لاہور کا گورا قبرستان

جہاں ملک کی نمایاں ترین مسیحی شخصیات آسودۂ خاک ہیں۔


جہاں ملک کی نمایاں ترین مسیحی شخصیات آسودۂ خاک ہیں۔ فوٹو: فائل

لاہور شہر کے بڑے اور اہم قبرستانوں میں سے ایک گورا قبرستان بھی ہے۔

جیل روڈ پر واقع یہ قبرستان لاہور کے قدیم مسیحی قبرستانوں میں سے ایک ہے جو برطانوی سام راج کے پنجاب پر قبضے کے بعد معرض وجود میں آیا۔ اس کو مسیحی قبرستان بھی کہا جاتا ہے جہاں برصغیر اور پاکستان کی چند نا مور مسیحی ہستیاں دفن ہیں۔

ان اہم ہستیوں میں مندرجہ ذیل شامل ہیں؛

جیفری ڈگلس لینگ لینڈز؛

بچپن میں پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک ڈوکومینٹری دیکھی تھی جس میں ایک سرخ وسفید بوڑھا چترالی لباس میں نظر آیا۔ میں سمجھا یہ وادی کیلاش کا کوئی فرد ہے لیکن یہ، پاکستان اور چترال کے محسن میجر جیفری تھے جو میڈم روتھ فاؤ کی طرح پاکستان کے لیے رحمت بن کہ آئے تھے۔جیفری ڈگلس لینگ لینڈز 21 اکتوبر 1917ء کو انگلستان کے شہر کنگسٹن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اینگلو امریکن کمپنی میں ملازمت کرتے تھے جب کہ والدہ کلاسیکی رقص سکھایا کرتی تھیں۔ 1918ء میں جیفری کے والد ہسپانوی فلو سے انتقال کر گئے۔ والد کے انتقال کے چند سالوں بعد والدہ بھی سرطان کا شکار ہوکر فوت ہوگئیں تو جیفری اور اُن کا بھائی اپنے نانا کی سرپرستی میں آگئے۔

نانا کے مرنے کے بعد ایک قریبی عزیز نے اِن کی سرپرستی کی اور جیفری کو کنگز کالج، ٹانٹن میں داخل کروا دیا گیا۔

18 سال کی عمر میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جیفری نے بطور معلم، لندن میں حساب اور سائنس پڑھانا شروع کیا۔ اسی دوران جب دوسری جنگ عظیم کی ابتدا ہوئی تو جیفری برطانوی فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے اور جنوری 1944ء میں بطور کمانڈو، برطانوی ہند آگئے۔ یہاں بنگلور میں قیام کے دوران ہنگامی طور پر سیکنڈ لیفٹننٹ کے عہدے پر فائز ہوئے اور پھر دہرہ دون چلے گئے۔

تقسیم ہند کے بعد میجر جیفری نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں آکر وہ راولپنڈی میں پاک فوج سے منسلک ہوگئے۔ انہوں نے پاک فوج کے انسٹرکٹر کے طور پر چھے سال تک ذمے داریاں سرانجام دیں۔ جب برطانوی فوج نے پاکستان سے کیے گئے معاہدے کے تحت ملک چھوڑا تو صدر پاکستان محمد ایوب خان کی فرمائش پر جیفری پاکستان ٹھہر گئے اور یہیں لاہور میں ایچیسن کالج میں بطور معلم ریاضی اور سائنس پڑھاتے رہے۔ یہاں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور چوہدری نثار بھی آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔ اس ادارے سے وہ 25 سال منسلک رہے۔ اپریل 1979ء میں صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ کی فرمائش پر شمالی وزیرستان کے کیڈٹ کالج رزمک میں بطور پرنسپل چارج سنبھالا۔ یہاں آپ کو شرپسند عناصر نے اغوا کرلیا لیکن کچھ دنوں بعد بغیر کسی نقصان کے چھوڑ دیا گیا۔



آزاد ہونے کے بعد 1989 میں ہندوکش کا شہر چترال آپ کی منزل ٹھرا۔ یہاں ایک ڈپٹی کمشنر کے بنائے گئے پہلے نجی اسکول میں آپ نے پڑھانا شروع کیا جس کا نام بعد میں آپ کے اعزاز میں ''لینگ لینڈ اسکول و کالج'' رکھ دیا گیا۔

یہاں آپ کی الوداعی تقریب کے دن تقریباً پورا شہر وادی میں اکٹھا ہوا اور سب نے ڈھیروں تحائف اور دعائیں دے کر بھاری دل سے آپ کو الوداع کہا۔ یہاں سے آپ 2012 میں ایچیسن کالج واپس چلے آئے۔جیفری 101 سال کی عمر میں، 2 جنوری 2019ء کو لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ انہیں اُن کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے نشان امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا۔ملک پاکستان کی نسلوں کی تعلیم و تربیت برطانوی راج کے اس آخری بوڑھے کی مقروض رہے گی۔

پرنسس بمبا سدرلینڈ؛

گورا قبرستان کی سب سے منفرد قبر شہزادی بمبا کی ہے جس پر دور سے ہی خالصہ راج کا نشان واضح نظر آتا ہے۔ بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ مسیحی قبرستان میں سکھ شہزادی کی قبر کیا کر رہی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

1869 کو مہاراجا دلیپ سنگھ کے گھر لندن میں پیدا ہونے والی شہزادی بمبا کا پورا نام بمبا صوفیہ جنداں دلیپ سنگھ تھا۔ آپ سکھ سلطنت کے مہاراجا رنجیت سنگھ کی پوتی اور لاہور میں وفات پانے والی سکھ سلطنت کی آخری نشانی تھیں۔

شہزادی بمبا کے والد مہاراجا دلیپ سنگھ، سکھ سلطنت کے خاتمے کے بعد انگریزوں کی طرف سے لندن جلاوطن کردیے گئے تھے جہاں ان کی پرورش ایک عیسائی کے طور پر کی گئی۔ اپنی والدہ مہارانی جنداں کور کے دیہانت کے بعد جب وہ ان کی آخری رسومات ادا کرکے ہندوستان سے واپس برطانیہ جا رہے تھے، تو راستے میں کچھ دن مصر میں ان کا قیام ہوا۔

یہاں قاہرہ کے ایک مشنری اسکول میں پڑھانے والی ''بمبا مولر'' سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ دلیپ سنگھ اپنے لیے عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی ایک مشرقی بیوی چاہتے تھے۔ بمبا کی ہاں کے بعد مصر کے شہر اسکندریہ میں برطانوی قونصل خانے میں چند گواہان کی موجودگی میں دونوں نے شادی کرلی اور برطانیہ منتقل ہوگئے۔ اِسی لیے شہزادی بمبا کی پرورش اور ابتدائی تعلیم بھی عیسائیت کی طرز پر مشنری اسکول میں ہوئی۔ 1887ء میں بمبا کی والدہ بمبا مولر گردے کے عارضے میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئیں۔

شہزادی بمبا نے اس دوران ہندوستان کے کئی دورے کیے جس میں وہ لاہور اور شملہ بھی گئیں۔ وہ 1915 میں قیامِ پاکستان سے قبل ہی لاہور منتقل ہوگئی تھیں جہاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیوڈ واٹر سدرلینڈ سے ان کی شادی ہوئی۔ 1938 میں ان کی وفات کے بعد بمبا لاہور میں تنہا رہ گئیں۔ وہ اپنی ماضی کی شان و شوکت کو بہت یاد کرتی تھیں۔

آپ کو گلاب کے پھولوں سے بہت محبت تھی۔ گھر میں ایک گلاب کا باغ بھی لگوایا تھا اور یہ وصیت بھی کی تھی کہ میری قبر پہ وقتاً فوقتاً گلاب کے پھول رکھے جائیں۔آپ نے اپنی عمر کے آخری ایام ماڈل ٹاؤن میں اپنی رہائش گاہ پر ضعیفی و کم زوری میں گزارے۔ آخری دنوں میں آپ کو نظر کا مسئلہ اور فالج کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔ طویل علالت کے بعد 1957 میں آپ نے وفات پائی اور اسی گورا قبرستان میں دفن ہوئیں۔



کہا جاتا ہے کہ اُن کے پاس سکھ سلطنت سے متعلق بہت سے نوادرات و دستاویزات تھیں جو اْنہوں نے قلعہ لاہور کی سکھ گیلری کے لیے عطیہ کردی تھیں۔آپ کی قبر کے کتبے پر یہ الفاظ تحریر ہیں۔

There lies in eternal peace

The princess bamba sutherland

Eldest Daughter of

Maharaja Dleep Singh

And grand daughter Of

Maharaja Ranjit Singh of Lahore

فرق شاہی و بندگی برخاست چوں قضائے نوشتہ آید پی

گر کسے خاک مردہ باز کند نہ شنا سد تونگر از درویش

The difference between royalty and servility vanishes,The moment the writing of destiny is encountered,If one opens the grave,None would be able to discern rich from poor

سیسل چوہدری؛

سیسل چوہدری ان شخصیات میں سے ہیں جن کا نام ہم 6 ستمبر اور 23 مارچ جیسے دنوں میں اکثر سنتے رہتے ہیں۔

مشہور پریس فوٹوگرافر ایف ای چوہدری (فاؤسٹن ایلمر) کے ہاں اگست 1941 میں ضلع چکوال کے علاقے ڈلوال میں پیدا ہونے والے سیسل، اس خطے مزاج کے مطابق بچپن سے ہی فوج میں جانے کا شوق رکھتے تھے۔ آپ کے والد ایک فوٹوگرافر کے ساتھ ساتھ حساب اور طبیعات کے استاد بھی تھے۔

سینٹ انتھونی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیسل نے فورمن کرسچن کالج لاہور سے فزکس میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد 1958 میں آپ نے پاکستان ایئر فورس اکیڈمی کے انجنیئرنگ پروگرام میں داخلہ لیا اور ڈبل بی ایس سی ڈگری سمیت فائٹر پائلٹ بن کر نکلے۔

آْپ کا پہلا امتحان پینسٹھ کی جنگ تھی جس کے کئی اہم معرکوں میں آپ نے بھرپور حصہ لیا اور بھارت کے تین جہاز مار گرائے۔ ایک مرتبہ بھارت کی فضا میں لڑے جانے والے ایک معرکے میں سیسل چوہدری کے جہاز کا ایندھن بہت کم رہ گیا۔ سرگودھا ایئربیس تک واپسی ناممکن تھی۔ جہاز کو محفوظ علاقے میں لے جاکر اس سے پیراشوٹ کے ذریعے نکلا جا سکتا تھا مگر ایک ایک جہاز پاکستان کے لیے قیمتی تھا۔ حاضردماغ سیسل نے ایک انتہائی جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ بچے کھچے ایندھن کی مدد سے جہاز کو انتہائی بلندی تک لے گئے اور پھر اسے گلائیڈ کرتے ہوئے سرگودھا میں اتار دیا۔ اس سے پہلے کسی پاکستانی ہواباز نے جنگی جہاز کو گلائیڈ نہیں کیا تھا۔ اس جنگ میں سیسل چوہدری کے دلیرانہ کارناموں کے اعتراف میں انہیں ستارۂ جرات دیا گیا۔

1971 میں سیسل چوہدری جنگ کے لیے سرگودھا ایئربیس پر تعینات تھے۔ بھارتی حدود میں ایک مشن کے دوران سیسل چوہدری کے جہاز میں آگ لگ گئی۔ سیسل نے پیراشوٹ کی مدد سے چھلانگ لگادی اور عین پاک بھارت سرحد پر بارودی سرنگوں کے میدان میں اترے۔ انہیں پاکستانی مورچوں تک پہنچنے کے لیے محض تین سو گز کا فاصلہ طے کرنا تھا۔



اس علاقے سے ان کا زندہ نکل آنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ پاکستانی فوجیوں نے انہیں فوراً اسپتال پہنچا دیا کیوںکہ ان کی چار پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں مکمل آرام کرنے کا حکم دیا مگر وہ اپنے بھائی کی مدد سے رات کی تاریکی میں اسپتال سے فرار ہو کر اپنی بیس پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان ٹوٹی ہوئی پسلیوں کا درد سہتے ہوئے سیسل چوہدری نے 14 فضائی معرکوں میں حصہ لیا۔ اس مرتبہ انہیں ستارۂ بسالت دیا گیا۔ پھیپڑوں کے سرطان کی وجہ سے 3اپریل 2012ء کو لاہور میں آپ کا انتقال ہوا۔

ایک ہواباز کے علاوہ آپ نے ماہرتعلیم کے طور پر پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور پرنسپل سینٹ انتھونی کالج کے طور پر بھی کام کیا۔ آپ پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کے طور پر جانے جاتے تھے۔

الفریڈ کوپر وولنر؛

مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی کے باہر چبوترے پر کتاب اٹھائے ایک شخص کا مجسمہ نصب ہے جس کے نیچے ان کا نام اور تاریخ پیدائش و وفات بھی درج ہے۔ یہ الفریڈ کوپر وولنر ہیں، جامعہ پنجاب کے نائب چانسلر اور ماہرلسانیات۔

1878 کو انگلینڈ میں پیدا ہونے والے الفریڈ کوپر نے آکسفورڈ کے ٹرینٹی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ وولنر سنسکرت کے مشہور محقق تھے جو 1902 سے 1928 تک جامعہ پنجاب لاہور میں کتب خانے کے انچارج کے طور پر کام کرتے رہے۔ 1903میں آپ کو رجسٹرار بنایا گیا اور 1928 میں آپ اسی جامعہ کے نائب چانسلر بن گئے۔ اس عہدے پر 1931 تک فائز رہے۔ 1933 میں آپ نے ''انڈین لائبریری ایسوسی ایشن'' کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر کے طور پر کام کیا۔

آپ کے اعزاز میں پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں ہزاروں کی تعداد میں موجود سنسکرت و ہندی مخطوطات کے مجموعے کو آپ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ نیز 1937 میں آپ کا کانسی سے بنایا گیا مجسمہ بھی فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے باہر مال روڈ پر نصب کیا گیا تھا جو تقسیم کے بعد لاہور میں باقی رہ جانے والا برطانوی سام راج کا واحد مجسمہ ہے۔آپ کی وفات 1936 میں نمونیا کے باعث ہوئی۔

ایلون رابرٹ کارنیلیئس؛

لاہور کی کینال روڈ پر سفر کرتے ہوئے ایک انڈرپاس آتا ہے جو ''کارنیلیئس انڈرپاس'' کہلاتا ہے لیکن افسوس کہ ہم میں سے بہت سوں کو اس شخصیت کے نام کے علاوہ اور کچھ نہیں معلوم۔

متحدہ صوبہ جات میں 1903 کو پیدا ہونے والے رابرٹ کارنیلیئس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس تھے۔ آپ ایک مشہور ماہرِقانون اور فلاسفر تھے۔

آگرہ کی اینگلو انڈٰین فیملی میں پروفیسر کارنیلیئس کے ہاں پیدا ہونے والے رابرٹ، اِلہٰ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد کیمبرج چلے گئے۔ واپس آ کر سول سروس جوائن کی اور بطور اسسٹنٹ کمشنر بھرتی ہوئے۔اس کے بعد آپ نے پنجاب حکومت کا محکمہ قانون جوائن کیا۔ اس دوران آپ نے قانون پر کچھ کتابیں بھی لکھیں۔

تحریک پاکستان میں آپ نے بڑھ چڑھ کہ حصہ ڈالا۔ 1946 میں آپ لاہور ہائی کورٹ کے ایسوسی ایٹ جج بنے اور اس کے بعد پاکستان کے وزیرقانون جوگیندر ناتھ منڈل کے سیکریٹری۔ اس دوران آپ نے دن رات ایک کر کے پاکستان کے عدالتی نظام کا ڈھانچا مرتب کیا۔

1949 سے 1953 تک آپ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرپرسن کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

1960 میں جنرل ایوب خان نے آپ کو پاکستان کا پہلا مسیحی چیف جسٹس منتخب کیا۔ اس سیٹ پر آْپ 1968 تک رہے اور اس کے بعد 1969 سے 71 تک جنرل یحییٰ خان کی حکومت میں وزیرانصاف و قانون رہے۔

88 سال کی عمر میں 1991 میں آپ نے لاہور میں آخری سانس لی۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کو ''ہلالِ پاکستان'' سے نوازا۔



دیوان بہادر سنگھا؛

آپ پاکستان کے مشہور سیاست داں تھے جو تقسیم سے پہلے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے تھے۔ 1893 میں سیالکوٹ کے شہر پسرور میں آنکھ کھولنے والے سنگھا کے دادا بہاری جب کہ دادی بنگالی تھیں۔

آپ نے شروع میں پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار کے طور پر کام کیا۔ یہ آپ ہی کی کوششیں تھیں کہ پاکستانی نظام تعلیم میں میٹرک اور انٹر کی ڈگریاں شامل کی گئیں۔ آپ کی انہی خدمات پر آپ کو ''دیوان بہادر '' کے خطاب سے نوازا گیا۔

اقلیتوں سے متعلق قائداعظم کے خیالات سے آپ بہت متاثر تھے۔ آپ کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ جب 1940 کی قرارداد لاہور منظور ہوئی تو آپ وہاں موجود تھے۔

ایس پی سنگھا نے ''آل انڈیا کرسچین ایسوسی ایشن'' کے پلیٹ فارم سے قائد کو یقین دلایا کہ پاکستان کی آزادی میں وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

آپ کا علی الاعلان یہ کہنا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت پورے ملک میں مسیحیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ گنا جائے۔

آپ نے جناح کو اپنا لیڈر تسلیم کیا اور قائداعظم نے بھی مسیحیوں کو تحفظ کا یقین دلایا۔

تقسیم کے قریب آپ کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر چنا گیا جہاں آپ نے شدت سے پنجاب کی تقسیم اور اس کی پاکستان میں شمولیت کی حمایت کی۔

جون 1947 کے اجلاس میں جب ایک سکھ لیڈر نے کرپان لہرا کر کہا کہ وہ ہر اس شخص پر حملہ کرے گا جس نے پنجاب کے پاکستان سے الحاق کے حق میں ووٹ دیا تو سنگھا نے کہا کہ وہ پھر بھی اپنا ووٹ پاکستان کے حق میں دیں گے۔

اس ہنگامے کے بعد جب نتیجہ آیا تو متحدہ پنجاب کی اسمبلی نے 88 کے مقابلے 91 ووٹوں سے پنجاب کا پاکستان سے الحاق منظور کرلیا اور یوں مسلم لیگ اور قائداعظم کی جیت ہوئی۔یہ تین ووٹوں کی برتری دیوان بہادر سنگھا اور ان کے ساتھی مسیحی نمائندوں کی وجہ سے تھی اس لیے یہ ان کا پاکستان پر احسان عظیم ہے۔

پاکستان بننے کے بعد دیوان بہادر سنگھا بھی ایک مہینے کے وقفے سے 1948 کی خزاں میں انتقال کر گئے۔

حکومت پاکستان نے آپ کی یاد میں 2016 میں ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا تھا۔

مسز اے ایس نتھینیل؛

عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی اے ایس نتھینیل، وہ پاکستانی نرس تھیں جنہوں نے کوئٹہ کے قریب واقع زیارت ریذیڈنسی میں قائدِاعظم محمد علی جناح کے آخری ایام میں ان کی نرس کے فرائض سرانجام دیے تھے۔ یہ قائد کی آخری خدمت گار تھیں۔

مسز نتھینیل کو 1938 میں محکمہ صحت میں بھرتی کیا گیا تھا اور 1948 میں قائداعظم کی خدمات و تیمارداری کے لیے خصوصی طور پر ان کو چنا گیا تھا۔

آْپ 1980 میں ریٹائر ہوئیں۔ کوئٹہ کے رہائشی سالس نتھینیل آپ کے شوہر تھے جن سے آپ کے تین بچے ہوئے، ڈاکٹر وکٹر نتھینیل، ڈاکٹر مورین کرسٹی منیر اور کیتھ صادق نتھینیئل۔

محترمہ اے ایس نتھینیئل کو ان کی خدمات کے اعتراف میں اس وقت کے صدر پاکستان، جناب رفیق تارڑ صاحب کی جانب سے تمغہ امتیاز دیا گیا۔ 6 اکتوبر ، 2013 کو ان کا انتقال ہوگیا اور انہیں لاہور روڈ کے مسیحی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔

سنگِ مرمر سے بنی آپ کی قبر کا کتبہ بھی آپ کی خدمات کا گواہ ہے۔

یہ تھے اس قبرستان میں سپرد خاک چند نادر و نایاب نگینے۔ یہاں اداکار شان کی والدہ نیلو کی قبر بھی موجود ہے۔ان کے علاوہ بھی یقیناً اور بہت سی اہم ہستیاں یہاں دفن ہوں گی جن کے کاموں پر اب شاید گرد جم چکی ہے۔

گورا قبرستان میں مسلمانوں کے داخلے اور تصاویر بنانے کے لیے خصوصی اجازت نامہ درکار ہے۔ اس لیے جانے سے پہلے اجازت نامہ ضرور حاصل کیجیے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں