن میں خاطر خواہ نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ ان کے قائدین کے دعوے بھی پر زور رہے۔ لیکن سر دست کیوں کہ وہ اقتدار کا حصہ نہیں ہیں لہٰذا ان کے لیے اپنی کہی گئی باتوں سے جان چھڑانا آسان ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنہوں نے وعدے کیے تھے وہ تو برسر اقتدار ہیں، گویا اس حد تک ثابت ہوا کہ عوام نے کم از کم اپنا وعدہ پورا کیا اور ان پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مئی کی شدید گرمی میں قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہوکر انھیں ووٹ دیے۔ لیکن الیکشن کو گزرے ہوئے اور حکومتوں کو بنے ہوئے 8 ماہ کی مدت گزر جانے کے بعد ملک جس طرح کے حالات سے دو چار ہے، عوام کا جو حال ہے اسے دیکھ کر صاحبان اقتدار کے تمام دعوے اور وعدے صرف دعوے اور وعدے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت بدلنے کے بعد مہنگائی نے روز افزوں ترقی کی۔ کرپشن بھی کچھ کمی بیشی کے ساتھ جاری ہے۔ انرجی کا بحران مزید بڑھ رہا ہے، گیس، پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ بے روزگاری، بدامنی اور غیر یقینی کی صورتحال بھی جوں کی توں ہے۔ کراچی میں ایس ایس پی چوہدری اسلم کو شہید کرکے طالبان نے اپنے پہلے سے زیادہ مستحکم ہونے کا یقین دلادیا ہے۔ البتہ صرف بلوچستان کے لیے اب 20 کے بجائے 18 فیصد یہ کہہ کر استعمال کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کچھ محسوس سی بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔
لیکن سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملک میں جمہوریت کے باوصف صوبائیت یا عصبیت میں اضافہ کیوں ہے۔ کیوں یہ محسوس ہورہا ہے کہ خدانخواستہ کوئی بڑا لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے اور کسی جوالا مکھی کی طرح پھٹنے کے قریب تر ہے۔ بین الصوبائی نفرتیں کیوں بڑھ رہی ہیں، سندھ میں لوگ الیکشن کے نتیجے پر شاکی دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی نمایندہ جماعت PPP کو پنجاب سے ووٹ نہ ہونے کے برابر ملے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں محرومی کا نعرہ لگانے والے اب تک پہاڑوں پر آباد ہیں اور انڈیا و اسرائیل کے ساتھ مل کر بلوچستان کی آزادی کے منصوبے بنارہے ہیں۔ KPK کے ٹرائبل ایریاز پر طالبان کی بادشاہت قائم ہے۔ سندھ 1، سندھ 2 کا مطالبہ سامنے آچکا ہے۔
ایسے رجحانات ملک کی سالمیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ لہٰذا برسر اقتدار حکومت یا حکومتوں پر ایک بڑی ذمے داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے منصوبے بنائیں۔ ایسا راستہ اپنائیں کہ ملک میں (Nationalism) حب الوطنی کا جذبہ مضبوط ہو۔ اس احساس کو تقویت ملے کہ ہم پہلے پاکستانی ہیں پھر کچھ اور۔ علاوہ ازیں ملک کے مختلف حصوں میں باقاعدگی سے جاری بدامنی کے ضمن میں یہ عرض کرنا چاہوںگا کہ صرف قانون سازی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف ایک صدارتی آرڈیننس بندوق کی گولی اور خودکش بمبار کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔ آپ کو ایکشن لینا ہوگا، ایک سخت ایکشن۔
حضرت عمر فاروقؓ کا دور سب سے زیادہ پرامن، انصاف و عدل سے مزین اور اسلامی فتوحات کے حوالے سے مضبوط تر دکھائی دیتا ہے۔ آپؓ کے دور کی کامیابی و بہتری کی سب سے بڑی وجہ Administration کا مضبوط ہونا تھا۔ انصاف کو قائم کرنے کے لیے بلا دریغ و بلا تخصیص قدم اٹھانا تھا، ریاست کی طاقت اور رٹ کو قائم کرنا تھا۔
عوام سے التماس ہے کہ مئی 2013 کے دوران سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کیے گئے تمام وعدوں، دعوؤں کو حفظ کرلیں اور اپنے ذہن میں محفوظ رکھیں، ان کا ایک ایک لفظ، پھر باریک بینی سے جائزہ لیں کہ وہ کس قدر پورے ہوئے اور کتنے نہیں اور اسی کو آیندہ کے الیکشن میں اپنے انتخاب کی بنیاد بنائیں۔ ووٹ صرف اس کو دیں جس نے جو کہا اسے پورا کیا یا اغلباً اس کی تکمیل کی۔ براہ کرم آیندہ اپنے انتخاب کی وجہ اپنی ذات، قوم، برادری، زبان، کلچر یا صوبے کو مت قرار دیں۔
یہ وجوہات ہمیں ایک قوم بننے سے روک رہی ہیں، ہمارے ایک گروہ، ایک جتھا بننے کی راہ میں حائل ہیں۔ ہمارے ایک قومی طاقت بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ لہٰذا ہمارے مظاہرے، ہمارے احتجاج کمزور پڑ جاتے ہیں، کیوں کہ ہم سندھی، پنجابی، بلوچ، پٹھان، مہاجر بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم اگر کچھ ہیں تو صرف مظلوم ہیں اور ہمیں مظلومیت کو ختم کرنے کے ایک نقطے پر اکٹھا ہونا ہے۔