ملکی سیاست میں تبدیلی کے مناظر …

ملک کی سیاست میں بعض دلچسپ تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں۔

ملک کو درپیش معاشی گرداب سے نکالنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی، تاہم قانون قدرت اپنا کام ضرور کررہا ہے ، اقتدار کی جادونگری میں یقینا تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں اور موجودہ حکومت کواپنی مدت اقتدار کا ایک بڑا حصہ مکمل کرنے کے بعد اپنے بچائو کی فکر دامن گیر ہے تو دوسری جانب حزب اختلاف اپنی اگلی باری پکی کرنے کی تگ ودو میں مصروف نظرآرہی ہے.

لیکن حالات دونوں جانب ہی اطمینان بخش نہیں۔حکمران جماعت کو ایک بڑے ترین گروپ کی بغاوت کا سامنا ہے، جب کہ حکومت ، ایوان میں حاصل اپنی معمولی اکثریت بھی کھوچکی ہے تو دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بھی اپنے ایک بڑے بحران سے گذر رہا ہے۔

پی ڈی ایم کے اس اتحاد سے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اپنی راہیں جدا کرنے یا اتحادیوں کی سازشوں کا شکار ہوکر باہر ہوجانے کے بعد یہ اتحاد بھی ان دنوں کئی قسم کے صدمات کا شکار ہے اور حادثات کے گرداب اور اثرات سے ابھی تک خود کو باہر نکال نہیں سکا ہے۔

تاہم ملک میں نئے عام انتخابات کی بساط بچھائی جارہی ہے اور اسی دوران صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کا بگل بھی بج چکا ہے۔ اب اسے حالات کا جبر کہا جائے یا وقت کی پکار کہ تمام اہل دل و جگر کو اپنی کمر کس کے اس پنج سالہ قومی دنگل کے اکھاڑے میں اترنا ہی ہے۔

ملک کی سیاست میں بعض دلچسپ تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں۔آزمائش اور جبر کے حالات کا سب سے زیادہ شکار ملک کے عوام اور ووٹر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا یہ دور حکومت اپنے تمام تر دعوئوں اور وعدوں کے برخلاف ملک ، صوبوں اور عوام کے لیے بھیانک خواب ثابت ہوا ہے ،جس میں پیدا شدہ مسائل اور مصائب، مہنگائی، بیروزگاری، بھوک ، افلاس اور حکومتی بدنظمی کے شاہکار کام اوران کی بدنمائی دیکھی نہیں جارہی اور اس پر ستم یہ کہ روزانہ نئے انقلابات کی نوید پر مبنی شادیانے بجائے جانے لگتے ہیں۔

پھر سے ایک پرانی صدا بلند ہوتی ہے کہ ''گھبرانا نہیں ہے'' پاکستان میں پہلی بار، عوام کے پرزور اصرار پر احتساب ٹرین چل پڑی ہے اور جلد ہی اس سے ترقی اور خوشحالی کے دیو اور بڑے بڑے جن برآمد ہونے کو ہیں ، بس گھبرانا نہیں۔


پی ڈی ایم سے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کیا نکالی گئیں کہ اچھی خاصی چلتی اپوزیشن اپنے ہاتھ اور پائوں خود ہی کاٹ کر بیٹھ گئی ہے۔ سینیٹ ملک میں ہونے والے دیگر ضمنی انتخابات میں پلڑا بھاری حزب اختلاف کی جماعتوں کا ہی رہا۔ فتوحات سمیٹنے والی جماعت یقینی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی ہی رہی تاہم اس کے بعد مسلم لیگ نواز نے بھی بہتی گنگا سے اس وقت ہاتھ دھوئے اور گنگا اشنان بھی کرڈالا جب اس پر پارلیمنٹ سے ہی مستعفی ہونے کا جنون سوار تھا۔

سیاست میں ایسی علم و دانش اور فتوحات کے گر یقینا پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی حکمت اور دانش کا ہی حاصل مانا گیا اور آگے چل کر ان احسانات کے بدلے میں پی ڈی ایم کی بانی اسی جماعت کو ہی بڑی بے رحمی سے اتحاد سے نکال باہر کردیا گیا۔ اس طرح اب مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف کی جیل سے واپسی کے بعد اپنی ہی جماعت میں قید و بند کی نئی پابندیاں ،بندشیں اور باڑ لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

صدر میاں شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کو گزشتہ دنوں دیے جانے والے عشائیے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو مدعو کیا گیا اور ان کو دوبارہ پی ڈی ایم میں واپسی کی دعوت دی گئی تو اسی کی ہی جماعت کا ردعمل سامنے آگیا کہ پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم میں داخلہ بند ہے ۔

تیسری جانب، حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم بھی ایک اور تخت مشق بنا ہوا ہے کہٖ جسے مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف لندن سے براہ راست کنٹرول کررہے ہیں کہ جس کی صدارت مولانا فضل الرحمان کو پہلے ہی تفویض کرادی گئی ہے۔ یقیناً مولانا صاحب کی خدمات بے مثال ہیں کہ مسلم لیگ نواز کے قائد کو پی ڈی ایم کا بھی قائد تحریک مان لیا گیا ۔ اب جب کہ ملک کے حالات اور واقعات تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا تقاضہ کرنے لگے ہیں تو پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی جماعتوں میں تعلقات کے نئے امتحانات اور سمجھوتے ہونے ہیں۔

ملک کی سیاست،پار لیمنٹ کے ایوانوں میں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کا بالترتیب اول اور دوم نمبر ہے ۔ دوسرے بڑے صوبے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی اہمیت اور طاقت کا بھی اگر شمار کیا جائے تو ملک کے جمہوری نظام میں پاکستان پیپلز پارٹی اول نمبر پر بھی شمار کی جاسکتی ہے،جب کہ حالیہ دنوں میں ہونے والے سینیٹ آف پاکستان اور ضمنی انتخابات کے حوالے سے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی بہتر حکمت عملی کی بدولت ، حکومت کو شکست پر شکست دینے اور اپوزیشن جماعتوں کی طاقت اور پارلیمانی قوت میں گرانقدر اضافہ بھی حاصل ہوا ہے۔

تمام سیاسی حقائق اور حالات کی روشنی میں میاں شہباز شریف کے لیے اپنی صدارت کو ثابت کرنے اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے بااختیار اور آئینی صدر کے طور پر فیصلے کرنے اور اپنی صلاحیت منوانے کا اس سے اچھا ،مفید اور بہتر وقت کیا ہوگا کہ جب ان کی جماعت کے اراکین اسمبلی کی اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہو اور پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن لیڈرکے طور پر اپنے مقام کے حامل ہوں.

پنجاب اسمبلی میں بھی ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز قائد حزب اختلاف ہوں اور اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت ملک کی دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی ان سے توقعات رکھتی ہوں نیز ملک میں بلدیاتی انتخابات اور اس کے فوری بعد عام انتخابات کی انتخابی مہم بھی شروع ہونے جارہی ہو تو ایسے صورتحال میں اگر تمام اپوزیشن جماعتوں میں پھر سے اتحاد قائم ہو اور ذاتی ،گروہی مفادات، ضد اور انا کو اتحاد خراب کرنے نہ دیا جائے تو یہ عمل یقیناً ملک کو بہتری کی طرف لے جا سکتا ہے اور یہ امر ناممکن بھی نہیں کہ آیندہ عام انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی وسیع بنیاد اور مشترکہ حکومت قائم ہو جائے جومفاہمانہ ماحول میں کام کرسکے اور ملک کو حالیہ گرداب اور طوفانوں سے نکال کر بہتری اور ترقی کے راستے پر ڈال سکے گی۔
Load Next Story