جلیاں والا باغ سے باغ باہو تک
جنگ کے خاتمے کے بعد ایک ایسے کالے قانون کا نفاذ انگریز حاکموں کی فرعونیت کے سوا اور کچھ نہیں کہلا سکتا تھا۔
عام دستوری طریقہ یہ ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد جب دشمن کا خطرہ ٹل جاتا ہے تو حکومت زمانہ جنگ کے سخت قوانین اور ضابطوں کو نرم کردیتی ہے اور عوام پر سے بہت سی پابندیاں اٹھا لیتی ہے۔
عوام بھی اس دوران کوئی ایسی بڑی تحریک نہیں چلاتے جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔ دسمبر 1918ء میں مسلم لیگ نے بھی ایک مرتبہ پھر وضاحت کردی تھی کہ وہ خلافت اور مقامات مقدسہ کا تحفظ ضرور چاہتی ہے۔ برطانوی حکومت کے خلاف نہیں ہے مگر فتح کے نشے میں سرشار انگریز کچھ اور سوچ رہے تھے۔
انہوں نے بدامنی کی روک تھام کرنے کے لیے جسٹس رولٹ کی سر براہی میں ایک کمیشن مقرر کیا۔ اس کی سفارشات پر ضابطۂ فوجداری کے دو ترمیمی بل 6فروری 1919ء کو مرکزی کونسل میں پیش کردیے گئے۔ ان کی رو سے اپنی معصومیت ثابت کرنا اس ملزم کی ذمے داری تھی جس کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ اس پر بہت احتجاج کیا گیا لیکن حکومت نے 23مارچ 1919ء کو اسے منظور کرالیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد ایک ایسے کالے قانون کا نفاذ انگریز حاکموں کی فرعونیت کے سوا اور کچھ نہیں کہلا سکتا تھا۔ قائداعظم ؒ نے جو اس وقت مرکزی کونسل کے ممبر تھے حکومت کو وارننگ دی تھی کہ ''اگر یہ بل پاس ہو گیا تو تم اس ملک میں ایسی خطرناک شورش پیدا کرو گے جس کی مثال اس سے پہلے نہ دیکھی گئی ہو۔'' بل پاس ہوجانے کے بعد قائداعظم نے 28مارچ 1919ء کو مرکزی کونسل سے استعفیٰ دے دیا۔ ایک اور ممتاز مسلمان لیڈر مظہرالحق بھی کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ قائداعظم ؒ نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ ایسی حکومت جو حالت امن میں ایسا قانون پاس کرتی ہے مہذب کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔
رولٹ ایکٹ حکومت کی بدعہدی کا ایک نشان اور ایجی ٹیشن کا فوری نشانہ بن گیا۔ ابھی یہ بل کونسل میں زیربحث ہی تھا کہ گاندھی جی نے اس کے خلاف پُرامن جدوجہد (ستیہ گرہ) کا ایک نیا اور اچھوتا طریقہ پیش کردیا۔ 24فروری کو 25 لیڈروں کی ایک کانفرنس ہوئی جنہوں نے سیتا گرہ کے حلف نامے پر دستخط کردیے اور چند ہفتوں میں ہزاروں جلسوں میں اس حلف نامے کو دہرا یا گیا۔ قائداعظمؒ کے مرکزی کونسل سے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی گاندھی جی نے اعلان کردیا کہ 30مارچ کو (جو اتوار تھا) ملک بھر میں ہڑتال کی جائے اور جلسے منعقد کیے جائیں۔
پھر اس خیال سے کہ وقت بہت کم تھا ہڑتال اور احتجاج کا پروگرام اس سے اگلے اتوار (6اپریل ) تک ملتوی کردیا گیا، لیکن تقریباً تمام بڑے شہروں میں دونوں دن ہڑتال ہوئی اور احتجاجی جلسے ہوئے دہلی میں 30 مارچ کے جلوس کا پولیس سے تصادم ہوگیا دو دن بعد ایک جلوس کی قیادت سوامی شردھا نند نے کی جس نے انگریز سپاہیوں کے سامنے اپنا سینہ ننگا کیا اور آگے بڑھ کر کہا کہ پہلے مجھے گولی مارو، اگلے دن مسلمان اس کو کندھوں پر اٹھا کر شاہی مسجد دہلی لے گئے جہاں منبر پر کھڑے ہو کر اس کی تقریر سنی۔ چودھری خلیق الزماں اس حرکت کو ''احمقانہ جوش'' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
لاہور میں بھی دونوں دن ہڑتال ہوئی اور پرامن جلوس نکلے اس کے بعد 19اپریل کو ہندوؤں کا رام نومی کا تہوار تھا۔ اس دن پھر دکانیں بند رہیں اس دن کا جلوس مذہبی کم اور سیاسی زیادہ تھا۔ اس میں مسلمان بھی شریک ہوئے۔ ہندو مسلم اتحاد کے جذبات دلوں سے ابل رہے تھے۔ لاہور کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس جلوس میں ہندو اور مسلم عوام ایک ہی برتن میں پانی پی کر اور ایک ہی برتن سے پوریاں اور مٹھائی کھا کر ''ہندو مسلم ایک ہیں'' کے نعرے لگا رہے تھے۔
برصغیر کے دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی پُرامن مظاہرے ہوتے رہے لیکن یہاں ایک سرپھرے اور جابر گورنر مائیکل اور ڈائر کی حکومت تھی جس کے اندر سام راجیت کا جذبہ جنون کی حد تک موجود تھا۔ اس کا چیف سیکرٹری بھی اسی ذہنیت کا انگریز تھا وہ اس ''روایتی وفاداروں'' کے صوبے میں ایجی ٹیشن برداشت نہ کر سکے اور غیرضروری سخت گیری پر تل گئے۔
گاندھی جی پنجاب کا دورہ کرنے کے لیے پنجاب کی مشرقی سرحد کے آخری ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو ان کو پولیس کی حراست میں بمبئی واپس بھیج دیا گیا۔ ان کی گرفتاری کی خبر سے تمام ملک میں شورش پیدا ہوگئی۔ اگلے دن 10اپریل کو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے دو بڑے لیڈروں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیا پال کو اپنے بنگلے پر بلایا اور فوراً گرفتار کرکے دھرم شالہ روانہ کردیا۔ اس پر ایک مشتعل ہجوم ڈپٹی کمشنر کے بنگلے کی طرف چل پڑا۔
راستے میں فوج نے اس پر گولی چلائی۔ غصے میں بھرے ہوئے لوگوں نے شہر میں پانچ انگریز قتل کردیے دو بینک لوٹ لیے اور چار عمارتوں کو آگ لگادی۔ اس پر ڈویژن کمشنر لاہور نے امرتسر کو فوج کے حوالے کر دیا جس کے کمانڈر کا نام بھی جنرل ڈائر تھا۔ اس نے 12اپریل کو شہر میں جلسے اور جلوس پر پابندی لگا دی مگر اس حکم کا جگہ جگہ اعلان نہ کیا۔ اس کے علاوہ اس نے 24گھنٹے شہر میں پانی اور بجلی کی سپلائی بند رکھی۔
13اپریل کو تیسرے پہر جلیاں والاباغ میں جلسہ عام کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ یہ کوئی باغ نہ تھا بلکہ اونچی نیچی دیواروں سے گھر ا ہوا ایک نیچا اور خالی میدان تھا اور باہر نکلنے کے صرف چند راستے تھے۔ اس روز ہندوؤں کا بیساکھی کا تہوار تھا جس میں شرکت کے لیے ہزاروں بے خبر دیہاتی امرتسر آئے اور جلسے میں شریک ہوگئے۔ مجمع کی تعداد 6 سے 10ہزار تک تھی۔ جب جنرل ڈائر کو جلسے کی اطلاع ملی تو وہ فوراً فوج کا ایک دستہ جو 90 سپاہیوں پر مشتمل تھا لے کر جلیاں والا باغ پہنچا اور اس کو اونچی جگہ کھڑا کر کے گولی چلانے کا حکم دے دیا۔
فائرنگ کا رخ مجمع کے گنجان حصوں کی طرف رہا اور فائرنگ اس وقت بند ہوئی جب گولیاں ختم ہوگئیں۔ یہ فائرنگ دس منٹ جاری رہی، 1605گولیاں چلائی گئیں جن سے سرکاری بیان کے مطابق 379 لوگ ہلاک اور 1200زخمی ہوئے۔ دوسرے لوگوں کے مطابق ہزاروں افراد ہلاک ہوئے کرفیو کا وقت ہو چکا تھا سیکڑوں زخمی رات بھر وہیں پڑے کراہتے رہے۔ کسی کو جرأت نہ تھی کہ زخمیوں کی امداد کی خاطر کرفیو کی خلاف ورزی کرتا زخمیوں کی طبی امداد کے لیے بھی کوئی انتظام نہ کیا گیا۔
جلیاں والا باغ میں جنرل ڈائر کی بر بریت ایک پہلے سے طے کیا ہوا منصوبہ تھی۔ ڈائر نے تین غلطیاں کیں اول یہ کہ مجمع کو گولی چلانے سے پہلے منتشر ہوجانے کا حکم نہ دیا، دوسرے گولیاں بہت دیر تک چلتی رہیں اور تیسرے اس نے لوگوں کو ایک گلی میں سے رینگ کر گزرنے کا حکم دیا۔ چھے ماہ بعد ہنٹر کمیٹی نے اس کو قصوروار گردانا اور ملازمت سے فارغ کردیا۔ تاہم بعد میں اس کو پنشن دے دی گئی۔ اس پر فالج کا حملہ ہوا جس سے 23جولائی 1927ء کو وہ مرگیا۔ پنجاب کے گورنر اور ڈائر کو 1940ء میں ایک انقلاب پسند سکھ اودھم سنگھ نے لندن میں قتل کردیا۔ اس نے جرم کا اعتراف کیا اور اپنا نام رام محمد سنگھ بتایا۔
امرتسر پر موت کی خاموشی چھا گئی لاہور میں بھی مظاہروں کا زور ختم ہوچکا تھا۔ تاہم 15اپریل کو پنجاب میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور لوگوں کو ذلیل اور پریشان کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی۔ مسلمانوں نے خاص طور پر نقصان اٹھایا مرید کے اور کامونکی جیسے گاؤں پر فضاء سے بم باری کی گئی اور مسلمان قیدیوں کو سر عام کوڑے لگائے گئے۔
جلیاں والا باغ کے حادثے میں مسلمان بھی مارے گئے تھے، لیکن ہندوؤں نے اس کو صرف اپنا مسئلہ بنالیا جس سے ان کے جذبات بے انتہا مشتعل ہوگئے۔ عاشق حسین بٹالوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ''سانحہ جلیاں والا باغ نے پنجاب کو آگ اور خون کے ایسے سیلاب میں غوطہ دیا جس کے سحر آفریں اور انقلاب انگیز اثر سے ایک نیا ملک اور نئی قوم پیدا ہوئی۔''
ٹنگروٹ
جہلم شہر سے شمال کی جانب 23 میل اور پرانے میرپور شہر سے مغرب کی جانب سات میل کے فاصلے پر دریائے جہلم اور پونچھ کے سنگم پر واقع موضع ٹنگروٹ جو اب منگلا ڈیم کے شمال مغربی دہانے پر واقع ہے اگرچہ دور دراز و پس ماندہ علاقہ تھا مگر اپنے محل وقوع کے اعتبار سے 1967ء میں منگلا ڈیم بننے اور زیرآب آنے تک ایک انتہائی پر فضاء اور روحانی مقام کی حیثیت سے مشہور تھا عرصہ گزرنے کے باوجود اپنی ڈہوک کے تمام مناظر میری لوح حافظہ پہ منعکس رہتے ہیں۔
آپ کو راہ گزر چاہیے تھی سو ہم نے
اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا گھر ضائع کیا
ٹنگروٹ TANGROTEکی وجہ تسمیہ کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ البتہ ڈھنگ اور ٹنگ کے علاوہ ''رَوٹ Roat'' یا رُوٹ Route کے معنی بہت واضح ہیں جب کہ ٹنگروٹ اور ڈھنگروٹ دونوں مستعمل نام رہے ہیں جب کہ رفتہ رفتہ ڈھنگروٹ موقوف اور ٹنگروٹ معروف ہوگیا ہے۔
ڈھنگ کے معنی سلیقہ اور رَوٹ کے معنی بڑے سائز کی روٹی کے ہیں۔ اسی بنیاد پر حضرت ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ ٹنگروٹ کی بستی میں بظاہر ذریعہ معاش کے اسباب مفقود تھے جس کے باعث اہالیان ٹنگروٹ ڈھنگ سے گزراوقات کرتے شاید اسی مناسبت سے بستی کا نام ڈھنگروٹ پڑگیا ہو، یعنی ایسی بستی جس کے مکین بہت ڈھنگ اور جتن سے رزق حلال کماتے اور گزر بسر کرتے آئے ہیں۔
ٹنگ دراصل ٹانگ کے معنی میں اور ہندی میں مستعمل ہے جب کہ رُوٹ Routeجو اگرچہ انگریزی کا لفظ ہے مگر اردو، ہندی اور پنجابی و پوٹھوہاری میں بھی مستعمل ہے لہٰذا یہی قرین قیاس ہے کہ جہلم سے ٹنگروٹ تک پیادہ راستے کے باعث اسے ٹنگرُوٹ کہا جانے لگا ہو پھر مرور ایام کے ساتھ ساتھ تلفظ بدل گیا ہو۔
میرے اس قیاس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کہ اس زمانے میں دینہ سے براستہ منگلا میرپور کے لیے سڑک نہیں تھی اور ٹنگروٹ کے لیے جہلم سے براستہ سرائے عالم گیر برلب نہر سڑک کے علاوہ متبادل روٹ نہیں تھا۔
چوںکہ ٹنگروٹ ضلع جہلم اور کشمیر کی معروف دینی شخصیات حضرت خواجہ حافظ محمد حیات المعروف حضرت اول رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ حافظ محمد علی المعروف حضرت ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضر ت مولانا حافظ محمد فاضل المعروف حضرت ثالث رحمۃ اللہ علیہ کا مقام پیدائش ہے۔
اہلِ ٹنگرو ٹ اور جنرل ڈائر
جنرل ڈائر تاریخ کی وہ ظالم ترین شخصیت The Butcher of Amritsarکے نام سے مشہور ہے، جس نے 13اپریل 1919جلیاںوالہ باغ پنجاب میں انسانیت کا قتل عام کرایا تھا۔ اس واقعے میں دو ہزار ہندو، سکھ اور مسلمان مارے گئے تھے۔ اس واقعے سے پہلے ڈائر اپنی بیوی کے ساتھ پشاور تعینات تھا مگر وہاں اس کی بیوی خوش نہ تھی جس کی بنا پر اس کا تبادلہ جہلم چھاؤنی میں کر دیا گیا۔
ڈائر شکار کا بہت شوقین تھا، اس لیے گولیاں برساتے ہوئے اس کے سامنے انسان اور جانور برابر تھے جہلم تعیناتی کے دوران پونچھ کے راجا کی دعوت پر ماہ اپریل میں ڈائر جب اپنی بیوی سمیت پونچھ پہنچا تو راجا نے شیر کے شکار کے لیے ماہر شکاری اور مہاوت سمیت ہاتھی مہیا کیے اب شکار کے دوران شیر کے جوابی حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک شکاری مارا گیا۔ ہاتھی بھاگ نکلے مہاوت خود بھی گر کر زخمی ہو گیا اور ساراپروگرام چوپٹ ہو گیا۔
اپریل میں مقامی موسم بہت سرد اور برفباری کے باعث راستے مخدوش تھے اس لیے واپسی کے لیے ڈائر نے براستہ دریائے پونچھ بذریعہ کشتی سفر کا فیصلہ کیا مگر دوران سفر ٹنگروٹ کے قریب دریائے پونچھ اور جہلم کے سنگم پر پانی کے تیز بہاؤ کے باعث کشتی الٹ گئی اور سار ے سوار پانی میں غوطے کھانے لگے۔ دریا کا پانی ٹھنڈا ہونے کے باعث قریب تھا کہ زندگی کی بازی ہار جاتے اس دوران ٹنگروٹ کے کچھ نوجوان دریا کے کنارے موجود تھے وہ یہ منظر دیکھ کر برداشت نہ کر سکے، لہٰذا تازہ دم نوجوانوں نے جان کی بازی لگا کر پورا قافلہ بچالیا مگر افسوس کہ اہل ٹنگروٹ کو معلوم نہ تھا کہ آگے چل کر جلیاںوالہ باغ کے مقام پر ڈائر کے ہاتھوں ان کے ہم وطنوں کا قتل عام ہونے والا ہے۔
The Butcher of Amritsar By Nigel Collet
عوام بھی اس دوران کوئی ایسی بڑی تحریک نہیں چلاتے جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔ دسمبر 1918ء میں مسلم لیگ نے بھی ایک مرتبہ پھر وضاحت کردی تھی کہ وہ خلافت اور مقامات مقدسہ کا تحفظ ضرور چاہتی ہے۔ برطانوی حکومت کے خلاف نہیں ہے مگر فتح کے نشے میں سرشار انگریز کچھ اور سوچ رہے تھے۔
انہوں نے بدامنی کی روک تھام کرنے کے لیے جسٹس رولٹ کی سر براہی میں ایک کمیشن مقرر کیا۔ اس کی سفارشات پر ضابطۂ فوجداری کے دو ترمیمی بل 6فروری 1919ء کو مرکزی کونسل میں پیش کردیے گئے۔ ان کی رو سے اپنی معصومیت ثابت کرنا اس ملزم کی ذمے داری تھی جس کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ اس پر بہت احتجاج کیا گیا لیکن حکومت نے 23مارچ 1919ء کو اسے منظور کرالیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد ایک ایسے کالے قانون کا نفاذ انگریز حاکموں کی فرعونیت کے سوا اور کچھ نہیں کہلا سکتا تھا۔ قائداعظم ؒ نے جو اس وقت مرکزی کونسل کے ممبر تھے حکومت کو وارننگ دی تھی کہ ''اگر یہ بل پاس ہو گیا تو تم اس ملک میں ایسی خطرناک شورش پیدا کرو گے جس کی مثال اس سے پہلے نہ دیکھی گئی ہو۔'' بل پاس ہوجانے کے بعد قائداعظم نے 28مارچ 1919ء کو مرکزی کونسل سے استعفیٰ دے دیا۔ ایک اور ممتاز مسلمان لیڈر مظہرالحق بھی کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ قائداعظم ؒ نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ ایسی حکومت جو حالت امن میں ایسا قانون پاس کرتی ہے مہذب کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔
رولٹ ایکٹ حکومت کی بدعہدی کا ایک نشان اور ایجی ٹیشن کا فوری نشانہ بن گیا۔ ابھی یہ بل کونسل میں زیربحث ہی تھا کہ گاندھی جی نے اس کے خلاف پُرامن جدوجہد (ستیہ گرہ) کا ایک نیا اور اچھوتا طریقہ پیش کردیا۔ 24فروری کو 25 لیڈروں کی ایک کانفرنس ہوئی جنہوں نے سیتا گرہ کے حلف نامے پر دستخط کردیے اور چند ہفتوں میں ہزاروں جلسوں میں اس حلف نامے کو دہرا یا گیا۔ قائداعظمؒ کے مرکزی کونسل سے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی گاندھی جی نے اعلان کردیا کہ 30مارچ کو (جو اتوار تھا) ملک بھر میں ہڑتال کی جائے اور جلسے منعقد کیے جائیں۔
پھر اس خیال سے کہ وقت بہت کم تھا ہڑتال اور احتجاج کا پروگرام اس سے اگلے اتوار (6اپریل ) تک ملتوی کردیا گیا، لیکن تقریباً تمام بڑے شہروں میں دونوں دن ہڑتال ہوئی اور احتجاجی جلسے ہوئے دہلی میں 30 مارچ کے جلوس کا پولیس سے تصادم ہوگیا دو دن بعد ایک جلوس کی قیادت سوامی شردھا نند نے کی جس نے انگریز سپاہیوں کے سامنے اپنا سینہ ننگا کیا اور آگے بڑھ کر کہا کہ پہلے مجھے گولی مارو، اگلے دن مسلمان اس کو کندھوں پر اٹھا کر شاہی مسجد دہلی لے گئے جہاں منبر پر کھڑے ہو کر اس کی تقریر سنی۔ چودھری خلیق الزماں اس حرکت کو ''احمقانہ جوش'' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
لاہور میں بھی دونوں دن ہڑتال ہوئی اور پرامن جلوس نکلے اس کے بعد 19اپریل کو ہندوؤں کا رام نومی کا تہوار تھا۔ اس دن پھر دکانیں بند رہیں اس دن کا جلوس مذہبی کم اور سیاسی زیادہ تھا۔ اس میں مسلمان بھی شریک ہوئے۔ ہندو مسلم اتحاد کے جذبات دلوں سے ابل رہے تھے۔ لاہور کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس جلوس میں ہندو اور مسلم عوام ایک ہی برتن میں پانی پی کر اور ایک ہی برتن سے پوریاں اور مٹھائی کھا کر ''ہندو مسلم ایک ہیں'' کے نعرے لگا رہے تھے۔
برصغیر کے دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی پُرامن مظاہرے ہوتے رہے لیکن یہاں ایک سرپھرے اور جابر گورنر مائیکل اور ڈائر کی حکومت تھی جس کے اندر سام راجیت کا جذبہ جنون کی حد تک موجود تھا۔ اس کا چیف سیکرٹری بھی اسی ذہنیت کا انگریز تھا وہ اس ''روایتی وفاداروں'' کے صوبے میں ایجی ٹیشن برداشت نہ کر سکے اور غیرضروری سخت گیری پر تل گئے۔
گاندھی جی پنجاب کا دورہ کرنے کے لیے پنجاب کی مشرقی سرحد کے آخری ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو ان کو پولیس کی حراست میں بمبئی واپس بھیج دیا گیا۔ ان کی گرفتاری کی خبر سے تمام ملک میں شورش پیدا ہوگئی۔ اگلے دن 10اپریل کو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے دو بڑے لیڈروں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیا پال کو اپنے بنگلے پر بلایا اور فوراً گرفتار کرکے دھرم شالہ روانہ کردیا۔ اس پر ایک مشتعل ہجوم ڈپٹی کمشنر کے بنگلے کی طرف چل پڑا۔
راستے میں فوج نے اس پر گولی چلائی۔ غصے میں بھرے ہوئے لوگوں نے شہر میں پانچ انگریز قتل کردیے دو بینک لوٹ لیے اور چار عمارتوں کو آگ لگادی۔ اس پر ڈویژن کمشنر لاہور نے امرتسر کو فوج کے حوالے کر دیا جس کے کمانڈر کا نام بھی جنرل ڈائر تھا۔ اس نے 12اپریل کو شہر میں جلسے اور جلوس پر پابندی لگا دی مگر اس حکم کا جگہ جگہ اعلان نہ کیا۔ اس کے علاوہ اس نے 24گھنٹے شہر میں پانی اور بجلی کی سپلائی بند رکھی۔
13اپریل کو تیسرے پہر جلیاں والاباغ میں جلسہ عام کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ یہ کوئی باغ نہ تھا بلکہ اونچی نیچی دیواروں سے گھر ا ہوا ایک نیچا اور خالی میدان تھا اور باہر نکلنے کے صرف چند راستے تھے۔ اس روز ہندوؤں کا بیساکھی کا تہوار تھا جس میں شرکت کے لیے ہزاروں بے خبر دیہاتی امرتسر آئے اور جلسے میں شریک ہوگئے۔ مجمع کی تعداد 6 سے 10ہزار تک تھی۔ جب جنرل ڈائر کو جلسے کی اطلاع ملی تو وہ فوراً فوج کا ایک دستہ جو 90 سپاہیوں پر مشتمل تھا لے کر جلیاں والا باغ پہنچا اور اس کو اونچی جگہ کھڑا کر کے گولی چلانے کا حکم دے دیا۔
فائرنگ کا رخ مجمع کے گنجان حصوں کی طرف رہا اور فائرنگ اس وقت بند ہوئی جب گولیاں ختم ہوگئیں۔ یہ فائرنگ دس منٹ جاری رہی، 1605گولیاں چلائی گئیں جن سے سرکاری بیان کے مطابق 379 لوگ ہلاک اور 1200زخمی ہوئے۔ دوسرے لوگوں کے مطابق ہزاروں افراد ہلاک ہوئے کرفیو کا وقت ہو چکا تھا سیکڑوں زخمی رات بھر وہیں پڑے کراہتے رہے۔ کسی کو جرأت نہ تھی کہ زخمیوں کی امداد کی خاطر کرفیو کی خلاف ورزی کرتا زخمیوں کی طبی امداد کے لیے بھی کوئی انتظام نہ کیا گیا۔
جلیاں والا باغ میں جنرل ڈائر کی بر بریت ایک پہلے سے طے کیا ہوا منصوبہ تھی۔ ڈائر نے تین غلطیاں کیں اول یہ کہ مجمع کو گولی چلانے سے پہلے منتشر ہوجانے کا حکم نہ دیا، دوسرے گولیاں بہت دیر تک چلتی رہیں اور تیسرے اس نے لوگوں کو ایک گلی میں سے رینگ کر گزرنے کا حکم دیا۔ چھے ماہ بعد ہنٹر کمیٹی نے اس کو قصوروار گردانا اور ملازمت سے فارغ کردیا۔ تاہم بعد میں اس کو پنشن دے دی گئی۔ اس پر فالج کا حملہ ہوا جس سے 23جولائی 1927ء کو وہ مرگیا۔ پنجاب کے گورنر اور ڈائر کو 1940ء میں ایک انقلاب پسند سکھ اودھم سنگھ نے لندن میں قتل کردیا۔ اس نے جرم کا اعتراف کیا اور اپنا نام رام محمد سنگھ بتایا۔
امرتسر پر موت کی خاموشی چھا گئی لاہور میں بھی مظاہروں کا زور ختم ہوچکا تھا۔ تاہم 15اپریل کو پنجاب میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور لوگوں کو ذلیل اور پریشان کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی۔ مسلمانوں نے خاص طور پر نقصان اٹھایا مرید کے اور کامونکی جیسے گاؤں پر فضاء سے بم باری کی گئی اور مسلمان قیدیوں کو سر عام کوڑے لگائے گئے۔
جلیاں والا باغ کے حادثے میں مسلمان بھی مارے گئے تھے، لیکن ہندوؤں نے اس کو صرف اپنا مسئلہ بنالیا جس سے ان کے جذبات بے انتہا مشتعل ہوگئے۔ عاشق حسین بٹالوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ''سانحہ جلیاں والا باغ نے پنجاب کو آگ اور خون کے ایسے سیلاب میں غوطہ دیا جس کے سحر آفریں اور انقلاب انگیز اثر سے ایک نیا ملک اور نئی قوم پیدا ہوئی۔''
ٹنگروٹ
جہلم شہر سے شمال کی جانب 23 میل اور پرانے میرپور شہر سے مغرب کی جانب سات میل کے فاصلے پر دریائے جہلم اور پونچھ کے سنگم پر واقع موضع ٹنگروٹ جو اب منگلا ڈیم کے شمال مغربی دہانے پر واقع ہے اگرچہ دور دراز و پس ماندہ علاقہ تھا مگر اپنے محل وقوع کے اعتبار سے 1967ء میں منگلا ڈیم بننے اور زیرآب آنے تک ایک انتہائی پر فضاء اور روحانی مقام کی حیثیت سے مشہور تھا عرصہ گزرنے کے باوجود اپنی ڈہوک کے تمام مناظر میری لوح حافظہ پہ منعکس رہتے ہیں۔
آپ کو راہ گزر چاہیے تھی سو ہم نے
اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا گھر ضائع کیا
ٹنگروٹ TANGROTEکی وجہ تسمیہ کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ البتہ ڈھنگ اور ٹنگ کے علاوہ ''رَوٹ Roat'' یا رُوٹ Route کے معنی بہت واضح ہیں جب کہ ٹنگروٹ اور ڈھنگروٹ دونوں مستعمل نام رہے ہیں جب کہ رفتہ رفتہ ڈھنگروٹ موقوف اور ٹنگروٹ معروف ہوگیا ہے۔
ڈھنگ کے معنی سلیقہ اور رَوٹ کے معنی بڑے سائز کی روٹی کے ہیں۔ اسی بنیاد پر حضرت ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ ٹنگروٹ کی بستی میں بظاہر ذریعہ معاش کے اسباب مفقود تھے جس کے باعث اہالیان ٹنگروٹ ڈھنگ سے گزراوقات کرتے شاید اسی مناسبت سے بستی کا نام ڈھنگروٹ پڑگیا ہو، یعنی ایسی بستی جس کے مکین بہت ڈھنگ اور جتن سے رزق حلال کماتے اور گزر بسر کرتے آئے ہیں۔
ٹنگ دراصل ٹانگ کے معنی میں اور ہندی میں مستعمل ہے جب کہ رُوٹ Routeجو اگرچہ انگریزی کا لفظ ہے مگر اردو، ہندی اور پنجابی و پوٹھوہاری میں بھی مستعمل ہے لہٰذا یہی قرین قیاس ہے کہ جہلم سے ٹنگروٹ تک پیادہ راستے کے باعث اسے ٹنگرُوٹ کہا جانے لگا ہو پھر مرور ایام کے ساتھ ساتھ تلفظ بدل گیا ہو۔
میرے اس قیاس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کہ اس زمانے میں دینہ سے براستہ منگلا میرپور کے لیے سڑک نہیں تھی اور ٹنگروٹ کے لیے جہلم سے براستہ سرائے عالم گیر برلب نہر سڑک کے علاوہ متبادل روٹ نہیں تھا۔
چوںکہ ٹنگروٹ ضلع جہلم اور کشمیر کی معروف دینی شخصیات حضرت خواجہ حافظ محمد حیات المعروف حضرت اول رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ حافظ محمد علی المعروف حضرت ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضر ت مولانا حافظ محمد فاضل المعروف حضرت ثالث رحمۃ اللہ علیہ کا مقام پیدائش ہے۔
اہلِ ٹنگرو ٹ اور جنرل ڈائر
جنرل ڈائر تاریخ کی وہ ظالم ترین شخصیت The Butcher of Amritsarکے نام سے مشہور ہے، جس نے 13اپریل 1919جلیاںوالہ باغ پنجاب میں انسانیت کا قتل عام کرایا تھا۔ اس واقعے میں دو ہزار ہندو، سکھ اور مسلمان مارے گئے تھے۔ اس واقعے سے پہلے ڈائر اپنی بیوی کے ساتھ پشاور تعینات تھا مگر وہاں اس کی بیوی خوش نہ تھی جس کی بنا پر اس کا تبادلہ جہلم چھاؤنی میں کر دیا گیا۔
ڈائر شکار کا بہت شوقین تھا، اس لیے گولیاں برساتے ہوئے اس کے سامنے انسان اور جانور برابر تھے جہلم تعیناتی کے دوران پونچھ کے راجا کی دعوت پر ماہ اپریل میں ڈائر جب اپنی بیوی سمیت پونچھ پہنچا تو راجا نے شیر کے شکار کے لیے ماہر شکاری اور مہاوت سمیت ہاتھی مہیا کیے اب شکار کے دوران شیر کے جوابی حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک شکاری مارا گیا۔ ہاتھی بھاگ نکلے مہاوت خود بھی گر کر زخمی ہو گیا اور ساراپروگرام چوپٹ ہو گیا۔
اپریل میں مقامی موسم بہت سرد اور برفباری کے باعث راستے مخدوش تھے اس لیے واپسی کے لیے ڈائر نے براستہ دریائے پونچھ بذریعہ کشتی سفر کا فیصلہ کیا مگر دوران سفر ٹنگروٹ کے قریب دریائے پونچھ اور جہلم کے سنگم پر پانی کے تیز بہاؤ کے باعث کشتی الٹ گئی اور سار ے سوار پانی میں غوطے کھانے لگے۔ دریا کا پانی ٹھنڈا ہونے کے باعث قریب تھا کہ زندگی کی بازی ہار جاتے اس دوران ٹنگروٹ کے کچھ نوجوان دریا کے کنارے موجود تھے وہ یہ منظر دیکھ کر برداشت نہ کر سکے، لہٰذا تازہ دم نوجوانوں نے جان کی بازی لگا کر پورا قافلہ بچالیا مگر افسوس کہ اہل ٹنگروٹ کو معلوم نہ تھا کہ آگے چل کر جلیاںوالہ باغ کے مقام پر ڈائر کے ہاتھوں ان کے ہم وطنوں کا قتل عام ہونے والا ہے۔
The Butcher of Amritsar By Nigel Collet