ڈاکٹر لوٹا… تاریخ کا ایک ورق
ڈاکٹر عالم سیاست کے افق پر طلوع تو ہو ہی چکے تھے اب انھوں نے اسمبلی کی رکنیت کے لیے ڈول ڈالنا شروع کیا۔
پچھلے کالم میں ڈاکٹر لوٹا کے بار ے میں چند باتیں قارئین سے شیئر کی تھیں، ڈاکٹر عالم لوٹا چونکہ ایک دلچسپ کردار ہے تو لہٰذا اس کے بارے میں مزید باتیں۔
ڈاکٹر عالم سیاست کے افق پر طلوع تو ہو ہی چکے تھے اب انھوں نے اسمبلی کی رکنیت کے لیے ڈول ڈالنا شروع کیا۔ سنہ 1926 میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے تو وہ خاکسار پارٹی کی طرف سے پنجاب بار کونسل کی رکنیت کے امیدوار ہوئے انھوں نے مغربی پنجاب میں راولپنڈی کے حلقہ سے انتخاب لڑا اور خان بہادر شیخ عبدالقادر کو شکست دے کر اسمبلی تک رسائی حاصل کرلی۔اس کامیابی سے ڈاکٹر عالم کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ اب انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکی۔
دسمبر 1928 میں جب مسلم لیگ کے اجلاس دہلی اور کلکتہ دونوں جگہ بیک وقت منعقد ہوئے تو وہ کلکتہ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر مسلم لیگ شفیع لیگ اور جناح لیگ نامی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ڈاکٹر عالم مسلم لیگ کے جناح لیگ کہلانے والے گروپ میں شامل ہوئے مگر جلد ہی ڈاکٹر عالم نے بانی پاکستان محمد علی جناح سے بھی اختلاف کی راہ ڈھونڈ نکالی۔ مارچ 1929 میں قائد اعظم نے نہرو پورٹ پر غور کرنے کے لیے مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس دہلی میں طلب کیا۔
نور احمد اپنی کتاب مارشل لا سے مارشل لا تک میں لکھتے ہیں:حالات پر غور کرنے کے بعد مسٹر جناح نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں کے درمیان اختلافات ختم کرنا اور مسلم لیگ کو پھر مسلم اتحاد کی ترجمان بنانا ضروری ہے۔ اس مقصد کو سامنے رکھ کر انھوں نے لیگ کا اجلاس مارچ 1929 کے آخر میں دہلی میں حکیم اجمل خان کے گھر پر بلوایا یہ اجلاس طویل ہو گیا دوسری طرف مسلم لیگ کے کھلے اجلاس کا وقت آ گیا۔
لیگ کے پنڈال میں لوگ جمع ہو چکے تھے اور کرسی صدارت مسٹر جناح کی منتظر تھی۔ کچھ نیم مسلم لیگی، نیم کانگریسی حضرات لیگ کے پنڈال میں یہ منصوبہ بنا کر آئے تھے کہ جلسے پر قبضہ کر کے اس سے نہرو رپورٹ کے حق میں قرار داد پاس کروا لیں۔مسٹر جناح کی تشریف آوری میں دیر ہوئی تو ان لوگوں نے کانا پھوسی کی اور ایک شخص نے تجویز پیش کر دی کہ صدر جلسہ کی آمد تک ڈاکٹر محمد عالم کرسی صدارت سنبھال لیں اور کارروائی شروع کروا دیں۔
یہ تجویز پیش ہوئی تو ایک طرف اس کی رسمی تائید ہوئی اور دوسری طرف پنڈال میں نہیں نہیں، ہرگز نہیں کا شور بلند ہوا۔ اسی شور میں ڈاکٹر عالم نے کرسی صدارت پر قبضہ جما لیا اور غازی عبدالرحمن کو تقریر کی اجازت دے دی۔ غازی صاحب نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور ایک منٹ کے اندر اپنی قرارداد پیش کر دی جسکا متن تھا کہ یہ جلسہ نہرو رپورٹ میں پیش کردہ اصولوں کی تائید کرتا ہے۔
اسٹیج پر اور اس کے گرد لوگوں کا ہجوم شور مچا رہا تھا۔ پنڈال میں دھکم پیل ہو رہی تھی، کرسیاں ٹوٹ رہی تھیں۔۔۔کچھ لوگوں نے ڈاکٹر عالم کو پکڑ کر کرسی سے اٹھا لیا اور پنڈال سے باہر نکالنا چاہا جب انھیں 'دست بہ دست دگرے پنڈال سے باہر لے جایا جا رہا تھا تو وہ بلند آواز سے پکار رہے تھے قرار داد منظور ہو چکی ہے میں جلسے کو برخواست کرتا ہوں اتنے میں مسٹر جناح کی کار آئی راجہ غضنفر علی خان اور دوسرے لوگوں نے جو ان کے انتظار میں باہر کھڑے تھے، آگے آ کر ان سے کہا آپ ابھی اندر نہ جائیں، پنڈال میں ہنگامہ برپا ہے۔
مسٹر جناح نے پرواہ نہ کی اور پنڈال کے اندر چلے گئے۔ انھیں دیکھتے ہی مسٹر جناح زندہ باد کا نعرہ بلند ہوا اور پنڈال میں سکون ہوگیا۔ آپ نے ایک مختصر تقریر کی اور اگلے دن کے لیے جلسہ ملتوی کر دیا۔
ڈاکٹر عالم کو منہ کی کھانی پڑی۔ جولائی 1929 میں انھوں نے مسلم نیشنلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ صدر ڈاکٹر مختار احمد انصاری بنے۔ اس پارٹی کے بانیوں میں ڈاکٹر عالم کے ساتھ ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، چوہدری خلیق الزماں اور تصدق احمد خان شیروانی جیسے اکابر شامل تھے۔تھوڑے ہی دنوں بعد ڈاکٹر عالم کی متلون مزاجی نے ایک کروٹ لی اب وہ کانگریس کی صفوں میں نظر آنے لگے۔
ڈاکٹر عالم لوٹا تاریخ کا دلچسپ کردار ہے، اس کے بارے میں مزید باتیں ابھی باقی ہیں۔
ڈاکٹر عالم سیاست کے افق پر طلوع تو ہو ہی چکے تھے اب انھوں نے اسمبلی کی رکنیت کے لیے ڈول ڈالنا شروع کیا۔ سنہ 1926 میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے تو وہ خاکسار پارٹی کی طرف سے پنجاب بار کونسل کی رکنیت کے امیدوار ہوئے انھوں نے مغربی پنجاب میں راولپنڈی کے حلقہ سے انتخاب لڑا اور خان بہادر شیخ عبدالقادر کو شکست دے کر اسمبلی تک رسائی حاصل کرلی۔اس کامیابی سے ڈاکٹر عالم کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ اب انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکی۔
دسمبر 1928 میں جب مسلم لیگ کے اجلاس دہلی اور کلکتہ دونوں جگہ بیک وقت منعقد ہوئے تو وہ کلکتہ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر مسلم لیگ شفیع لیگ اور جناح لیگ نامی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ڈاکٹر عالم مسلم لیگ کے جناح لیگ کہلانے والے گروپ میں شامل ہوئے مگر جلد ہی ڈاکٹر عالم نے بانی پاکستان محمد علی جناح سے بھی اختلاف کی راہ ڈھونڈ نکالی۔ مارچ 1929 میں قائد اعظم نے نہرو پورٹ پر غور کرنے کے لیے مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس دہلی میں طلب کیا۔
نور احمد اپنی کتاب مارشل لا سے مارشل لا تک میں لکھتے ہیں:حالات پر غور کرنے کے بعد مسٹر جناح نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں کے درمیان اختلافات ختم کرنا اور مسلم لیگ کو پھر مسلم اتحاد کی ترجمان بنانا ضروری ہے۔ اس مقصد کو سامنے رکھ کر انھوں نے لیگ کا اجلاس مارچ 1929 کے آخر میں دہلی میں حکیم اجمل خان کے گھر پر بلوایا یہ اجلاس طویل ہو گیا دوسری طرف مسلم لیگ کے کھلے اجلاس کا وقت آ گیا۔
لیگ کے پنڈال میں لوگ جمع ہو چکے تھے اور کرسی صدارت مسٹر جناح کی منتظر تھی۔ کچھ نیم مسلم لیگی، نیم کانگریسی حضرات لیگ کے پنڈال میں یہ منصوبہ بنا کر آئے تھے کہ جلسے پر قبضہ کر کے اس سے نہرو رپورٹ کے حق میں قرار داد پاس کروا لیں۔مسٹر جناح کی تشریف آوری میں دیر ہوئی تو ان لوگوں نے کانا پھوسی کی اور ایک شخص نے تجویز پیش کر دی کہ صدر جلسہ کی آمد تک ڈاکٹر محمد عالم کرسی صدارت سنبھال لیں اور کارروائی شروع کروا دیں۔
یہ تجویز پیش ہوئی تو ایک طرف اس کی رسمی تائید ہوئی اور دوسری طرف پنڈال میں نہیں نہیں، ہرگز نہیں کا شور بلند ہوا۔ اسی شور میں ڈاکٹر عالم نے کرسی صدارت پر قبضہ جما لیا اور غازی عبدالرحمن کو تقریر کی اجازت دے دی۔ غازی صاحب نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور ایک منٹ کے اندر اپنی قرارداد پیش کر دی جسکا متن تھا کہ یہ جلسہ نہرو رپورٹ میں پیش کردہ اصولوں کی تائید کرتا ہے۔
اسٹیج پر اور اس کے گرد لوگوں کا ہجوم شور مچا رہا تھا۔ پنڈال میں دھکم پیل ہو رہی تھی، کرسیاں ٹوٹ رہی تھیں۔۔۔کچھ لوگوں نے ڈاکٹر عالم کو پکڑ کر کرسی سے اٹھا لیا اور پنڈال سے باہر نکالنا چاہا جب انھیں 'دست بہ دست دگرے پنڈال سے باہر لے جایا جا رہا تھا تو وہ بلند آواز سے پکار رہے تھے قرار داد منظور ہو چکی ہے میں جلسے کو برخواست کرتا ہوں اتنے میں مسٹر جناح کی کار آئی راجہ غضنفر علی خان اور دوسرے لوگوں نے جو ان کے انتظار میں باہر کھڑے تھے، آگے آ کر ان سے کہا آپ ابھی اندر نہ جائیں، پنڈال میں ہنگامہ برپا ہے۔
مسٹر جناح نے پرواہ نہ کی اور پنڈال کے اندر چلے گئے۔ انھیں دیکھتے ہی مسٹر جناح زندہ باد کا نعرہ بلند ہوا اور پنڈال میں سکون ہوگیا۔ آپ نے ایک مختصر تقریر کی اور اگلے دن کے لیے جلسہ ملتوی کر دیا۔
ڈاکٹر عالم کو منہ کی کھانی پڑی۔ جولائی 1929 میں انھوں نے مسلم نیشنلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ صدر ڈاکٹر مختار احمد انصاری بنے۔ اس پارٹی کے بانیوں میں ڈاکٹر عالم کے ساتھ ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، چوہدری خلیق الزماں اور تصدق احمد خان شیروانی جیسے اکابر شامل تھے۔تھوڑے ہی دنوں بعد ڈاکٹر عالم کی متلون مزاجی نے ایک کروٹ لی اب وہ کانگریس کی صفوں میں نظر آنے لگے۔
ڈاکٹر عالم لوٹا تاریخ کا دلچسپ کردار ہے، اس کے بارے میں مزید باتیں ابھی باقی ہیں۔