مفاہمتی بیانیہ
سنجیدہ ترین سوال یہ ہے کہ کیابیانیہ کاواضح فرق خودساختہ یاقدرتی ہے۔
KARACHI:
مسلم لیگ ن میں ایک اندرونی تفریق نظرآرہی ہے۔سنجیدہ ترین سوال یہ ہے کہ کیابیانیہ کاواضح فرق خودساختہ یاقدرتی ہے۔یا اسے بھی سیاسی مصلحت کے تحت ترتیب سے تشکیل کیاگیاہے۔
کمال بات یہ بھی ہے کہ مزاحمتی اورمفاہمتی پالیسی کے حق اورمخالفت میں بھی بحث جاری ہے۔ن لیگ کے اکثرلوگ دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔بلکہ تین طرف۔اس لیے کہ طاقتورحلقوں سے ذاتی رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔
وہاں سے اپنی پالیسی کوکشیدکرنے میں مصروف ہیں۔ اگر معاملہ سادہ ساہو،توواقعی کوئی فرق نہیں پڑتا۔مگرآنے والے دنوں میں یہ ایک سیاسی پیچیدگی کوجنم دے سکتا ہے۔دانشور،لکھاری اورمیڈیابھی اس کھیل میں اپنی اپنی بساط کے حساب سے شامل ہے۔
جس فریق کامالی مفاد،جس جانب سے پوراہوتاہے،اپناپڑاؤوہاں ڈال چکاہے۔لیکن حقائق اس درجہ تبدیل ہوچکے ہیں کہ اندرون خانہ معاملات کی بھنک بھی باہرنہیں پڑرہی اوریہ بے خبری کی حالت میں غلط تجزیہ کاموجب بن سکتی ہے۔مسلم لیگ ن میں اصل طاقت کون ہے۔ووٹ کس کے نام پرملتے ہیں۔
اگلے الیکشن میں ووٹ کس شخصیت کی جیب میں ہونگے۔یہ مکمل طورپرواضح ہے۔ نوازشریف وہ واحدشخص ہے جسکاسیاسی فیصلہ پنجاب کی حدتک بہت زیادہ اہم ہے اوررہے گا۔اس میں بھی ایک جوہری تبدیلی آچکی ہے۔ن لیگ میں سیاسی وراثت کامسئلہ مکمل طورپرحل ہوچکاہے۔
مریم نوازاس وقت ن لیگ کے ووٹروں کے ذہن پربھرپورطریقے سے اثر انداز ہوچکی ہیں۔تمام فہمیدہ حلقے جانتے ہیں کہ اس جماعت سے وابستہ ووٹ نوازشریف کے ذریعے ان کی صاحبزادی تک پہنچ چکے ہیں۔جھلک ہرشخص گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں جلسوں،ریلیوں اورضمنی انتخابات کے نتائج کی صورت میں دیکھ چکاہے۔
اب جوہری مسئلہ ہی یہ ہے۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی،جیسے پرویزرشید،شاہدخاقان عباسی ذہنی اورفکری طورپرنوازشریف کے قرب میں ہیں۔جوبھی بیان ان حضرات کی طرف سے دیا جاتا ہے، لندن سے پاس ہوکریہاں پہنچتاہے۔فی الحال ایسی کوئی صورت نظرنہیں آرہی،جس میں مریم نواز کی سیاسی اہمیت کوکم کیاجاسکے۔
سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ پھر شہبازشریف کیا کررہے ہیں اوران کے سیاسی عزائم کیا ہیں۔ نواز شریفجب اقتدارمیں آتے ہیں توشہباز شریف اپنی خاندانی نسبت کی وجہ سے خودبخودوزیراعلیٰ پنجاب بن جاتے ہیں۔ انکامیرٹ صرف یہ ہے کہ شریف خاندان کے چھوٹے سرخیل ہیں۔یہاں سے مسائل کاایک انبارجنم لیتا ہے۔کیاشہبازشریف کاپنجاب میں کسی قسم کاووٹ بینک ہے۔کم یازیادہ کی بحث نہیں ہے۔
پنجاب میں چھوٹے میاں صاحب کا معمولی سطح کاووٹ ہوگا۔ اس کی کیاوجوہات ہیں۔جب بھی شہباز شریف وزیراعلیٰ بنائے جاتے ہیں،تو وہ سرکاری افسروں سے لے کرسیاسی رفقاء سے اکثرنامناسب رویہ رکھتے ہیں۔سب برداشت صرف ایک وجہ سے کرتے ہیں کہ نوازشریف کے ہوتے ہوئے،انکووزارتِ اعلیٰ کے منصب سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔اس نکتہ کا چھوٹے میاں صاحب کو بھرپور ادراک ہے۔لہٰذاوہ اس پچ پرخوب چوکے چھکے لگاتے ہیں۔
شہباز شریف اول تو مشاورت کے عمل سے دور رہے وہ کابینہ میٹنگزبلاتے ہی نہیں تھے۔سال میں رسمی طورپرشائدایک دوبار،وہ بھی اس طرز کی،کہ کابینہ کے اجلاس میں جو بھی نکتہ سامنے آتاتھا، تووزراء ہاں میں ہاں ملا دیتے تھے۔
قصداًان کے مالی معاملات کی طرف نہیں آرہا۔ ورنہ ہرایک کومعلوم تھاکہ کلیدی عہدوں پر ٹرانسفر پوسٹنگ کیسے ہوتی تھی۔یہ لکھتے ہوئے دکھ ہوتاہے۔مگرمالی معاملات میں سابقہ اورموجودہ حکومت میںکوئی بھی فرق نہیں۔ہاں،شائدناموں کافرق ضرورہو۔ وزیراعظم عمران خان کوسب کچھ بارباربتایا جاتا ہے، مگر وہ شاید سنجیدہ معاملات کومیرٹ کی بنیادپرحل کرنے کی استطاعت کافی حدتک کھوچکے ہیں۔اس کمزوری کا فائدہ،مالی منفعت کی صورت میں ہرسطح پر بھرپور طریقے سے اُٹھایاجارہاہے۔خیراصل زیرِ بحث نکتہ چھوٹے میاں صاحب کامفاہمتی بیانیہ کی داغ بیل ڈالناہے۔
یہ بتانے،بولنے اوربحث کی حدتک تودلکش نظر آتا ہے۔ مگراسکودلیل کی چھلنی سے گزارنے پرحددرجہ مشکلات سامنے آتی ہیں۔پہلی بات تویہ کہ کیاطاقتورحلقے نہیں جانتے کہ اصل سیاسی طاقت کون ہے۔نواز شریف یا شہباز شریف۔لازم ہے کہ معاملات توطاقتورفریق کے ساتھ طے ہوتے ہیں۔
کمزورکے ساتھ نہیں۔زیادہ سے زیادہ ''مڈل مین'' کارول رہ جاتاہے۔اس پربھی تمام فریقین اعتمادکرنے کوتیارنہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کا ''مسٹرکلین''کاتشخص ان پرقائم نیب کیسوں کی وجہ سے متاثرہواہے۔تیسری بات یہ بھی ہے کہ ان کا تقریباً پوراخاندان اس وقت ملک سے باہرہے۔چوتھی بات یہ بھی سننے میں آ رہی ہے کہ فوجداری کیسوں میں ان کے چندچہیتے وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔
بہت زیادہ نکات ہیں جن پرشہباز شریف کسی صورت سنجیدہ حلقوں کومطمئن نہیں کرسکتے۔ بڑے میاں صاحب، لازم ہے کہ شہبازشریف سے کچھ نہیں پوچھتے۔وہ تمام حقائق کوجانتے ہیں۔لیکن خاموش رہتے ہیں۔ اوریہی خاموشی کافی حدتک مریم نوازنے بھی اپنائی ہوئی ہے۔
مفاہمتی بیانیہ پرتان لگانے والے اکثراصحاب کھل کرحقائق پرروشنی نہیں ڈالتے۔وہ صرف ایک ایسی تصویرپیش کرتے ہیں،جسکے زیرِ تحت چھوٹے میاں صاحب بندتالوں کو کھول لینگے۔ شہباز صاحب،بس طاقتور حلقوں سے چھپ کرمذاکرات فرمائینگے اوربرف پگھل جائے گی۔ ایساکچھ بھی نہیں ہے۔ریاستی حلقے ماضی سے بہت سبق سیکھ چکے ہیں ۔
انھیں بخوبی معلوم ہے کہ فیصلہ کن بیانیہ صرف اورصرف نواز شریف کا ہے اوروہ ان سے بالواسطہ طورپررابطے میں بھی ہیں۔ اگرطاقتورحلقوں کے ذریعے بات چیت کرنی ہے،تو بڑے میاں صاحب کے بین الاقوامی تعلقات حددرجہ ذاتی اوربہترین ہیں۔وہ آج بھی تسلسل سے اپنے بااثر قریبی دوستوں کی بدولت نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ سنجیدہ طبقوں سے رابطوں میں بھی ہیں۔آنے والے وقت میں اس اَمرکاقوی امکان ہے کہ ان کی اورمریم نوازکی سزاؤں کوختم اور سیاسی سرگرمیوں پرعائدپابندیوں کوبھی یکسرنرم کردیاجائیگا۔ان کی وطن واپسی کے معاملے پربھی ریاستی ہمدردی کامظاہرہ ہوسکتاہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کے مفاہمتی بیانیے سے انھیں اوران کے خاندان کوتوشائدکچھ فائدہ ہوجائے۔ مگر ملکی سیاست کی کنجی اس وقت بھی بڑے میاں صاحب کے پاس ہے۔ ملک میں پنجاب سے لے کروفاقی حکومت تک کی ادنیٰ گورننس بھرپور طورپرنوازشریف کی سیاسی ساکھ میں اضافہ کررہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں انتہائی غیرفعال حکومت کوگرانا نہیں چاہتے۔ مفاہمتی بیانیہ کاراگ الاپنے والے،شائدنازک معاملات کو بھرپورطریقے سے بیان نہیں کررہے۔ ویسے سیاست ہے ہی مفادات کانام!آج تک تو یہی صورتحال ہے! باقی غیب کاعلم توصرف خداکے پاس ہے۔
مسلم لیگ ن میں ایک اندرونی تفریق نظرآرہی ہے۔سنجیدہ ترین سوال یہ ہے کہ کیابیانیہ کاواضح فرق خودساختہ یاقدرتی ہے۔یا اسے بھی سیاسی مصلحت کے تحت ترتیب سے تشکیل کیاگیاہے۔
کمال بات یہ بھی ہے کہ مزاحمتی اورمفاہمتی پالیسی کے حق اورمخالفت میں بھی بحث جاری ہے۔ن لیگ کے اکثرلوگ دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔بلکہ تین طرف۔اس لیے کہ طاقتورحلقوں سے ذاتی رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔
وہاں سے اپنی پالیسی کوکشیدکرنے میں مصروف ہیں۔ اگر معاملہ سادہ ساہو،توواقعی کوئی فرق نہیں پڑتا۔مگرآنے والے دنوں میں یہ ایک سیاسی پیچیدگی کوجنم دے سکتا ہے۔دانشور،لکھاری اورمیڈیابھی اس کھیل میں اپنی اپنی بساط کے حساب سے شامل ہے۔
جس فریق کامالی مفاد،جس جانب سے پوراہوتاہے،اپناپڑاؤوہاں ڈال چکاہے۔لیکن حقائق اس درجہ تبدیل ہوچکے ہیں کہ اندرون خانہ معاملات کی بھنک بھی باہرنہیں پڑرہی اوریہ بے خبری کی حالت میں غلط تجزیہ کاموجب بن سکتی ہے۔مسلم لیگ ن میں اصل طاقت کون ہے۔ووٹ کس کے نام پرملتے ہیں۔
اگلے الیکشن میں ووٹ کس شخصیت کی جیب میں ہونگے۔یہ مکمل طورپرواضح ہے۔ نوازشریف وہ واحدشخص ہے جسکاسیاسی فیصلہ پنجاب کی حدتک بہت زیادہ اہم ہے اوررہے گا۔اس میں بھی ایک جوہری تبدیلی آچکی ہے۔ن لیگ میں سیاسی وراثت کامسئلہ مکمل طورپرحل ہوچکاہے۔
مریم نوازاس وقت ن لیگ کے ووٹروں کے ذہن پربھرپورطریقے سے اثر انداز ہوچکی ہیں۔تمام فہمیدہ حلقے جانتے ہیں کہ اس جماعت سے وابستہ ووٹ نوازشریف کے ذریعے ان کی صاحبزادی تک پہنچ چکے ہیں۔جھلک ہرشخص گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں جلسوں،ریلیوں اورضمنی انتخابات کے نتائج کی صورت میں دیکھ چکاہے۔
اب جوہری مسئلہ ہی یہ ہے۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی،جیسے پرویزرشید،شاہدخاقان عباسی ذہنی اورفکری طورپرنوازشریف کے قرب میں ہیں۔جوبھی بیان ان حضرات کی طرف سے دیا جاتا ہے، لندن سے پاس ہوکریہاں پہنچتاہے۔فی الحال ایسی کوئی صورت نظرنہیں آرہی،جس میں مریم نواز کی سیاسی اہمیت کوکم کیاجاسکے۔
سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ پھر شہبازشریف کیا کررہے ہیں اوران کے سیاسی عزائم کیا ہیں۔ نواز شریفجب اقتدارمیں آتے ہیں توشہباز شریف اپنی خاندانی نسبت کی وجہ سے خودبخودوزیراعلیٰ پنجاب بن جاتے ہیں۔ انکامیرٹ صرف یہ ہے کہ شریف خاندان کے چھوٹے سرخیل ہیں۔یہاں سے مسائل کاایک انبارجنم لیتا ہے۔کیاشہبازشریف کاپنجاب میں کسی قسم کاووٹ بینک ہے۔کم یازیادہ کی بحث نہیں ہے۔
پنجاب میں چھوٹے میاں صاحب کا معمولی سطح کاووٹ ہوگا۔ اس کی کیاوجوہات ہیں۔جب بھی شہباز شریف وزیراعلیٰ بنائے جاتے ہیں،تو وہ سرکاری افسروں سے لے کرسیاسی رفقاء سے اکثرنامناسب رویہ رکھتے ہیں۔سب برداشت صرف ایک وجہ سے کرتے ہیں کہ نوازشریف کے ہوتے ہوئے،انکووزارتِ اعلیٰ کے منصب سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔اس نکتہ کا چھوٹے میاں صاحب کو بھرپور ادراک ہے۔لہٰذاوہ اس پچ پرخوب چوکے چھکے لگاتے ہیں۔
شہباز شریف اول تو مشاورت کے عمل سے دور رہے وہ کابینہ میٹنگزبلاتے ہی نہیں تھے۔سال میں رسمی طورپرشائدایک دوبار،وہ بھی اس طرز کی،کہ کابینہ کے اجلاس میں جو بھی نکتہ سامنے آتاتھا، تووزراء ہاں میں ہاں ملا دیتے تھے۔
قصداًان کے مالی معاملات کی طرف نہیں آرہا۔ ورنہ ہرایک کومعلوم تھاکہ کلیدی عہدوں پر ٹرانسفر پوسٹنگ کیسے ہوتی تھی۔یہ لکھتے ہوئے دکھ ہوتاہے۔مگرمالی معاملات میں سابقہ اورموجودہ حکومت میںکوئی بھی فرق نہیں۔ہاں،شائدناموں کافرق ضرورہو۔ وزیراعظم عمران خان کوسب کچھ بارباربتایا جاتا ہے، مگر وہ شاید سنجیدہ معاملات کومیرٹ کی بنیادپرحل کرنے کی استطاعت کافی حدتک کھوچکے ہیں۔اس کمزوری کا فائدہ،مالی منفعت کی صورت میں ہرسطح پر بھرپور طریقے سے اُٹھایاجارہاہے۔خیراصل زیرِ بحث نکتہ چھوٹے میاں صاحب کامفاہمتی بیانیہ کی داغ بیل ڈالناہے۔
یہ بتانے،بولنے اوربحث کی حدتک تودلکش نظر آتا ہے۔ مگراسکودلیل کی چھلنی سے گزارنے پرحددرجہ مشکلات سامنے آتی ہیں۔پہلی بات تویہ کہ کیاطاقتورحلقے نہیں جانتے کہ اصل سیاسی طاقت کون ہے۔نواز شریف یا شہباز شریف۔لازم ہے کہ معاملات توطاقتورفریق کے ساتھ طے ہوتے ہیں۔
کمزورکے ساتھ نہیں۔زیادہ سے زیادہ ''مڈل مین'' کارول رہ جاتاہے۔اس پربھی تمام فریقین اعتمادکرنے کوتیارنہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کا ''مسٹرکلین''کاتشخص ان پرقائم نیب کیسوں کی وجہ سے متاثرہواہے۔تیسری بات یہ بھی ہے کہ ان کا تقریباً پوراخاندان اس وقت ملک سے باہرہے۔چوتھی بات یہ بھی سننے میں آ رہی ہے کہ فوجداری کیسوں میں ان کے چندچہیتے وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔
بہت زیادہ نکات ہیں جن پرشہباز شریف کسی صورت سنجیدہ حلقوں کومطمئن نہیں کرسکتے۔ بڑے میاں صاحب، لازم ہے کہ شہبازشریف سے کچھ نہیں پوچھتے۔وہ تمام حقائق کوجانتے ہیں۔لیکن خاموش رہتے ہیں۔ اوریہی خاموشی کافی حدتک مریم نوازنے بھی اپنائی ہوئی ہے۔
مفاہمتی بیانیہ پرتان لگانے والے اکثراصحاب کھل کرحقائق پرروشنی نہیں ڈالتے۔وہ صرف ایک ایسی تصویرپیش کرتے ہیں،جسکے زیرِ تحت چھوٹے میاں صاحب بندتالوں کو کھول لینگے۔ شہباز صاحب،بس طاقتور حلقوں سے چھپ کرمذاکرات فرمائینگے اوربرف پگھل جائے گی۔ ایساکچھ بھی نہیں ہے۔ریاستی حلقے ماضی سے بہت سبق سیکھ چکے ہیں ۔
انھیں بخوبی معلوم ہے کہ فیصلہ کن بیانیہ صرف اورصرف نواز شریف کا ہے اوروہ ان سے بالواسطہ طورپررابطے میں بھی ہیں۔ اگرطاقتورحلقوں کے ذریعے بات چیت کرنی ہے،تو بڑے میاں صاحب کے بین الاقوامی تعلقات حددرجہ ذاتی اوربہترین ہیں۔وہ آج بھی تسلسل سے اپنے بااثر قریبی دوستوں کی بدولت نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ سنجیدہ طبقوں سے رابطوں میں بھی ہیں۔آنے والے وقت میں اس اَمرکاقوی امکان ہے کہ ان کی اورمریم نوازکی سزاؤں کوختم اور سیاسی سرگرمیوں پرعائدپابندیوں کوبھی یکسرنرم کردیاجائیگا۔ان کی وطن واپسی کے معاملے پربھی ریاستی ہمدردی کامظاہرہ ہوسکتاہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کے مفاہمتی بیانیے سے انھیں اوران کے خاندان کوتوشائدکچھ فائدہ ہوجائے۔ مگر ملکی سیاست کی کنجی اس وقت بھی بڑے میاں صاحب کے پاس ہے۔ ملک میں پنجاب سے لے کروفاقی حکومت تک کی ادنیٰ گورننس بھرپور طورپرنوازشریف کی سیاسی ساکھ میں اضافہ کررہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں انتہائی غیرفعال حکومت کوگرانا نہیں چاہتے۔ مفاہمتی بیانیہ کاراگ الاپنے والے،شائدنازک معاملات کو بھرپورطریقے سے بیان نہیں کررہے۔ ویسے سیاست ہے ہی مفادات کانام!آج تک تو یہی صورتحال ہے! باقی غیب کاعلم توصرف خداکے پاس ہے۔