وفاقی بجٹ 222021 ۔۔۔ کورونا سے ہونیوالے معاشی نقصان کا ازالہ کرنا ہوگا
’’پری بجٹ فورم‘‘ میں حکومت، ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا اظہار خیال
CAIRO:
وفاقی بجٹ 22-2021 کی آمد آمد ہے اور سب کی نظریں اس بجٹ پر لگی ہیں۔
اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ''پری بجٹ فورم'' کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
شوکت ترین
(وفاقی وزیر خزانہ )
مہنگائی پر قابو پانا وزیراعظم عمران خان اور ہماری اولین ترجیح ہے۔ اگلے مالی سال کا وفاقی بجٹ آئندہ ماہ کی 11 تاریخ کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس میں معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف دیاجائے گا۔ حکومت بر آمدات، محصولات مزید بڑھانے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے متعدد انتظامی اقدامات پر توجہ دے رہی ہے۔
اس ضمن میں بزنس چیمبرز سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت جاری ہے۔ وفاقی بجٹ 2021-22 گروتھ پر مبنی ہوگا جس میں پائیدار معاشی شرح نمو حاصل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اورنئے اضافی ٹیکس لگا کر ریونیو بڑھانے کے بجائے متبادل ذرائع اختیار کئے جائیں گے،ٹیکس کے نظام میں جدت لائی جائے گی، ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیا جائے گا، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کیلئے مراعات دی جائیں گی لیکن ساتھ ساتھ کڑئی نگرانی بھی ہوگی اورتاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیکس نادہندگان کو جیل بھیجا جائے گا۔
ایف بی آر میں ایک خصوصی سیل بنایا جائے گاجس میں پرائیویٹ سیکٹر سے لوگوں کو لائیں گے، اسی خصوصی سیل کے ذریعے ٹیکس نادہندگان کو پکڑا جائے گا۔ کرونا کی وباء کے دوران وزیراعظم کی دانشمندانہ حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف معاشی استحکام حاصل ہوا بلکہ گروتھ بھی ہوئی۔رواں مالی سال کیلئے نیشنل اکاونٹس کمیٹی کے اعلان کردہ حالیہ عبوری اعدادوشمار بہت حوصلہ افزاء ہیں، ہمیں گروتھ ریٹ کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔
ادارہ شماریات ایک خودمختار ادارہ ہے، اس ادارے نے گروتھ کا ہدف 3.94 دیا ہے اور تمام ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے گروتھ ریٹ 3.94 بتایا گیا ہے، سٹیٹ بینک نے بھی کہا تھا کہ گروتھ ریٹ 3 فیصد ہو سکتا ہے جبکہ ورلڈ بینک نے 1.3 اور آئی ایم ایف نے 1.5 فیصد گروتھ کی پیشگوئی کی تھی۔ گندم اور چاول سمیت تین بڑی فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے اس کے علاوہ تعمیراتی شعبے میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ ملک میں ہاؤسنگ، زراعت، انڈسٹریز اور برآمدات کا شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے، امید ہے کہ آئندہ برس گروتھ ریٹ 5 فیصد اور اس سے اگلے سال 6 فیصد پر جائے گا۔
چین نے ہمارے لئے بہت بڑا انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پاور سیکٹر قائم کیا ہے لہٰذا اس سے بہترین انداز میں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔آئندہ بجٹ کے حوالے سے میں نے معاشی پلان بنایا ہے، 12 مختلف شعبوں پر تفصیلی تحقیق کے بعد اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کے اثرات بجٹ کے بعد نظر آئیں گے اور عوام کو ہماری پالیسی آؤٹ لائنز کا بھی معلوم ہوجائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان معاشی استحکام اور غربت کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
لوگوں کی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے حکومتی پالیسی کے مطابق مائیکرو فنانس بینک اور غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کو چھوٹے کاروبار کے لئے آسان قرض فراہم کر رہی ہیں۔اخوت پراجیکٹ کے تحت سینکڑوں لوگوں کو 150 ارب روپے کا قرض دیا گیا ہے۔ بجلی کے منصوبے لگاتے ہوئے سوچنا چاہیے تھا کہ اتنی بجلی کہاں استعمال ہوگی؟ ہمارا سرکلر ڈیٹ بڑھتا جا رہا ہے،آئی ایم ایف کہتا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کو روکنے کیلئے ٹیرف بڑھا دیں، ہمیں عالمی اداروں کو سمجھانا ہوگا کہ غریب عوام مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم مہنگائی کو نیچے لانے کی کوشش کر رہے ہیں، اسے 5 سے 6 فیصد پر لانے کے لئے ابھی بھی ایک سال لگے گا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو آٹا اور بجلی میں سبسڈی دی جائے گی۔
ڈاکٹر محمد ارشاد
(سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو)
اگلے بجٹ میں ٹیکس لگانے کے بجائے سٹرکچرل تبدیلیاں لائی جائیں اورٹیکس مشینری کو اپ گریڈ کیا جائے۔ وزیر خزانہ ٹیکس کی شرح بڑھانے یا نئے ٹیکس لگا کر رینیو اکٹھا کرنے کے بجائے جدید ٹیکنالوجی اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر ریونیو بڑھانے کا ویژن رکھتے ہیں لیکن یہ عظیم مقصد ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس مشینری کو اوورہال کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ایف بی آر میں افسران زیادہ ہیں اور ٹیکس اکٹھا کرنے والا ماتحت عملہ کم ہے۔اس کے علاوہ ایف بی آر کے افسران کے اختیارات، لاجسٹک سپورٹ اور وسائل کی بھی قلت ہے جو ایف بی آر کی کمزوری ہے۔ وزیر خزانہ کو ذاتی دلچسپی لے کر اس ادارے کو مضبوط بنانا ہوگا۔ایف بی آر کے ٹیکس اکٹھا کرنے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے والے افسران و اہلکاروں کے اختیارات بڑھائے جائیں اور انہیں لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جائے۔ٹیکس بیس کو وسیع کرنے اور محصولات کی وصولی میں اضافہ کے لئے آٹومیشن ہی واحد راستہ ہے جس کیلئے حکومت، بینک ، پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پاکستان میں بجلی کی تقسیم کرنے والی تمام کمپنیاں جو بجلی کے بل تیار کرتی ہیں اور جمع کرتی ہیں۔
پاکستان ٹیلی مواصلات کمپنی لمیٹڈ اور ایف بی آر کی جانب سے ایڈوانس ٹیکس جمع کرنے والی سیلولر کمپنیاں یہ سب مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ ان کے ڈیٹا بیس کا استعمال کرکے ، وفاقی حکومت آسانی سے منصفانہ ٹیکس کی بنیاد کا تعین کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر اور پرال کے پاس اپنا بہترین ڈیٹا بینک و ڈیٹا بیس موجود ہے۔ ایف بی آر اس ڈیٹا کی بنیاد پر ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کا سراغ لگاکر انہیں ٹیکس نیٹ میں لاسکتی ہے۔
زاہد لطیف خان
(رہنما پاکستان سٹاک ایکسچینج اسلام آباد)
کسی بھی ملک کی سٹاک ایکسچینج اس کا اقتصادی چہرہ اور معاشی ونڈو ہوتی ہے، اس میں بہتری سے معیشت بہتر ہوتی ہے لہٰذا حکومت کو بجٹ میں اقتصادی ترقی کو بڑھانے اور معاشی ڈھانچے میں عدم توازن کو دور کرنے پر توجہ دینا ہوگی تاکہ سٹاک مارکیٹ میں بہتری آئے۔ میری تجویز ہے کہ کچھ عرصے کیلئے کپیٹل گین ٹیکس ختم کر دیا جائے، اس سے نئے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کی سٹاک مارکیٹ میں دلچسپی بڑھے گی۔ حکومت کو طویل مدتی ٹیکس پالیسی متعارف کرانے اوررئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بنانے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
حکومت کو چاہیے کہ آئندہ بجٹ میں سیونگ اور انویسٹمنٹ اکاؤنٹس متعارف کرائے اور رجسٹرڈ کمپنیوں کیلئے ٹیکس ریٹ میں کمی لائے۔ ان بجٹ تجاویز پر عمل کرنے سے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ سٹاک مارکیٹ معیشت کے سب سے زیادہ دستاویزی سیکٹرز میں سے ایک ہے لہٰذاکیپٹل مارکیٹ کا پھیلاؤ، پاکستان میں ٹیکس کا دائرہ کاربڑھانے کے لیے ایف بی آر کی کوششوں کے ساتھ پوری طرح منسلک ہے۔ مالیاتی نظم و ضبط اور ٹیکس اقدامات سے کیپٹل مارکیٹ کے سٹرکچر اور کام پر براہ راست اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک بڑی اور بہتر طور پر کام کرنے والی کیپٹل مارکیٹ جدید معیشت کے لیے لاز می شرط ہے لہٰذا پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سازگار ماحول پیدا کیا جائے جس سے زیادہ کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کوکیپٹل مارکیٹ کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کی آمدنی پر اثرانداز ہوئے بغیر، نئی لسٹنگ کی حوصلہ افزائی اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرکے کیپٹل مارکیٹ کے حجم اوروسعت میں اضافہ کیا جائے اور ترقی میں حائل رکاوٹوں پر توجہ دی جائے ۔
اسی طرح ریئل اسٹیٹ اور تعمیرات کے لیے کیپٹل گینز ٹیکس (سی جی ٹی) کے سٹرکچرمیں حالیہ تبدیلیوں نے لسٹڈ اور دیگر کلاسز کے مابین ٹیکس کے تناظر میں بگاڑ پیدا کیا ہے، جہاں دستاویزی سرمایہ کاری کے لیے سی جی ٹی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس حوالے سے تجویز ہے کہ لسٹڈ سیکیورٹیز کے لیے سی جی ٹی کو بین الاقوامی سطح کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایک اور اہم تجویز یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے لیے ٹیکس کے نرخوں کومناسب بنانا اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے رجسٹرڈ کاروباری اداروں کے لیے ٹیکس کریڈٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔
محمد عارف یوسف جیوا
(نائب صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز)
و فاقی بجٹ 2021-22 میں کورونا وباء کے باعث بزنس کمیونٹی اور عام آدمی کے ہونے والے نقصان کے ازالے پر توجہ ہونی چاہیے۔ نئے ٹیکس نہ لگانے کا اعلان خوش آئند ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ حکومت کو کورونا سے متاثر صنعتوں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیلز ٹیکس میں کمی لائی جائے۔
وزیراعظم عمران خان تعمیراتی شعبے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس شعبے کے لیے ریلیف پیکیج (ایمنسٹی اسکیم)کا اعلان کیا جس کے تحت تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی 30 جون2021 تک چھوٹ جبکہ 31 دسمبر 2021 تک فکس ٹیکس رجیم کی سہولت دی گئی ہے۔
اگلے بجٹ میں تعمیراتی شعبے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی چھوٹ میں مزید 2 سال کی توسیع دی جائے اور فکس ٹیکس رجیم کا نظام مستقل بنیاد پر نافذ کیا جائے۔ نیا پاکستان ہا وسنگ اسکیم کے تحت 50 لاکھ سستے گھروں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے سیمنٹ، سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں کو کم از کم 3 سال کے لیے فکس کیا جائے یا ان پر 3 سال کے لیے مقامی ٹیکسوں سمیت تمام ٹیکسز ختم کیے جائیں ۔کرونا کی وجہ سے بزنس کمیونٹی شدید مالی بحران سے دوچار ہے لہٰذا کاروبار کی سود ادائیگیوں کو 6 ماہ کے لیے موخر کیا جائے، درآمدشدہ مشینری، پلانٹ وغیرہ کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی جائے۔
حکومت کو سیلز ٹیکس ریفنڈ سسٹم میں ٹیکنیکل مسائل کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ایکسپورٹرز کو جلد ریفنڈز ادا کیے جاسکیں۔ نئی رجسٹر ہونے والی کمپنیوں بالخصوص ایس ایم ایز کو تمام ٹیکسوں سے 3 سال کی چھوٹ دی جائے۔ ایس ایم ایز کو قرضوں کے لیے نرم پالیسیاں متعارف کی جائیں اوربلا سود قرضے دیے جائیں جس کے لیے کولیٹرل کی شرط بھی ختم کیا جائے ۔ عالمی تجارت میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو ایکسپورٹ سٹرٹیجک شفٹ لانا ہوگی جس کے لیے میڈیم اور ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانا ہوگا۔
ڈاکٹر ساجد امین جاوید
(ماہر معاشیات)
حکومت مشکل حالات میں بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ اس میںایک طرف اقتصادی ریکوری کو سپورٹ کرنا ہوگا جبکہ دوسری طرف مالی وسائل کے مسائل اور آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کو دیکھتے ہوئے اخراجات کو بڑھانا مشکل ہوگا۔ ایسے میں اگر کوئی سخت قسم کا بجٹ آجاتا ہے تو اس سے اکنامک ریکوری میں تاخیر ہوسکتی ہے،اس بجٹ میں توازن لانا حکومت اور وزیر خزانہ کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔بجٹ اقتصادی بحالی و ترقی کو سپورٹ کرنے والے پیکیج پر مبنی ہونا چاہیے اور اس کا بنیادی مقصد اکنامک ریکوری کو سپورٹ کرنا ہونا چاہیے۔
کرونا کی وباء کے تناظر میں حکومت کی طرف سے دیے جانے والے معاشی پیکیج جاری رہنے چاہئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بجٹ سازی میں اخراجات کیلئے فنڈز مختص کرتے وقت ویکسی نیشن پالیسی کو خاص اہمیت دے کیونکہ اب ویکسی نیشن پالیسی ہی اکنامک پالیسی ہے۔ ویکسی نیشن کی لاگت ملکی جی ڈی پی کے ایک سے دو فیصد کے لگ بھگ ہونے کی توقع ہے، یہ اخراجات نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے جس کے معاشی اور سماجی فوائد بہت زیادہ ہوں گے۔
اس لئے حکومت کو اگلے بجٹ میں ویکسی نیشن کے حوالے سے الگ پالیسی لانی چاہیے ۔چونکہ غیر یقینی صورتحال ہے لہٰذا اس بجٹ کے بعد منی بجٹ بھی آتے رہیں گے۔ چھوٹی صنعت کیلئے جو پہلے سے رعایات و مراعات ہیں نہ صرف وہ جاری رہنی چاہئیں بلکہ آنے والے بجٹ میں بھی ایس ایم ای سیکٹر پر توجہ دی جائے اور انہیں مراعات دی جائیں۔ مختصراََ یہ کہ آنے والے بجٹ کا بنیادی مقصد پاکستان کی اقتصادی ریکوری کو محفوظ بنانا ہونا چاہیے۔ اس کیلئے شاید حکومت کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے قائل کرنا پڑے گا۔
بجٹ کا بنیادی مقصد مالیاتی خسارے کو کم سے کم کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ اخراجات کو کتنے موثر اور پیداواری انداز سے استعمال میں لایا جائے ۔ وزیر خزانہ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اگلے بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے اور نہ ہی ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے گی مگر مالیاتی خسارے میں کمی،قرضوں کی ادائیگی اور ملکی وسائل بڑھانے کیلئے حکومت کو ٹیکس ریونیو بڑھانا پڑے گا جو ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اگلے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف چھ ہزار ارب روپے کے لگ بھگ مقرر کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، ایسے میں یا تو ٹیکس بڑھانا پڑے گا یا پھر نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا پڑے گا، حکومت کو ٹیکس وصولی کے اہداف پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔
حکومت کے آخری دو سال انتخابات کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں اور اس دوران خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ مالیاتی خسارے میں اضافے کی صورت نکلتا ہے۔ ہمارے قرضے تو پہلے ہی ایک کھرب سولہ ارب ڈالر کے لگ بھگ پہنچ چکے ہیں جو خطرناک حد کو چھو رہے ہیں ، قرضوںاور اخراجات میں کمی ناگزیر ہے ورنہ حالات مزید مشکل ہوجائیں گے۔
عرفان صدیقی
(صدر اوورسیز انویسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
وفاقی بجٹ 2021-22میں ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں کو آسان بنانے کیلئے ایز آف ڈوئنگ بزنس اقدامات کے ذریعے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی اور تمام سالانہ آمدنی والے افراد کیلئے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کو یقینی بنانے جیسے اقدامات پر خصوصی زور دینا ہوگا۔ حکومت پاکستان نے مقامی اور بین الاقوامی تجارت پر کووڈ 19کے اثرات سمیت متعدد معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے جر ا ت مندا نہ اقدامات اٹھائے۔
اب اگلے بجٹ میں ضروری ہے کہ کم سے کم ٹیکس کو نچلی سطح پر عام ٹیکس کی شرح کے موافق کیا جائے اورفوری طورپر زیادہ ٹرن اوور والی آئل مارکیٹنگ اور ریفائنریزسمیت مختلف صنعتوں کیلئے ٹیکس کی شرح کو 0.2تک کم کیا جائے۔ 45فیصد سے زائد ودہولڈنگ ٹیکس ایک بوجھ ہے جس کو فوری طور پر فائلرز کیلئے 5فیصد کی سطح پر لایا جائے، حتمی ٹیکس رجیم کو ختم کرکے ود ہولڈنگ ٹیکس کو ایڈجسٹ کیا جائے اور ایف بی آر اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ تمام افراد جن پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے باقاعدگی سے ٹیکس گوشوارے جمع کروائیں۔
سندھ میں قابل اطلاق سیلز ٹیکس کی یکساں 13فیصد شرح کو پورے ملک میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک بھرمیں ایک عام ٹیکس ریٹرن فارم متعارف کرایا جائے اور ہرصوبے کے حکام علیحدہ سیلز ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے بجائے ایک ہی ٹیکس گوشوارہ ایف بی آر میں جمع کرائیں۔ اوورسیز چیمبر نے تمباکو کی صنعت میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری روکنے کیلئے غیر ساختہ تمباکو کی صنعت پر ایف ای ڈی میں خاطر خواہ اضافے کی بھی سفارش کی ہے۔
اس کے علاوہ ٹریک اور ٹریس مانیٹرنگ سسٹم کے نفاذ سے ایف بی آر کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ ہم نے پوری ویلیو چین میں غیر قانونی تجارت پر سخت کنٹرول اور جرمانے عائد کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ تجاویز میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر غور اور نظر ثانی کے بعد ڈیوٹی چوری کی ترغیب کو ختم کرنے کیلئے ڈیوٹی اور ٹیکس کی شرح میں ہم آہنگی لائی جائے۔ خطے میں لاگو بہترین پالیسیوں اور طریقوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں پالیسیوں اور طریقوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مینوفیکچرنگ، آئی ٹی اور خدمات کے برآمدات جیسے شعبوں میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے ملازمت کے مواقع پیدا کئے جاسکیں ۔
منور اقبال
( بانی چیئرمین کمپیوٹر ایسوسی ایشن)
وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کے اہم ممبران آئی ٹی کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ آئی ٹی سیکٹر سمیت تمام شعبوں کیلئے پیداواری لاگت کم کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی میں رائج قیمتوں کا مقابلہ کرنے میں آسانی پیدا ہوسکے۔ پاکستانی مصنوعات کیلئے نئی منڈیوں کی تلاش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
برآمدات کو صرف ٹیکسٹائل،چمڑہ اور سپورٹس تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ غیر روایتی اشیاء کی برآمد پر بھی توجہ دی جائے، اس سے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح آئی ٹی سیکٹر پر توجہ دے کر بھی جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ ملک میں تعلیم اور پیشہ وارانہ مہارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
آئی ٹی کی صنعت ملکی معیشت کے مالی اور تجارتی سیکٹر کا ایک اہم جزو ہے۔ کووڈ19 کی وجہ سے کمپیوٹر کی مانگ میں اضافہ ہوا مگر ملک میں جاری مسلسل لاک ڈاؤن کے باعث اس صنعت کو شدید دھچکا لگا ۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے استعمال شدہ اور اسیمبلڈ کمپیوٹر پر اچانک ہوش ربا ڈیوٹی عائد کر دی گئی ۔ اب کمپیوٹر صنعت کے بند ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے لہٰذا اگلے بجٹ میںآ ئی ٹی پارٹس اور پرزہ جات کا کام کرنے والی آئی ئی ٹی صنعت کمپیوٹر کے ریٹیلرز کے لئے فکسڈ ڈیوٹی لاگو کرنے کا نظام متعارف کرایا جائے اور اس تجویز کے تحت آئی ٹی صنعت کے ریٹیلرزپر پانچ ہزارروپے ماہانہ فی کس ٹیکس عائد کردیا جائے تاکہ وہ بھی دستاویزی معیشت کے نیٹ میں آسکے۔
بجٹ میں آئی ٹی شعبہ میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،اس کیلئے خصوصی مراعاتی پیکیج متعارف کروایا جائے۔ کمپیوٹر، موبائل و دیگر اشیاء بنانے والی بین الاقوامی کمپنیوں کے مینوفیکچرنگ پلانٹس پاکستان میں لگ جائیں تو معاشی طور پر بہت فائدہ اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اگر بہتر حکمت عملی سے کام کیا جائے تو پاکستان صرف آئی ٹی انڈسٹری اور آئی ٹی سروسز برآمد کرکے بارہ سے پندرہ ارب ڈالر سالانہ حاصل کرسکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت ٹیکسز کو ریشنلائز کرے اور اسمبلڈ کمپیوٹرز کی صنعت کو فروغ دے۔ حکومت آئی ٹی کے فروغ کے لئے غیر ملکی سرمایہ کارو ں کو 5 سال کی ٹیکس چھوٹ دے ۔
وفاقی بجٹ 22-2021 کی آمد آمد ہے اور سب کی نظریں اس بجٹ پر لگی ہیں۔
اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ''پری بجٹ فورم'' کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
شوکت ترین
(وفاقی وزیر خزانہ )
مہنگائی پر قابو پانا وزیراعظم عمران خان اور ہماری اولین ترجیح ہے۔ اگلے مالی سال کا وفاقی بجٹ آئندہ ماہ کی 11 تاریخ کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس میں معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف دیاجائے گا۔ حکومت بر آمدات، محصولات مزید بڑھانے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے متعدد انتظامی اقدامات پر توجہ دے رہی ہے۔
اس ضمن میں بزنس چیمبرز سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت جاری ہے۔ وفاقی بجٹ 2021-22 گروتھ پر مبنی ہوگا جس میں پائیدار معاشی شرح نمو حاصل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اورنئے اضافی ٹیکس لگا کر ریونیو بڑھانے کے بجائے متبادل ذرائع اختیار کئے جائیں گے،ٹیکس کے نظام میں جدت لائی جائے گی، ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیا جائے گا، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کیلئے مراعات دی جائیں گی لیکن ساتھ ساتھ کڑئی نگرانی بھی ہوگی اورتاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیکس نادہندگان کو جیل بھیجا جائے گا۔
ایف بی آر میں ایک خصوصی سیل بنایا جائے گاجس میں پرائیویٹ سیکٹر سے لوگوں کو لائیں گے، اسی خصوصی سیل کے ذریعے ٹیکس نادہندگان کو پکڑا جائے گا۔ کرونا کی وباء کے دوران وزیراعظم کی دانشمندانہ حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف معاشی استحکام حاصل ہوا بلکہ گروتھ بھی ہوئی۔رواں مالی سال کیلئے نیشنل اکاونٹس کمیٹی کے اعلان کردہ حالیہ عبوری اعدادوشمار بہت حوصلہ افزاء ہیں، ہمیں گروتھ ریٹ کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔
ادارہ شماریات ایک خودمختار ادارہ ہے، اس ادارے نے گروتھ کا ہدف 3.94 دیا ہے اور تمام ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے گروتھ ریٹ 3.94 بتایا گیا ہے، سٹیٹ بینک نے بھی کہا تھا کہ گروتھ ریٹ 3 فیصد ہو سکتا ہے جبکہ ورلڈ بینک نے 1.3 اور آئی ایم ایف نے 1.5 فیصد گروتھ کی پیشگوئی کی تھی۔ گندم اور چاول سمیت تین بڑی فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے اس کے علاوہ تعمیراتی شعبے میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ ملک میں ہاؤسنگ، زراعت، انڈسٹریز اور برآمدات کا شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے، امید ہے کہ آئندہ برس گروتھ ریٹ 5 فیصد اور اس سے اگلے سال 6 فیصد پر جائے گا۔
چین نے ہمارے لئے بہت بڑا انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پاور سیکٹر قائم کیا ہے لہٰذا اس سے بہترین انداز میں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔آئندہ بجٹ کے حوالے سے میں نے معاشی پلان بنایا ہے، 12 مختلف شعبوں پر تفصیلی تحقیق کے بعد اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کے اثرات بجٹ کے بعد نظر آئیں گے اور عوام کو ہماری پالیسی آؤٹ لائنز کا بھی معلوم ہوجائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان معاشی استحکام اور غربت کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
لوگوں کی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے حکومتی پالیسی کے مطابق مائیکرو فنانس بینک اور غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کو چھوٹے کاروبار کے لئے آسان قرض فراہم کر رہی ہیں۔اخوت پراجیکٹ کے تحت سینکڑوں لوگوں کو 150 ارب روپے کا قرض دیا گیا ہے۔ بجلی کے منصوبے لگاتے ہوئے سوچنا چاہیے تھا کہ اتنی بجلی کہاں استعمال ہوگی؟ ہمارا سرکلر ڈیٹ بڑھتا جا رہا ہے،آئی ایم ایف کہتا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کو روکنے کیلئے ٹیرف بڑھا دیں، ہمیں عالمی اداروں کو سمجھانا ہوگا کہ غریب عوام مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم مہنگائی کو نیچے لانے کی کوشش کر رہے ہیں، اسے 5 سے 6 فیصد پر لانے کے لئے ابھی بھی ایک سال لگے گا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو آٹا اور بجلی میں سبسڈی دی جائے گی۔
ڈاکٹر محمد ارشاد
(سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو)
اگلے بجٹ میں ٹیکس لگانے کے بجائے سٹرکچرل تبدیلیاں لائی جائیں اورٹیکس مشینری کو اپ گریڈ کیا جائے۔ وزیر خزانہ ٹیکس کی شرح بڑھانے یا نئے ٹیکس لگا کر رینیو اکٹھا کرنے کے بجائے جدید ٹیکنالوجی اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر ریونیو بڑھانے کا ویژن رکھتے ہیں لیکن یہ عظیم مقصد ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس مشینری کو اوورہال کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ایف بی آر میں افسران زیادہ ہیں اور ٹیکس اکٹھا کرنے والا ماتحت عملہ کم ہے۔اس کے علاوہ ایف بی آر کے افسران کے اختیارات، لاجسٹک سپورٹ اور وسائل کی بھی قلت ہے جو ایف بی آر کی کمزوری ہے۔ وزیر خزانہ کو ذاتی دلچسپی لے کر اس ادارے کو مضبوط بنانا ہوگا۔ایف بی آر کے ٹیکس اکٹھا کرنے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے والے افسران و اہلکاروں کے اختیارات بڑھائے جائیں اور انہیں لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جائے۔ٹیکس بیس کو وسیع کرنے اور محصولات کی وصولی میں اضافہ کے لئے آٹومیشن ہی واحد راستہ ہے جس کیلئے حکومت، بینک ، پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پاکستان میں بجلی کی تقسیم کرنے والی تمام کمپنیاں جو بجلی کے بل تیار کرتی ہیں اور جمع کرتی ہیں۔
پاکستان ٹیلی مواصلات کمپنی لمیٹڈ اور ایف بی آر کی جانب سے ایڈوانس ٹیکس جمع کرنے والی سیلولر کمپنیاں یہ سب مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ ان کے ڈیٹا بیس کا استعمال کرکے ، وفاقی حکومت آسانی سے منصفانہ ٹیکس کی بنیاد کا تعین کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر اور پرال کے پاس اپنا بہترین ڈیٹا بینک و ڈیٹا بیس موجود ہے۔ ایف بی آر اس ڈیٹا کی بنیاد پر ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کا سراغ لگاکر انہیں ٹیکس نیٹ میں لاسکتی ہے۔
زاہد لطیف خان
(رہنما پاکستان سٹاک ایکسچینج اسلام آباد)
کسی بھی ملک کی سٹاک ایکسچینج اس کا اقتصادی چہرہ اور معاشی ونڈو ہوتی ہے، اس میں بہتری سے معیشت بہتر ہوتی ہے لہٰذا حکومت کو بجٹ میں اقتصادی ترقی کو بڑھانے اور معاشی ڈھانچے میں عدم توازن کو دور کرنے پر توجہ دینا ہوگی تاکہ سٹاک مارکیٹ میں بہتری آئے۔ میری تجویز ہے کہ کچھ عرصے کیلئے کپیٹل گین ٹیکس ختم کر دیا جائے، اس سے نئے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کی سٹاک مارکیٹ میں دلچسپی بڑھے گی۔ حکومت کو طویل مدتی ٹیکس پالیسی متعارف کرانے اوررئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بنانے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
حکومت کو چاہیے کہ آئندہ بجٹ میں سیونگ اور انویسٹمنٹ اکاؤنٹس متعارف کرائے اور رجسٹرڈ کمپنیوں کیلئے ٹیکس ریٹ میں کمی لائے۔ ان بجٹ تجاویز پر عمل کرنے سے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ سٹاک مارکیٹ معیشت کے سب سے زیادہ دستاویزی سیکٹرز میں سے ایک ہے لہٰذاکیپٹل مارکیٹ کا پھیلاؤ، پاکستان میں ٹیکس کا دائرہ کاربڑھانے کے لیے ایف بی آر کی کوششوں کے ساتھ پوری طرح منسلک ہے۔ مالیاتی نظم و ضبط اور ٹیکس اقدامات سے کیپٹل مارکیٹ کے سٹرکچر اور کام پر براہ راست اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک بڑی اور بہتر طور پر کام کرنے والی کیپٹل مارکیٹ جدید معیشت کے لیے لاز می شرط ہے لہٰذا پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سازگار ماحول پیدا کیا جائے جس سے زیادہ کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کوکیپٹل مارکیٹ کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کی آمدنی پر اثرانداز ہوئے بغیر، نئی لسٹنگ کی حوصلہ افزائی اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرکے کیپٹل مارکیٹ کے حجم اوروسعت میں اضافہ کیا جائے اور ترقی میں حائل رکاوٹوں پر توجہ دی جائے ۔
اسی طرح ریئل اسٹیٹ اور تعمیرات کے لیے کیپٹل گینز ٹیکس (سی جی ٹی) کے سٹرکچرمیں حالیہ تبدیلیوں نے لسٹڈ اور دیگر کلاسز کے مابین ٹیکس کے تناظر میں بگاڑ پیدا کیا ہے، جہاں دستاویزی سرمایہ کاری کے لیے سی جی ٹی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس حوالے سے تجویز ہے کہ لسٹڈ سیکیورٹیز کے لیے سی جی ٹی کو بین الاقوامی سطح کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایک اور اہم تجویز یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے لیے ٹیکس کے نرخوں کومناسب بنانا اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے رجسٹرڈ کاروباری اداروں کے لیے ٹیکس کریڈٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔
محمد عارف یوسف جیوا
(نائب صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز)
و فاقی بجٹ 2021-22 میں کورونا وباء کے باعث بزنس کمیونٹی اور عام آدمی کے ہونے والے نقصان کے ازالے پر توجہ ہونی چاہیے۔ نئے ٹیکس نہ لگانے کا اعلان خوش آئند ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ حکومت کو کورونا سے متاثر صنعتوں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیلز ٹیکس میں کمی لائی جائے۔
وزیراعظم عمران خان تعمیراتی شعبے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس شعبے کے لیے ریلیف پیکیج (ایمنسٹی اسکیم)کا اعلان کیا جس کے تحت تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی 30 جون2021 تک چھوٹ جبکہ 31 دسمبر 2021 تک فکس ٹیکس رجیم کی سہولت دی گئی ہے۔
اگلے بجٹ میں تعمیراتی شعبے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی چھوٹ میں مزید 2 سال کی توسیع دی جائے اور فکس ٹیکس رجیم کا نظام مستقل بنیاد پر نافذ کیا جائے۔ نیا پاکستان ہا وسنگ اسکیم کے تحت 50 لاکھ سستے گھروں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے سیمنٹ، سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں کو کم از کم 3 سال کے لیے فکس کیا جائے یا ان پر 3 سال کے لیے مقامی ٹیکسوں سمیت تمام ٹیکسز ختم کیے جائیں ۔کرونا کی وجہ سے بزنس کمیونٹی شدید مالی بحران سے دوچار ہے لہٰذا کاروبار کی سود ادائیگیوں کو 6 ماہ کے لیے موخر کیا جائے، درآمدشدہ مشینری، پلانٹ وغیرہ کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی جائے۔
حکومت کو سیلز ٹیکس ریفنڈ سسٹم میں ٹیکنیکل مسائل کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ایکسپورٹرز کو جلد ریفنڈز ادا کیے جاسکیں۔ نئی رجسٹر ہونے والی کمپنیوں بالخصوص ایس ایم ایز کو تمام ٹیکسوں سے 3 سال کی چھوٹ دی جائے۔ ایس ایم ایز کو قرضوں کے لیے نرم پالیسیاں متعارف کی جائیں اوربلا سود قرضے دیے جائیں جس کے لیے کولیٹرل کی شرط بھی ختم کیا جائے ۔ عالمی تجارت میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو ایکسپورٹ سٹرٹیجک شفٹ لانا ہوگی جس کے لیے میڈیم اور ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانا ہوگا۔
ڈاکٹر ساجد امین جاوید
(ماہر معاشیات)
حکومت مشکل حالات میں بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ اس میںایک طرف اقتصادی ریکوری کو سپورٹ کرنا ہوگا جبکہ دوسری طرف مالی وسائل کے مسائل اور آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کو دیکھتے ہوئے اخراجات کو بڑھانا مشکل ہوگا۔ ایسے میں اگر کوئی سخت قسم کا بجٹ آجاتا ہے تو اس سے اکنامک ریکوری میں تاخیر ہوسکتی ہے،اس بجٹ میں توازن لانا حکومت اور وزیر خزانہ کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔بجٹ اقتصادی بحالی و ترقی کو سپورٹ کرنے والے پیکیج پر مبنی ہونا چاہیے اور اس کا بنیادی مقصد اکنامک ریکوری کو سپورٹ کرنا ہونا چاہیے۔
کرونا کی وباء کے تناظر میں حکومت کی طرف سے دیے جانے والے معاشی پیکیج جاری رہنے چاہئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بجٹ سازی میں اخراجات کیلئے فنڈز مختص کرتے وقت ویکسی نیشن پالیسی کو خاص اہمیت دے کیونکہ اب ویکسی نیشن پالیسی ہی اکنامک پالیسی ہے۔ ویکسی نیشن کی لاگت ملکی جی ڈی پی کے ایک سے دو فیصد کے لگ بھگ ہونے کی توقع ہے، یہ اخراجات نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے جس کے معاشی اور سماجی فوائد بہت زیادہ ہوں گے۔
اس لئے حکومت کو اگلے بجٹ میں ویکسی نیشن کے حوالے سے الگ پالیسی لانی چاہیے ۔چونکہ غیر یقینی صورتحال ہے لہٰذا اس بجٹ کے بعد منی بجٹ بھی آتے رہیں گے۔ چھوٹی صنعت کیلئے جو پہلے سے رعایات و مراعات ہیں نہ صرف وہ جاری رہنی چاہئیں بلکہ آنے والے بجٹ میں بھی ایس ایم ای سیکٹر پر توجہ دی جائے اور انہیں مراعات دی جائیں۔ مختصراََ یہ کہ آنے والے بجٹ کا بنیادی مقصد پاکستان کی اقتصادی ریکوری کو محفوظ بنانا ہونا چاہیے۔ اس کیلئے شاید حکومت کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے قائل کرنا پڑے گا۔
بجٹ کا بنیادی مقصد مالیاتی خسارے کو کم سے کم کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ اخراجات کو کتنے موثر اور پیداواری انداز سے استعمال میں لایا جائے ۔ وزیر خزانہ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اگلے بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے اور نہ ہی ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے گی مگر مالیاتی خسارے میں کمی،قرضوں کی ادائیگی اور ملکی وسائل بڑھانے کیلئے حکومت کو ٹیکس ریونیو بڑھانا پڑے گا جو ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اگلے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف چھ ہزار ارب روپے کے لگ بھگ مقرر کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، ایسے میں یا تو ٹیکس بڑھانا پڑے گا یا پھر نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا پڑے گا، حکومت کو ٹیکس وصولی کے اہداف پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔
حکومت کے آخری دو سال انتخابات کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں اور اس دوران خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ مالیاتی خسارے میں اضافے کی صورت نکلتا ہے۔ ہمارے قرضے تو پہلے ہی ایک کھرب سولہ ارب ڈالر کے لگ بھگ پہنچ چکے ہیں جو خطرناک حد کو چھو رہے ہیں ، قرضوںاور اخراجات میں کمی ناگزیر ہے ورنہ حالات مزید مشکل ہوجائیں گے۔
عرفان صدیقی
(صدر اوورسیز انویسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
وفاقی بجٹ 2021-22میں ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں کو آسان بنانے کیلئے ایز آف ڈوئنگ بزنس اقدامات کے ذریعے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی اور تمام سالانہ آمدنی والے افراد کیلئے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کو یقینی بنانے جیسے اقدامات پر خصوصی زور دینا ہوگا۔ حکومت پاکستان نے مقامی اور بین الاقوامی تجارت پر کووڈ 19کے اثرات سمیت متعدد معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے جر ا ت مندا نہ اقدامات اٹھائے۔
اب اگلے بجٹ میں ضروری ہے کہ کم سے کم ٹیکس کو نچلی سطح پر عام ٹیکس کی شرح کے موافق کیا جائے اورفوری طورپر زیادہ ٹرن اوور والی آئل مارکیٹنگ اور ریفائنریزسمیت مختلف صنعتوں کیلئے ٹیکس کی شرح کو 0.2تک کم کیا جائے۔ 45فیصد سے زائد ودہولڈنگ ٹیکس ایک بوجھ ہے جس کو فوری طور پر فائلرز کیلئے 5فیصد کی سطح پر لایا جائے، حتمی ٹیکس رجیم کو ختم کرکے ود ہولڈنگ ٹیکس کو ایڈجسٹ کیا جائے اور ایف بی آر اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ تمام افراد جن پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے باقاعدگی سے ٹیکس گوشوارے جمع کروائیں۔
سندھ میں قابل اطلاق سیلز ٹیکس کی یکساں 13فیصد شرح کو پورے ملک میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک بھرمیں ایک عام ٹیکس ریٹرن فارم متعارف کرایا جائے اور ہرصوبے کے حکام علیحدہ سیلز ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے بجائے ایک ہی ٹیکس گوشوارہ ایف بی آر میں جمع کرائیں۔ اوورسیز چیمبر نے تمباکو کی صنعت میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری روکنے کیلئے غیر ساختہ تمباکو کی صنعت پر ایف ای ڈی میں خاطر خواہ اضافے کی بھی سفارش کی ہے۔
اس کے علاوہ ٹریک اور ٹریس مانیٹرنگ سسٹم کے نفاذ سے ایف بی آر کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ ہم نے پوری ویلیو چین میں غیر قانونی تجارت پر سخت کنٹرول اور جرمانے عائد کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ تجاویز میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر غور اور نظر ثانی کے بعد ڈیوٹی چوری کی ترغیب کو ختم کرنے کیلئے ڈیوٹی اور ٹیکس کی شرح میں ہم آہنگی لائی جائے۔ خطے میں لاگو بہترین پالیسیوں اور طریقوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں پالیسیوں اور طریقوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مینوفیکچرنگ، آئی ٹی اور خدمات کے برآمدات جیسے شعبوں میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے ملازمت کے مواقع پیدا کئے جاسکیں ۔
منور اقبال
( بانی چیئرمین کمپیوٹر ایسوسی ایشن)
وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کے اہم ممبران آئی ٹی کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ آئی ٹی سیکٹر سمیت تمام شعبوں کیلئے پیداواری لاگت کم کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی میں رائج قیمتوں کا مقابلہ کرنے میں آسانی پیدا ہوسکے۔ پاکستانی مصنوعات کیلئے نئی منڈیوں کی تلاش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
برآمدات کو صرف ٹیکسٹائل،چمڑہ اور سپورٹس تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ غیر روایتی اشیاء کی برآمد پر بھی توجہ دی جائے، اس سے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح آئی ٹی سیکٹر پر توجہ دے کر بھی جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ ملک میں تعلیم اور پیشہ وارانہ مہارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
آئی ٹی کی صنعت ملکی معیشت کے مالی اور تجارتی سیکٹر کا ایک اہم جزو ہے۔ کووڈ19 کی وجہ سے کمپیوٹر کی مانگ میں اضافہ ہوا مگر ملک میں جاری مسلسل لاک ڈاؤن کے باعث اس صنعت کو شدید دھچکا لگا ۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے استعمال شدہ اور اسیمبلڈ کمپیوٹر پر اچانک ہوش ربا ڈیوٹی عائد کر دی گئی ۔ اب کمپیوٹر صنعت کے بند ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے لہٰذا اگلے بجٹ میںآ ئی ٹی پارٹس اور پرزہ جات کا کام کرنے والی آئی ئی ٹی صنعت کمپیوٹر کے ریٹیلرز کے لئے فکسڈ ڈیوٹی لاگو کرنے کا نظام متعارف کرایا جائے اور اس تجویز کے تحت آئی ٹی صنعت کے ریٹیلرزپر پانچ ہزارروپے ماہانہ فی کس ٹیکس عائد کردیا جائے تاکہ وہ بھی دستاویزی معیشت کے نیٹ میں آسکے۔
بجٹ میں آئی ٹی شعبہ میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،اس کیلئے خصوصی مراعاتی پیکیج متعارف کروایا جائے۔ کمپیوٹر، موبائل و دیگر اشیاء بنانے والی بین الاقوامی کمپنیوں کے مینوفیکچرنگ پلانٹس پاکستان میں لگ جائیں تو معاشی طور پر بہت فائدہ اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اگر بہتر حکمت عملی سے کام کیا جائے تو پاکستان صرف آئی ٹی انڈسٹری اور آئی ٹی سروسز برآمد کرکے بارہ سے پندرہ ارب ڈالر سالانہ حاصل کرسکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت ٹیکسز کو ریشنلائز کرے اور اسمبلڈ کمپیوٹرز کی صنعت کو فروغ دے۔ حکومت آئی ٹی کے فروغ کے لئے غیر ملکی سرمایہ کارو ں کو 5 سال کی ٹیکس چھوٹ دے ۔