بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

''عمران سیریز'' پر ایک تجزیاتی اشاعت
زیرتبصرہ 'جلد' راشد اشرف کے 2016ء میں شروع کیے گئے سلسلے 'زندہ کتابیں' کی 'سینچری اشاعت' ہے، یعنی شمار نمبر 98، 99 اور 100۔ یہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس میں نام وَر مصنف ابن صفی کی مشہور زمانہ 'عمران سیریز' کے تین ناول دل چسپ حادثہ، بے آواز سیارہ اور ڈیڑھ متوالے شایع کیے گئے ہیں۔



460صفحاتی اس 'جلد' میں 363 صفحات تک یہ تین تحیر انگیز ناول دراز ہیں، اس کے بعد تقریباً 80 صفحات پر 'ڈیڑھ متوالے' سیریز کا تجزیاتی مطالعہ اور قارئین کی آرا، تجزیے، اداریے اور تبصرے وغیرہ شامل کیے گئے ہیں، جس میں راشد اشرف، ڈاکٹر صابر حسین، محمد حنیف، ڈاکٹر خالد جاوید، محمد عمیر صدیقی، شمس الرحمن علوی، تبسم حجازی، عباس حسینی وغیرہ شامل ہیں، یوں تحقیقی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔۔۔ جب کہ آخری 16 صفحات میں ابن صفی کے صاحب زادے ابرار صفی کا ایک انٹرویو بھی کتاب کی زینت بنایا گیا ہے، جس میں انھوں نے اپنے والد سے متعلق گفتگو کی ہے۔

یوں یہ صرف ابن صفی پر ایک مکرر اشاعت نہیں، بلکہ اپنے ساتھ تاثرات اور تجزیوں کے اہم لوازمات بھی لیے ہوئے ہے، جو اس موضوع کے محققین کے لیے بھی دل چسپی کا باعث ہے۔ اس دیدہ زیب اشاعت کا اہتمام اٹلانٹس پبلی کیشنز (0300-2472238 021-32581720) نے کیا ہے، اس کتاب میں ابن صفی کی کچھ تصاویر بھی شامل ہیں، قیمت 890 روپے ہے۔

رواں اسلوب کے خاکے
'خاکے' کہنے کو شخصی مضامین کی ایک ایسی شکل کا نام ہے، جس میں لفظوں کے ذریعے مذکورہ شخصیت کا نقشہ تحریر میں 'عکس بند' کیا جاتا ہے، لیکن 'خوش نفساں' کی ورق گردانی کرتے ہوئے احساس کچھ اس کے سوا ہوتا ہے، ایک تو زمانۂ حال سے زیادہ پرے نہ ہونے کے سبب 'تازگی' کا تاثر موجود ہے۔

راشد اشرف عموماً اپنے سلسلے 'زندہ کتابیں' میں اردو کی نادر و کم یاب کتب شایع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن امجد علی شاکر کی یہ کتاب 'زندہ کتابیں' کے ذریعے پہلی بار منصۂ شہود پر آئی ہے۔ اس کتاب میں شامل خاکوں کا اسلوب رواں اور براہ راست ہے۔۔۔



اگرچہ کہیں کہیں پنجابی کے فقرے بھی خاکوں کا حصہ ہیں، لیکن مجموعی طور پر اخباری کالموں جیسا سہل انداز ملتا ہے، کہیں کہیں پر تو خاکے کی پیش کش اور اس کے ابتدائیے سے 'فیچر' جیسا تاثر جھلکتا ہے۔۔۔ خاکوں میں مختلف دل چسپ واقعات اور قابل ذکر تاریخی حوالوں کی خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔۔۔ موضوعِ سخن بننے والے تمام احباب ہی ادب، تحقیق اور لکھنے لکھانے والوں کی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس لیے پوری کتاب میں یہی رنگ غالب ہے۔۔۔ ڈاکٹر رشید احمد جالندھری سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ عبداللہ ملک، ڈاکٹر سلیم اختر، نند کشور وکرم، ابو سلمان شاہ جہاں پوری، آپا صدیقہ بیگم اور ناصر زیدی تک دراز نظر آتا ہے۔ آخر میں صداقت صاحب، بھوت لکھاری، بٹ وبٹ اور پاسنگ شو جیسے خاکے تو گویا کتاب کے اندر ایک کتاب کے مترادف ہیں۔ بالخصوص 'بھوت لکھاری' کے ذیل میں جس طرح نام وَر لوگوں کے لیے لکھنے والے کردار کو قارئین تک پہنچایا گیا ہے، وہ بلاشبہ ایک خاصے کی چیز ہے۔ 250 صفحاتی اس دل چسپ کتاب کی قیمت 400 روپے ہے، اشاعت کا اہتمام فضلی سنز، کراچی (03353252374، 021-32629724) سے کیا گیا ہے۔

آدم خور، جم کوربٹ اور ہندوستان
جم کوربٹ کی تین کتب ردر پریاگ کا آدم خور چیتا، کمائوں کا آدم خور اور مندر کا شیر پہلی بار بالترتیب 1948ء 1944ء اور 1954ء میں شایع ہوئیں۔ اب راشد اشرف کی 'زندہ کتابیں' سلسلے کے تحت منظر عام پر آئی ہیں۔ پہلی کتاب کے مترجم جاوید شاہین، جب کہ باقی دونوں کتابوں کا ترجمہ منصور قیصرانی نے کیا۔

جم کوربٹ اس میں حسب روایت شکار اور شکاری کے حوالے سے نئی نئی معلومات فراہم کرتے ہیں، جنگل کے آثار اور مختلف علامات کے ذریعے 'شکار' کی کیفیت اور رفتار وغیرہ کا اندازہ لگانے سے لے کر عام چیتے اور آدم خور چیتے کو شکار کرنے تک مختلف استدلال بھی اس کتاب میں شامل ہیں، جیسا کہ یہ کہ 'شیر کا قدرتی کردار فطری توازن برقرار رکھنا ہے، وہ حالات سے مجبور ہوکر ہی 'آدم خوری' کی طرف آتا ہے۔ ان وجوہات میں عمر رسیدہ ہونا یا شکار کی کسی کوشش میں زخمی ہونا شامل ہے' جم کوربٹ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ جنگل میں دیگر چرند پرند کی آوازوں سے کس طرح اپنے لیے مختلف اشارے پاتے تھے۔



یہ سب مختلف مہم جوئیوں کے ساتھ اِس ایک جلد میں یک جا ہے۔ چوں کہ جم کور بٹ ہندوستان میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے اس لیے ہندوستان کے حوالے سے ان کے تجربات بھی ان کی دیگر تصنیفات کی طرح ہمیں یہاں بھی ملتے ہیں۔

فلیپ پر جم کور بٹ کا یہ مختصر سا تعارف بھی موجود ہے کہ انھیں برطانوی ہندوستانی فوج میں کرنل کا عہدہ دیا گیا تھا، چوں کہ ہندوستانیوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہ تھی، اس لیے انھیں متعدد بار آدم خور چیتوں اور شیروں کے شکار کے لیے بلایا گیا۔ 1907ء تا 1938ء انھوں نے متعدد آدم خوروں کو ہلاک کیا، جس کی بنا پر انھیں کافی شہرت حاصل ہوئی اور لوگ انھیں سادھو کہنے لگے۔ وہ 1955ء میں کینیا میں وفات پا گئے، 1957ء میں ان کے اعزاز میں ہندوستان نے کمائوں کے علاقے میں قائم قدیم ترین نیشنل پارک کو جم کوربٹ سے منسوب کر دیا۔ یہ کتاب فضلی سنز، کراچی (03353252374، 021-32629724) سے شایع کی گئی ہے۔

انسانی جذبات میں گُندھے افسانے
ان افسانوں کے موضوعات انسانی جذبات سے شروع ہوتے ہیں اور ہجر اور وصل کے روایتی جذبوں کی اوٹ سے ہوتے ہوئے سماجیات اور آدم خوری جیسے انتہا تک پہنچ جاتے ہیں، مذکورہ افسانوں کے مجموعے 'من تراش' کے مصنف اختر شہاب لکھتے ہیں کہ وہ 1980ء سے کہانیاں لکھ رہے ہیں، لیکن انھیں جمع کرنے کا خیال نہیں آیا۔ اب مختلف اداروں اور محکموں کی 'مٹر گشت' کرنے کے بعد انھوں نے اس جانب توجہ فرمائی ہے، انھیں یہ بھی فکر دامن گیر ہے کہ کہیں یہ کتاب کبھی ردی کے ٹھیلے پر نہ پہنچے، بس جہاں بھی پہنچے وہ اسے پڑھے ضرور۔۔۔ ان کی اولین کتاب میں چھان پھٹک کر 18 افسانے شامل کیے گئے ہیں، دوسرے مجموعے پر کام جاری ہے۔ ان افسانوں پر اظہارِخیال کرتے ہوئے مدیر سرگزشت پرویز بلگرامی رقم طراز ہیں ''مجھے تو وہ اپنے ہر افسانے میں خود نظر آتے ہیں۔



ایک سادہ سا، محبت کرنے والا، دردِدل رکھنے والا انسان۔ انھوں نے احساسات اور کیفیتیں بھی عالی قدر پائیں۔ جن موضوعات کا انتخاب کیا، ان میں بیش تر ان کی نفسی اور ذاتی کیفیتوں کے آئینہ دار محسوس ہوئے۔ دردِغم، درماں نصیبی، حسرت ویاس، تنہائی فراق، عہدِ ناسپاس، بازی گرانِ سیاست، ان کی دھوکا دہی، سب گلے شکوے یک جا ہیں ان کی کہانیوں میں۔ اور یہی ایک اچھے قلم کار کی خوبی کہلاتی ہے۔'' کتاب پر اظہارخیال کرتے ہوئے محمد تقی لکھتے ہیں کہ ''جیسے دنیا کے بہترین افسانہ نگاروں نے بہ ذریعہ افسانہ انسانی ذہن کی نہ صرف آب یاری کی، بلکہ قاری میں فکر متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اسی طرح اختر شہاب کے افسانے بھی قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔'' کتاب کی ضخامت 248 صفحات، ناشر رنگ ادب پبلی کیشنز (03452610434, 0213271100) اور قیمت 700روپے ہے۔

سہل عروض میں منضبط کلام




کشتی کو لے کے جائے کنارے پہ دوستو
رستے میں جو ڈبوئے وہ دریا نہیں ہوں میں

مصرع ثانی سے اپنے شعری مجموعے کا عنوان اخذ کرنے والے احمد مسعود قریشی زمانۂ طالب علمی سے ہی کچھ شاعری کی طرف مائل تھے، لیکن 'عروض' کا علم نہ ہونے کی وجہ سے 'کلام' کے اوزان کی خبر نہ تھی، بعد میں انھوں نے شاعری کے اوزان پڑھے، جس کے نتیجے میں ان کی شاعری باقاعدہ منضبط ہوئی؎

لوگوں نے جانے کیسے فسانے بنا لیے
دعوت میں اس کو میں نے بلایا تھا اور بس

وہ لکھتے ہیں کہ 'فیس بک' کی دنیا نے انھیں شاعری کی طرف مائل کیا اور یوں پھر ان کی شاعری اب کتابی صورت میں سامنے آئی ہے۔ ان کے والد مقبول قریشی بھی شاعر اور کالم نگار تھے اور ان کے دو مجموعے کلام بھی شایع ہوئے۔ زیرتبصرہ کتاب 'دریا نہیں ہوں میں' کو اگر ایک دو لفظوں میں بیان کیا تو وہ سہل ممتنع ہوگا، جسے اختیار کرتے ہوئے بہت آسان ڈھب پر مختلف مضامین آراستہ کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر فرحت عباس لکھتے ہیں '' وہ اپنی نفسیات اور خیالات کے امتزاج سے غنائیت سے بھرپور نشاطیہ، حزنیہ اور عشقیہ شاعری کرتے ہوئے ملتے ہیں، ان کے ہاں خیالات کا بہائو روایتی ہوتے ہوئے بھی ہلکی پھلکی جدت کے در کھولتا ہے۔'' 114 صفحاتی اس کتاب کی شروعات حمد ونعت سے ہوتی ہے اور تقریباً کتاب میں غزلیں شامل کی گئی ہیں۔۔۔ پی بی ایچ پرنٹرز، لاہور سے شایع ہوئی ہے، (03218717729) قیمت 300 روپے ہے۔

ماضی کی تلخ وترش بازگشت


بریگیڈیئر محمد اسمعٰیل صدیقی کی آپ بیتی اور خاکوں پر مشتمل دو کتابیں 'لخت لخت داستان' اور 'دھند اور دھنک' راشد اشرف نے 'زندہ کتابیں' کے تحت یک جا کی ہیں۔ مصنف نے شروعات اپنی والدہ سے کی ہے اور ان کی زندگی کا تکلیف دہ احوال بلا کم وکاست بیان کر دیا ہے، اُن کی والدہ کی پُرمشقت زندگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سِل بٹّے پر مسالا پیستے پیستے ان کے ہاتھوں سے خون بہہ بہہ کر مسالے میں ملنے لگتا تھا۔۔۔! اُن کی زندگی کی دیگر تلخیاں اس کے سوا ہیں۔

اس کتاب میں منشی تلوک چند محروم کا تذکرہ بھی ہے، جن سے مصنف کو زانوے تلمذ طے کرنے کا شرف ملا۔۔۔ اُن کی ہندوستان ہجرت کے احوال سے ان کی کلاس میں بٹوارے کے ہنگام میں پیدا ہونے والے کچھ رویے بھی مذکور ہیں کہ کس طرح کچھ جذباتی طلبہ نے حاضری کا جواب دیتے ہوئے 'جے ہند' کہنا شروع کیا تو جواباً مسلمان طلبہ بھی 'لبیک' کہنے لگے۔۔۔ اس طرح اگلے صفحات میں کرنل محمد خان، جنرل شفیق الرحمن، عبدالرحمن چغتائی سمیت 20 سے زائد شخصیات کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔

متحدہ ہندوستان کی بازگشت موجود ہونے کے باوجود مصنف کے سرحد کے اِس طرف ہونے سے 1947ء کے زمانے میں یہاں کی خاصی سن گن ملتی ہے۔ 482 صفحاتی جلد میں پہلی کتاب 288 صفحات تک دراز ہے، جب کہ اگلی کتاب کے مشمولات میں 11 مضامین شامل ہیں، جو ان کی زندگی کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہیں، مختلف جنگی محاذوں سے لے کر بہت سے عالمی تنازعات اور ان کے اثرات پر مواد موجود ہے۔ یعنی اس حصے میں فوجی نظم ونسق اور عسکری زندگی سے لگائو رکھنے والوں کی دل چسپی کا سامان موجود ہے۔ اشاعت کا اہتمام فضلی سنز نے کیا ہے۔ قیمت 700 روپے ہے۔

دو تاریخی وتہذیبی دستاویزات


شاہد احمد دہلوی کی وفات کے بعد 1970ء میں ان کے رسالے 'ساقی' نے 'شاہد احمد دہلوی نمبر شایع کیا، جسے جمیل جالبی نے مرتب کیا، 50 برس پرانی اس تہذیبی دستاویز کو راشد اشرف نے مجلد جامے میں 'زندہ' کیا ہے۔۔۔ جس میں خاص طور پر صاحب زادگان شاہد احمد دہلوی محمود احمد اور مسعود احمد کی یادداشتیں بھی شامل کی گئی ہیں۔

باقی پورا شمارہ وہی ہے، جس کی قدیم کلاسیکی کتابت سے اگرچہ قارئین کو تاریخی شمارے کا عکس تو میسر ہو جاتا ہے، لیکن کہیں کہیں طباعت ہلکی ہونے کے سبب جی چاہتا ہے کہ کاش اس کی ازسرنو برقی کتابت (کمپوزنگ) کرا لی جاتی، تو سونے پہ سہاگہ ہوجاتا۔۔۔ لیکن مجموعی طور پر اس کی طباعت بہترین ہے۔ اس شمارے میں اشرف صبوحی، رازق الخیری، حجاب امتیاز علی، ن۔م راشد، ابوالفضل صدیقی، وقار عظیم، احمد ندیم قاسمی، ماہر القادری، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، ابن انشا، تابش دہلوی، جمیل جالبی، ملا واحدی، حکیم محمد سعید، مختار زمن، اسلم فرخی، سید انیس شاہ جیلانی اور دیگر مشاہیر کے رشحات قلم شامل کیے گئے ہیں۔۔۔ 368 صفحات تک یہ سلسلہ ہے۔

اس کے بعد شاہد احمد دہلوی کی مختلف تحریریں ہیں، جس میں ان کی کتاب 'اجڑے دیار' کے کچھ مضامین، دلی کی بپتا، کچھ خاکے اور چند خطوط بھی اس یادگار شمارے کی زینت ہیں۔ رئیس امروہوی کی شرکت 'قطعہ' کی صورت میں ہے۔ شاہد احمد دہلوی کو دلی اور دلی والوں پر سند قرار دیا جاتا تھا، احباب نے ان کے بچھڑنے کو دلی سے بچھڑ جانے سے تعبیر کیا، کیسی تہذیب اور رکھ رکھائو والی شخصیت تھی کہ جس کے بارے میں پڑھیے تو پڑھتے ہی چلے جائیے۔۔۔ شاہد احمد دہلوی کی دلی اور دلی سے ہجرت تو ایک طرف ان کی فنِ موسیقی سے لگن کو دیکھیے تو یہ بالکل ایک الگ دشا ہے اور پھر ساقی کا ذکر کیجیے تو وہ یک سر ایک الگ ہی باب ہے۔۔۔ فضلی سنز (03353252374، 021-32629724) سے شایع ہونے والی 370 صفحات کی اس ثقافتی اور تہذیبی دستاویز کی قیمت 1600 روپے ہے۔

افکار کے 'جوش نمبر' میں شاہد احمد دہلوی نے بھی جوش ملیح آبادی کا ایک خاکہ لکھا، جس کے جوابی مضمون میں جوش صاحب نے شاہد احمد دہلوی کے والد بشیر الدین اور دادا ڈپٹی نذیر احمد تک کی اردو پر تنقید کر ڈالی۔ پھر اس کے جواب میں شاہد احمد دہلوی نے 'ساقی' کے 'جوش نمبر' کا اہتمام کیا، جو 'زندہ کتابیں' کے تحت دوبارہ شایع ہو چکا ہے۔ اب 'افکار' کا مذکورہ 'جوش نمبر' بھی شایع کیا گیا ہے۔ صہبا لکھنوی کے اس رسالے کی تیاری میں پورا ایک سال صرف ہوا اور اس کی فہرست کے ساتھ یہ جملہ درج کیا گیا ہے کہ 'یہ سارے مضامین، نظم ونثر براہ راست حاصل کیے گئے ہیں اور پہلی بار شایع ہوئے ہیں۔'

جوش صاحب کی نئی نظمیں اور انتخاب بھی اس خاص شمارے کا حصہ ہے۔ اُن کے شعری محاسن پر بھی سیر حاصل کلام موجود ہے۔ جو ش ملیح آبادی اردو ادب کے ایک عہد کا نام تھا، اور اس خاص شمارے کے ذریعے بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔ جا بہ جا جوش کے ہاتھ کے لکھے ہوئے عکسی خطوط بھی اس شمارے کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی، شاہد احمد دہلوی، ماہر القادری، سلام مچھلی شہری، پروفیسر حنیف فوق، جمیل جالبی، خواجہ حمید الدین شاہد، پنڈت سوز ہوشیاری پوری ودیگر کے قلم سے ادا ہونے والے جوش صاحب کے خاکے بھی مشمولات میں شامل ہیں۔ 736 صفحات کی یہ مجلد تاریخی دستاویز بھی 1600 روپے میں دست یاب ہے۔

آثارقدیمہ اور تاریخی مٹرگشت
آپ نے سیاحت، ثقافت، سماجیات اور آثار قدیمہ جیسے مخصوص موضوعات پر دل چسپ مضامین روزنامہ ایکسپریس کے انھی صفحات پر پڑھے ہوں گے، یعنی آپ کے لیے ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری کا نام نیا نہیں ہے۔۔۔ وہ تاریخ کے پنوں سے انھی موضوعات پر نت نئی، غیرمعروف اور بعض اوقات حیرت انگیز معلومات نکال کر لاتے ہیں اور انھیں دل چسپ مضامین میں پروتے ہیں، یہ کتاب ان کے کچھ ایسے ہی مضامین کا مجموعہ ہے۔



دریائے جہلم، ملک کے مشہور پارک، نوروز کا تہوار، چنیوٹ کا تاج محل، پاکستان کی معدوم ہوتی ہوئی زبانیں، برجوں اور فصیلوں میں ڈھلی ہوئی تاریخ وغیرہ جیسے مندرجات پر نگاہ ڈالیے، تو بہ یک وقت یہ ہمارے ملک کے اہم مقامات کی سیر ہی نہیں کراتے، بلکہ طالب علموں کے لیے بھی اہم معلومات فراہم کرتے ہیں، چھوٹی چھوٹی سرخیوں تلے لکھے گئے متن سے بالکل ایسا لگتا ہے کہ جیسے تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے کسی طالب علم کو بہت سہل کر کے چیزیں سمجھائی گئی ہوں۔

ڈاکٹر عظیم شاہ بخاری کی اولین تصنیف کا عنوان صاحبِ کتاب کے 'فیس بک' کے صفحے سے مستعار لیا گیا ہے، کتاب میں شامل 15 مضامین میں دو مضامین بیرون ملک سے متعلق بھی ہیں۔۔۔ 127 صفحاتی کتاب کی قیمت 500 روپے ہے، اشاعت 'علی میاں پبلی کیشنز، لاہور سے ہوئی ہے، کتاب حاصل کرنے کے لیے فون نمبر 03302244374 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Load Next Story