ریونیو معاشی استحکام کے امکانات
معاشی ماہرین حکومتی آمدن بڑھانے کی ایک کثیر جہتی کوشش کو معیشت کے حقیقی استحکام سے جوڑ رہے ہیں،
آج دنیا ایک کھلی ہوئی کتاب ہے اسے صرف پڑھنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل
KARACHI:
معاشی ماہرین حکومتی آمدن بڑھانے کی ایک کثیر جہتی کوشش کو معیشت کے حقیقی استحکام سے جوڑ رہے ہیں، ریونیو بڑھانے کی قوم کو صائب نوید مل رہی ہے، اقتصادی اقدامات میں تیزی اور ترسیلات میں بہتری، اسٹاک مارکیٹ میں تاریخ کی ریکارڈ تیزی نے کاروباری اور تجارتی شعبے میں معاشی سرگرمیوں کا خوش آیند پہلو اجاگر کیا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تمام اقدامات کی سمت اگر درست رہی اور حکومت اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے قبل ملکی معیشت کو حقیقی استحکام، مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی سمیت غربت میں خاتمے کے طے شدہ اہداف مکمل کرلیتی ہے تو پاکستان کے معاشی مسائل کا حل آئی ایم ایف کے شکنجہ سے نکل کر خود کفالتی، اقتصادی و سماجی نظام کے پائیدار سنگ میل کو یقینی طور پر پا سکتا ہے، تاہم ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ مستحکم معیشت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کسی شارٹ کٹ کی ضرورت نہیں، بلکہ عوام کو مسائل سے نجات کی جانب صرف مساوات، انصاف، پیداواری حکمت عملی اور زرعی و اقتصادی پالیسیوں پر آزادانہ اور دلیرانہ عملدرآمد کا عزم ہی بنیادی معاشی بریک تھرو ثابت ہوگا۔
ادارے حکومتی آمدن بڑھانے کی سمت درست کرلیں تو ملکی عوام غربت، فاقہ کشی، مہنگائی اور بیروزگاری کے جن اعصاب شکن ایام کی شکایت کرتے ہیں اس سے عوام کو بڑی حد تک نجات مل سکتی ہے۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ معیشت درست سمت اختیار کر رہی ہے، وہ شعبے جو بے سمتی، سرمایہ کاری کے فقدان اور ہچکچاہٹ کا شکار تھے ان کو ایک نیا اعتماد اور جستجو کی توانائی مل رہی ہے، اس میں اقتصادی تقویت کے بہت سے مثبت اشارے قوم کو مل رہے ہیں۔ بس سیاسی درجہ حرارت کے ٹھہرنے کی دیر ہے، جمہوری رویے، سماجی تناؤ اور سیاسی کشمکش کو بریک لگ جائے تو معاشی استحکام کی لہر کو ملک میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس آزادیٔ عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔
میڈیا کے مطابق پاکستان میں ٹیکس وصول کرنے والے ادارے نے رواں مالی سال کے 11 ماہ میں 41 کھرب 43 ارب روپے اکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو ملک میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی کو ظاہر کرتا ہے جب کہ گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 35 کھرب 30 ارب روپے اکٹھے کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کے آخری 2 روز (30، 31 مئی) میں مزید 15 سے 20 ارب روپے کا ریونیو حکومت کے خزانے میں آئے گا جو رواں مالی سال میں ریونیو کلیلشن کو مزید بہتر بنا دے گا۔ جب یہ اعداد و شمار وزیر اعظم کو بتائے گئے تو اس کے فوراً بعد انھوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی کارکردگی کو سراہا، جس نے کسی مالی سال میں پہلی مرتبہ 40 کھرب روپے اکٹھا کر کے اس تاریخی سنگ میل کو عبور کیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جولائی تا مئی ریونیو کلیکشن 18 فیصد زائد رہی، ایسی کارکردگی حکومتی پالیسز کے باعث وسیع ترمعاشی بحالی کو ظاہر کرتی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایف بی آر کی مجموعی ریونیو کلیکشن گزشتہ برس کے 36 ارب 60 ارب روپے کے مقابلے میں جولائی تا مئی کے دوران 19 فیصد زیادہ یعنی 43 ارب روپے رہی۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں سے حاصل ہونے والی وسیع البنیاد معاشی بحالی کے یہ واضح آثار ہیں۔ رواں برس 11 ماہ میں 2 کھرب 16ارب روپے کا ریونیو فنڈ تقسیم کیا گیا جو گزشتہ برس کے ایک کھرب 24 ارب روپے کے مقابلے میں 74 فیصد زائد ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو اینڈ فنانس ڈاکٹر وقار مسعود خان نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ 40 کھرب روپے کا ہندسہ عبور کرنا ایف بی آر کے لیے نفسیاتی رکاوٹ تھی کیوں کہ گزشتہ 3 برسوں سے ریونیو کلیکشن تقریباً 38 کھرب روپے رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 31 مئی تک ریونیو کلیکشن کا اضافہ مزید بہتر ہوگا اور آیندہ 2 روز میں نمایاں ریونیو کی توقع ہے کیوں کہ پاکستان میں عموماً لوگ آخری دنوں میں ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ یہ اعداد و شمار عید کی تعطیلات کے دوران ریونیو کلیکشن متاثر ہونے کے باوجود بہتر ہوئے، عید کے بعد پیداوار نے رفتار پکڑی جس سے زیادہ ریونیو جمع ہوا، ساتھ ہی انھوں نے رواں مالی سال کا ریونیو ہدف پانے کا اشارہ بھی دیا۔ حکومت نے مالی سال 2021 کو بجٹ تیار کرتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو 49 کھرب 60 ارب روپے ریونیو اکٹھا کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی جو مالی سال 2020 کے مقابلے میں 24.4 فیصد زائد ہدف تھا۔
تاہم آئی ایم ایف نے ریونیو کے ہدف کو نظرِ ثانی کے بعد کم کر کے 46کھرب 91 ارب روپے کر دیا تھا۔ آیندہ مالی سال کے لیے آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے لیے 59 کھرب 63 ارب روپے ریونیو کلیکشن کا ہدف تجویز کیا ہے لیکن وزیر خزانہ شوکت ترین پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں اصل ہدف تجویز کردہ ہدف سے کم ہوگا۔ اس دوران معاشی تجزیہ کار بھی مختلف النوع اقتصادی تحفظات کا شکار رہے، جیساکہ وزیر اعظم عمران پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ پر مخالفین حیرت میں رہ گئے، لیکن ان کی حیرت اقتصادی حوالہ سے معیشت، ریونیو اور دیگر معاشی معاملات کے جمود اور تبدیلی کے نعرے کی بے اعتباری بھی تھی، عوام کو ہوبہو وہی ماضی جیسی صورتحال بلکہ اس سے بدتر حالات کا تجربہ ہوا، اسی سے فرسٹریشن بڑھتی چلی گئی، کیونکہ عوام کو ان تین برسوں میں کوئی بنیادی انقلاب،نشاۃ ثانیہ اور میرٹ و کرپشن سے پاک معاشرہ کی تشکیل کا منظر نامہ نہیں ملا، اب منظر بدلنے لگا ہے تو امید بڑھی ہے، خدا کرے یہ قائم رہے۔
وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے دورے میں نیوکلیئر فیسلیٹی کا معائنہ کیا اور پروگرام سے وابستہ ماہرین کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ قومی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے اسٹرٹیجک پلاننگ ڈویژن کا کردار اطمینان بخش ہے۔
ایٹم بم محفوظ، پاکستان پر اعتماد ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم کو اعلیٰ کمان نے اسٹرٹیجک پروگرام کے حوالے سے بریفنگ بھی دی، نیشنل کمانڈ اتھارٹی میں عمران خان کا استقبال جنرل ندیم رضا اور لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی منج نے کیا۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے ایک پیغام میں FBR کو شاباشی دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار ایک سال کے دوران 4 ہزار ارب سے زائد ٹیکس جمع کیا گیا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 18فیصد زیادہ ہے، ٹیکس وصولیوں کا سنگ میل حکومت کی پالیسیوں کے باعث وسیع البنیاد معاشی بحالی کا عکاس ہے۔
معیشت میں ہلچل کی عکاسی کا ایک مظہر میڈیا اور سوشل میڈیا کا شعوری فیڈ بیک بھی ہے، دوسری حقیقت عوام میں بیداری کی لہر بھی ہے، عوام کو کورونا نے بھی نڈھال کر دیا ہے، معاشی جدوجہد برائے نام رہ گئی، افرادی قوت اور شہریوں کو اپنے مسائل سے متعلق مزاحمت جب کہ عوام کے جاننے کے حق کے لیے بھی میڈیا نے لب بستہ کو خیرباد کہہ دیا ہے، کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی، شہری اپنے حقوق سے آشنا ہیں، حق کے لیے لڑنے کو تیار ہیں، عوامی احتجاج کے درجنوں مظاہر قومی زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
آج دنیا ایک کھلی ہوئی کتاب ہے، اسے صرف پڑھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت سندھ نے مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر پارلیمنٹ کو ریفرنس بھیج دیا۔ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوائے گئے ریفرنس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر سی سی آئی میں ووٹنگ کے لیے مروجہ قواعد پر عمل نہیں کیا گیا، تحفظات ظاہر کیے جانے کے باوجود، سی سی آئی نے مردم شماری کے نتائج کی منظوری دی۔ 2017 کی مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم دکھایا گیا جسے سندھ حکومت نہیں مانتی، سندھ کی آبادی 62 ملین یعنی6 کروڑ 20 لاکھ ہے، 2017 کی مردم شماری میں سندھ کی آبادی ایک کروڑ 50 لاکھ کم دکھائی گئی، وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں نے سی سی آئی کے دیگر ممبران کو یاد دلایا تھا کہ دوسرے صوبوں سے آنیوالوں کو سندھ کے بجائے ان کے اصل صوبوں میں شمار کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کی تھی کہ وہ معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے صوبوں کے تحفظات دور کریں اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو کابینہ کے2017 کی مردم شماری سے متعلق کیے گئے فیصلوں کو کالعدم یا باطل تسلیم کیا جائے گا۔ سینیٹ میں تمام فریقین نے 5فیصد آبادی کے بلاکس میں دوبارہ گنتی اور مردم شماری کے اعداد و شمار کی اصلاح کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
حکومت کا اس معاہدے پر عمل درآمد کرانے کے بجائے تازہ مردم شماری کرانے کا فیصلہ ایک چال ہے۔ کابینہ کمیٹی کے بعد کابینہ نے بھی متنازع نتائج کی منظوری دے دی اور صوبوں سے مشاورت نہیں کی، اس مردم شماری کے فیصلے کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا، وفاقی حکومت نے غیرقانونی اور غیر منصفانہ طریقے سے مردم شماری کے متنازع نتائج کو منظور کیا، سندھ حکومت کی مخالفت کے باوجود مردم شماری کے متنازع نتائج کی منظوری کے معاملے کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مردم شماری کے مسئلہ کو عوام کی امنگوں کے مطابق جلد حل کیا جائے، الیکشن قریب آجائیں گے تو مردم شماری، حلقہ بندیاں پھر ایک ایشو بن کر حکومت کے لیے درد سر اور سوال بن جائیں گی۔ امید کی جانی چاہیے کہ دیگر مسائل کی طرح مردم شماری کو بھی سندھ حکومت ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی سعی کریگی، مردم شماری ایک ناگزیر ضرورت ہے۔