آئی سی سی اور کرپٹ عناصر میں چوہے بلی کا کھیل جاری
40کیسزکی تحقیقات ہو رہی ہیں،صرف اسی سال 6 کرکٹرز کو سزائیں سنائی گئیں،اینٹی کرپشن یونٹ چیف
QUETTA:
کرکٹ میں آئی سی سی اور کرپٹ عناصر میں چوہے بلی کا کھیل جاری ہے جب کہ 40 کرپشن کیسز کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔
آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ چیف الیکس مارشل نے برطانوی پولیس میں 37 سالہ کیریئر کے دوران فورس میں کرپشن کی تحقیقات کیں، اب وہ یہی کام کرکٹ میں انجام دے رہے ہیں مگر یہاں پر قانونی مجبوریوں نے ان کے ہاتھ باندھ دیے۔
اس وقت کرکٹ میں کرپشن کی 40 تحقیقات جاری ہیں،صرف رواں سال کے دوران 6 سابق اور موجودہ کرکٹرز کو پابندی کی سزا سنائی جا چکی،اے سی یو کا سامنا جدید ٹیکنالوجی سے لیس منظم کرپٹ مافیا سے ہے، حالیہ تحقیقات میں رقم کی جگہ بٹ کوائن دیے جانے کا انکشاف ہوچکا،اس دوران کرپٹ شخص کیلیے قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے مسٹر ایکس کی ٹرم استعمال ہوئی۔
مارشل نے کہاکہ کرکٹ کھیلنے والے بعض ممالک میں جوا غیرقانونی مگر کھیل پر شرطیں لگانا کافی مقبول ہے، بکیز اسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو ایک غیرقانونی مارکیٹ کا سامنا ہے، وہاں پرکسی قسم کے ڈیٹا تک رسائی نہیں، جس کی وجہ سے آپ بیٹنگ پیٹرن سے لاعلم رہتے ہیں،اس لیے ہم تک معلومات عام طور پر کرکٹ کے اندرونی لوگوں سے پہنچتی ہیں، جس پر ہم تحقیقات کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کرپٹ عناصر عام طور پر آئی سی سی سے دو قدم آگے رہتے ہیں،اب ہوٹل کی لابی میں پلیئرز سے رابطہ نہیں کیا جاتا بلکہ میٹنگ کیلیے مختلف طریقے استعمال ہوتے ہیں، مثال کے طور پر اماراتی کرکٹرزمحمد نوید اور شیمان انور نے کرپشن کی تفصیلات ساحل سمندر پر کافی پیتے ہوئے طے کیں۔
مارشل نے کہاکہ اکثر کھلاڑیوں کو اپنے دام میں الجھانے کیلیے کئی ماہ تک پلاننگ کی جاتی ہے، ہمارے پاس ایسے کیسز ہیں جن میں چھوٹے لیول کے ٹورنامنٹس میں فرنچائز مالکان طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت سرمایہ کاری کرتے ہوئے پائے گئے، وہ اپنی ٹیموں کو کرپٹ کرتے یا اندر کی معلومات بکیز کو فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈرافٹ میں پلیئرز کو پہلے ہی بتا دیا جاتا ہے کہ اگر وہ ٹیم مالک کے اشارے پر چلیں گے تو بھاری معاوضے پرمنتخب کیا جائے گا، اگر وہ کئی ملین ڈالر ٹیم کی خریداری پر لگاتے ہیں تو جلد اس کا فائدہ اٹھانے کی بھی فکر میں رہتے ہیں، مارشل نے مزید کہاکہ ہم کرپٹ عناصر کے نام منظرعام پر لانے کیلیے بھی قانونی اقدامات کررہے ہیں۔
کرکٹ میں آئی سی سی اور کرپٹ عناصر میں چوہے بلی کا کھیل جاری ہے جب کہ 40 کرپشن کیسز کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔
آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ چیف الیکس مارشل نے برطانوی پولیس میں 37 سالہ کیریئر کے دوران فورس میں کرپشن کی تحقیقات کیں، اب وہ یہی کام کرکٹ میں انجام دے رہے ہیں مگر یہاں پر قانونی مجبوریوں نے ان کے ہاتھ باندھ دیے۔
اس وقت کرکٹ میں کرپشن کی 40 تحقیقات جاری ہیں،صرف رواں سال کے دوران 6 سابق اور موجودہ کرکٹرز کو پابندی کی سزا سنائی جا چکی،اے سی یو کا سامنا جدید ٹیکنالوجی سے لیس منظم کرپٹ مافیا سے ہے، حالیہ تحقیقات میں رقم کی جگہ بٹ کوائن دیے جانے کا انکشاف ہوچکا،اس دوران کرپٹ شخص کیلیے قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے مسٹر ایکس کی ٹرم استعمال ہوئی۔
مارشل نے کہاکہ کرکٹ کھیلنے والے بعض ممالک میں جوا غیرقانونی مگر کھیل پر شرطیں لگانا کافی مقبول ہے، بکیز اسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو ایک غیرقانونی مارکیٹ کا سامنا ہے، وہاں پرکسی قسم کے ڈیٹا تک رسائی نہیں، جس کی وجہ سے آپ بیٹنگ پیٹرن سے لاعلم رہتے ہیں،اس لیے ہم تک معلومات عام طور پر کرکٹ کے اندرونی لوگوں سے پہنچتی ہیں، جس پر ہم تحقیقات کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کرپٹ عناصر عام طور پر آئی سی سی سے دو قدم آگے رہتے ہیں،اب ہوٹل کی لابی میں پلیئرز سے رابطہ نہیں کیا جاتا بلکہ میٹنگ کیلیے مختلف طریقے استعمال ہوتے ہیں، مثال کے طور پر اماراتی کرکٹرزمحمد نوید اور شیمان انور نے کرپشن کی تفصیلات ساحل سمندر پر کافی پیتے ہوئے طے کیں۔
مارشل نے کہاکہ اکثر کھلاڑیوں کو اپنے دام میں الجھانے کیلیے کئی ماہ تک پلاننگ کی جاتی ہے، ہمارے پاس ایسے کیسز ہیں جن میں چھوٹے لیول کے ٹورنامنٹس میں فرنچائز مالکان طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت سرمایہ کاری کرتے ہوئے پائے گئے، وہ اپنی ٹیموں کو کرپٹ کرتے یا اندر کی معلومات بکیز کو فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈرافٹ میں پلیئرز کو پہلے ہی بتا دیا جاتا ہے کہ اگر وہ ٹیم مالک کے اشارے پر چلیں گے تو بھاری معاوضے پرمنتخب کیا جائے گا، اگر وہ کئی ملین ڈالر ٹیم کی خریداری پر لگاتے ہیں تو جلد اس کا فائدہ اٹھانے کی بھی فکر میں رہتے ہیں، مارشل نے مزید کہاکہ ہم کرپٹ عناصر کے نام منظرعام پر لانے کیلیے بھی قانونی اقدامات کررہے ہیں۔