چوہدری خلیق الزماں

 شخصیت اور خدمات تاریخ کے دریچے میں


 شخصیت اور خدمات تاریخ کے دریچے میں

چوہدری خلیق الزماں کی شخصیت اُن قدآور سیاست دانوں میں نمایاں نظر آتی ہے جن کی سوچ اور افکار ان کے دور میں موضوعِ بحث بنے رہے۔

اس مختصر مضمون میں چوہدری صاحب کی زندگی کا مطالعہ ممکن نہیں لیکن ان کی سیاسی کارکردگی کا اجمالی جائزہ اس مضمون کی غرض وغایت ہے، جس میں 1962ء سے 1971ء کا دور نمایاں ہے۔ بنگلادیش کے صدرمملکت کی سرکاری ویب سائٹ پر پاکستان کے قیام کے بعد سے سویلین ادوار میں مشرقی پاکستان میں جو گورنر تعینات رہے ہیں ان کا مختصر پروفائل(Profil) پیش کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں چوہدری خلیق الزماں کے دورِگورنری کو پُرتحسین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

اس میں ان کی ملی زندگی کے آغاز میں ان کی خدمات کا ذکر موجود ہے، جس کی ابتدا ترکی اور یورپ کے درمیان ہونے والی جنگ بلقان سے ہوتی ہے، جس کے دوران چوہدری صاحب ا س میڈیکل مشن میں بحیثیت سیکریٹری شامل تھے جس نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی سربراہی میں ترکی میں دوران جنگ طبی امداد کے لیے کیمپ لگایا تھا۔

مذکورہ ویب سائٹ پر چوہدری خلیق الزماں کے حوالے سے یہ بات بھی درج ہے کہ انہوں نے گورنر ہاؤس میں غیرملکی اشیائے خورونوش پر پابندی عائد کردی تھی اور تواضع کے لیے مقامی اشیاء کے ساتھ ساتھ ''پان'' استعمال کیا جاتا تھا۔ نیز اس دور میں ان کی شریک حیات بیگم زاہدہ خلیق الزماں نے گورنر ہاؤس میں میلادالنبیﷺ کا سلسلہ جاری کیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بحیثیت گورنر ان کے دور میں ہونے والے شفاف انتخابات کے نتیجے میں حکم راں جماعت مسلم لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کی جگہ مختلف جماعتوں کے اتحاد نے صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی تھی۔

اس موقع پر پاکستان کی مرکزی حکومت خاص طور پر گورنر جنرل اسکندر مرزا انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ مرکزی حکومت نے چوہدری خلیق الزماں کو ہدایت کی کہ وہ صوبے میں گورنر راج نافذ کرکے اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیں اور سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کو اقتدار منتقل نہ کریں لیکن اس موقع پر چوہدری خلیق الزماں نے گورنر راج کے نفاذ سے انکار کرتے ہوئے اس اعلیٰ منصب سے مستعفی ہونے کو ترجیح دی تھی۔ انہوں نے اس حوالے سے کہا تھا کہ اگر جمہوریت کو جاری رکھنا ہے تو انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کی روایت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

قیام پاکستان سے قبل تحریک خلافت میں چوہدری خلیق الزماں نے مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں غیرمعمولی خدمات انجام دی تھیں جس کی پاداش میں انہیں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ انڈین نیشنل کانگریس نے جب سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو چوہدری صاحب ان سیاسی قائدین میں شامل تھے جن کو تحریک کے قائد کی گرفتاری کی صورت میں ''آل انڈیا ڈکٹیٹر'' بنایا جاتا تھا جو اپنی گرفتاری تک ان فرائض کو انجام دیتا تھا۔

1937کے انتخابات میں مولانا شوکت علی اور چوہدری خلیق الزماں کی زیرقیادت قائم ہونے والے ''مسلم یونٹی بورڈ'' نے مسلم نشستوں پر بڑی کام یابی حاصل کی تھی جب کہ ان انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح نے چوہدری خلیق الزماں کو مسلم یونٹی بورڈ سے مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی تھی جس کے نتیجے میں ''مسلم یونٹی بورڈ'' کو آل انڈیا مسلم لیگ میں ضم کر دیا گیا تھا، جس کے بعد درحقیقت مسلم لیگ کی نشاط ثانیہ کا وہ دور شروع ہوا جو بالآخر1947میں قیام پاکستان پر منتج ہوا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا شوکت علی اور چوہدری خلیق الزماں کی زیرقیادت مسلم یونٹی بورڈ جس میں تحریک خلافت کی قدآور شخصیات اور کارکنان شامل تھے، آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جس کی وجہ سے مسلم لیگ کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی اور وہ مسلمانوں کی مستحکم سیاسی نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آئی۔

قیام پاکستان کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم لیگ کو دو علیحدہ علیحدہ سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہونا پڑا۔ ہندوستان میں اس کو انڈین مسلم لیگ کا نام دیا گیا جب کہ پاکستان میں یہ پاکستان مسلم لیگ کے نام سے ازسرنو منظم کی گئی جس کے لیے چوہدری خلیق الزماں نے آزادی کے بعد قائم ہونے والی ملک کی اس پہلی سیاسی پارٹی کے چیف آرگنائزر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ بعدازآں چوہدری خلیق الزماں نے انڈونیشیا اور فلپائن میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے تھے۔ فلپائن کی مسلم اقلیت ریاست میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے پاکستان کے سفیر کی خدمات کو لائق تحسین گردانتی تھی۔

انڈونیشیا میں بحیثیت سفیر اپنے قیام کے دوران منعقد ہونے والی تاریخی ہنڈوگ کانفرنس میں چوہدری صاحب نے سیکریٹری کے فرائض انجام دیے تھے۔ اس کانفرنس میں جو اعلامیہ منظور کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں غیرجانب دار عالمی تحریک معرض موجود میں آئی۔ پنج شیلہ کے اصول وضع کیے گئے اور افروایشیائی عوامی استحکام کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا۔ قیام پاکستان میں مسلم لیگ کی صدارت سے فراغت کے بعد چوہدری خلیق الزماں نے پیر علی محمد راشدی، مغرز حسین نقوی وغیرہ کو ساتھ لے کر ''مسلم پیپلز آرگنائزیشن'' قائم کی تھی جس کا مقصد مسلم دنیا میں عوامی سطح پر اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینا تھا۔



1962میں چوہدری خلیق الزماں کی سیاسی زندگی کا ایک اور دور شروع ہوا۔ جب پاکستان میں مارشل لا کے اختتام پر کالعدم سیاسی جماعتوں کی بحالی کا عمل شروع ہوا اور اسی کے ساتھ چوہدری خلیق الزماں کی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ منظرعام پر آئیں۔

ان سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ کی بحالی بھی شامل تھی جو بحالی کے عمل میں دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ چوہدری صاحب کی زیرنگرانی پاکستان مسلم لیگ کے نام سے ایک پارٹی کی تشکیل نو وقوع پذیر ہوئی جو بعدازآں کنونشن مسلم لیگ کے نام سے پکاری گئی، جب کہ دوسری طرف مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس کے فیصلے کے نتیجے میں جو پارٹی بحال ہوئی اسے کونسل مسلم لیگ کے نام سے جانا گیا، جس کے سربراہ خواجہ ناظم الدین منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد ایبڈوEBDO کی پابندی کی بنیاد پر عملی سیاست میں شرکت سے معذور تھی۔

چوہدری خلیق الزماں نے پارٹی کے چیف آرگنائزر کی حیثیت سے مسلم لیگ کو ازسرنو منظم کیا اور پھر صدر ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ کی صدارت سنبھال لی۔ یہ1962ء کا وہ دور تھا جب عالمی طور پر دنیا سرمایہ دار اور اشتراکی بلاکوں میں منقسم تھی۔ سرد جنگ کے اس زمانے میں افروایشیائی نوآزاد ممالک جن کی ایک بڑی تعداد مسلم ممالک پر مشتمل تھی انہی دو بلاکوں سے متاثر تھے۔ مصر، شام، عراق پر سوویت یونین کا اثر نمایاں تھا جب کہ انڈونیشیا کا جھکاؤ بھی کچھ اسی جانب تھا۔ اس کے برخلاف پاکستان، ایران، ترکی وغیرہ وہ ممالک تھے جو امریکا سے قریب تھے۔

لہٰذا پاکستان میں مارشل لا کے خاتمے کے بعد سیاسی نظام کے لیے دو ہی ممکنات موجود تھے، یعنی کہ ترکی کی مثال کو سامنے رکھا جائے جہاں صدر فوج کی حمایت یافتہ ایک انتہائی بااختیار شخصیت ہوتا تھا اور مملکت کا روزمرہ کا نظام چلانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کی ایک پارلیمنٹ بھی موجود تھی، جس میں اکثریتی پارٹی کے راہ نما کو صدر وزیراعظم مقرر کرتا تھا۔ دوسری طرف اس وقت کی صورت حال میں ایک اور آپشن Option یہ تھا کہ صدارتی طرزحکومت میں جو کہ پہلے ہی1962ء کے آئین کی صورت میں رائج ہوچکا تھا صدرِ مملکت ہی کو براہ راست سیاسی پارٹی سے منسلک کردیا جائے، تاکہ ایک بااختیار صدر کی حیثیت سے وہ بذاتِ خود مملکت کے امور کی انجام دہی کے لیے پارلیمنٹ اور عوام کے کے سامنے جواب دہ ہو۔

چوہدری خلیق الزماں کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے صدر ایوب خان کو دوسرے آپشن کے لیے آمادہ کرلیا اور اس طرح پاکستان میں صدارتی طرزحکومت کے حوالے سے صدرمملکت کی شخصیت سیاسی عمل میں شریک ہوگئی۔ ایوب خان کنونشن مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے دوسری پارٹیوں کے راہ نماؤں کے زمرے میں آگئے اور اس طرح ایک شخص جس نے طاقت کے بل بوتے پر پاکستان میں اقتدار حاصل کیا تھا عوام کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ محدود جمہوریت کی یہ صورت حال1969ء تک قائم رہی جب25مارچ کو ایوب خان نے اقتدار فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو منتقل کردیا۔ اس اثناء میں 1965ء کے اوائل میں صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کی متنازعہ کام یابی نے صدرایوب کو ایک بار پھر بیوروکریسی پر انحصار کی جانب مائل کردیا اور سیاسی عمل دوبارہ تعطل کا شکار ہو گیا۔

اس دوران چوہدری خلیق الزماں کنونشن مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اجلاسوں میں اور دیگر مواقع پر ایوب خان کو سیاسی عمل جاری رکھنے اور سیاسی پارٹی کی اہمیت اور عوامی رابطے کی ضرورت کی جانب تواتر سے متوجہ کرتے رہے ۔1968ء کے اوائل میں ایوب خان کو بیماری کے غلبے کی وجہ سے جسمانی کم زوری کا سامنا تھا۔

وہ پہلے سے بھی زیادہ افسر شاہی پر تکیہ کرنے لگے۔ اسی سال ملک میں ایبڈو کی پابندیوں کے خاتمے کے بعد متعدد سیاست داں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ اس وقت چوہدری صاحب نے کنونشن مسلم لیگ کے صدر ایوب خان کو مشورہ دیا کہ وہ پارٹی کی سطح پر قاضی عیسیٰ اور مولانا عبدالماجدبدایونی جیسی عوامی شخصیات پر مبنی ایک سیاسی بورڈ تشکیل دیں جو عوام اور ان کی پارٹی کے درمیان رابطے کو بحال کرے، لیکن اس مشورے پر عمل درآمد نہ ہوا اور1968ء کے اواخر میں ایوب خان اور ان کی حکومت کے خلاف ایک مقبول عوامی ابھار نے جنم لیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے عوام کے مختلف طبقات تک پھیل گیا۔ چوہدری خلیق الزماں کے مسلسل مشورے کے باوجود ایوب خان اپنے خلاف سیاسی ردِعمل کا اپنی پارٹی کی سطح پر جواب دینے کا کوئی پروگرام نہ بنا سکے۔

1969ء میں صورت حال بتدریج سیاسی انارکی، کی طرف گام زن ہوگئی جس کی بنا پر ایوب خان کو ایک جانب سیاسی پارٹیوں کی مہم کا سامنا تھا اور دوسری جانب فوج کے سربراہ یحییٰ خان کے دباؤ کا سامنا تھا جو اپنے لیے اقتدار کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس موقع پر ایوب خان کو سیاسی راہ نماؤں کی گول میز کانفرنس بلانی پڑی اور شدید عوامی مخالفت کی موجودگی میں سیاست دانوں کی کانفرنس میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے آئندہ صدارتی انتخاب سے لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا۔ گول میز کانفرنس کے نتیجے میں جب ایوب خان صدارتی طرزحکومت کے بجائے پارلیمانی طرزحکومت کی بحالی پر آمادہ ہوئے تو چوہدری خلیق الزماں نے کونسل مسلم لیگ اور کنونشن مسلم لیگ کے باہمی انضمام کی تجویز پیش کی کیوںکہ اب دونوں پارٹیوں کے درمیان کوئی اصولی اختلاف باقی نہیں تھا۔

چوہدری صاحب کی اس تجویز کی بھی شنوائی نہ ہوئی بعدازآں جب ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ چوہدری صاحب نے صدارت کے لیے خان عبدالقیوم جیسی مضبوط سیاسی شخصیت کانام تجویز کیا، لیکن ایوب خان نے یہ منصب فضل القادر چوہدری کے حوالے کرنے میں عافیت محسوس کی۔ اس طرح مسلم لیگ کے دونوں دھڑے ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ نتیجتاً مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن صاحبان کو سیاسی کام یابیوں کے لیے میدان خالی مل گیا۔

اسی طرح یحیٰی خان کے برسرِاقتدار آنے کے بعد چوہدری خلیق الزماں مغربی پاکستان کی وحدت کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے حامی نہیں تھے بلکہ وہ اختیار کی مرکزیت کو یونٹوں میں منتقل کرنے کے حامی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ون یونٹ کے قیام کے 15سال بعد اس نظام کی ناکامی اور خامیوں کے سبب اسے تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے تو اس کے نتیجے میں بعض انتہائی اہم سیاسی اور آئینی پیچیدگیاں جنم لیں گی جن کا سہارا لے کر پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کو متاثر کرنے کی بنیاد فراہم ہوسکتی ہے۔

چوہدری صاحب مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان مقامی نظام کو قابل عمل اور اس کو جاری رکھنے کے لیے پیریٹی PARITY ٰیعنی مساوات کے اصول کے سختی سے قائل تھے۔ ان کی رائے تھی کہ مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کی آبادی غیرمسلم آبادی کی وجہ سے قائم ہے جو نمائندگی میں تبدیل ہوتے وقت پاکستان کے قیام کے بنیادی محرکات اور مقاصد پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ ان کی رائے درست ثابت ہوئی اور مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے خاتمے، دونوں بازوؤں کے درمیان پیریٹی کے اصول کو ختم کرکے (ایک آدمی ایک ووٹone man,one vote ) کے اصول کے تحت جب 1970میں عام انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو مشرقی پاکستان میں غیرمسلموں کے ووٹوں کی بنیاد پر شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو غالب اکثریت حاصل ہوگئی۔ مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے خاتمے پر چوہدری خلیق الزماں نے مشرقی پاکستان میں بھی صوبوں کی تجویز پیش کی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ غالباً یہ تجویز پاکستان کو متحد رکھنے کی ایک سیاسی کوشش تھی جسے نظرانداز کردیا گیا۔

بدقسمتی سے سیاست داں اور مقتدر قوتیں چوہدری خلیق الزماں کی آراء کی گہرائی اور ان میں مضمر دوررس نتائج کا احاطہ نہ کرسکیں، تاآنکہ پاکستان دسمبر1970میں دولخت ہوگیا۔ چوہدری صاحب کے لیے یہ صدمہ بہت گہرا تھا۔ ان کی زندگی کے آخری سالوں1972تا1975میں اس صدمے کی بدولت ان کی سیاسی سرگرمیاں محدود رہیں، لیکن اس دوران بھی وہ اپنے بیانات کے ذریعے رائے عامہ کی راہ نمائی کا فریضہ ادا کرتے ہے۔ بنگلادیش کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی قومی بحث کے دوران ان کے یہ تاریخی الفاظ تھے کہ بنگلادیش کو تسلیم کرنے نہ کرنے کا فیصلہ بھی اب باشعور مجمع کرے گا جس نے شیخ مجیب الرحمن کی رہائی کا فیصلہ کیا تھا۔

چوہدری خلیق الزماں 18مئی 1973کو خالق حقیقی سے جاملے، وہ کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں