رضیہ خود تو بڑی شریف ہے لیکن

اب رضیہ سے پوچھنے کا وقت آگیا ہے کہ بغیر کام کاج کے شاہانہ زندگی کا راز کیا ہے؟


June 01, 2021
اب رضیہ سے پوچھنے کا وقت آگیا ہے کہ بغیر کام کاج کے شاہانہ زندگی کا راز کیا ہے؟ (فوٹو: فائل)

ہمارے گاؤں میں ایک سودی بیگم رہتی ہیں۔ جب بھی کسی کو پیسوں کی ضرورت ہو، کسی کی بیٹی بیاہنا ہو یا کسی کے بچوں کی پڑھائی کا مسئلہ ہو، خوشی اور غمی میں یہ سبھی کے کام آتی ہیں۔

سودی بیگم یعنی رضیہ سبھی کی ضرورت پوری کرتی ہے۔ کسی کسان کے پاس فصل کے بیج کے پیسے نہ ہوں تو وہ اسے بیج لے کر دیتی ہے، فصل پکنے والی ہو تو وہ کھادوں، کیڑے مار اسپرے وغیرہ کا بھی بندوبست کرکے دیتی ہے۔ سودی بیگم نیک بھی بہت ہے۔ پنچگانہ نماز کی پابند، تہجد گزار، صدقہ و خیرات کرنے والی۔ سودی بیگم کی ایک اور اچھی بات ہے کہ وہ تسبیح بھی ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہے۔ محفل میں بیٹھی ہو تو تب بھی تسبیح کے دانے گررہے ہوتے ہیں۔ غرض رضیہ کی نیک نامی کے پورے علاقے میں چرچے ہیں۔

رضیہ کا فلاحی کاموں کےلیے ایک پورا نیٹ ورک ہے۔ پوری ٹیم ہے جو یہ کام کرتی ہے۔ رضیہ کو اکثر پتا بھی نہیں ہوتا کہ کئی کام ہوجاتے ہیں۔ علاقے میں نیک خاتون ہونے کے باوجود لوگ خوشحال نہیں۔ لوگوں کے خوشحال ہونے کے بجائے رضیہ بیگم کے اثاثے بڑھتے جارہے ہیں۔ پہلے زمین لی، پھر دکانیں بنائیں، گاڑی بھی لی؛ اب تو ایک پٹرول پمپ بھی لگالیا۔ رضیہ بظاہر کام بھی کوئی نہیں کرتی پھر بھی شاہانہ انداز۔

اس میں رضیہ کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ تو بہت نیک ہے، ایماندار ہے، جس کی گواہی تو مسجد کا امام بھی دیتا ہے۔ قصور لوگوں کا ہے جو مراد لے کر اس کے پاس جاتے ہیں، وہ تو ان کی مراد پوری کرتی ہے۔ ہماری رضیہ تو بہت شریف ہے؟

ایسی ہی کچھ صورتحال ہمارے حکمران کی ہے جن کی نیک نامی پر کسی کو کوئی شک نہیں۔ گوادر سے امریکا تک ان کی ایمانداری کے چرچے ہیں۔ ننگے پاؤں روضہ رسولﷺ پر حاضری دیتے ہیں، ان کےلیے بیت اللہ کے دروازے خصوصی طور پر کھولے جاتے ہیں، ان کے صادق اور امین ہونے پر تو عدالت نے مہر تصدیق ثبت کررکھی ہے۔ امت مسلمہ کے سفیر ہیں تو مظلوم کشمیریوں کے وکیل۔ اس سے زیادہ نیک نامی کی اور کوئی گواہی نہیں ہوسکتی۔

دیکھیے ذرا، مخالفین کی تمام تر کوششوں کے باوجود، راستے میں روڑے اٹکانے کے باوجود، ان کی حکومت اپنی آدھی مدت پوری کرچکی، اگلی آدھی مدت بھی پوری کرلے گی۔ اب تو کہتے ہیں کہ نیوٹرل امپائروں کے ساتھ پھر آؤں گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ دور اندیش بھی ہیں۔

انہوں نے اچھی شہرت رکھنے والے ماہرین ایک ایک کرکے فارغ کردیئے یا وہ خود فارغ ہوگئے۔ تانیہ ایدروس، ظفر مرزا، ہارون شریف، ندیم بابر آئے اور گئے؛ ذوالقرنین خان، حفیظ شیخ کوئی نہیں چلا۔ جہانگیر ترین، عامر کیانی، اعظم سواتی، زلفی بخاری، سبھی چلے گئے، سبھی پر الزام آئے لیکن صادق اور امین پر ایک آنچ نہیں آئی، ان کا بال بیکا تک نہیں ہوا۔

اب یہ راولپنڈی رنگ روڈ جیسے بھاری بھرکم کرپشن اسکینڈل کا شوشہ کس نے چھوڑ دیا؟ یہ ایک منصوبہ نہیں اربوں روپے کا کھیل، درجنوں بااثر شخصیات ملوث ہیں۔ سابق کمشنر راولپنڈی اسکینڈل کے مبینہ معمار۔ موصوف کا نام کئی اور اسیکنڈلز میں نام آتا رہا۔ شفاف نیب تحقیقات حقائق کھود نکالے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت اب تک دعویٰ کرتی رہی ان کا کوئی بھی کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ رنگ روڈ اسکینڈل نے اس دعوے کو غلط ثابت کردیا۔ اس منصوبے میں تبدیلیاں کس کے کہنے پر کی گئیں؟ جن کو باخبر ہونا چاہیے تھا، سبھی بے خبر رہے۔ کون ذمہ دار ہے؟ منصوبے کی کس نے منظوری دی؟

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور میں جو منصوبہ بنا وہ سرکاری رولز کے مطابق منظور شدہ منصوبہ تھا، اس میں تمام ضروریات پوری کی گئیں۔ موجودہ حکومت میں اس میں چپکے سے تبدیلیاں کردی گئیں۔ اس رپورٹ میں سب کا ذکر ہے لیکن ایک شخص کا نہیں وہ جو ڈائریکٹ اس کا ذمہ دار ہے، اور وہ ہیں ''وسیم اکرم پلس۔'' ان کا نام ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ ان کی ڈوری تو کہیں اور سے ہلتی ہے۔ اس منصوبے کی اپروول کہیں سے نہیں ہوئی لیکن مارکیٹ میں تاثر دیا جاتا رہا کہ یہ منظور شدہ ہے۔

خبر ہے کہ یہاں کے متاثرین غلام سرور خان اور صداقت عباسی کے پاس گئے۔ دونوں نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی۔ گلزار شاہ کی رپورٹ میں زلفی بخاری کا نام نہیں، شہباز شریف کے سابق سیکریٹری توقیر شاہ کا نام ہے۔ توقیر شاہ زلفی بخاری کے رشتہ دار ہیں۔ اس منصوبے میں زلفی بخاری کی خاصی دلچسپی تھی، وہی اسے دیکھ رہے تھے۔ اب وہ چارٹرڈ طیارے سے دبئی جاچکے ہیں۔

خبریں یہ بھی ہیں کہ وزیراعظم کو ایک خفیہ پیغام کے ذریعے رنگ روڈ منصوبے میں گڑبڑ کی اطلاع دی گئی، ان کے کزن جاوید برکی نے پوری تفصیل بتائی۔ اس میں 15 منتخب ارکان سمیت 50 افراد کے نام آرہے ہیں۔ ان پچاس لوگوں نے پیسے کمائے، اس منصوبے کی حتمی منظوری وزیراعظم نے خود دی ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ سب سے بڑا اسکینڈل ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں زلفی بخاری سے استعفیٰ لیا گیا ہے، انہوں نے استعفیٰ دیا نہیں۔ اس اسکینڈل سے تمام شعبوں کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا، ان میں سابق آرمی افسر، بیوروکریٹ، سیاستدان بھی شامل ہیں۔ اس اسکینڈل کی رپورٹس تیار ہوچکی ہیں، اس پروجیکٹ میں کچھ اور پردہ نشینوں کے نام بھی آئیں گے۔

دوسرا کارنامہ جو سامنے آیا ہے، اس کا بھی اب تک کسی کو علم نہیں۔ مئی کے شروع میں پنجاب حکومت نے ایک ایسا کرتب دکھایا کہ جس شوگر مافیا کو ختم کرنے کا دن رات راگ الاپا جاتا ہے اسے خاموشی سے فائدہ پہنچا دیا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں ایک ایسا قانون پاس کردیا ہے کہ جس کا کسانوں کو فائدہ دینے والے وفاقی حکومت کے آرڈیننس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

1950 میں بھی ایک قانون تھا جس کے تحت شوگر ملز 15 دن میں کسانوں کو گنے کے پیسے دینے کی پابند تھیں۔ اب اس سے کسان کو 6 ماہ رُلنا پڑے گا۔ 80 شوگر ملز ہیں جو کھانے میں مصروف ہیں۔ 12 ارب روپے کے لگ بھگ شوگر ملز ملکان کو کسانوں کے ادا کرنے ہیں۔

جس کے دامن پر کوئی داغ نہیں، انہی کی ناک کے نیچے سب کچھ ہوتا رہا۔ کرپشن اسکینڈلز ان ہی کی حکومت میں آرہے ہیں۔ دواؤں کے اسکینڈل میں ملوث انہی کا وزیر تھا؛ جو کچھ پٹرولیم میں ہوا، ساری قوم نے دیکھا، جب سب لوٹ کر چلے گئے تب نکال دیا۔

مافیاز ان کے نیچے پنپ رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے امدادی پیکیج کا آئی ایم ایف کے کہنے پر آڈٹ کروایا گیا لیکن آڈیٹر جنرل کو رپورٹ شائع کر نے سے روک دیا گیا ہے۔ وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ اس میں بے انتہا بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جب تک ''رضیہ'' کی نیک نامی کا یقین نہیں ہوجاتا، تب تک یہ رپورٹ شائع نہیں کی جائے گی کیونکہ رضیہ تو بڑی شریف ہے لیکن... خیر اب رضیہ سے پوچھنے کا وقت بھی آگیا ہے کہ بغیر کام کاج کے شاہانہ زندگی کا راز کیا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں