معاشی ترقی کی شرح اور سرکاری ملازمین و پنشن یافتہ افراد
معاشی ترقی کی شرح میں اضافے کیلیے حکومت کوسرکاری ملازمین اورپنشن یافتہ افرادکواداکی جانے والی رقوم میں اضافہ کرناہوگا۔
کورونا وبا جس کا سامنا گزشتہ سال کے اوائل سے ہی کرنا پڑا ہے۔ مارچ 2020 کے آخری ہفتے سے ہی پورے پاکستان میں لاک ڈاؤن کا آغاز کردیا گیا تھا جس کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ چکی تھیں، چونکہ مالی سال کے 9 ماہ گزر چکے تھے لہٰذا مئی کے مہینے میں حکومت کی جانب سے جو معاشی اشاریے بتائے جاتے رہے ان پر ان 9 ماہ کے اثرات غالب تھے۔
لیکن رواں مالی سال جس کا آغاز جولائی سے ہوا ہے اس دوران کاروباری سرگرمیوں کا آغاز بھی ہوا۔ کورونا وبا جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور بعض ممالک میں اس کی بڑی لہریں بھی آتی رہی ہیں۔
پاکستان میں بے شمار کمپنیاں، کارخانے، ملیں، ادارے وغیرہ ایسے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر چھانٹی ہونے کے باعث بہت سے لوگ جن کی آمدن کم ہوگئی یا ختم ہوگئی وہ غربت کی لکیر سے نیچے جا پڑے۔ مختلف ادارے اور شخصیات و ماہرین معاشیات جن کی نظریں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح پر تھی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ شرح ترقی 3.9 فیصد پر وہ لوگ حیران بھی تھے۔ حکومت کا موقف یہ رہا کہ اس نے معاشی میدان میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس دوران ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ رہا، محاصل میں بھی اضافہ ہوا۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمت مناسب رہنے کے باعث اور درآمدات پرکنٹرول کے باعث تجارتی خسارہ بھی زیادہ نہ رہا۔ پاکستان کو اپنی آیندہ معاشی ترقی کے عمل میں اضافے، کروڑوں بے روزگار افراد کو روزگار میسر کرنے ، اپنی برآمدات میں اضافے اور ملک میں خوشحالی لانے کے لیے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہو ، طلب میں اضافہ ہو ، تاکہ اشیائے خوراک سے لے کر مصنوعات کی طلب و فروخت جب بڑھے گی تو اس کے ساتھ ہی رسد میں اضافے کے لیے پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اس سے نئے کارخانے کھلنے کا عمل بھی شروع ہوکر رہے گا۔
ایشیا کے وہ ممالک جوکہ ترقی پذیر ہیں اس کے علاوہ چین آسیان ممالک اور پاکستان کے اردگرد کے سارک ممالک وغیرہ میں لاک ڈاؤن کے باعث ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کے آرڈرز پاکستان منتقلی کے باعث پاکستان کی قدرے بہتر معاشی اور برآمداتی کارکردگی رہی، لیکن ان ملکوں میں مکمل معاشی سرگرمیوں کی بحالی جوکہ اس سال کے آخر تک متوقع ہے ان کی شرح افزائش میں اضافے کی توقع ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کی شرح کو بڑھانے کے لیے ابھی سے حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں کچھ اس قسم کی معاشی پالیسیاں اور معاشی منصوبہ بندی حتیٰ کہ بجٹ بھی ایسے پیش کیے جاتے رہے ہیں جن سے عام آدمی کا بھلا کم اور امیر طبقے کا فائدہ زیادہ ہوا کرتا تھا۔ موجودہ حکومت جوکہ معاشرے میں تبدیلی کی خواہاں ہے افراد کو غربت سے نکالنے کی خواہاں ہے اور ملکی معاشی ترقی کو اس نہج پر پہنچانے کی خواہاں ہے تاکہ معاشرے کے کمزور افراد کا زیادہ سے زیادہ بھلا ہو۔ اس کے لیے بجٹ میں کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال بجٹ پیش ہونے کے موقع پر حسب روایت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔
ایک ایسی معیشت جہاں افراط زر روز افزوں ہو، معاشی ترقی کی شرح پست ہو، ملکی کارخانے اس لیے کم پیداوار پر مجبور ہوں کہ ان کے مال کی طلب نہیں ہے۔ بعض زرعی پیداوار کی قیمتیں اس لیے کم ہیں کہ رسد کے مقابلے میں ان کی طلب کم ہے۔
لہٰذا زمیندار، کاشتکار کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حکومت بجٹ پیش کرتے وقت ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے لوگوں کی آمدن بڑھتی ہے تاکہ مہنگائی کا مقابلہ باآسانی کیا جاسکے ان میں سب سے اہم حکومت کے ملازمین اور پنشن یافتہ افراد کو ملنے والی رقوم میں مہنگائی کو مدنظر اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ جس کے لیے پیش ہونے والے بجٹ میں مختلف تجاویز رکھی گئی ہیں۔
اس طرح یہ مجموعی رقوم معیشت کے مختلف شعبوں میں سرائیت کر جاتی ہیں۔ اب اس سلسلے میں جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ملازمین کی تنخواہوں اور اضافے کی بات ہو رہی تھی لیکن واقفان حال کا کہنا تھا کہ پنشن یافتہ افراد کی پنشن میں اضافے کو صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جوکہ 18 سال کی عمر میں سرکاری ملازمت میں آنے کے بعد 42 بہاریں ملک و قوم کی خدمت میں صرف کرکے بڑھاپے میں داخل ہوئے اور پنشن کے حق دار قرار پائے۔
انھوں نے اپنی زندگی یوں سمجھ لیں کہ ساری زندگی صرف اور صرف ملک و قوم کی خدمت گزاری میں لگا دی۔ قلیل تنخواہ میں گزارا کیا، تنگی و جفاکشی میں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ اب جب یہ کسی کام کے نہ رہے تو ان کی پنشن میں اضافہ نہ کرنا سخت ناانصافی ہوگی۔ روایت یہ رہی کہ جس تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں اسی تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے پنشن کی رقوم بڑھادی جاتی ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ اس اضافی رقم کو وہ اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات میں کام میں لائیں گے۔ اس طرح ان دونوں طبقات کی تنخواہوں میں اضافے سے پرائیویٹ اور نجی اداروں کو اس بات کی فوری ترغیب ملتی ہے اور وہ ادارے کمپنیاں ملیں کارخانے دار وغیرہ وغیرہ اسی تناسب کو مدنظرکھتے ہوئے اپنے نجی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس طرح جب یہ ساری رقوم اکٹھی ہوکر معیشت میں داخل ہونے کے سبب کاروباری سرگرمیاں پیداواری سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی زرعی پیداوار کی فروخت بڑھنے سے کاشتکاروں کو اپنی پیداوار کی لاگت سے بڑھ کر رقوم مل جائیں گی۔ اب یہ سب باتیں مل کر دیہی علاقوں میں خوشحالی لے کر آئیں گی۔
قصہ مختصر مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ اور پنشن میں اضافہ جس کے نتیجے میں معیشت کے تمام شعبوں میں کام کرنے والے نجی افراد کی آمدن میں اضافے کے لیے ترغیب ملتی ہے اور پاکستان میں ہر سال ماہ جولائی میں انھی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نجی ملازمین کی تنخواہیں بڑھتی ہیں۔ جس کے باعث ایک طرف کروڑوں افراد کے لیے مہنگائی سے مقابلے کرنے کے لیے ان کی قوت خرید میں ہلکا پھلکا اضافہ ہو جاتا ہے اور زیادہ فائدہ معیشت کو اس طرح پہنچتا ہے کہ معاشی، کاروباری اور پیداواری سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں۔
معیشت جمود کا شکار نہیں ہوتی جس کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا کووڈ 19 کے اثرات کو زائل کرنے اور آیندہ برسوں میں معاشی ترقی کی شرح میں اضافے کے لیے حکومت کو سرکاری ملازمین اور پنشن یافتہ افراد کو ادا کی جانے والی رقوم میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس میں پنشن یافتہ افراد کو کسی طور پر نظرانداز کرنا معاشرے کے بزرگ افراد کی حق تلفی ہوگی۔ اس اضافے کے باعث آخر کار معاشرے کے تمام طبقات کو بتدریج فائدہ ہوگا۔
لیکن رواں مالی سال جس کا آغاز جولائی سے ہوا ہے اس دوران کاروباری سرگرمیوں کا آغاز بھی ہوا۔ کورونا وبا جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور بعض ممالک میں اس کی بڑی لہریں بھی آتی رہی ہیں۔
پاکستان میں بے شمار کمپنیاں، کارخانے، ملیں، ادارے وغیرہ ایسے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر چھانٹی ہونے کے باعث بہت سے لوگ جن کی آمدن کم ہوگئی یا ختم ہوگئی وہ غربت کی لکیر سے نیچے جا پڑے۔ مختلف ادارے اور شخصیات و ماہرین معاشیات جن کی نظریں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح پر تھی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ شرح ترقی 3.9 فیصد پر وہ لوگ حیران بھی تھے۔ حکومت کا موقف یہ رہا کہ اس نے معاشی میدان میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس دوران ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ رہا، محاصل میں بھی اضافہ ہوا۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمت مناسب رہنے کے باعث اور درآمدات پرکنٹرول کے باعث تجارتی خسارہ بھی زیادہ نہ رہا۔ پاکستان کو اپنی آیندہ معاشی ترقی کے عمل میں اضافے، کروڑوں بے روزگار افراد کو روزگار میسر کرنے ، اپنی برآمدات میں اضافے اور ملک میں خوشحالی لانے کے لیے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہو ، طلب میں اضافہ ہو ، تاکہ اشیائے خوراک سے لے کر مصنوعات کی طلب و فروخت جب بڑھے گی تو اس کے ساتھ ہی رسد میں اضافے کے لیے پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اس سے نئے کارخانے کھلنے کا عمل بھی شروع ہوکر رہے گا۔
ایشیا کے وہ ممالک جوکہ ترقی پذیر ہیں اس کے علاوہ چین آسیان ممالک اور پاکستان کے اردگرد کے سارک ممالک وغیرہ میں لاک ڈاؤن کے باعث ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کے آرڈرز پاکستان منتقلی کے باعث پاکستان کی قدرے بہتر معاشی اور برآمداتی کارکردگی رہی، لیکن ان ملکوں میں مکمل معاشی سرگرمیوں کی بحالی جوکہ اس سال کے آخر تک متوقع ہے ان کی شرح افزائش میں اضافے کی توقع ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کی شرح کو بڑھانے کے لیے ابھی سے حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں کچھ اس قسم کی معاشی پالیسیاں اور معاشی منصوبہ بندی حتیٰ کہ بجٹ بھی ایسے پیش کیے جاتے رہے ہیں جن سے عام آدمی کا بھلا کم اور امیر طبقے کا فائدہ زیادہ ہوا کرتا تھا۔ موجودہ حکومت جوکہ معاشرے میں تبدیلی کی خواہاں ہے افراد کو غربت سے نکالنے کی خواہاں ہے اور ملکی معاشی ترقی کو اس نہج پر پہنچانے کی خواہاں ہے تاکہ معاشرے کے کمزور افراد کا زیادہ سے زیادہ بھلا ہو۔ اس کے لیے بجٹ میں کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال بجٹ پیش ہونے کے موقع پر حسب روایت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔
ایک ایسی معیشت جہاں افراط زر روز افزوں ہو، معاشی ترقی کی شرح پست ہو، ملکی کارخانے اس لیے کم پیداوار پر مجبور ہوں کہ ان کے مال کی طلب نہیں ہے۔ بعض زرعی پیداوار کی قیمتیں اس لیے کم ہیں کہ رسد کے مقابلے میں ان کی طلب کم ہے۔
لہٰذا زمیندار، کاشتکار کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حکومت بجٹ پیش کرتے وقت ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے لوگوں کی آمدن بڑھتی ہے تاکہ مہنگائی کا مقابلہ باآسانی کیا جاسکے ان میں سب سے اہم حکومت کے ملازمین اور پنشن یافتہ افراد کو ملنے والی رقوم میں مہنگائی کو مدنظر اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ جس کے لیے پیش ہونے والے بجٹ میں مختلف تجاویز رکھی گئی ہیں۔
اس طرح یہ مجموعی رقوم معیشت کے مختلف شعبوں میں سرائیت کر جاتی ہیں۔ اب اس سلسلے میں جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ملازمین کی تنخواہوں اور اضافے کی بات ہو رہی تھی لیکن واقفان حال کا کہنا تھا کہ پنشن یافتہ افراد کی پنشن میں اضافے کو صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جوکہ 18 سال کی عمر میں سرکاری ملازمت میں آنے کے بعد 42 بہاریں ملک و قوم کی خدمت میں صرف کرکے بڑھاپے میں داخل ہوئے اور پنشن کے حق دار قرار پائے۔
انھوں نے اپنی زندگی یوں سمجھ لیں کہ ساری زندگی صرف اور صرف ملک و قوم کی خدمت گزاری میں لگا دی۔ قلیل تنخواہ میں گزارا کیا، تنگی و جفاکشی میں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ اب جب یہ کسی کام کے نہ رہے تو ان کی پنشن میں اضافہ نہ کرنا سخت ناانصافی ہوگی۔ روایت یہ رہی کہ جس تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں اسی تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے پنشن کی رقوم بڑھادی جاتی ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ اس اضافی رقم کو وہ اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات میں کام میں لائیں گے۔ اس طرح ان دونوں طبقات کی تنخواہوں میں اضافے سے پرائیویٹ اور نجی اداروں کو اس بات کی فوری ترغیب ملتی ہے اور وہ ادارے کمپنیاں ملیں کارخانے دار وغیرہ وغیرہ اسی تناسب کو مدنظرکھتے ہوئے اپنے نجی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس طرح جب یہ ساری رقوم اکٹھی ہوکر معیشت میں داخل ہونے کے سبب کاروباری سرگرمیاں پیداواری سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی زرعی پیداوار کی فروخت بڑھنے سے کاشتکاروں کو اپنی پیداوار کی لاگت سے بڑھ کر رقوم مل جائیں گی۔ اب یہ سب باتیں مل کر دیہی علاقوں میں خوشحالی لے کر آئیں گی۔
قصہ مختصر مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ اور پنشن میں اضافہ جس کے نتیجے میں معیشت کے تمام شعبوں میں کام کرنے والے نجی افراد کی آمدن میں اضافے کے لیے ترغیب ملتی ہے اور پاکستان میں ہر سال ماہ جولائی میں انھی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نجی ملازمین کی تنخواہیں بڑھتی ہیں۔ جس کے باعث ایک طرف کروڑوں افراد کے لیے مہنگائی سے مقابلے کرنے کے لیے ان کی قوت خرید میں ہلکا پھلکا اضافہ ہو جاتا ہے اور زیادہ فائدہ معیشت کو اس طرح پہنچتا ہے کہ معاشی، کاروباری اور پیداواری سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں۔
معیشت جمود کا شکار نہیں ہوتی جس کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا کووڈ 19 کے اثرات کو زائل کرنے اور آیندہ برسوں میں معاشی ترقی کی شرح میں اضافے کے لیے حکومت کو سرکاری ملازمین اور پنشن یافتہ افراد کو ادا کی جانے والی رقوم میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس میں پنشن یافتہ افراد کو کسی طور پر نظرانداز کرنا معاشرے کے بزرگ افراد کی حق تلفی ہوگی۔ اس اضافے کے باعث آخر کار معاشرے کے تمام طبقات کو بتدریج فائدہ ہوگا۔