دوسری شادی لازمی بل بھی پیش کیجئے
18 سالہ نوجوانوں کی لازمی شادی بل کے بعد اہل استطاعت مردوں کی دوسری تیسری شادی لازمی کا بل بھی پیش کیجیے
سید عبدالرشید ممبر سندھ اسمبلی نے گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں 18 سال کے بعد شادی نہ کرنے والے نوجوان (لڑکے/ لڑکیوں) کے والدین پر جرمانے کی تجویز پیش کی ہے۔ جس پر ابھرتے کنواروں نے اچھی خاصی اچھل کود شروع کر رکھی ہے۔
کچھ والدین نے اسے خوش آئند قرار دیا ہے جبکہ کچھ نے اسے نامناسب کہا ہے۔ سب سے زیادہ اس پر شور وہ طبقہ مچارہا ہے جو شادی جیسے کسی بندھن میں بندھنے کے بجائے مادرپدر آزادی ہی کو زندگی کی روانی قرار دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں بندوں کے سامنے رضائے الٰہی کے ساتھ ایجاب و قبول کے بجائے ''نکی جئی ہاں'' کے بعد شتر بے مہار رنگ رلیاں مناتے پھریں۔
سید عبدالرشید نے زنا، حرص، جنسی درندگی کو بروقت شادی نہ ہونے کی جہاں وجہ قرار دیا ہے وہیں پر وہ شادی کو ایک لائف کوچنگ قرار دیتے ہیں کہ جس سے گزر کر نوجوان کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ بے ڈھنگی زندگی کو ترتیب میں لاسکتے ہیں۔ تازہ دم اور گرم لہو میں ہی اپنے لیے اور اپنے لائف پارٹنر کےلیے تگ و دو (کیریئر) کرسکتے ہیں، اور قوی امکان ہے کہ اس میں جلد کامیابیاں بھی سمیٹ سکتے ہیں۔
اس کی افادیت سے تو کسی طور انکار نہیں ہے، البتہ شادی چونکہ دو جوڑوں کا جہاں ملاپ ہے وہیں پر دو خاندانوں کی قربت کا ذریعہ بھی ہے۔ پھر ان دو خاندانوں کے میل ملاپ سے پیدا ہونے والی صورت حال کا بھی نام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شادی سے قبل نوجوانوں کو ایک ٹریننگ کورس سے گزارا جائے۔ جس میں انہیں آنے والی زندگی میں مشکلات اور ''پل صراط'' سے گزرنے کے گر سکھائے جائیں یا کم ازکم ان سے آشنائی ضرور کرادی جائے تاکہ بوقت ضرورت کام آسکیں۔ اس خیر کے کام پر میں سید عبدالرشید کو مشروط خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ بل پیش کیا۔
اب آپ حیران ہوں گے کہ اتنی لمبی چوڑی تعریفوں کے بعد بھی مشروط خراجِ تحسین، جی بالکل مشروط خراج تحسین، وہ اس لیے کہ مجھے امید ہے عبدالرشید صاحب جہاں نوعمر لڑکے لڑکیوں سے داد وصول کررہے ہیں، وہیں پر وہ کم ازکم پاکستان کے پختہ عمر طبقے سے بھی نہ صرف داد وصول کرسکتے ہیں بلکہ وہ اس پر اپنی بلے بلے بھی کروا سکتے ہیں۔ میری اگلی سطور پڑھنے والی خواتین بلڈ پریشر پر کنٹرول رکھتے ہوئے پڑھیں، کیونکہ یہ سطور ان پر بھاری پڑسکتی ہیں۔ مزید یہ کہ مرد بشمول میرے ان سطور کو اپنی ٹائم لائن پر سجانے کے ذمے دار بھی خود ہی ہوں گے، کیونکہ اب اس سے فرق نہیں پڑنے والا کہ آپ کا گھرانہ تحریکی ہے، لبرل ہے یا سیکولر، مذہبی ہے یا غیر مذہبی، پڑھا لکھا ہے یا اَن پڑھ، مزید یہ کہ آپ کی بیوی کس اسکول آف تھاٹس سے تعلق رکھتی ہے۔ یاد رکھیے وہ پہلے صرف خاتون ہے اور پھر ''آپ پر بیوی''۔
یہ ساری تمہید باندھنے کا مطلب معاملے کی حساسیت آپ کے دل و دماغ پر اجاگر کرنا تھا۔ امید ہے میں اس میں کسی حد تک کامیاب ٹھہرا ہوں گا۔ اگر نہیں کرپایا تو میری ناپختگی سمجھتے ہوئے درگزر فرمائیے گا۔ بات بہت طویل ہوچلی ہے۔ میرا مشروط خراج تحسین اس لیے تھا کہ عبدالرشید صاحب اس مکمل داد سمیٹنے کےلیے میری شرط پر بھی نظر کرم فرمائیں۔ ویسے بھی وہ بہادر ہیں اور نوجوانوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں، ان کےلیے اس سے نادر موقع شاید ہی میسر آئے کہ وہ ایک بل اسمبلی میں اور پیش کردیں کہ وہ شادی شدہ مرد حضرات جو استطاعت رکھتے ہیں اور دوسری تیسری شادی نہیں کررہے، ان کو بھی کسی قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ ان کی بیگمات پر ''بھاری جرمانے'' اور سزائیں دی جائیں تاکہ معرکہ ''حق و باطل'' میں کھڑے کرداروں میں صحیح معنوں میں تفریق کی جاسکے۔ کیونکہ پاکستان میں کنواروں کی بہتات تو ہے لیکن انہیں ایک امید بھی ہے کہ ان کی آج نہیں تو کل شادی ہو ہی جائے گی، جبکہ مطلقہ، بیوائیں ایسی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ وہ یہ امید ہی چھوڑے بیٹھی ہیں کہ اب ان کی زندگی میں بھی کبھی بہار آئے گی۔
سید عبدالرشید صاحب سے بہت زیادہ امید رکھتے ہیں وہ یہ کر گزریں گے اور پھر لیاری ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان ان کو اپنا رہنما بنالے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کچھ والدین نے اسے خوش آئند قرار دیا ہے جبکہ کچھ نے اسے نامناسب کہا ہے۔ سب سے زیادہ اس پر شور وہ طبقہ مچارہا ہے جو شادی جیسے کسی بندھن میں بندھنے کے بجائے مادرپدر آزادی ہی کو زندگی کی روانی قرار دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں بندوں کے سامنے رضائے الٰہی کے ساتھ ایجاب و قبول کے بجائے ''نکی جئی ہاں'' کے بعد شتر بے مہار رنگ رلیاں مناتے پھریں۔
سید عبدالرشید نے زنا، حرص، جنسی درندگی کو بروقت شادی نہ ہونے کی جہاں وجہ قرار دیا ہے وہیں پر وہ شادی کو ایک لائف کوچنگ قرار دیتے ہیں کہ جس سے گزر کر نوجوان کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ بے ڈھنگی زندگی کو ترتیب میں لاسکتے ہیں۔ تازہ دم اور گرم لہو میں ہی اپنے لیے اور اپنے لائف پارٹنر کےلیے تگ و دو (کیریئر) کرسکتے ہیں، اور قوی امکان ہے کہ اس میں جلد کامیابیاں بھی سمیٹ سکتے ہیں۔
اس کی افادیت سے تو کسی طور انکار نہیں ہے، البتہ شادی چونکہ دو جوڑوں کا جہاں ملاپ ہے وہیں پر دو خاندانوں کی قربت کا ذریعہ بھی ہے۔ پھر ان دو خاندانوں کے میل ملاپ سے پیدا ہونے والی صورت حال کا بھی نام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شادی سے قبل نوجوانوں کو ایک ٹریننگ کورس سے گزارا جائے۔ جس میں انہیں آنے والی زندگی میں مشکلات اور ''پل صراط'' سے گزرنے کے گر سکھائے جائیں یا کم ازکم ان سے آشنائی ضرور کرادی جائے تاکہ بوقت ضرورت کام آسکیں۔ اس خیر کے کام پر میں سید عبدالرشید کو مشروط خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ بل پیش کیا۔
اب آپ حیران ہوں گے کہ اتنی لمبی چوڑی تعریفوں کے بعد بھی مشروط خراجِ تحسین، جی بالکل مشروط خراج تحسین، وہ اس لیے کہ مجھے امید ہے عبدالرشید صاحب جہاں نوعمر لڑکے لڑکیوں سے داد وصول کررہے ہیں، وہیں پر وہ کم ازکم پاکستان کے پختہ عمر طبقے سے بھی نہ صرف داد وصول کرسکتے ہیں بلکہ وہ اس پر اپنی بلے بلے بھی کروا سکتے ہیں۔ میری اگلی سطور پڑھنے والی خواتین بلڈ پریشر پر کنٹرول رکھتے ہوئے پڑھیں، کیونکہ یہ سطور ان پر بھاری پڑسکتی ہیں۔ مزید یہ کہ مرد بشمول میرے ان سطور کو اپنی ٹائم لائن پر سجانے کے ذمے دار بھی خود ہی ہوں گے، کیونکہ اب اس سے فرق نہیں پڑنے والا کہ آپ کا گھرانہ تحریکی ہے، لبرل ہے یا سیکولر، مذہبی ہے یا غیر مذہبی، پڑھا لکھا ہے یا اَن پڑھ، مزید یہ کہ آپ کی بیوی کس اسکول آف تھاٹس سے تعلق رکھتی ہے۔ یاد رکھیے وہ پہلے صرف خاتون ہے اور پھر ''آپ پر بیوی''۔
یہ ساری تمہید باندھنے کا مطلب معاملے کی حساسیت آپ کے دل و دماغ پر اجاگر کرنا تھا۔ امید ہے میں اس میں کسی حد تک کامیاب ٹھہرا ہوں گا۔ اگر نہیں کرپایا تو میری ناپختگی سمجھتے ہوئے درگزر فرمائیے گا۔ بات بہت طویل ہوچلی ہے۔ میرا مشروط خراج تحسین اس لیے تھا کہ عبدالرشید صاحب اس مکمل داد سمیٹنے کےلیے میری شرط پر بھی نظر کرم فرمائیں۔ ویسے بھی وہ بہادر ہیں اور نوجوانوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں، ان کےلیے اس سے نادر موقع شاید ہی میسر آئے کہ وہ ایک بل اسمبلی میں اور پیش کردیں کہ وہ شادی شدہ مرد حضرات جو استطاعت رکھتے ہیں اور دوسری تیسری شادی نہیں کررہے، ان کو بھی کسی قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ ان کی بیگمات پر ''بھاری جرمانے'' اور سزائیں دی جائیں تاکہ معرکہ ''حق و باطل'' میں کھڑے کرداروں میں صحیح معنوں میں تفریق کی جاسکے۔ کیونکہ پاکستان میں کنواروں کی بہتات تو ہے لیکن انہیں ایک امید بھی ہے کہ ان کی آج نہیں تو کل شادی ہو ہی جائے گی، جبکہ مطلقہ، بیوائیں ایسی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ وہ یہ امید ہی چھوڑے بیٹھی ہیں کہ اب ان کی زندگی میں بھی کبھی بہار آئے گی۔
سید عبدالرشید صاحب سے بہت زیادہ امید رکھتے ہیں وہ یہ کر گزریں گے اور پھر لیاری ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان ان کو اپنا رہنما بنالے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔