ریاست اور مذہب کو الگ الگ رکھناچاہیےجلال محمود شاہ
سندھ کو تقسیم کیا گیا تو یہاں پر بیروت کی صورتحال پیدا ہوجائے گی
NEW DELHI:
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے کہا ہے کہ اگر سندھ کی تقسیم ہوئی تو حالت بیروت جیسے ہوجائیں گے ،سائیں جی ایم سید کی جدوجہد خودمختار سندھ اور بھائی چارے کے لیے تھی ،یہ بات انھوں نے جمعہ کو آرٹس کونسل میںسائیں جی ایم سید کے 110 ویں یوم ولادت کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر مسلم لیگ ( ن )کے رکن سندھ اسمبلی عرفان اللہ مروت ،حاجی شفیع محمد جاموٹ ،پائلر کے کرامت علی ،سینئر سیاستدان الٰہی بخش سومرو ،کامریڈ روچی رام ،نیشنل ورکر پارٹی کے یوسف مستی خان،پروفیسر اعجاز قریشی،شفقت عباسی،مسلم شمیم ،خادم سومرو ،غلام شاہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا، سید جلال محمود شاہ نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد بین الاقوامی سازش کے ذریعے قرارداد مقاصد کو آئین میں شامل کیا گیا ، ریاست اور مذہب کو الگ الگ رکھناچاہیے، دنیا میں ریاست کا مذہب نہیں ہوتا ہے،پاکستان میںمذہب کو ریاست سے الگ نہ کرنے کی وجہ سے دہشت گردی ہورہی ہے اور مذہبی انتہا پسندی بڑھ گئی ہے، آج ریاست کا سب سے بڑا چیلنج وہ مذہبی قوتیں ہیں جن کو چند قوتوں کی سرپرستی حاصل تھی۔
انھوں نے کہا کہ اردو بولنے والے سندھیوں کو سب سے زیادہ خطرہ ان سے ہے جو سندھ کی تقسیم کی باتیں کرتے ہیں ،سندھ میں مستقل آباد لوگ سب سندھی ہیں ،اردو بولنے والوں سے گزارش کرتاہوں کہ ان سے بچو جو آپ کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں ،ایسی سوچ نے سندھ میں بھائی چارے کو ختم کردیا ہے ،ایسی سوچ ہی آپس میں لڑاتی ہے اور اس سے بچنا چاہیے،انھوں نے کہا کہ اگر سندھ کو تقسیم کیا گیا تو یہاں بیروت کی صورتحال پیدا ہوجائے گی، اس موقع پر سائیں جی ایم سید کی 110 ویں یوم ولادت کا کیک بھی کاٹا گیا،دریں اثنا مختلف سیاسی جماعتوںکے رہنماؤں اور دانشوروں تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ انتہا پسندی ہے ،ملک سے مذہبی جنونیت کے خاتمے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے کہا ہے کہ اگر سندھ کی تقسیم ہوئی تو حالت بیروت جیسے ہوجائیں گے ،سائیں جی ایم سید کی جدوجہد خودمختار سندھ اور بھائی چارے کے لیے تھی ،یہ بات انھوں نے جمعہ کو آرٹس کونسل میںسائیں جی ایم سید کے 110 ویں یوم ولادت کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر مسلم لیگ ( ن )کے رکن سندھ اسمبلی عرفان اللہ مروت ،حاجی شفیع محمد جاموٹ ،پائلر کے کرامت علی ،سینئر سیاستدان الٰہی بخش سومرو ،کامریڈ روچی رام ،نیشنل ورکر پارٹی کے یوسف مستی خان،پروفیسر اعجاز قریشی،شفقت عباسی،مسلم شمیم ،خادم سومرو ،غلام شاہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا، سید جلال محمود شاہ نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد بین الاقوامی سازش کے ذریعے قرارداد مقاصد کو آئین میں شامل کیا گیا ، ریاست اور مذہب کو الگ الگ رکھناچاہیے، دنیا میں ریاست کا مذہب نہیں ہوتا ہے،پاکستان میںمذہب کو ریاست سے الگ نہ کرنے کی وجہ سے دہشت گردی ہورہی ہے اور مذہبی انتہا پسندی بڑھ گئی ہے، آج ریاست کا سب سے بڑا چیلنج وہ مذہبی قوتیں ہیں جن کو چند قوتوں کی سرپرستی حاصل تھی۔
انھوں نے کہا کہ اردو بولنے والے سندھیوں کو سب سے زیادہ خطرہ ان سے ہے جو سندھ کی تقسیم کی باتیں کرتے ہیں ،سندھ میں مستقل آباد لوگ سب سندھی ہیں ،اردو بولنے والوں سے گزارش کرتاہوں کہ ان سے بچو جو آپ کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں ،ایسی سوچ نے سندھ میں بھائی چارے کو ختم کردیا ہے ،ایسی سوچ ہی آپس میں لڑاتی ہے اور اس سے بچنا چاہیے،انھوں نے کہا کہ اگر سندھ کو تقسیم کیا گیا تو یہاں بیروت کی صورتحال پیدا ہوجائے گی، اس موقع پر سائیں جی ایم سید کی 110 ویں یوم ولادت کا کیک بھی کاٹا گیا،دریں اثنا مختلف سیاسی جماعتوںکے رہنماؤں اور دانشوروں تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ انتہا پسندی ہے ،ملک سے مذہبی جنونیت کے خاتمے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔