کورونالاک ڈاؤن سے بینڈ باجے والوں کی شہنایاں بھی دم توڑ گئیں
شادی بیاہ کی تقریبات سے بند ہونے سے بینڈ باجا بجانے والے ہزاروں افراد بیروزگار ہوگئے
کوویڈ 19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک میں بینڈ باجے والوں کا کام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے، ہزاروں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں جبکہ اب صدیوں پرانا یہ فن اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، بینڈ باجے والے گھروں کا چولہا جلانے کے لئے محنت مزدوری کررہے ہیں۔
شادی بیاہ کی تقریبات اورخوشیاں بینڈباجے اورشہانیوں کے بغیرادھوری رہتی ہیں لیکن ملک میں گزشتہ دوسال سے کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب شادی بیاہ کی تقریبات پرپابندی اورشادہ ہالزکی بندش کی وجہ سے بینڈباجابجانے والوں کے باجے بھی خاموش ہوگئے ہیں۔
لاہور کے یکی گیٹ کے قریب بینڈ باجے والوں کی کم وبیش 25 دکانیں ہیں، ان میں آدھی سے زیادہ دکانوں کو تالے لگے ہیں جبکہ باقی دکانوں پر بینڈ ماسٹراوران کی ٹیم کے چند لوگ روزانہ اس امید پر آکر بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید آج انہیں کوئی فنکشن مل جائے گا۔
میاں نواز گزشتہ 20 سال سے اس کام سے منسلک ہیں ، انہوں نے بتایا کہ کوریڈکی وجہ سے جہاں دیگرشعبے متاثرہوئے ہیں وہیں بینڈباجے والوں کاکام توبالکل بندہوگیاہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف لاہورڈویژن میں بینڈباجے والوں کی ڈھائی ہزاردکانیں ہیں اوراگرایک بینڈوالے کے ساتھ کم وبیش 15 سے 20 لوگ ہوتے ہیں۔
میاں نواز کہتے ہیں دوسال سے دکانوں کے کرائے، گھروں کا راشن، بجلی، گیس اور پانی کے بل ادا کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ ان کے پاس کچھ ملازم ایسے تھے جو دیہات سے تعلق رکھتے ہیں وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے وہاں جاکر گندم، چاول اور گنے کی کٹائی کرکے روزی کمارہے ہیں، جو شہروں میں رہتے ہیں ان میں سے کوئی منڈی میں چلا جاتا ہے اور وہاں پانڈی کا کام کرتا ہے، کچھ لوگوں نے چنگ چی رکشے بنائے ہیں۔ اس طرح کام چلارہے ہیں۔ حکومت نے احساس پروگرام میں بھی ہمارے شعبے کو نظرانداز کیا ہے، ڈھائی لاکھ میں سے بمشکل ڈھائی ہزار لوگوں کو امداد ملی ہوگی۔
ایک اور نوجوان بلال جاوید نے بتایا کہ حکومت نے پہلے یکم جون اوراب 15 جون سے شادی ہالز کھولنے اور شادی بیاہ کی تقریبات کے انعقاد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے تو انہیں کچھ حوصلہ ہوا ہے، ان کا کاروبار پہلے ہی ڈی جے اور گھوڑی ڈانس والوں کی وجہ سے متاثرہورہا تھا اب رہی سہی کسر کورونا لاک ڈاؤن نے پوری کردی ہے۔ شادی ہالز والے بینڈ باجے والوں کو ہال کے اندرنہیں جانے دیتے، باہرگھوڑی ڈانس والا ویلیں پکڑ لیتا ہے۔ ہمارے لیے تو روٹین میں بھی اخراجات پورا کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ جولوگ فنکشن پر لے کرجاتے ہیں وہ دس سے پندرہ ہزار روپے دیتے ہیں۔ 12 افراد کی ٹیم میں کچھ افراد کو1500 روپے اور بعض کو ایک ہزار روپے دیہاڑی دیتے ہیں۔ پھرٹرانسپورٹ کا کرایہ ، دیگراخراجات، ہمارا اصل منافع ویلیں ہوتی ہیں۔
بلال جاوید کہتے ہیں جب انسان کا پیٹ بھرا ہوا تو پھر شہانیاں بھی خوشی کا اظہارکرتی ہیں لیکن خالی پیٹ شہانیوں کی آوازافسردہ ہوجاتی ہے۔ اب تو اس دھندے کے جو حالات ہوگئے اسے چھوڑنے کا پروگرام بنارہے ہیں، لوگ بینڈ باجے کی بجائے ڈی جے پر میوزک لگا کر اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں۔ ہم لوگ چونکہ کئی نسلوں سے اس کام سے جڑے ہیں اس لئے گلے پڑا ڈھول بجانے پر مجبور ہیں۔
شادی بیاہ کی تقریبات اورخوشیاں بینڈباجے اورشہانیوں کے بغیرادھوری رہتی ہیں لیکن ملک میں گزشتہ دوسال سے کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب شادی بیاہ کی تقریبات پرپابندی اورشادہ ہالزکی بندش کی وجہ سے بینڈباجابجانے والوں کے باجے بھی خاموش ہوگئے ہیں۔
لاہور کے یکی گیٹ کے قریب بینڈ باجے والوں کی کم وبیش 25 دکانیں ہیں، ان میں آدھی سے زیادہ دکانوں کو تالے لگے ہیں جبکہ باقی دکانوں پر بینڈ ماسٹراوران کی ٹیم کے چند لوگ روزانہ اس امید پر آکر بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید آج انہیں کوئی فنکشن مل جائے گا۔
میاں نواز گزشتہ 20 سال سے اس کام سے منسلک ہیں ، انہوں نے بتایا کہ کوریڈکی وجہ سے جہاں دیگرشعبے متاثرہوئے ہیں وہیں بینڈباجے والوں کاکام توبالکل بندہوگیاہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف لاہورڈویژن میں بینڈباجے والوں کی ڈھائی ہزاردکانیں ہیں اوراگرایک بینڈوالے کے ساتھ کم وبیش 15 سے 20 لوگ ہوتے ہیں۔
میاں نواز کہتے ہیں دوسال سے دکانوں کے کرائے، گھروں کا راشن، بجلی، گیس اور پانی کے بل ادا کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ ان کے پاس کچھ ملازم ایسے تھے جو دیہات سے تعلق رکھتے ہیں وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے وہاں جاکر گندم، چاول اور گنے کی کٹائی کرکے روزی کمارہے ہیں، جو شہروں میں رہتے ہیں ان میں سے کوئی منڈی میں چلا جاتا ہے اور وہاں پانڈی کا کام کرتا ہے، کچھ لوگوں نے چنگ چی رکشے بنائے ہیں۔ اس طرح کام چلارہے ہیں۔ حکومت نے احساس پروگرام میں بھی ہمارے شعبے کو نظرانداز کیا ہے، ڈھائی لاکھ میں سے بمشکل ڈھائی ہزار لوگوں کو امداد ملی ہوگی۔
ایک اور نوجوان بلال جاوید نے بتایا کہ حکومت نے پہلے یکم جون اوراب 15 جون سے شادی ہالز کھولنے اور شادی بیاہ کی تقریبات کے انعقاد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے تو انہیں کچھ حوصلہ ہوا ہے، ان کا کاروبار پہلے ہی ڈی جے اور گھوڑی ڈانس والوں کی وجہ سے متاثرہورہا تھا اب رہی سہی کسر کورونا لاک ڈاؤن نے پوری کردی ہے۔ شادی ہالز والے بینڈ باجے والوں کو ہال کے اندرنہیں جانے دیتے، باہرگھوڑی ڈانس والا ویلیں پکڑ لیتا ہے۔ ہمارے لیے تو روٹین میں بھی اخراجات پورا کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ جولوگ فنکشن پر لے کرجاتے ہیں وہ دس سے پندرہ ہزار روپے دیتے ہیں۔ 12 افراد کی ٹیم میں کچھ افراد کو1500 روپے اور بعض کو ایک ہزار روپے دیہاڑی دیتے ہیں۔ پھرٹرانسپورٹ کا کرایہ ، دیگراخراجات، ہمارا اصل منافع ویلیں ہوتی ہیں۔
بلال جاوید کہتے ہیں جب انسان کا پیٹ بھرا ہوا تو پھر شہانیاں بھی خوشی کا اظہارکرتی ہیں لیکن خالی پیٹ شہانیوں کی آوازافسردہ ہوجاتی ہے۔ اب تو اس دھندے کے جو حالات ہوگئے اسے چھوڑنے کا پروگرام بنارہے ہیں، لوگ بینڈ باجے کی بجائے ڈی جے پر میوزک لگا کر اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں۔ ہم لوگ چونکہ کئی نسلوں سے اس کام سے جڑے ہیں اس لئے گلے پڑا ڈھول بجانے پر مجبور ہیں۔