امت مسلمہ کے ساتھ ناانصافی
امت مسلم اور مسلم حکمرانوں کو کفار کی چال اور ان کے مکر و فریب کو سمجھ لینا چاہیے یہ وقت کا تقاضا ہے۔
KARACHI:
جس وقت میں نے یہ خبر سنی تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ خبر یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس جنگ بندی پر رضامند ہوگئے۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ حماس نے کب اور کس وقت اور کون سے ہتھیاروں سے جنگ شروع کی تھی اور نہتے اسرائیلیوں کو خون میں نہلا دیا تھا۔
یہ تشدد اور بربریت کی فضا پروان چڑھانے والا اسرائیل ہے جو ان لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے جن کے پاس جنگی ہتھیار پتھروں کی شکل میں ہیں فلسطینی بچے، جوان پتھروں سے اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت سے مقابلہ کرتے ہیں ان کے پاس جدید ہتھیار ہیں اور فلسطینیوں کے پاس ایمان کی طاقت ہے انھیں اپنے رب پر پورا یقین ہے کہ وہ ان کی اسی طرح مدد کرے گا جس طرح جنگ بدر میں صرف 313 کے مقابلے میں اللہ نے مدد فرمائی تھی فرشتوں کی فوج ساتھ تھی اور ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے اور قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔
مسلمان جذبہ جہاد سے سرشار اور شوق شہادت سے مغلوب ہو کر میدان کارزار میں اترتے ہیں اور اپنے دشمن کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ اسرائیل خونی درندہ ہے وہ جب چاہتا ہے قتل و غارت کا بازار گرم کردیتا ہے۔
اس جنگ کے خاتمے میں مصر کا اہم کردار رہا ہے، ترکی نے خون مسلم کا بے دریغ صہیونیوں کے ہاتھوں بہتا دیکھ کر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مجرم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بڑے مجرم کو کون سی عدالت میں پیش کیا جائے، جہاں ڈھائی سو کے قریب معصوم فلسطینیوں کے خون بہا کا مقدمہ دائر کیا جاسکے؟ دنیا میں کوئی ایسی عدالت ہے کیا؟
قومی سلامتی، اقوام متحدہ جو اپنے معاملات کے حوالے سے تو امن کے گیت گاتے اور امت مسلمہ کے ساتھ ہر طرح کی ناانصافی کرنا اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ حال ہی میں CNN کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسرائیلی بربریت کا دہشت ناک چہرہ بے نقاب کیا تو اینکر پرسن حقیقت کو تسلیم کرتی بلکہ اس نے خونی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیلی بمباری کو جائز قرار دیا اور فلسطین کے حق میں اٹھانے والی آواز کو یہود مخالف قرار دیا جب کہ وزیر خارجہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
نہتے، بھوکے، پیاسے، زخموں سے چور فلسطینیوں کے لیے امداد کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ یو این 1 کروڑ 85 لاکھ ڈالر ادا کرے گا، فلسطین میں عالمی امداد پہنچنا شروع ہوگئی ہے، امدادی سامان میں ضروری ادویہ، خوراک اور ایندھن شامل ہے، ایران کا کردار فلسطین پر ہونے والی ناانصافی اور جبر و تشدد کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ناجائز صیہونی ریاست کے خلاف گیارہ روزہ جنگ میں بعض مغربی ممالک نے غیر تعمیری موقف اپنایا۔
اسرائیلیوں کی طرف سے ہونے والی سفاکی نے مسلم اور غیر مسلم دونوں کو ہی شدید حیرت اور دکھ میں مبتلا کردیا۔ فلسطینیوں کے گھر مسمار کردیے گئے ملبے میں دبے ہوئے نوجوانوں کا حوصلہ ان حالات میں بھی بلند رہا، ایک نوجوان نے ملبے سے اپنا ہاتھ نکال کر وکٹری کا نشان بنا کر دکھایا کہ ایسے حالات میں بھی ہماری شجاعت و بہادری میں ہرگز کمی نہیں آئی ہے ہمیں اللہ نے شہادت کا درجہ اور غازی کے عہدے پر فائز کرکے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا ہے، جس کی تمنا بزرگان دین اور صحابہ کرام نے کی تھی۔
جو شہدا اللہ کے دربار میں حاضر ہوگئے ہیں انھوں نے اللہ سے ضرور شکایت کی ہوگی کہ جنھیں قرآن کی رو سے مسلمان کہا گیا ہے ان لوگوں نے ہمیں دشمن کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا، جب مسجد اقصیٰ میں بمباری کی جا رہی تھی اور ہم خون میں لتھڑے معصوم بچوں اور ان کی لاشوں کو گودوں میں لے کر دوڑ رہے تھے، ہماری عورتیں اپنے مسلم بھائیوں کو آواز دے رہی تھیں کہ ہماری مدد کو آؤ، لیکن پڑوسی ممالک نے ہماری آواز نہیں سنی، انھوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، اگر وہ بھی اسرائیل کی عمارتوں پر بمباری کرکے اسے بھاری نقصان پہنچاتے تو اسرائیل گھٹنے ٹیک دیتا لیکن کسی نے ایسا نہیں کیا۔
ان ظالموں نے ہمارے پھول جیسے بچوں کو اپنے بوٹوں تلے مسل ڈالا، ان کے منہ سے خون کی دھار بہہ نکلی پوری دنیا میں ویڈیو وائرل ہوئی لیکن کوئی مدد کو نہیں پہنچا؟اب تیری عدالت میں ہم نے اپنا مقدمہ دائر کردیا ہے، تُو انھیں ہدایت دے یا سزا دے۔ یا معاف کردے تُو نکتہ نواز ہے۔
حجاج بن یوسف لاکھ ظالم سہی لیکن اس نے عرب عورتوں کے کافر بحری قذاقوں کے ہاتھوں اغوا اور ان میں سے ایک لڑکی کی صدا، المدد حجاج، المدد حجاج اور حجاج نے اس کی آواز سن لی اور محمد بن قاسم کو مدد کے لیے سندھ کے ساحل پر بھیج دیا۔ لیکن آج کوئی پوری دنیا میںمحمد بن قاسم نہیں ہے کیا؟
کوئی چیخ و پکار سننے والا نہیں، پوری دنیا میں مسلمان رسوا ہیں، میانمار، کشمیر، فلسطین، عراق، افغانستان میں خون مسلم پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے مسلم حکمران اپنی ہی دنیا اور اپنے ہی عیش و طرب میں کھوئے ہوئے ہیں یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ اگر ایسے ہی حالات رہے اور اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر اس میں مقید رہے تو یہود و نصاریٰ کے قدم ہماری طرف بھی اٹھ سکتے ہیں، اپنے آپ کو مضبوط کرنا وقت کی ضرورت ہے، اللہ بھی انھی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔
مسلمانوں کو اس وقت ہی خواب غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے تھا جب تقریباً تین عشروں قبل بوسنیا، ہرزگوینا میں ہزاروں مسلمانوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ صدام حسین کا تختہ پلٹ جانے اور عراق کو تہ و بالا کرنے کے بعد مسلم حکمرانوں کو سمجھ جانا چاہیے تھا جو ملک اپنے آپ کو سپرپاور کہتا ہے اور طاقت کے بل پر حملہ آور ہوتا ہے اس سے روابط رکھنا، اس کے ساتھ تجارت کرنا، اسے فائدہ پہنچانا کہاں کی دانش مندی ہے، نفرت، تعصب اور مسلمانوں سے دشمنی کرنے میں یہود و نصاریٰ انسانیت کی حدوں کو پار کرچکے ہیں اور جب سے مودی کی حکومت آئی ہے رہی سہی کسر بی جے پی نے پوری کردی۔
کشمیری نوجوانوں کو محض نفرت اور دشمنی کے تحت اغوا اور قتل کرتے ہیں اور ان کی پاکیزہ اور شہادت کے نورانی رنگوں سے رنگی ہوئی لاشوں کو مختلف جگہوں پر ٹھکانے لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کشمیریوں کو لاک ڈاؤن کرکے اللہ کے عذاب کو پکار لیا ہے اور عذاب آگیا ہے، کورونا، بلیک فنگس کی بیماری نے قیامت برپا کردی ہے، سڑکوں پر لاشیں جلائی جا رہی ہیں، کوئی جائے پناہ نہیں۔
امت مسلم اور مسلم حکمرانوں کو کفار کی چال اور ان کے مکر و فریب کو سمجھ لینا چاہیے یہ وقت کا تقاضا ہے، مسلمان وہی ہے جس میں دینی حمیت اسلامی غیرت زندہ ہوتی ہے۔ ورنہ تو نام کا مسلمان۔ ایسے مسلمانوں کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ انھیں ہدایت فرمائے، ورنہ تو ذلت و رسوائی کے وہ حق دار دین و دنیا میں ٹھہرائے جائیں گے۔
جس وقت میں نے یہ خبر سنی تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ خبر یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس جنگ بندی پر رضامند ہوگئے۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ حماس نے کب اور کس وقت اور کون سے ہتھیاروں سے جنگ شروع کی تھی اور نہتے اسرائیلیوں کو خون میں نہلا دیا تھا۔
یہ تشدد اور بربریت کی فضا پروان چڑھانے والا اسرائیل ہے جو ان لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے جن کے پاس جنگی ہتھیار پتھروں کی شکل میں ہیں فلسطینی بچے، جوان پتھروں سے اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت سے مقابلہ کرتے ہیں ان کے پاس جدید ہتھیار ہیں اور فلسطینیوں کے پاس ایمان کی طاقت ہے انھیں اپنے رب پر پورا یقین ہے کہ وہ ان کی اسی طرح مدد کرے گا جس طرح جنگ بدر میں صرف 313 کے مقابلے میں اللہ نے مدد فرمائی تھی فرشتوں کی فوج ساتھ تھی اور ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے اور قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔
مسلمان جذبہ جہاد سے سرشار اور شوق شہادت سے مغلوب ہو کر میدان کارزار میں اترتے ہیں اور اپنے دشمن کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ اسرائیل خونی درندہ ہے وہ جب چاہتا ہے قتل و غارت کا بازار گرم کردیتا ہے۔
اس جنگ کے خاتمے میں مصر کا اہم کردار رہا ہے، ترکی نے خون مسلم کا بے دریغ صہیونیوں کے ہاتھوں بہتا دیکھ کر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مجرم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بڑے مجرم کو کون سی عدالت میں پیش کیا جائے، جہاں ڈھائی سو کے قریب معصوم فلسطینیوں کے خون بہا کا مقدمہ دائر کیا جاسکے؟ دنیا میں کوئی ایسی عدالت ہے کیا؟
قومی سلامتی، اقوام متحدہ جو اپنے معاملات کے حوالے سے تو امن کے گیت گاتے اور امت مسلمہ کے ساتھ ہر طرح کی ناانصافی کرنا اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ حال ہی میں CNN کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسرائیلی بربریت کا دہشت ناک چہرہ بے نقاب کیا تو اینکر پرسن حقیقت کو تسلیم کرتی بلکہ اس نے خونی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیلی بمباری کو جائز قرار دیا اور فلسطین کے حق میں اٹھانے والی آواز کو یہود مخالف قرار دیا جب کہ وزیر خارجہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
نہتے، بھوکے، پیاسے، زخموں سے چور فلسطینیوں کے لیے امداد کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ یو این 1 کروڑ 85 لاکھ ڈالر ادا کرے گا، فلسطین میں عالمی امداد پہنچنا شروع ہوگئی ہے، امدادی سامان میں ضروری ادویہ، خوراک اور ایندھن شامل ہے، ایران کا کردار فلسطین پر ہونے والی ناانصافی اور جبر و تشدد کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ناجائز صیہونی ریاست کے خلاف گیارہ روزہ جنگ میں بعض مغربی ممالک نے غیر تعمیری موقف اپنایا۔
اسرائیلیوں کی طرف سے ہونے والی سفاکی نے مسلم اور غیر مسلم دونوں کو ہی شدید حیرت اور دکھ میں مبتلا کردیا۔ فلسطینیوں کے گھر مسمار کردیے گئے ملبے میں دبے ہوئے نوجوانوں کا حوصلہ ان حالات میں بھی بلند رہا، ایک نوجوان نے ملبے سے اپنا ہاتھ نکال کر وکٹری کا نشان بنا کر دکھایا کہ ایسے حالات میں بھی ہماری شجاعت و بہادری میں ہرگز کمی نہیں آئی ہے ہمیں اللہ نے شہادت کا درجہ اور غازی کے عہدے پر فائز کرکے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا ہے، جس کی تمنا بزرگان دین اور صحابہ کرام نے کی تھی۔
جو شہدا اللہ کے دربار میں حاضر ہوگئے ہیں انھوں نے اللہ سے ضرور شکایت کی ہوگی کہ جنھیں قرآن کی رو سے مسلمان کہا گیا ہے ان لوگوں نے ہمیں دشمن کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا، جب مسجد اقصیٰ میں بمباری کی جا رہی تھی اور ہم خون میں لتھڑے معصوم بچوں اور ان کی لاشوں کو گودوں میں لے کر دوڑ رہے تھے، ہماری عورتیں اپنے مسلم بھائیوں کو آواز دے رہی تھیں کہ ہماری مدد کو آؤ، لیکن پڑوسی ممالک نے ہماری آواز نہیں سنی، انھوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، اگر وہ بھی اسرائیل کی عمارتوں پر بمباری کرکے اسے بھاری نقصان پہنچاتے تو اسرائیل گھٹنے ٹیک دیتا لیکن کسی نے ایسا نہیں کیا۔
ان ظالموں نے ہمارے پھول جیسے بچوں کو اپنے بوٹوں تلے مسل ڈالا، ان کے منہ سے خون کی دھار بہہ نکلی پوری دنیا میں ویڈیو وائرل ہوئی لیکن کوئی مدد کو نہیں پہنچا؟اب تیری عدالت میں ہم نے اپنا مقدمہ دائر کردیا ہے، تُو انھیں ہدایت دے یا سزا دے۔ یا معاف کردے تُو نکتہ نواز ہے۔
حجاج بن یوسف لاکھ ظالم سہی لیکن اس نے عرب عورتوں کے کافر بحری قذاقوں کے ہاتھوں اغوا اور ان میں سے ایک لڑکی کی صدا، المدد حجاج، المدد حجاج اور حجاج نے اس کی آواز سن لی اور محمد بن قاسم کو مدد کے لیے سندھ کے ساحل پر بھیج دیا۔ لیکن آج کوئی پوری دنیا میںمحمد بن قاسم نہیں ہے کیا؟
کوئی چیخ و پکار سننے والا نہیں، پوری دنیا میں مسلمان رسوا ہیں، میانمار، کشمیر، فلسطین، عراق، افغانستان میں خون مسلم پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے مسلم حکمران اپنی ہی دنیا اور اپنے ہی عیش و طرب میں کھوئے ہوئے ہیں یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ اگر ایسے ہی حالات رہے اور اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر اس میں مقید رہے تو یہود و نصاریٰ کے قدم ہماری طرف بھی اٹھ سکتے ہیں، اپنے آپ کو مضبوط کرنا وقت کی ضرورت ہے، اللہ بھی انھی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔
مسلمانوں کو اس وقت ہی خواب غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے تھا جب تقریباً تین عشروں قبل بوسنیا، ہرزگوینا میں ہزاروں مسلمانوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ صدام حسین کا تختہ پلٹ جانے اور عراق کو تہ و بالا کرنے کے بعد مسلم حکمرانوں کو سمجھ جانا چاہیے تھا جو ملک اپنے آپ کو سپرپاور کہتا ہے اور طاقت کے بل پر حملہ آور ہوتا ہے اس سے روابط رکھنا، اس کے ساتھ تجارت کرنا، اسے فائدہ پہنچانا کہاں کی دانش مندی ہے، نفرت، تعصب اور مسلمانوں سے دشمنی کرنے میں یہود و نصاریٰ انسانیت کی حدوں کو پار کرچکے ہیں اور جب سے مودی کی حکومت آئی ہے رہی سہی کسر بی جے پی نے پوری کردی۔
کشمیری نوجوانوں کو محض نفرت اور دشمنی کے تحت اغوا اور قتل کرتے ہیں اور ان کی پاکیزہ اور شہادت کے نورانی رنگوں سے رنگی ہوئی لاشوں کو مختلف جگہوں پر ٹھکانے لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کشمیریوں کو لاک ڈاؤن کرکے اللہ کے عذاب کو پکار لیا ہے اور عذاب آگیا ہے، کورونا، بلیک فنگس کی بیماری نے قیامت برپا کردی ہے، سڑکوں پر لاشیں جلائی جا رہی ہیں، کوئی جائے پناہ نہیں۔
امت مسلم اور مسلم حکمرانوں کو کفار کی چال اور ان کے مکر و فریب کو سمجھ لینا چاہیے یہ وقت کا تقاضا ہے، مسلمان وہی ہے جس میں دینی حمیت اسلامی غیرت زندہ ہوتی ہے۔ ورنہ تو نام کا مسلمان۔ ایسے مسلمانوں کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ انھیں ہدایت فرمائے، ورنہ تو ذلت و رسوائی کے وہ حق دار دین و دنیا میں ٹھہرائے جائیں گے۔