پہلے حریف کو سمجھو پھر کچھ سوچو حصہ دوم
امریکی کانگریس میں اسرائیل مخالف آوازوں کی تعداد فی الحال آٹے میں نمک ہے۔
جب پہلے وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے صیہونی نظریے کی بنیاد پر پانچ مئی انیس سو اڑتالیس کو مملکتِ اسرائیل کے وجود کا اعلان کیا۔تب تک یہودی آبادکاروں کا فلسطین میں تناسب چھ فیصد تھا۔چنانچہ مسلح یہودی ملیشیاؤں نے فلسطینیوں کو جبراً اکھاڑ پھینکے کی کارروائی شروع کی اور انیس سو اڑتالیس سے سن پچاس کے درمیان فلسطین کے اٹہتر فیصد تاریخی علاقے سے ساڑھے سات لاکھ مقامی باشندوں کو دہشت کا بازار گرم کر کے کھدیڑ ڈالا۔
اس اٹہتر فیصد علاقے کو ریاستِ اسرائیل کا نام دیا گیا۔بقیہ بائیس فیصد فلسطین غربِ اردن (ہاشمی سلطنت کے ماتحت دریاِ اردن کا مغربی کنارہ ) اور غزہ کے دو ٹکڑوں کی شکل میں بچا۔ وہ بھی انیس سو سڑسٹھ کی جنگ میں اسرائیلی قبضے میں چلا گیا۔
انیس سو اڑتالیس تا پچاس کے دو برسوں کو فلسطینی ال نقبہ ( قیامتِ صغری) کے نام سے نسل در نسل یاد رکھے ہوئے ہیں۔ساڑھے سات لاکھ پناہ گزینوں میں سے اکثر اردن، شام، لبنان اور مصر کے مہاجر کیمپوں میں مقیم ہوئے یا پھر غزہ اور غربِ اردن منتقل ہو گئے۔ آج ان کی چوتھی نسل کے پاس ان گھروں کی چابیاں محفوظ ہیں جن کا اب کوئی وجود نہیں رہا۔ال نقبہ کے دورِ دہشت میں نا صرف بڑے شہروں ( جافا، حیفہ، تل ابیب، اشدود وغیرہ ) سے فلسطینی جبراً نکالے گئے بلکہ پانچ سو تیس دیہات بھی مٹا دیے گئے یا انھیں نئی آبادیوں میں ضم کر کے نام بدل دیے گئے۔
ان ساڑھے سات لاکھ فلسطینوں میں مزید تین لاکھ بے گھر فلسطینیوں کا اضافہ انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد ہوا۔یوں لگ بھگ ساڑھے دس لاکھ فلسطینی براہِ راست بے گھر ہوئے۔اور اب ان کی چوتھی نسل میں سے تقریباً پچاس لاکھ لوگ اقوامِ متحدہ کے تسلیم شدہ اٹھاون پناہ گزین کیمپوں سے باہر ، اسرائیلی مقبوضہ علاقوں ، مشرقِ وسطی اور مغربی ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی بنیادی شرط یہ ہے کہ دو ریاستی حل ہو کہ کوئی اور امن فارمولا۔جن فلسطینیوں نے انیس سو اڑتالیس میں اپنا وطن چھوڑا ان کے ورثا کو دوبارہ اپنے آبائی علاقوں میں بسنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
مگر کچھ فلسطینی خاندان زیادہ سخت جان ثابت ہوئے۔وہ ایک علاقے سے نکالے گئے تو دوسرے میں چلے گئے البتہ ریاستِ اسرائیل کی حدود میں ہی دربدر رہے۔چنانچہ انھیں بالاخر ریاستی شہریت دے دی گئی۔ اس وقت ایسے اسرائیلی عربوں کی تعداد سولہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
انھیں ملکی سیاست میں حصہ لینے کی بھی اجازت ہے۔ان کی پارلیمانی نمایندگی بھی ہے۔عبرانی کے ساتھ ساتھ عربی کو بھی قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ بظاہر انھیں دیگر شہریوں کی طرح تعلیم ، صحت اور روزگار و رہائش کا آئینی حق بھی حاصل ہے۔مگر یہودی اکثریت انھیں مشکوک سمجھتی ہے اور غیراعلانیہ پالیسی یہ ہے کہ انھیں آئینی حقوق کے فوائد اٹھانے سے جتنا روکا جا سکے روکا جائے۔
جہاں تک اسرائیلی حدود سے باہر مقبوضہ مغربی کنارے کے شہروں اور دیہاتوں کا معاملہ ہے تو ان کے بھی مزید انتظامی بخرے کر کے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اے ایریا مغربی کنارے کے اٹھارہ فیصد رقبے پر مشتمل ہے اور اس کے اندرونی نظم و نسق کے معاملات فلسطینی اتھارٹی کے اختیار میں ہیں۔بی ایریا مغربی کنارے کے بائیس فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔یہ علاقہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔کہنے کو ایریا اے اور بی میں صحت، تعلیم و روزگار سمیت متعدد بنیادی شعبے فلسطینی اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں ہیں۔البتہ عملاً ان علاقوں کی حدود سے باہر کے سیکیورٹی معاملات اسرائیل کے پاس ہیں۔یعنی اسرائیل جب چاہے ایریا اے اور بی میں فوجی و انتظامی مداخلت کا حق رکھتا ہے۔
سی ایریا مغربی کنارے کے ساٹھ فیصد رقبے پر مشتمل ہے اور اسرائیل کے سو فیصد فوجی و انتظامی کنٹرول میں ہے۔یہاں یہودی آباد کاری کی رفتار سب سے تیز ہے۔اگرچہ اوسلو امن سمجھوتے کے تحت اسرائیل سی ایریا کا انتظام بھی سمجھوتے کے پانچ برس بعد فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کا پابند تھا مگر چھبیس برس گذر گئے، ایسا آج تک نہیں ہو سکا ( پہلا اوسلو سمجھوتہ انیس سو ترانوے اور دوسرا انیس سو پچانوے میں ہوا تھا )۔
اس وقت یروشلم سمیت پورے مقبوضہ مغربی کنارے پر چھ سے سات لاکھ یہودی آبادکار ڈھائی سو بستیوں میں رہ رہے ہیں۔گویا اسرائیل کی مجموعی اڑسٹھ لاکھ یہودی آبادی کا دس فیصد مقبوضہ علاقوں میں آباد کیا گیا ہے۔ان میں سے ایک سو تیس بستیاں سرکاری اور ایک سو بیس غیر سرکاری طور پر بسی ہوئی ہیں۔مگر چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق یہ سب بستیاں غیر قانونی ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق قابض طاقت مقبوضہ آبادی میں جبراً رد و بدل نہیں کر سکتی اور نہ ہی باہر سے لوگ لا کے بسا سکتی ہے۔
اسرائیل کی ریاستی حدود سے باہر آباد ہونے کے باوجود ان آباد کاروں کو نہ صرف ریاستی شہریت حاصل ہے بلکہ انھیں اپنا کم ازکم معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لیے سرکاری سبسڈی بھی دی جاتی ہے۔جب کہ اسی علاقے کی فلسطینی اکثریت اسرائیلی فوجی قوانین کے تابع ہے۔
فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر مکمل کنٹرول کے لیے پورے مغربی کنارے پر لگ بھگ ساڑھے سات سو فوجی رکاوٹیں ہیں۔ان میں سے ایک سو چالیس مستقل چیک پوسٹیں ہیں۔فلسطینی مردوں، عورتوں، بچوں کو ان سے گذرنے کے لیے ہر موسم میں گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔جب کہ انھی کے سامنے آبادکار بستیوں کو اسرائیلی شہروں کو جوڑنے والی سڑکوں پر یہودی شہری زن سے بنا پوچھ تاچھ گذر جاتے ہیں۔ان چیک پوسٹوں سے وہ ستر ہزار مزدور بھی روزانہ گذرتے ہیں جو ورک پرمٹ کے تحت اسرائیل کے اندر دھاڑی کے لیے جاتے ہیں۔ مقبوضہ فلسطینیوں میں بے روزگاری کا تناسب لگ بھگ پچاس فیصد بتایا جاتا ہے۔
یہ ہے وہ مجموعی تصویر جسے چھپانے یا دھندلانے کی اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ نے ہر ابلاغی محاذ پر سر توڑ کوشش کی اور اب تک کامیاب بھی رہی۔مگر بھلا ہو بے لگام سوشل میڈیا کی طاقت کا۔اس بار '' وحشی عربوں کے سمندر میں گھرے ہوئے ایک محاصرہ زدہ جزیرے'' کا تاثر پہلی بار کسی حد تک تار تار ہوا ہے۔پہلی بار بین الاقوامی دباؤ نے اسرائیل کو گیارہ روز بعد جنگ بندی کے اعلان میں پہل پر مجبور کیا۔اس سے پہلے وہ ہمیشہ اپنی شرائط پر فائر پاور روکنے کا عادی تھا۔
سوشل میڈیا کے طفیل پہلی بار فلسطینیوں کے جوابی بیانیے کو مغربی پریس میں کچھ نہ کچھ جگہ ملی۔ پہلی بار ایک انہونی یہ بھی ہوئی کہ امریکی کانگریس میں مقدس اسرائیلی گائے کے خلاف کھل کے چند سرپھرے ارکان نے اپنے جذبات کا اظہار کیااور درجن بھر امریکی شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔
اگرچہ امریکی کانگریس میں اسرائیل مخالف آوازوں کی تعداد فی الحال آٹے میں نمک ہے۔مگر وہ جو چینی کہاوت ہے کہ ہزار میل کا سفر پہلے قدم سے ہی شروع ہوتا ہے۔اسرائیل کو اب اپنی مظلومیت کی نئی فلم تیار کرنا پڑے گی۔مگر نئی دنیا بہت سیانی ہوتی جا رہی ہے۔اب وہ نئی بوتل میں پرانی شراب بھی فوراً پہچاننے لگی ہے۔ ( قصہ جاری ہے )
( گزشتہ اور اس مضمون کی تیاری کے لیے بنیادی مواد الجزیرہ نیٹ ورک سے حاصل کیا گیا)۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)