ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن سربیا سے بکتر بند منگوالی جاتیں تو پولیس کا جانی نقصان نہ ہوتا
20 جدید بکتربند درآمد کی جانی تھیں، کچھ عناصر نے اجارہ داری قائم رکھنے کیلیے رکاوٹیں حائل کرکے منصوبہ ختم کرادیا
مقامی طور پر تیار کردہ سندھ پولیس کی بکتر بند گاڑیاں ہمیشہ تنقید کی زد میں رہی ہیں اور انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اگر سال 2013 میں بیرون ملک سے 20 جدید ترین بکتر بند گاڑیاں امپورٹ کرلی جاتیں تو آج شاید صورتحال مختلف ہوتی ، مذکورہ بکتر بند گاڑیوں پر بارودی سرنگ بھی اثر انداز نہیں ہوتی، چین کے بجائے ٹائروں پر مشتمل ہونے کی بدولت کچے کے علاقے میں کامیاب گاڑی ثابت ہوتی لیکن کچھ عناصر نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی غرض سے منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرکے اسے یکسر ختم کردیا گیا۔
اندرون سندھ شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے آر جی پی راکٹ اور اینٹی ایئر کرافٹ گن سے حملہ کرکے بکتر بند کو شدید نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے جبکہ اس کے اندر بیٹھے اہلکاروں نے وڈیو بنا کر اعلیٰ افسران کو بھیجی تو بھاری نفری نے پہنچ کر بکتر بند کو وہاں سے نکالا ، اسی علاقے میں ایک اور بکتر بند پر ڈاکوؤں نے قبضہ کرلیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بکتر میں موجود سرکاری اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹیں بھی اپنے قبضے میں لے لیں اور جیکٹیں پہن کر وڈیو بھی وائرل کی ، سندھ پولیس کے زیر استعمال بکتر بند گاڑیوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
اس سے قبل کراچی میں لیاری آپریشن کے دوران بھی بکتر بند گاڑی سے گولیاں پار ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں اس وقت کے ایس ایچ او فواد اور دیگر پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے ، اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سال 2012 کے اختتامی مہینوں میں سندھ پولیس کے اس وقت کے آئی جی فیاض لغاری ، ڈائریکٹر فنانس دوست علی بلوچ اور دیگر سینئر افسران نے سربیا کا دورہ کیا جہاں کی تیار کردہ بی سیون لیول کی انتہائی جدید 20 بکتر بند گاڑیاں خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا اور انھیں سندھ پولیس کی ضرورتوں کے عین مطابق قرار دیا گیا۔
ان بکتر بند گاڑیوں کے ماڈل لیزر بی ٹی آر اور بی او وی ایم تھے ، ان میں اتنے جدید کیمرے اور ٹیلی اسکوپ نصب تھے جس سے 3کلومیٹر اطراف میں نظر رکھی جاسکتی تھی ، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ان بکتر بند گاڑیاں پہیوں والی تھیں جبکہ اس وقت چین والی بکتر بند زیر استعمال ہے جس کی چین کچے کے علاقے میں کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے۔
بیرون ملک کی بکتر بند کے ٹائر ہی 7 سے8 فٹ اونچے تھے جبکہ ان پر بارودی سرنگ بھی اثر انداز نہیں ہوتی یہ مائنز ریزسٹ بکتر بند تھیں ،10 سال تک مینٹیننس سروس بھی مذکورہ کمپنی فراہم کرتی ، سوا ارب روپے مالیت کے اس منصوبے کی نیب نے بھی جانچ پڑتال کی تھی جس کے بعد سندھ پولیس کو وزارت خزانہ کی جانب سے فنڈ بھی ٹرانسفر کردیے گئے لیکن منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی گئیں اور کچھ عناصر نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی غرض سے مختلف الزامات عائد کرکے منصوبہ ختم کرادیا ۔
اندرون سندھ شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے آر جی پی راکٹ اور اینٹی ایئر کرافٹ گن سے حملہ کرکے بکتر بند کو شدید نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے جبکہ اس کے اندر بیٹھے اہلکاروں نے وڈیو بنا کر اعلیٰ افسران کو بھیجی تو بھاری نفری نے پہنچ کر بکتر بند کو وہاں سے نکالا ، اسی علاقے میں ایک اور بکتر بند پر ڈاکوؤں نے قبضہ کرلیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بکتر میں موجود سرکاری اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹیں بھی اپنے قبضے میں لے لیں اور جیکٹیں پہن کر وڈیو بھی وائرل کی ، سندھ پولیس کے زیر استعمال بکتر بند گاڑیوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
اس سے قبل کراچی میں لیاری آپریشن کے دوران بھی بکتر بند گاڑی سے گولیاں پار ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں اس وقت کے ایس ایچ او فواد اور دیگر پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے ، اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سال 2012 کے اختتامی مہینوں میں سندھ پولیس کے اس وقت کے آئی جی فیاض لغاری ، ڈائریکٹر فنانس دوست علی بلوچ اور دیگر سینئر افسران نے سربیا کا دورہ کیا جہاں کی تیار کردہ بی سیون لیول کی انتہائی جدید 20 بکتر بند گاڑیاں خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا اور انھیں سندھ پولیس کی ضرورتوں کے عین مطابق قرار دیا گیا۔
ان بکتر بند گاڑیوں کے ماڈل لیزر بی ٹی آر اور بی او وی ایم تھے ، ان میں اتنے جدید کیمرے اور ٹیلی اسکوپ نصب تھے جس سے 3کلومیٹر اطراف میں نظر رکھی جاسکتی تھی ، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ان بکتر بند گاڑیاں پہیوں والی تھیں جبکہ اس وقت چین والی بکتر بند زیر استعمال ہے جس کی چین کچے کے علاقے میں کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے۔
بیرون ملک کی بکتر بند کے ٹائر ہی 7 سے8 فٹ اونچے تھے جبکہ ان پر بارودی سرنگ بھی اثر انداز نہیں ہوتی یہ مائنز ریزسٹ بکتر بند تھیں ،10 سال تک مینٹیننس سروس بھی مذکورہ کمپنی فراہم کرتی ، سوا ارب روپے مالیت کے اس منصوبے کی نیب نے بھی جانچ پڑتال کی تھی جس کے بعد سندھ پولیس کو وزارت خزانہ کی جانب سے فنڈ بھی ٹرانسفر کردیے گئے لیکن منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی گئیں اور کچھ عناصر نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی غرض سے مختلف الزامات عائد کرکے منصوبہ ختم کرادیا ۔