ہرن مینار انسان اور جانور کی محبت کی لازوال یادگار

ہرن مینار مغلیہ طرز تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہونے کے ساتھ سیر و تفریح اور سیاحت کے شائقین کے لیے مکمل تفریح گاہ ہے

مغل بادشاہ جہانگیر نے ہنس راج نامی ہرن کی کی قبر پر ایک بلند و بالا مینار تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا فوٹو: ایکسپریس

پنجاب آرکیالوجی نے محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی معاونت سے لاہور کے قریب شیخوپورہ میں واقع مغلیہ دور کی یادگار ہرن مینار کے رقبے میں منی چڑیا گھر بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہاں مختلف اقسام کے ہرن چھوڑے جائیں گے تاکہ یہاں آنے والے سیاحوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوسکے، ہرن مینار دنیا بھرمیں انسان اور جانور کی دوستی کی لازوال یادگار کہا جاتا ہے، پنجاب آرکیالوجی کی طرف سے ہرن مینار پر روشنیوں کا بھی بہترین انتطام کیا گیا ہے اور اب رات کے وقت ہرن مینارکی جگماتی روشنیاں ایک لدفریب منظرپیش کرتی ہیں۔

پنجاب آرکیالوجی کے ڈائریکٹرملک مقصودکہتے ہیں ہرن مینارکا ہرن سے ایک خاص تعلق ہے اسی لئے اس علاقے میں ہم نے ہرن چھوڑنےکا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے جو یہاں منی زوبنائے گا۔اس میں ناصرف مختلف اقسام کے ہرن چھوڑے جائیں گے بلکہ دیگرجانوراورپرندے بی رکھے جائیں گے۔

آج مغلوں کا دور حکومت قصہ پارینہ بن چکا ہے لیکن ان کی تعمیر کردہ تاریخی اور بے مثال عمارتوں نے حوادث زمانہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور وہ آج بھی ہر خاص و عام سے داد تحسین وصول کر رہی ہیں۔ خاص طور پر ہرن مینار پوری دنیا میں اپنی نوعیت کی منفرد مثال ہے۔ برطانوی دور حکومت میں انگریز سیاحوں اور حکمرانوں نے ہرن مینار کی دل کھول کر تعریف کی اور اسے انسان اورجانور دوستی کا لازوال نمونہ قرار دیا تھا۔

ملک مقصود نے بتایا کہ تاریخی شہر شیخوپورہ کی بنیاد مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر نے رکھی تھی۔ جہانگیر کی ماں اسے پیار سے شیخو کہتی تھیں اور اس مناسبت سے اس نئے شہر کا نام شیخوپورہ رکھا گیا۔ شہنشاہ جہانگیر کے عہد حکومت (1605 تا1627) میں شیخوپورہ کو شاہی شکار گاہ کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ یہ علاقہ بہت سرسبز و شاداب تھا، یہاں انواع و اقسام کے جانور بکثرت ملتے تھے خاص طورپر ہرنوں کے غول چوکڑیاں بھرا کرتے تھے۔



تاریخی روایات کے مطابق جہانگیر بادشاہ کے پاس ایک ہنس راج نامی ہرن تھا۔ جو بادشاہ کو بہت پسند تھا وہ ہرن مر گیا تو جہانگیر نے اس کی قبر پر ایک مینار تعمیر کروایا جس کا نام ہرن مینار پڑ گیا۔ اس بات کا حوالہ جہانگیر کی اپنی خودنوشت تزک جہانگیری میں بھی ملتا ہے ۔1607ء میں ہنس راج نامی ہرن بیماری کی وجہ سے مر گیا اس کی موت کا جہانگیر کو بہت دکھ ہوا اور وہ اس کے غم میں کئی دن اداس رہا۔ 1608 میں شہنشاہ جہانگیر نے ہنس راج کی قبر پر ایک بلند و بالا مینار تعمیر کرنے کا حکم دیا۔جہانگیر کے ماہر تعمیرات نے سارے کام میں خود دلچسپی لی اور قبر کا پتھر بھی اس کے حکم سے ہرن کی شکل کا بنوایا گیا۔

مینار کی شکل گول اور بلندی کی جانب مخروطی ہے اس میں مناسب مقامات پر176 روزن بنائے گئے ہیں تاکہ تازہ ہوا اور روشنی بخوبی اندر آ سکے زمین پر مینار کا قطر 33 فٹ جبکہ چوٹی پر 23 فٹ کے قریب ہے، مینار کے اندر داخل ہونے کا راستہ مشرق کی جانب سے ہے اندرونی سیڑھیوں کی تعداد ایک سو کے قریب ہے۔ اندر سے گھومتی بل کھاتی ہوئی سیڑھیاں اس کی چھت پر جا نکلتی ہیں۔ سیڑھیاں چونے کے پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔




مینار کے سامنے مشرقی جانب ایک وسیع و عریض تالاب ہے۔ تالاب کے اردگرد چونے کے پتھر سے تعمیر شدہ خوبصورت چبوترے ہیں۔ تالاب کے وسط میں ہشت پہلو بارہ دری ہے تالاب سے بارہ دری تک ایک پختہ راستہ جاتا ہے بارہ دری مغلیہ تعمیر کا بہترین شاہ کار ہے اس میں آڑھے ترچھے دروازے اور روشن دان ہیں۔

ملک مقصود کہتے ہیں جب یہ خوبصورت مینار مکمل ہوا تو اس وقت اس کی اونچائی 130 فٹ تھی کسی حادثے کے سبب اس کا سب سے اوپر والا حصہ گر گیا اور اب یہ 110 فٹ اونچا ہے تالاب اور بارہ دری ارادت خان کے ہاتھوں 1620ء میں مکمل ہوئی جسے شہنشاہ نے بہت پسند کیا۔ یہ تالاب 750 فٹ چوڑا اور 890 فٹ لمبا ہے تالاب کا پانی بدلنے کے لیے ایک 450 فٹ چوڑا نالہ بنایا گیا تھا۔



مورخین کے مطابق 30 کلو میٹر دور واقع دریائے راوی سے پانی اس نالے کے ذریعے تالاب تک لایا جاتا تھا لیکن اب اس نظام کے آثار معدوم ہو چکے ہیں۔ مینار کی تعمیر کے 13 سال بعد مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے حکم سے 1638ء میں تالاب اور مینار میں بعض اہم تبدیلیاں کی گئیں جس پر اس وقت 80 ہزار روپے کے قریب لاگت آئی تھی۔

پنجاب وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیڈ کوارٹرز مدثرحسن نے بتایا کہ ہرن مینار میں منی چڑیاگھرکے قیام کے حوالے سے چندروزقبل ڈائریکٹر جنرل وائلڈلائف اینڈ پارکس پنجاب ملک ثناء اللہ خان کی سربراہی میں ہرن مینار کے مقام پر ایک خصوصی جائزہ اجلاس بھی منعقدہ ہوا تھا ۔ اجلاس میں محکمہ سیاحت ، آثار قدیمہ کے افسران ، ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈ لائف ہیڈ کوارٹرز مدثر حسن اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈلائف ضلع شیخوپورہ نے خصوصی طور پر شرکت کی،اجلاس میں شیخوپورہ منی چڑیا گھر میں ہرنوں کی مختلف اقسام و دیگر جنگلی حیات رکھنے ، ان کی خوراک ، دیکھ بھال، افزائش نسل اور موزوں رہائش کے جملہ پہلوؤں پر غور خوض کیا گیا تاکہ وہاں جنگلی جانور وں کی بقاو تحفظ کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہواورانہیں وہا ں قدرتی ماحول میسر کرکے زیادہ سے زیادہ افزائش نسل کی جاسکے جس سے یہاں شائقین کی دلچسپی بڑھے اورٹورازم فروغ پائے۔ مزید براں نئی نسل پر اس تاریخی مینار کی افادیت اجاگر ہوسکے۔



ہرن مینار پر تفریح کے لئے آنے والے ایک شہری عبدالرحمان کہتے ہیں ہرن مینار مغلیہ طرز تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہونے کے ساتھ سیر و تفریح اور سیاحت کے شائقین کے لیے مکمل تفریح گاہ ہے۔ ہرن مینار ایک عظیم یاد گار اور مغلیہ فن تعمیر کا نادر شاہکار ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت یہاں مزیدسہولتیں مہیا کرنے جارہی ہے۔
Load Next Story