طالبان کا نیا افغانستان

کابل انتظامیہ کا اقتدار اور اختیاردھوپ میں پڑی برف کی طرح تیزی سے پگھل رہا ہے۔


[email protected]

KARACHI: کابل انتظامیہ کا اقتدار اور اختیاردھوپ میں پڑی برف کی طرح تیزی سے پگھل رہا ہے۔ آندھیوں کی زد میں ٹمٹماتے چراغ کی مانند ہے جو کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے۔ طالبان کوئی لمبی چوڑی باتیں نہیں کر رہے صرف یہ یقین دلا رہے ہیں کہ امن و امان اور تحفظ کو یقینی بنائیں گے، انصاف کو ہر گھر کی دہلیز پر فراہم کریں گے۔

اگرچہ اشرف غنی کے وزیر مشیر بلند و بانگ دعوی کر رہے ہیں لیکن خوف ان کے چہروں پر جھلک رہا ہے ۔ امریکی الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں اور چینی طالبان سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔چین نے افغانستان میں جاری اپنے منصوبوں کی حفاظت اور عملے کے تحفظ کے لیے امریکی انخلا کے بعد طالبان سے ضمانتیں طلب کرلی ہیں اور چینی دستے تعینات کرنے کے امکانات پر گفتگو بھی کی ہے جسے طالبان قیادت نے قبول کر لیا ہے ۔ ایک طالبان رہنما نے اس کالم نگار کو بتایا کہ ان محافظوں کی نقل و حمل محدود ہو گی۔

پینٹاگون نے افغان فوج کے لیے نئے امریکی بجٹ میں 3 ارب 50 کروڑ ڈالر مانگ لیے ہیں۔امریکی انخلا کے بعد افغانستان کو سہارا دینے کے نام پر یہ خطیر رقوم خرچ کی جائے گی۔صدر بائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم ایک واضح مقصد کے تحت افغانستان گئے تھے کہ اسے دہشت گردوں کے اڈوں سے پاک کیا جائے جن دہشت گردوں نے 9/11 برپا کی تھی ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور القاعدہ کو مستقبل میں افغان سرزمین سے امریکا پر حملہ کرنے کے قابل نہ چھوڑا جائے اور ہم نے تمام مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔

گل بدین حکمت یار افغان منظر نامے پر عجیب و غریب کردار بن کر ابھرے ہیں۔ ایساسابق وزیراعظم جسے کابل شہر میں نہیں گھسنے دیا گیا تھا جس نے کابل کی دہلیز پر مورچہ بند ہوکر راکٹ بازی کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی جب طالبان پیش قدمی کرتے لوائے راکٹ نامی اڈے پر پہنچے تھے تو یہ جوتے چھوڑ کر ننگے پاؤں فرار ہوگئے تھے۔

جب سعودی شہزادوں نے منہ موڑ لیا تھا اور پاکستان کے لہجے میں بھی سرد مہری در آئی تھی تو اسی عملیت پسند حکمت یار نے تہران میں پناہ لینے میں ذرا دیر نہیں لگائی تھی۔ وہیں سے امریکیوں سے رابطے استوار کیے اور پھردہشت گرد سے دوبارہ امن پسند افغان بزرگ قرار پائے۔ جناب انجینئر گل بدین حکمت یار کے امن سپریم کونسل کی تشکیل اور ترتیب پر اشرف غنی سے شدید اختلافات رہے ہیں۔ آج اْنہوں نے اشرف غنی سے معاہدہ ہو جانے کی خوش خبری سنائی ہے جس کی مخالفت صدر غنی کے سارے مشیر ان کر رہے ہیں۔ ماضی کا طاقتور اور باوقار حکمت یار اب آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن چکا ہے جس کی باتیں لطائف سمجھی جاتی ہیں

کابل حکومت کے لیے اپنی رٹ کی بحالی اور صوبوں کا دفاع مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ۔ اقربا پروری اور لوٹ مار نے افغان حب وطن ، دلیری اور بہادری کو لایعنی استعارہ بنا دیا ہے۔ کابل انتظامیہ نے اپنی ناکامیوں کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنے کی آسان راہ پکڑی ہوئی ہے ۔

طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں تمام تعلیمی ادارے اور اسپتال کابل انتظامیہ کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ عملے کی تنخواہیں، ادویات اور بچوں کی کتب و دیگر سامان کابل انتظامیہ ادا کرتی ہے۔ اس اسکولوں اور اسپتالوں کی باقاعدہ انسپکشن بھی ہوتی ہے ،اس پر بھی طالبان کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقے میں کابل سے آنے والے عملے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں او ان کی مہمان نوازی بھی کرتے ہیں۔

ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے زیر انتظام علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔امریکا افغانستان کے پڑوس میں اڈے بنارہا ہے جس کے ذریعہ وہ افغانستان سے انخلاء کے بعد وہاں کے حالات کو کنٹرول رکھے گا اور ماضی کے تلخ تجربات کو دہرانے سے بچاؤ کی تدبیر کرے گا۔اس افواہ کی پڑوسی ممالک اور خود امریکا نے بھرپور تردید کردی ہے مگر میڈیا میں ہلچل ضرور مچ گئی۔

اس بے سراپا افواہ کی آڑ میں بین الاقوامی ذرایع ابلاغ نے ایک دفعہ پھر طالبان کے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کردی ہے۔ ٹاک شوز میں کہا گیا کہ نوے کی دہائی میں طالبان نے حکومت پر قبضہ کرلیا تھا جس کی وجہ سے ترقی کے بجائے انتہائی پسندی کی سوچ مسلط ہوئی اور اظہارِ رائے کی آزادی پیروں تلے روندی گئی۔حقیقت یہ ہے کہ ٹی وی اسکرینز پر بولنے والے نام نہاد تجزیہ حقائق سے نابلد ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ کرنے میں کیوں کر کامیاب ہوگئے تھے۔

اصل بات یہ ہے کہ طالبان کے آنے سے قبل صرف کابل شہر پانچ حکومتوں کا میدان جنگ بن گیا تھا ۔ ان کی آپس میں جنگیں چل رہی تھیں۔ عوام بیچارے گھروں میں محصور تھے۔ طالبان نے افغانستان کو بخرے کرنے سے بچایا۔ ملک میں مثالی امن قائم کردیا۔طالبان کا دور افغانستان میں قانون کی حکمرانی عوام کو امن و امان اور انصاف کی فراہمی کا دور زرین تھا۔ دوحہ معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات کے بعد افغانستان سے غیر ملکی افواج مکمل طور پر نکل جائیں اور کوئی نئی بہانہ بازی نہ کریں۔

اس لیے طالبان نے بڑے پیمانے پر موسم بہار کے حملوں(spring offensive) کارروائیوں کا آغازنہیں کیا، تاہم کچھ صوبوں میں اضلاع کی سطح پر اہم فوجی اور سول ادارے خود بخود مجاہدین کے زیر کنٹرول آگئے ہیں جس پر کابل انتظامیہ کے فوجی اور سیاسی حلقوں نے شور مچانا شروع کردیا ہے اور خوف و دہشت کا شکار ہو گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں