کر بھلا سو ہو بھلا
قرض حسنہ لینے والے کے ساتھ دو ضامن ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرضوں کی شرح ریکوری 99 فیصد ہے۔
اس نے اپنی عملی زندگی کے یکے بعد دیگرے تین کیرئیر بدلے۔ وہ بیماری میں مبتلا انسانوں کو صحت مند دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ لہٰذا وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہو کر ڈاکٹری پیشے سے منسلک ہوا ، پھر پاکستان سول سروس کا امتحان پاس کیا اور کمشنر کے درجے پر پروموشن کے قریب تھا جب اس نے محسوس کیا کہ ملک میں بے ہُنر بیروزگار اور ناکارہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بیکارافراد نے مجبوراًجرائم کی شرح میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
شاید یہی وہ بابرکت لمحہ یا وقت تھا جب ڈاکٹر محمد امجد ثاقب جو عنقریب کسی جگہ کمشنر بننے والا تھا کہ اس کے ذہن نے ایک بظاہر مشکل چنگاری کی شکل میں رستے کی نشاندہی کر دی، یہ رستہ طویل، تنگ ، تاریک اور نا ہموار تھا لیکن اس کے اندر سے آواز آئی چل مرے خامے بسم اللہ۔
2001 میں ایک درخت کے زیر ِ سایہ بیٹھی کاروبار شروع کرنے کی خواہشمند ایک خاتون نے امجد ثاقب سے دس ہزار روپے بطور قرض ِ حسنہ وصول کیے۔ بے وسیلہ لوگوں کے لیے قرض کی رقم 10 سے بڑھا کر تیس ہزار تک لیجائی گئی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں حرام خوری اور ہڈ حرامی لوگوں کے خون میں داخل ہو چکی ہے، سرکاری افسر ہے تو رشوت لے گا اور بدعوامی ، تاجر ہے تو ناجائز ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع کمائے گا۔
غریب ہے تو بھکاری بننے کو محنت مزدوری اور کام پر ترجیح دے گا لیکن ڈاکٹر امجد نے قرض لے کر محنت کرنے اور پھر قرض واپس کرنے والوں کو اپنے پروگرام میں شامل کر کے ثابت کر دیا کہ ہڈ حراموں اور حرام خوروں کی تعداد بہت قلیل ہے اور بلا سود قرضوں کی تقسیم ہر دو قرض دینے اور لینے والے پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس میں نیت بنیاد ہوتی ہے۔ یہ قرضے اخوت کی طرف سے کسی بھی طرح کے گروہی ، سیاسی، مذہبی، صنفی امتیاز سے بلند ہو کر دیے جاتے ہیں۔
قرض حسنہ لینے والے کے ساتھ دو ضامن ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرضوں کی شرح ریکوری 99 فیصد ہے۔ اب تک 137 ارب روپے کے بلاسود قرضوں کی تقسیم ہو چکی ہے اور ان قرضوں سے مستفید افراد کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ ہر ماہ ستر ہزار کے قریب نئے قرضوں کی فرہمی ہوتی ہے۔ چار ہزار سے زائد ملازمین چار سو شہروں میں یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اخوت بورڈآف ڈائریکٹر کے اراکین کوئی مشاہرہ نہیں لیتے اور خدمت خلق کے تحت یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔تمام ریکارڈ مکمل کمپیورائزڈ رکھا جاتا ہے۔
قرض لینے والے اگر واقعی بر سرِ روزگار ہونا چاہتے ہوں اور اخوت کی سرپرستی کو اپنی زندگی کے لیے مفید سمجھ کر قرض کی رقم سے دیانت اور محنت کے ساتھ اپنی معاشی حالت میں بہتری لانے کی جدوجہد کرنا چاہیں تو کئی سو قسم کے کاروباروں کی ٹریننگ یا معاونت اخوت کے تجربہ کار کارکنوں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں اور دیگر بہت سے کامیاب لوگوں کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
یہ اخوت نامی ادارہ ایک ایسے معاشرے کی تکمیل کی کوشش میں مصروف ہے جہاں ہر شخص کو بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب ترقی کے مواقع میسّر ہوں جس میں اخلاص ، ایثار اور قربانی کے ساتھ ساتھ باہمی تعاون اور اشتراک کا ایسا ماحول وجود میں آئے جہاں ہر کوئی صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اوروں کے لیے بھی سوچتا ہو۔
ادارہ اخوت نے قصور ، فیصل آباد ، چکوال میں تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جب کہ مزید تعلیمی ادارے زیر تکمیل ہیں ۔ ان کے علاوہ اخوت کلاتھ بینک، اخوت ہیلتھ سروسز بھی وجود میں آ چکے ہیں۔ عطیات بینک اسلامی لمیٹڈ میں جمع کرائے جا سکتے ہیں۔ اخوت یونیورسٹی وجود میں آ چکی ہے۔ جب کہ لوگوں کو برسر ِ روز کرنے کے علاوہ تعلیم کی فراہمی اخوت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ بیس سال قبل لگائے گئے اس پودے سے استفادہ کرنے والے اب خود Donor کی صفوں میں شامل ہیں۔
شاید یہی وہ بابرکت لمحہ یا وقت تھا جب ڈاکٹر محمد امجد ثاقب جو عنقریب کسی جگہ کمشنر بننے والا تھا کہ اس کے ذہن نے ایک بظاہر مشکل چنگاری کی شکل میں رستے کی نشاندہی کر دی، یہ رستہ طویل، تنگ ، تاریک اور نا ہموار تھا لیکن اس کے اندر سے آواز آئی چل مرے خامے بسم اللہ۔
2001 میں ایک درخت کے زیر ِ سایہ بیٹھی کاروبار شروع کرنے کی خواہشمند ایک خاتون نے امجد ثاقب سے دس ہزار روپے بطور قرض ِ حسنہ وصول کیے۔ بے وسیلہ لوگوں کے لیے قرض کی رقم 10 سے بڑھا کر تیس ہزار تک لیجائی گئی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں حرام خوری اور ہڈ حرامی لوگوں کے خون میں داخل ہو چکی ہے، سرکاری افسر ہے تو رشوت لے گا اور بدعوامی ، تاجر ہے تو ناجائز ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع کمائے گا۔
غریب ہے تو بھکاری بننے کو محنت مزدوری اور کام پر ترجیح دے گا لیکن ڈاکٹر امجد نے قرض لے کر محنت کرنے اور پھر قرض واپس کرنے والوں کو اپنے پروگرام میں شامل کر کے ثابت کر دیا کہ ہڈ حراموں اور حرام خوروں کی تعداد بہت قلیل ہے اور بلا سود قرضوں کی تقسیم ہر دو قرض دینے اور لینے والے پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس میں نیت بنیاد ہوتی ہے۔ یہ قرضے اخوت کی طرف سے کسی بھی طرح کے گروہی ، سیاسی، مذہبی، صنفی امتیاز سے بلند ہو کر دیے جاتے ہیں۔
قرض حسنہ لینے والے کے ساتھ دو ضامن ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرضوں کی شرح ریکوری 99 فیصد ہے۔ اب تک 137 ارب روپے کے بلاسود قرضوں کی تقسیم ہو چکی ہے اور ان قرضوں سے مستفید افراد کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ ہر ماہ ستر ہزار کے قریب نئے قرضوں کی فرہمی ہوتی ہے۔ چار ہزار سے زائد ملازمین چار سو شہروں میں یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اخوت بورڈآف ڈائریکٹر کے اراکین کوئی مشاہرہ نہیں لیتے اور خدمت خلق کے تحت یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔تمام ریکارڈ مکمل کمپیورائزڈ رکھا جاتا ہے۔
قرض لینے والے اگر واقعی بر سرِ روزگار ہونا چاہتے ہوں اور اخوت کی سرپرستی کو اپنی زندگی کے لیے مفید سمجھ کر قرض کی رقم سے دیانت اور محنت کے ساتھ اپنی معاشی حالت میں بہتری لانے کی جدوجہد کرنا چاہیں تو کئی سو قسم کے کاروباروں کی ٹریننگ یا معاونت اخوت کے تجربہ کار کارکنوں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں اور دیگر بہت سے کامیاب لوگوں کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
یہ اخوت نامی ادارہ ایک ایسے معاشرے کی تکمیل کی کوشش میں مصروف ہے جہاں ہر شخص کو بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب ترقی کے مواقع میسّر ہوں جس میں اخلاص ، ایثار اور قربانی کے ساتھ ساتھ باہمی تعاون اور اشتراک کا ایسا ماحول وجود میں آئے جہاں ہر کوئی صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اوروں کے لیے بھی سوچتا ہو۔
ادارہ اخوت نے قصور ، فیصل آباد ، چکوال میں تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جب کہ مزید تعلیمی ادارے زیر تکمیل ہیں ۔ ان کے علاوہ اخوت کلاتھ بینک، اخوت ہیلتھ سروسز بھی وجود میں آ چکے ہیں۔ عطیات بینک اسلامی لمیٹڈ میں جمع کرائے جا سکتے ہیں۔ اخوت یونیورسٹی وجود میں آ چکی ہے۔ جب کہ لوگوں کو برسر ِ روز کرنے کے علاوہ تعلیم کی فراہمی اخوت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ بیس سال قبل لگائے گئے اس پودے سے استفادہ کرنے والے اب خود Donor کی صفوں میں شامل ہیں۔