سعودی عرب سے قیدیوں کی واپسی میں 2 سے 3 ماہ لگ سکتے ہیں پاکستانی سفیر

سعودی جیلوں میں 500 پاکستانی جرمانے ادا نہ کئے جانے کی وجہ سے رہا نہیں ہوسکے، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر


ویب ڈیسک June 01, 2021
گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران سعودی جیلوں سے 54 قیدیوں کو رہا کرایا گیا ہے، پاکستانی سفیر فوٹو: اردو نیوز

سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے گیارہ سو قیدیوں کی واپسی میں 2 سے 3 ماہ مزید لگ سکتے ہیں۔

جدہ میں خلیجی نیوز ویب سائیٹ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بلال اکبر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی مختلف جیلوں میں اس وقت ڈھائی ہزار کے لگ بھگ پاکستانی شہری مختلف جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان قیدیوں میں سے 11 سو کے قریب ایسے ہیں جن کے جرائم کی نوعیت کم سنگین اور ان کی سزائیں کم ہیں۔ ان قیدیوں کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے بعد اس کے طریقہ کار پر عمل کیا جارہا ہے اور اس میں مزید 2 سے 3 مہینے لگیں گے۔

لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر کا کہنا تھا کہ سعودی جیلوں میں ایسے 400 سے 500 پاکستانی بھی قید ہیں جو جرمانے ادا نہ کئے جانے کی وجہ سے رہا نہیں ہوسکے، اس سلسلے میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے، فنڈز کی فراہمی کے لیے حکومت کو احساس پروگرام، بیت المال یا او پی اایف کے فنڈز کو استعمال کرنے کی تجاویز بھجوائی گئی ہیں۔ ہمیں احساس پروگرام سے فنڈز ملنے کی امید ہے، اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان جلد ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لیے گزشتہ ڈھائی ماہ میں رضا کاروں کی مدد سے رقم جمع کرکے 54 قیدیوں کو رہا کرایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ 2019 میں وزیر اعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے دورہ پاکستان کے دوران درخواست کی تھی کہ وہ سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے کردار ادا کریں، جس کے بعد سعودی عرب نے دو ہزار سے زائد پاکستانیوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ ماہ رمضان المبارک کے آخری ایام میں وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں سعودی عرب میں سزایافتہ قیدیوں اور انسداد جرائم کے سلسلے میں تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، ان معاہدوں پر سعودی وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز اور پاکستان کی جانب سے وزیر داخلہ شیخ رشید نے دستخط کیے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں