ریلوے کا خسارہ کیوں بڑھ رہا ہے
ریلوے کی آمدنی کا زیادہ تر انحصار گڈز ٹرینیں عرف عام میں مال گاڑیاں یا فریٹ ٹرینیں ہوتی تھیں۔
ملک کا سب سے بڑا قومی اثاثہ یا قومی ادارہ پاکستان ریلوے کیوں خسارے کی جانب بڑھ رہا ہے، جب کہ یہ ادارہ 1860 میں پورے طور پر برصغیر میں مکمل ہو گیا تھا،یہ ادارہ انتہائی کامیابی سے چلتا رہا اور بالاخر وہ وقت آن پہنچا جب 1947 میں دو ملک آزاد ہوگئے تھے۔
قائداعظم کی قیادت میں ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آگیا۔ بٹوارے میں ہمیں سڑکیں ملیں، نہری نظام ملا، کے پی ٹی ملی، کے ایم سی ملی، سمندر ملا اور پھر سب سے بڑھ کر ملک بھر میں پھیلی ہوئی ریلوے لائن ملی۔ والٹن ٹریننگ اسکول ملا، ہیڈ کوارٹرز کی قلعہ نما عمارت ، گراؤنڈ ، اسکول ،اسپتال ، ڈسپنسریاں ، ڈاک بنگلے ملے، ریلوے کے بہترین کلب ملے، کوئٹہ میں سردار بہادر ٹی بی سینی ٹوریم ملا، 75 ہزار سے زائد ملازمین کو کوارٹرز ملے، مغل پورہ سمیت ملک بھر میں 10 سے زئد ورکشاپس اور فیکٹریاں ملیں، انجن اور ہزاروں مسافر کوچز ملیں، مال گاڑیوں کے ہزاروں ڈبے ملے۔
بھاری بھرکم ریلوے جنرل اسٹور ملا، بڑے بڑے برجز پل ، ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی پختہ عمارتیں ، بنے بنائے 850 سے زائد اسٹیشن ملے، ملک بھر میں چلتی پھرتی برانچ لائنوں کی ٹرینیں ملیں، ریلوے کی بے پناہ زمین جو کراچی تا لنڈی کوتل اور کوئٹہ تا چمن، زاہدان تک ملی، ریلوے افسران کی ایماندار افسران کی فوج ملی، ریلوے کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد ملازمین کی تعداد ملی، بہترین کاریگر ملے اور بڑی اچھی حالت میں چلتی پھرتی ہمیں ٹرینیں ملیں، خیر یہ بہت لمبی کہانی ہے۔
پرانے لوگ جانتے ہوں گے تاریخ موجود ہے چونکہ میرا تعلق بھی 75 برس سے ریلوے سے رہا ہے ، والد صاحب ریلوے میں ملازم تھے، سو میں بھی ریلوے کالونی کراچی سٹی میں 4 دسمبر 1945 کو پیدا ہوا۔ بچپن دیکھا، لڑکپن دیکھا، جوانی دیکھی اور بڑھاپا دیکھ رہا ہوں۔
ریلوے بڑی اچھی دیکھی کالونی ہی میں اسکول دیکھا، ریلوے ڈسپنسری دیکھی، ریلوے کے بنے راشن ڈپو دیکھے اور پھر ریلوے میں بطور بکنگ کلرک، ریزرویشن کلرک اور دوڑتی ہوئی ٹرینوں میں بطور ٹکٹ چیکر (ٹی ٹی) کام کیا اور 35 سال بعد ریٹائرمنٹ لے لی۔ اب سیاست، ٹریڈ یونین اور ادبی کتابیں اور تاریخ کی کتابیں پڑھ کر جدوجہد کرتے ہوئے زندگی گزار رہا ہوں۔
خیر یہ ہو گیا اب کیا کہنا ہے کہ ریلوے زوال پذیر کیوں ہوئی؟ ریلوے ایک ہی تھی ایک ہی وزیر ہوتا تھا سوئی سے لے کر انجن اور کوچز تک ریلوے کے کاری گر اور فورمین تیار کرتے تھے۔ درزی خانہ تھا جہاں ملازمین کی وردیاں سلتی تھیں جیسے میں نے پہلے کہا کہ ریلوے ایک تھی۔ وزیر ایک تھا، اس کا بجٹ ملکی بجٹ سے الگ تھا۔ بڑا خوبصورت اور آرام دہ سفر تھا۔ بعد میں ایئرلائنز پی آئی اے بھی آگئی۔
ریلوے کی آمدنی کا زیادہ تر انحصار گڈز ٹرینیں عرف عام میں مال گاڑیاں یا فریٹ ٹرینیں ہوتی تھیں بڑی آمدنی تھی بڑا فائدہ تھا عوام کا بھی ریلوے کا بھی اور حکومت کا بھی۔ ریلوے کبھی بھی حکومت پر بوجھ نہیں بنا بلکہ حکومت کا مددگار رہا، یہ ادارہ 1975 تک فعال اور منافع بخش رہا، بعد میں اس میں بڑی تبدیلی آئی۔ کرپشن بڑھنا شروع ہوگئی۔ ریلوے منسٹری اسلام آباد میں بنائی گئی جب کہ ریلوے ہیڈ کوارٹرز لاہور میں موجود تھا۔
ریلوے کے 5 ڈویژن میں جن میں کراچی ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن، ملتان ڈویژن، لاہور ڈویژن اور راولپنڈی ڈویژن موجود تھا۔ ریلوے میں واچ اینڈ وارڈ کا سسٹم موجود تھا۔ ڈسٹرک پولیس کے چند اہلکار تھانے میں ہوتے تھے اور وہ صوبائی حکومتوں کے ملازمین ہوتے تھے،پھر بعد میں دو ڈویژن ایوب خان کے دور میں چھٹا ڈویژن سکھر بنایا گیااور پھر ضیا الحق کے دور میں پشاور ڈویژن بھی بنا دیا گیا۔
دوسری طرف لاہور میں مغل پورہ ورکشاپ ڈویژن پہلے سے موجود تھا۔ اور پھر جنرل اسٹور اور ہیڈ کوارٹر ڈویژن بھی بنا دیا گیا۔ یعنی 10 ڈویژن، ریلوے منسٹری اسلام آباد بلاک ڈی کی چار منزلیں۔ افسران کی تعداد بڑھ گئی اور ملازمین کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ پھر ریلوے نے کئی ایک پروجیکٹ بنائے، مائیکر و سسٹم ٹیلی فون کا لایا گیا ناکام ہو گیا۔ مارشکنگ یارڈ بنایا گیا۔ نئے نئے سسٹم بنائے گئے سب ناکام ہوگئے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نج کاری کا ڈنکہ بجایا گیا۔ چین سے 69 انجن خریدے گئے ناکارہ ہوگئے۔ پیسنجر کوچز خریدی گئیں۔ ریلوے کلب ریلوے اسپتال بیچے گئے۔ ریلوے اسکول بیچے گئے، ریلوے کی قیمتی زمینیں فروخت کی گئیں، اب ٹرینوں کی نجکاری جوکہ نواز شریف کے دور سے شروع کی گئی، ناکام ہوگئی ٹھیکیدار مال کما کر بھاگ گئے اور اب پھر وفاقی حکومت ریلوے کی نج کاری کی طرف جا رہی ہے، ملازمین کی تعداد گھٹ کر 65 ہزار رہ گئی ہے افسران کی فوج ظفر موج موجود ہے ریلوے کا خسارہ بڑھ گیا ہے۔
شیخ رشید کے تازہ دور 2018، 2019 میں 36 ارب کا خسارہ تھا اور اب تازہ ترین ایک رپورٹ کے مطابق جوکہ تازہ خبر ہے کہ ملک کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے مطابق ریلوے کو ایک کھرب 19 ارب کا خسارہ ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ریلوے کو 1470 کروڑ روپے کی منظوری دی ہے جس کے تحت 7 ارب 50 کروڑ کی رقم پنشن اور تنخواہ کی مد میں ہوگی اس طرح رواں مالی سال میں 36 ارب 28 کروڑ کا خسارہ ہوا جب کہ 1918-19 میں ریلوے کا خسارہ 32 ارب 76 کروڑ تھا۔
2019-20 میں یہ خسارہ 50 ارب 15 کروڑ تھا۔ ٹرینوں کی تعداد 120 تھی، اب کم کرکے 84 ٹرینیں رہ گئی ہیں۔ 36 ٹرینیں بند کردی گئی ہیں۔ 15 ٹرینوں کو آف سورس کرکے نجکاری کی جائے گی اور وہ بھی صرف ٹکٹ بیچنے تک محدود رہے گی۔ یہ کیسی نج کاری ہے کہ ٹریک ہمارا، انجن ہمارا، ڈیزل اور تیل ہمارا، کوچز اور بوگیاں ہماری، ٹھیکیدار صرف ٹکٹ بیچ کر اور مال کما کر چلا جائے گا ایسا پہلے بھی ہوتا رہا۔ کئی ٹھیکیدار بھاگ گئے، بلور صاحب کے دور میں پہلی بزنس ٹرین کی نجکاری کی گئی، ٹھیکیدار ریلوے کے ایک ارب 80 کروڑ روپے لے کر بھاگ گیا اور مقدمہ کئی سال سے سپریم کورٹ میں چل رہا ہے کب فیصلہ ہوگا۔
یہ نجکاری نہیں ہے اگر پرائیویٹ سیکٹر والے آتے ہیں تو وہ اپنے انجن لائیں۔ اپنی کوچز لائیں اپنا اسٹاف لائیں اور ہمارے ٹریک پر چلائیں ہمیں صرف اس کا کرایہ ادا کریں اور مقابلہ کریں پاکستان ریلوے بمقابلہ پرائیویٹ ٹرین تاکہ نفع نقصان کا پتا چل سکے۔ خیر اس پر پھر کبھی لکھیں گے۔ نجکاری کیا ہوتی ہے ، حکومت کیا ہوتی ہے، ادارے کیا ہوتے ہیں ،ریلوے کیسے چلتی ہے۔
قائداعظم کی قیادت میں ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آگیا۔ بٹوارے میں ہمیں سڑکیں ملیں، نہری نظام ملا، کے پی ٹی ملی، کے ایم سی ملی، سمندر ملا اور پھر سب سے بڑھ کر ملک بھر میں پھیلی ہوئی ریلوے لائن ملی۔ والٹن ٹریننگ اسکول ملا، ہیڈ کوارٹرز کی قلعہ نما عمارت ، گراؤنڈ ، اسکول ،اسپتال ، ڈسپنسریاں ، ڈاک بنگلے ملے، ریلوے کے بہترین کلب ملے، کوئٹہ میں سردار بہادر ٹی بی سینی ٹوریم ملا، 75 ہزار سے زائد ملازمین کو کوارٹرز ملے، مغل پورہ سمیت ملک بھر میں 10 سے زئد ورکشاپس اور فیکٹریاں ملیں، انجن اور ہزاروں مسافر کوچز ملیں، مال گاڑیوں کے ہزاروں ڈبے ملے۔
بھاری بھرکم ریلوے جنرل اسٹور ملا، بڑے بڑے برجز پل ، ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی پختہ عمارتیں ، بنے بنائے 850 سے زائد اسٹیشن ملے، ملک بھر میں چلتی پھرتی برانچ لائنوں کی ٹرینیں ملیں، ریلوے کی بے پناہ زمین جو کراچی تا لنڈی کوتل اور کوئٹہ تا چمن، زاہدان تک ملی، ریلوے افسران کی ایماندار افسران کی فوج ملی، ریلوے کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد ملازمین کی تعداد ملی، بہترین کاریگر ملے اور بڑی اچھی حالت میں چلتی پھرتی ہمیں ٹرینیں ملیں، خیر یہ بہت لمبی کہانی ہے۔
پرانے لوگ جانتے ہوں گے تاریخ موجود ہے چونکہ میرا تعلق بھی 75 برس سے ریلوے سے رہا ہے ، والد صاحب ریلوے میں ملازم تھے، سو میں بھی ریلوے کالونی کراچی سٹی میں 4 دسمبر 1945 کو پیدا ہوا۔ بچپن دیکھا، لڑکپن دیکھا، جوانی دیکھی اور بڑھاپا دیکھ رہا ہوں۔
ریلوے بڑی اچھی دیکھی کالونی ہی میں اسکول دیکھا، ریلوے ڈسپنسری دیکھی، ریلوے کے بنے راشن ڈپو دیکھے اور پھر ریلوے میں بطور بکنگ کلرک، ریزرویشن کلرک اور دوڑتی ہوئی ٹرینوں میں بطور ٹکٹ چیکر (ٹی ٹی) کام کیا اور 35 سال بعد ریٹائرمنٹ لے لی۔ اب سیاست، ٹریڈ یونین اور ادبی کتابیں اور تاریخ کی کتابیں پڑھ کر جدوجہد کرتے ہوئے زندگی گزار رہا ہوں۔
خیر یہ ہو گیا اب کیا کہنا ہے کہ ریلوے زوال پذیر کیوں ہوئی؟ ریلوے ایک ہی تھی ایک ہی وزیر ہوتا تھا سوئی سے لے کر انجن اور کوچز تک ریلوے کے کاری گر اور فورمین تیار کرتے تھے۔ درزی خانہ تھا جہاں ملازمین کی وردیاں سلتی تھیں جیسے میں نے پہلے کہا کہ ریلوے ایک تھی۔ وزیر ایک تھا، اس کا بجٹ ملکی بجٹ سے الگ تھا۔ بڑا خوبصورت اور آرام دہ سفر تھا۔ بعد میں ایئرلائنز پی آئی اے بھی آگئی۔
ریلوے کی آمدنی کا زیادہ تر انحصار گڈز ٹرینیں عرف عام میں مال گاڑیاں یا فریٹ ٹرینیں ہوتی تھیں بڑی آمدنی تھی بڑا فائدہ تھا عوام کا بھی ریلوے کا بھی اور حکومت کا بھی۔ ریلوے کبھی بھی حکومت پر بوجھ نہیں بنا بلکہ حکومت کا مددگار رہا، یہ ادارہ 1975 تک فعال اور منافع بخش رہا، بعد میں اس میں بڑی تبدیلی آئی۔ کرپشن بڑھنا شروع ہوگئی۔ ریلوے منسٹری اسلام آباد میں بنائی گئی جب کہ ریلوے ہیڈ کوارٹرز لاہور میں موجود تھا۔
ریلوے کے 5 ڈویژن میں جن میں کراچی ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن، ملتان ڈویژن، لاہور ڈویژن اور راولپنڈی ڈویژن موجود تھا۔ ریلوے میں واچ اینڈ وارڈ کا سسٹم موجود تھا۔ ڈسٹرک پولیس کے چند اہلکار تھانے میں ہوتے تھے اور وہ صوبائی حکومتوں کے ملازمین ہوتے تھے،پھر بعد میں دو ڈویژن ایوب خان کے دور میں چھٹا ڈویژن سکھر بنایا گیااور پھر ضیا الحق کے دور میں پشاور ڈویژن بھی بنا دیا گیا۔
دوسری طرف لاہور میں مغل پورہ ورکشاپ ڈویژن پہلے سے موجود تھا۔ اور پھر جنرل اسٹور اور ہیڈ کوارٹر ڈویژن بھی بنا دیا گیا۔ یعنی 10 ڈویژن، ریلوے منسٹری اسلام آباد بلاک ڈی کی چار منزلیں۔ افسران کی تعداد بڑھ گئی اور ملازمین کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ پھر ریلوے نے کئی ایک پروجیکٹ بنائے، مائیکر و سسٹم ٹیلی فون کا لایا گیا ناکام ہو گیا۔ مارشکنگ یارڈ بنایا گیا۔ نئے نئے سسٹم بنائے گئے سب ناکام ہوگئے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نج کاری کا ڈنکہ بجایا گیا۔ چین سے 69 انجن خریدے گئے ناکارہ ہوگئے۔ پیسنجر کوچز خریدی گئیں۔ ریلوے کلب ریلوے اسپتال بیچے گئے۔ ریلوے اسکول بیچے گئے، ریلوے کی قیمتی زمینیں فروخت کی گئیں، اب ٹرینوں کی نجکاری جوکہ نواز شریف کے دور سے شروع کی گئی، ناکام ہوگئی ٹھیکیدار مال کما کر بھاگ گئے اور اب پھر وفاقی حکومت ریلوے کی نج کاری کی طرف جا رہی ہے، ملازمین کی تعداد گھٹ کر 65 ہزار رہ گئی ہے افسران کی فوج ظفر موج موجود ہے ریلوے کا خسارہ بڑھ گیا ہے۔
شیخ رشید کے تازہ دور 2018، 2019 میں 36 ارب کا خسارہ تھا اور اب تازہ ترین ایک رپورٹ کے مطابق جوکہ تازہ خبر ہے کہ ملک کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے مطابق ریلوے کو ایک کھرب 19 ارب کا خسارہ ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ریلوے کو 1470 کروڑ روپے کی منظوری دی ہے جس کے تحت 7 ارب 50 کروڑ کی رقم پنشن اور تنخواہ کی مد میں ہوگی اس طرح رواں مالی سال میں 36 ارب 28 کروڑ کا خسارہ ہوا جب کہ 1918-19 میں ریلوے کا خسارہ 32 ارب 76 کروڑ تھا۔
2019-20 میں یہ خسارہ 50 ارب 15 کروڑ تھا۔ ٹرینوں کی تعداد 120 تھی، اب کم کرکے 84 ٹرینیں رہ گئی ہیں۔ 36 ٹرینیں بند کردی گئی ہیں۔ 15 ٹرینوں کو آف سورس کرکے نجکاری کی جائے گی اور وہ بھی صرف ٹکٹ بیچنے تک محدود رہے گی۔ یہ کیسی نج کاری ہے کہ ٹریک ہمارا، انجن ہمارا، ڈیزل اور تیل ہمارا، کوچز اور بوگیاں ہماری، ٹھیکیدار صرف ٹکٹ بیچ کر اور مال کما کر چلا جائے گا ایسا پہلے بھی ہوتا رہا۔ کئی ٹھیکیدار بھاگ گئے، بلور صاحب کے دور میں پہلی بزنس ٹرین کی نجکاری کی گئی، ٹھیکیدار ریلوے کے ایک ارب 80 کروڑ روپے لے کر بھاگ گیا اور مقدمہ کئی سال سے سپریم کورٹ میں چل رہا ہے کب فیصلہ ہوگا۔
یہ نجکاری نہیں ہے اگر پرائیویٹ سیکٹر والے آتے ہیں تو وہ اپنے انجن لائیں۔ اپنی کوچز لائیں اپنا اسٹاف لائیں اور ہمارے ٹریک پر چلائیں ہمیں صرف اس کا کرایہ ادا کریں اور مقابلہ کریں پاکستان ریلوے بمقابلہ پرائیویٹ ٹرین تاکہ نفع نقصان کا پتا چل سکے۔ خیر اس پر پھر کبھی لکھیں گے۔ نجکاری کیا ہوتی ہے ، حکومت کیا ہوتی ہے، ادارے کیا ہوتے ہیں ،ریلوے کیسے چلتی ہے۔