فلسطینی مزاحمتی شاعری اور نزار قبانی

فلسطین کی موجودہ صورتِ حال میں ان شاعروں اور قبیلے کے سرداروں نے اپنے رول اور تاریخ سے کس طرح رُوگردانی کی ہے۔

Amjadislam@gmail.com

رُوحوں کو گرما دینے والی شاعری اور اپنے قبیلے کی عزت اور ناموری کے لیے جان پر کھیل جانا، دو ایسی خصوصیات ہیں جو اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب قوم کا طُرہ امتیاز سمجھی جاتی تھیں۔

فلسطین کی موجودہ صورتِ حال میں ان شاعروں اور قبیلے کے سرداروں نے اپنے رول اور تاریخ سے کس طرح رُوگردانی کی ہے، نزارقبانی کی اس نظم ''ایک بدو سے گفتگو جس کا گھوڑا کھوگیا ہے '' میںاسی کی تصویرکشی کی گئی ہے۔ عنوان کی گہرائی اور معنی خیزی اپنی جگہ لیکن اس نظم کی ایک ایک لائن ''از دل خیزد ہر دل ریزد'' کی زندہ مثال ہے۔

''اگر یہ صحرا مری سُنے تو اسے بتائوں

یہ شاعروں کا گروہ فصلِ زوال ہے ، تُو اسے مٹادے

یا اس کے مُنہ سے وہ لفظ لے لے

جو کتنی صدیوں سے زہر صورت ہماری نسلوں کو کھا رہے ہیں

یہ بانجھ لفظوں کی ڈگڈگی جو ہمارے کانوں میں بج رہی ہے

خموش کردے

یہ لفظ بازی کا شوق جسموں میں کوڑھ کی مثل پھیلتا ہے

وَرودِ شب ہو تو لفظ آنکھوں میں نیند بنتے ہیں

پَو پھٹے تو حروفِ ابجد کا خواب سایا پکارتا ہے

مرے وطن یہ عجیب قِصّہ ہے

مردِ میداں تو کھیت رہتے ہیں اور شاعر

زمیں کے سینے پہ حسبِ سابق رواں دواں ہیں

یہ لفظ بازی ہے جس کے باعث ہمارے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے

زمین کے نقشے پہ ہم مقاموں سے ماورا ہیں

ہماری آنکھوں میں آنے والے سراب لمحوں کے خواب سجتے ہیں

اور کانوں میں اُس کے گھوڑے کی ٹاپ بجتی ہے

جو ہمارے دلوں کو غم سے نجات دے گا

جو دشمنوں کی صفیں اُلٹ کر شکست دے گا

ہم عالموں کے نصائح سنتے ہیں اور فقیہوں کی نکتہ سنجی پہ جُھومتے ہیں

ہماری آنکھوں کو داستانوں کی وادیوں میں سکون ملتا ہے

داستانیں ، جو بانجھ لفظوں کی بے حقیقت جوانیاں ہیں

مرے وطن اے زمین میری

فغاں کہ ہم نے وہ لفظ جنسِ دکانِ اہل ہوس بنایا

جو قاصدانِ بہار جیسا سبک نوا تھا

حرم کے طائر سا خوش نوا تھا

اگر یہ صحرائے نجد میری فعال سُنے تو اُسے بتائوں

مرے تصرفّ میں ہوتو لفظوں کے کارخانوں کو سُرخ مہروں سے بند کردوں

حروفِ ابجد کے شہ سواروں کو قتل کردوں

جو ہم کو لفظوں کی چکیّوں میں کچل رہے ہیں

اگر میں اپنے وطن میں کوئی مقام رکھتا

تو ایسے لوگوں کی انگلیوں کو تراش دیتا

جو اپنے لفظوںظالموں کے غلیظ جوتوںپہ پھیرتے ہیں

اور ان میں ایسی چمک دکھاتے ہیں ، جو بھی دیکھے

خود اپنے چہرے سے رُوبرو ہو

تونگروں کے مصاحبوں کو ذلیل کرتا

جو شوربے کی مہک پہ کُتوں کی مثل ہونٹوں کوچاٹتے ہیں

اور اُن کو لفظوںکے سخت دُرّوں کی مار دیتا

جو اہلِ زر کی مدح سرائی میں جُھوٹ کی فصل کاٹتے ہیں

میں ایسے لفظوں کو کاٹ دیتا جو بے ہُنر ہیں

اور آنے والے دنوں کی جُھوٹی تسلیوں سے ہر ایک منظر کو دیکھتے ہیں

میں لفظ بازوں کے سارے کھیلوں کو مشغلوں اورفصاحتوںکو

وطن کی حد سے نکال دیتا اور ان قصیدوں کو پھاڑ دیتا

جو اگلے وقتوں کے خواب دے کر گزرے وقتوں کو روندتے ہیں

مرے وطن یہ عجیب قصہ ہے


مردِ میداں تو کھیت رہتے ہیں اور شاعر

زمیں کے سینے پہ حسبِ سابق رواں دواں ہیں

اگر مجھے دسترس ہو کوئی

تو قہوہ خانوں کی سیڑھیوں میں پڑے ہوئے ان زیاں پرستوں کو قتل کردوں

جو کشتِ افسوس بو رہے ہیں

تراش ڈالوں زباں ان کی جو اپنے نغموں سے داغِ ذِلّت کو دھو رہے ہیں

تباہ کردوں فلک پہ ہنستے ہوئے قمر کو جو ہم پہ مٹی اُڑا رہا ہے

وطن میں تیری اُداس شب کو نجات دے دوں اُس آئنے سے

جو تیری ذلتّ کی داستانیں سنا رہا ہے

مرے وطن اے زمین میری

مری دُعا ہے کہ سوکھ جائے تیرے کنوئوں کی یہ بہتی دولت

سوائے پانی کے سب فنا ہو

جو تیری چاہت سے منحرف ہیں انھیں سزا ہو

جو بیٹیوںکو سجاکے گاہک کو ڈھونڈتے ہیں

انھیں ہَوس کا عذاب پہنچے، وہ اپنے جسموں میں کوڑھ دیکھیں

پہ موت اُن کی طرف نہ آئے

میں چاہتا ہوں تو نگروں کے محل، محّلوں کے سُرخ کمرے

جدید سائنس کے معجزوں کے کمال، کلچر کی خوش نمائی

سفید آقائوں کی وراثت جلا وطن ہو

حسین تاجوں میں جگمگاتے ہوئے جواہر

غریب لوگوں کی جُوتیوں میں مقام پائیں

اگر وطن میں مجھے کوئی اختیار ہو تو میں اپنے صحرا

میں بننے و الے نئے امیروں کے بھاری خلعت اُتار پھینکوں

یہ اہلِ یورپ کے سارے تحفے جو جگمگاتے ہیں، مسخ کردوں

اور اُن کے چہروں کو اُس ملّمع سے پاک کردوں

جسے سجا کر یہ اپنے اہلِ وطن سے ظاہر میں مختلف ہیں

انھیں بٹھائوں بغیر زینوں کی گھوڑیوں پر

سلائوں صحرا کی سرد راتوں میں جب سروں پہ کُھلا فلک ہو

پلائوں اِ ن کو وہ دودھ جس سے

نظر میں ان کی وہی چمک ہو جو ان کے ماضی کا حاشیہ ہے

عرب شجاعت کا اور غیرت کا نام جس سے

تمام تاریخ آشنا ہے

اگر یہ ہوتا کہ پیڑ یَافا کے اپنی شاخیں قلم بناتے

تو ہم کو لاکھوں سلام دیتے

جو طَبریا کا اُداس پانی ہمیں جدائی کا حال لکھتا

تو کاغذوں میں وہ آگ لگتی کہ پڑھنے والے کباب ہوتے

اگر دہانِ قدس میں کوئی زبان ہوتی تواُس کے ہونٹوں پہ آرزئوں کے لفظ ہوتے

مگر یہ سب کچھ ''اگر''کے صحرائے بے جہت کا غبار ہے کہ

ہم ایک المیے کی ڈگر پر رواں دواں ہیں

حروفِ ابجد کو ہم نے اپنا نشاں کیا ہے

ہم اپنی کھوئی ہوئی زمین پر کمندِ افسوس پھینکتے ہیں

جو شاعری سے بٹی گئی ہے

ہمارے دامن پہ آنسوئوں کے اور آرزئوں کے بیل بُوٹے ہیں

اور ہم نے اسی کو یَافا کی رہ گزاروں میںوا کیا ہے

مرے وطن اے زمیں میری

فُغاں کہ تجھ کوفضول لفظوں کی کُند چُھریوں نے کاٹ دالا
Load Next Story