میوکور مائیکوسز اور کورونا کا رشتہ

کورونا میں دی جانے والی ادویہ مدافعتی نظام کو غیر موثر کرتی ہیں تو پھپھوندیاں باآسانی انسان پر حملہ آور ہوجاتی ہیں


کورونا میں دی جانے والی ادویہ مدافعتی نظام کو غیر موثر کرتی ہیں تو پھپھوندیوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

میوکورمائیکوسز (Mucormycosis) ایک پھپھوندی یا فنگل (Fungal) انفیکشن ہے جو کہ میوکور مائیسٹیس (Mucormycetes) نامی پھپھوندی کے خاندان کے مختلف اراکین کی وجہ سے ہوتا ہے۔

پھپھوندیاں ہمارے اردگرد کے ماحول میں تقریباً ہر جگہ ہی موجود ہوتی ہیں۔ ان کی موجودگی کا مشاہدہ آپ نے جانے انجانے میں کئی مواقع پر ضرور کیا ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے گھر کچھ دن تک بچی ہوئی روٹی پڑی رہے تو اس پر لگنے والی پھپھوندی کو انگریزی میں بلیک بریڈ مولڈ (Black Bread Mold) کہتے ہیں، جبکہ اس کا سائنسی نام رائیزوپس (Rhizopus) ہے۔ اس رائزوپس کا تعلق بھی اسی میوکور مائیسٹیس خاندان سے ہی ہے۔ اب اگر یہ پھپھوندی روٹی کی جگہ کسی انسان کے جسم میں اگنے لگے تو اسے میوکور مائیکوسز کہیں گے، یعنی میوکور مائیسٹیس خاندان کی وجہ سے ہونے والا فنگل انفیکشن۔

میوکور مائیکوسز انفیکشن کیا ہوتا ہے اور انسان کو کیسے بیمار کرتا ہے؟ یہ تمام معلومات ویسے بھی آپ آج کل نیوز چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر دیکھ ہی چکے ہوں گے، اسی لیے آج کے بلاگ میں اس تفصیل میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ آج کا میرا موضوع میوکورمائیکوسز اور کورونا کے درمیان تعلق ہے۔

کیا وجہ ہے کہ کورونا کے مریضوں میں یہ اضافی انفیکشن کیوں بڑھ رہا ہے اور کیوں صحت مند لوگ اس مرض/ پھپھوندی کےلیے آسان شکار نہیں ثابت ہوپائے؟

اس سے پیشتر کہ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں، میں انسانی مدافعتی نظام کا ایک اجمالی خاکہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔ ہمارے مدافعتی نظام کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک حصہ کسی بھی جرثومہ کے خلاف فوری طور پر حرکت میں آتا ہے اور اسے ختم کرنے کی اپنی سی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اس حصے کو انگریزی میں (Innate Immunity یا Innate Immune System) کہتے ہیں اور یہ والدین سے ان کی اولاد میں نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اس حصے کے پاس ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ہے کہ اس کو معلوم ہو سکے کہ کون سا جرثومہ پہلی بار ہمارے جسم میں داخل ہوا ہے یا پھر چھٹی ساتویں بار۔ اس کے مقابلے میں ہمارے مدافعتی نظام کا دوسرا حصہ (Acquired Immunity یا Acquired Immune System) کہلاتا ہے، اس کے پاس ہمارے جسم میں داخل ہونے والے جراثیم کا تمام تر ریکارڈ محفوظ رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ حصہ کسی بھی انسان کی پیدائش کے وقت صفر معلومات کے ساتھ اپنی شروعات کرتا ہے اور عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ریکارڈ محفوظ رکھنے والی صلاحیت کی بدولت بار بار ہونے والے انفیکشنز کی روک تھام کا ذمے دار ہوتا ہے۔ کسی بھی بیماری کی ویکسین اسی حصے کو مدِنظر رکھتے ہوئے تیار کی جاتی ہے۔

ہمارے مدافعتی نظام کے یہ دونوں حصے مل کر ہمارے جسم کی حفاظت کرتے ہیں اور کسی بھی جراثیم کو، خواہ وہ ہمارے جسم کے اندر موجود ہو یا پھر باہر سے آیا ہو، انفیکشن کرنے سے روکتے ہیں۔

اس سے پہلے کے ہم واپس اپنے موضوع کی طرف پلٹیں، تھوڑا اور آگے بڑھتے ہیں اور بات کرتے ہیں ایچ آئی وی اور ایڈز کے وائرس کی۔ ایڈز کا وائرس بذاتِ خود جان لیوا نہیں ہوتا ہے، مگر وہ اپنے مریض کے مدافعتی نظام کو اس قدر کمزور کردیتا ہے کہ کوئی بھی ہلکا پھلکا جرثومہ بھی مہلک انفیکشن کرسکنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس کو روکنے والا مدافعتی نظام ایڈز کی وجہ سے تقریباً غیر موثر ہوچکا ہوتا ہے۔

ایڈز کے وائرس کی طرح ہی کچھ ادویہ ایسی بھی ہوتی ہیں جو کہ ہمارے مدافعتی نظام کو عارضی طور پر غیر موثر کردیتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہونا قدرتی ہے کہ بھائی ایسی بھی کیا ضرورت کہ ہمیں اپنے ہی مدافعتی نظام کو 'سوئچ آف' کرنا پڑے؟ تو جناب بعض اوقات ہمارے مدافعتی نظام کی تیزی ہمارے لیے ہی باعثِ نقصان ہونے لگتی ہے۔ اس کی عام مثال الرجی یا حساسیت اور اس کی ادویہ ہیں۔ الرجی کے دوران ہمارا جسم کسی بھی نئی چیز (جسے وہ نہیں جانتا) کو باہر سے آنے والا جرثومہ خیال کرکے اس پر ٹوٹ پڑتا ہے، مگر چونکہ یہ کوئی جراثیم نہیں ہوتا اس لیے نقصان ہمارے جسم کا ہونے لگتا ہے۔ اس صورتحال میں الرجی کی ادویہ ہمارے بپھرے ہوئے مدافعتی نظام کو وقتی طور پر قابو میں لانے کےلیے استعمال کی جاتی ہیں کہ مریض کو الرجی سے چھٹکارا دلایا جاسکے۔ الرجی کے علاوہ اس قسم کی ادویہ اعضا کی پیوندکاری (Organ Transplant) کے مریضوں کو بھی دی جاتی ہیں کہ ان کے جسم کا مدافعتی نظام نئے عضو، چاہے وہ جگر ہو یا کوئی اور، کو دشمن سمجھ کر اس پر حملہ آور نہ ہوجائے اور اس نئے عضو کا بھی ستیاناس کردے۔

اب چلتے ہیں کورونا کی جانب، کورونا کے مریضوں میں بعض اوقات وائرس ہمارے ہی مدافعتی نظام کو 'ہیک' کر کے ہمارے خلاف ہی استعمال کرنے لگ جاتا ہے تو اس کے سدباب کےلیے اینٹی انفلیمیٹری (Anti-Inflammatory) ادویہ دی جاتی ہیں جو کہ انفلے میشن یا سادہ لفظوں میں مدافعتی نظام کی کارکردگی کو کم کرتی ہیں تاکہ مریض کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

مدافعتی نظام، ایڈز اور کورونا کے ذکر سے آگے بڑھتے ہوئے واپس اپنے موضوع کی جانب آتے ہیں۔ رائیزوپس اور اس کے خاندان کی دوسری پھپھوندیاں عام حالات (صحتمندی) میں ہمارے موثر مدافعتی نظام کی وجہ سے ہمیں بیمار کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ مگر جب کہ کورونا میں مریض کو علاج کی غرض سے دی جانے والی ادویہ ان کے مدافعتی نظام کو غیر موثر کرتی ہیں تو پھپھوندیوں کی چاندی ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ کنبہ تاک لگائے موقع کی تلاش میں بیٹھا ہوتا ہے کہ کب مدافعتی نظام سے چوک ہو اور وہ مریض میں انفیکشن کرسکیں۔ لہٰذا اگر آپ کے آس پاس کوئی کورونا کا مریض ہے تو اس کی اور اس کے ماحول کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیے۔ کیونکہ چاہے میوکورمائیکوسز ہو یا پھر کوئی دوسرا موقع پرست جرثومہ، اسے آپ کے مریض کے پاس پھٹکنے کا موقع تک نہ مل سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔