ایٹمی دھماکوں کی اصل کہانی
آج کے 18سے28سال تک کے نوجوان توایٹمی دھماکوں کی حقیقت، اہمیّت اور افادیّت سے ہی بے خبر ہیں۔
میں مئی 1998 میں وزیرِاعظم کا اسٹاف آفیسر تھا اور ملک میں امن و امان اور سنگین جرائم سے متعلقہ امور دیکھنا اور وزیرِاعظم کو بریف کرنا میری ذمّے داری تھی۔
اس بار یومِ تکبیرپر28 مئی 1998کی شام کو ، پرائم منسٹر نوازشریف کی پاکستان کے کامیاب ایٹمی تجربات کے بارے میں پی ٹی وی اسلام آباد میں تاریخی تقریر ریکارڈ کرانے کے فوراً بعد لی گئی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو محترم احسن اقبال صاحب نے مجھے بھی بھیج دی۔
اس لیے کہ اُس وقت اسٹاف آفیسر کی حیثیّت سے میں بھی پرائم منسٹر کے ساتھ کھڑا تھا، بلاشبہ یہ ایک تاریخی تصویر تھی جس پر احسن اقبال صاحب کا مشکور ہوں۔ تصویر دیکھ کربہت سے لوگوں نے اپنے کمنٹس میںپوچھنا شروع کردیا کہ ''دھماکے کرنے کا اصل فیصلہ کس کا تھا؟''کس کے دباؤ کے تحت میاں نوازشریف نے دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا ؟ یہ تو اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ تھا۔وغیرہ وغیرہ۔
آج کے 18سے28سال تک کے نوجوان توایٹمی دھماکوں کی حقیقت، اہمیّت اور افادیّت سے ہی بے خبر ہیں اور اس ضمن میںمختلف گمراہ کن خبریں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں، لہٰذا سوچا کہ انھیں اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے ۔ چنانچہ اصل حقائق تحریر کرکے اپنا فرض نبھارہا ہوں۔
11مئی 1998کو پرائم منسٹر نوازشریف ای سی او کانفرنس کے سلسلے میں قازقستان کے دارالحکومت الماتے میں تھے( بعد میں قازقستان نے آستانہ کے نام سے نیا درالحکومت قائم کرلیا ہے) ، موسم بڑا دلفریب تھا ، پرائم منسٹر صاحب کا موڈ بھی خوشگوار تھا۔
شام کو سیکریٹری خارجہ تقریباً دوڑتے ہوئے آئے اور وزیرِاعظم کو بتایا کہ ''سر ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کردیے ہیں، جو ہمارے لیے تشویش کا موجب ہے ۔'' یہ سنتے ہی پرائم منسٹر صاحب پریشان ہوگئے اور ان کے چہرے سے گہری تشویش جھلکنے لگی، وہ وفد میں موجود وزرأ کو علیحدہ کمرے میں لے گئے اور نئی صورتِ حال اور بھارتی دھماکوں کے مضمرات کے بارے میں غور وخوض شروع کردیا، میٹنگ کا بنیادی موضوع یہ تھا کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ اہم وزرأ میں سے سرتاج عزیز اس بات کے مخالف تھے کہ پاکستان بھی جوابی طور پر دھماکے کردے۔
ان کا خیال تھا کہ دھماکے کرنے سے پاکستان پر Sanctionsلگ جائیں گی اور ملک معاشی مسائل کا شکار ہوجائے گا۔ جب کہ مشاہد حسین (جنھوں نے بعد میں جنرل مشرّف کی حمایت کرکے کمزوری دکھائی ، مگر وہ ایک قابل اور محبّ ِ وطن شخص ہیں) دھماکے کرنے کے حامی تھے۔
وہیں وزیرِاعظم نے بی بی سی اور انڈین ٹی وی پر بھارتی حکمرانوں کے متکبّرانہ اور جارحانہ یبانات سنے تو انھوں نے تشویش آمیز لہجے میں کہا ،''یہ تو پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے ۔'' پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پرائم منسٹر نے اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد سعید مہدی کو علیحدہ بلا کر پاکستان میں دو شخصیات کو خصوصی پیغام پہنچانے کی ہدایت کی، اور اس کے بعد ایک دو وزراء کو بھی خصوصی ہدایات دیں۔ ان دونوں باتوں کا ذکر کل ہوگا۔ وزیرِاعظم نے قازقستان کا دورہ مختصر کرکے وطن واپس پہنچنے کا فیصلہ کیا۔
پرائم منسٹر نے الماتے میں ہی اپنے ملٹری سیکریٹری کو فوری طور پر ڈی سی سی (ڈیفنس سے متعلقہ وہ کمیٹی جس میں تینوں مسلّح افواج کے سربراہان اور دفاع، خارجہ، خزانہ اور داخلہ امور کے وزرأ شریک ہوتے ہیں) کی میٹنگ بلانے کی ہدایات دے دیں۔
ڈی سی سی کی میٹنگ 14مئی کو ہوئی، اس میں مسلّح افواج کے سربراہان نے کیا رائے دی، یہ بتانے سے پہلے میں پرائم منسٹر ہاؤس میں ہونے والی ایک اور اہم میٹنگ کا ذکر کروںگا۔ مگر اس سے پہلے قارئین یہ جان لیں کہ ایٹم بم بنانے کے لیے کئی مراحل طے کرنے پڑتے ہیں ، سب سے اہم مرحلہ یقیناً یورینیم کی enrichmentکا ہے اور یہ کارنامہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے سرانجام دیا تھا مگر اس کا دوسرا حصّہ بھی بے حد اہم ہے اوروہ ہے تمام componentsکو اکٹھا کرکے بم کی شکل دینا اور پھر آخر میں اسے detonateکرکے دیکھنا کہ تجربہ کامیاب بھی ہوا ہے یا نہیں؟ کئی موجودہ ایٹمی قوّتوں کے پہلے پہل کیے گئے تجربات ناکام بھی ہوئے ہیں۔
دھماکے کرنے کے تمام امور کے نگران اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹرثمر مبارک مندتھے۔ وہ اور ان کی بیگم صاحبہ اولڈ راوین یعنی گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التّحصیل ہیں۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر صاحب نے چند اولڈ راوینز کو جن میں راقم بھی شامل تھااپنے گھر چائے پر بلایا جہاں انھوں نے یہ انکشاف کیا (جس کی تصدیق دوسرے ذرایع سے بھی ہوگئی) کہ بیرونی دورے سے واپس آتے ہی پرائم منسٹر نے مجھے طلب کیا۔
پرائم منسٹر ہاؤس میں 13مئی کو ہونے والی اس انتہائی اہم میٹنگ میں اتفاق سے تینوں اولڈ راوین شریک تھے، پرائم منسٹر نوازشریف، ان کے پرنسپل سیکریٹری سعید مہدی اورمیں، ڈاکٹر ثمر مبارک۔ پرائم منسٹر نے ملتے ہی مجھ سے کہا،''ڈاکٹر صاحب! بھارت نے جو کچھ کیا ہے آپ کے علم میں ہوگا؟'' میں نے کہا، '' جی سر بالکل ہمارے علم میں ہے''۔ جس پر پرائم منسٹر نے ڈاکٹر ثمر مبارک سے ایک انتہائی اہم بات پوچھ لی ۔ وزیرِاعظم نے کیا پوچھا اور ڈاکٹر ثمر مبارک نے کیا جواب دیا یہ بھی کل کے کالم میںبتاؤں گا۔
اس سے گزشتہ روز یعنی 14مئی کو ڈی سی سی کی میٹنگ ہوئی، کابینہ کے اہم ترین وزراء اس مسئلے پر یکسو نہیں تھے، ان کی آرأ مختلف تھیں ، وزیرِاعظم کے قریب ترین رفقاء میں سے جناب سرتاج عزیز اور چوہدری نثار علی خان دھماکے کرنے کے مخالف تھے جب کہ راجہ ظفرالحق، مشاہد حسین اور گوہر ایوب وغیرہ حامیوں میں شامل تھے، پنڈی والے شیخ جی کابینہ میں ہونے کے باوجود نہ تین میں تھے نہ تیرہ میں۔ جس طرح کابینہ حامیوں اور مخالفوں میں بٹی ہوئی تھی، اسی طرح سروس چیفسز بھی منقسم تھے۔
اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے رائے مانگی گئی تو انھوں نے فوری دھماکے کرنے کی حمایت نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ اس کے نتیجے میں لگنے والی پابندیوں اور اس کے منفی اثرات پر اچھی طرح غور ہونا چاہیے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ آرمی چیف کی رائے کے برعکس رائے نہیں دیتے۔ نیول چیف نے بھی دھماکوں کی مخالفت کی ، ایئر چیف نے کہا کہ دھماکے کرکے بھارت نے خطّے میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا ہے لہٰذا اب ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی دھماکے کرکے ایٹمی قوّت حاصل کریں۔
اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی طرف سے دباؤ ڈالنا تو دور کی بات ہے انھوں نے تو اس کی حمایت بھی نہیں کی۔ اس کے بعد وزیرِاعظم نے مختلف طبقۂ فکر کے نمایندہ افراد کو بلاکر ان کے ساتھ مشاور ت شروع کردی۔پرائم منسٹر کے پریس سیکریٹری رائے ریاض کو یہ ذمّے داری سونپی گئی کہ وہ ہر روز اخبارات و رسائل میں 'پاکستان کو کیا کرنا چاہیے' کے موضوع پر چھپنے والے اہم مضامین کا خلاصہ وزیرِاعظم کے سامنے پیش کریں۔
وہ بتاتے تھے کہ لکھنے والوں کی واضح اکثریّت دھماکوں کے حق میں تھی مگر کچھ لوگ خلاف بھی تھے، 1965 کی جنگ کے آغاز میں پاکستانی صدر کے لیے یادگار اور تاریخی تقریر لکھنے والے الطاف گوہر صاحب بھی دھماکوں کے حق میں مضامین لکھنے لگے۔ ان کے مضامین مَیں نے وزیرِاعظم کو دکھانا شروع کر دیے۔
اسی اثناء میں دو مزید developments ہوئیں،امریکا کے صدر بل کلنٹن نے وزیرِاعظم پاکستان کو فون کیا اور انھیں بھارتی دھماکوں سے مشتعل نہ ہونے اور restraint(ضبط و تحمّل) سے کام لینے پر زور دیا۔ جواب میں وزیرِاعظم، بھارت کے پاکستان کے بارے میں جارحانہ عزائم اور خطّے میں بگڑنے والے طاقت کے توازن کی طرف امریکی صدر کی توجّہ مبذول کراتے رہے۔ امریکی صدر کو ایک فون پر خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکے تو بھی انھوں نے کوشش جاری رکھی، اور ہر دوسرے روز وہ پاکستانی پرائم منسٹر کو فون پر دھماکے کرنے کے خطرناک مضمرات سے آگاہ کرنے لگے۔
دو ملکوں کے سربراہوں کی فون پر بات چیت ایسے نہیں ہوتی کہ پاکستان کے پرائم منسٹر کے فون پر گھنٹی بجی انھوں نے اٹھایا اور دوسری طرف سے امریکی صدر بول پڑے، اس کے لیے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو اطلاع دی جاتی تھی کہ فلاں وقت پر امریکی صدر پاکستانی وزیرِاعظم کو کال کریں گے، اِدھر اسلام آباد والے کال ریسیو کرنے کے تماتر انتظامات مکمل کرتے تھے، پرائم منسٹر کے اسٹاف کو پتہ ہوتا تھا کہ آج اتنے بجے امریکی صدر کی کال آئے گی۔
کلنٹن صاحب نے پہلے سمجھانے اور پھر ڈرانے کی کوشش کی اور اس کے بعد انھوںنے لالچ (incentive)دینے کا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ آخری کال میں انھوں نے پاکستانی پرائم منسٹر کو پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کی، حتّی کہ یہ بھی پیشکش کردی کہ ملک کی ضروریات کے لیے اتنے ارب ڈالرالگ دیں گے اور آپ کے ذاتی اکاؤنٹ میں اتنے ارب ڈالر علیحدہ جمع کرادیں گے۔ پیشکش بلاشبہ بڑی دلکش اور دلفریب تھی۔
(باقی کل ملاخطہ کریں )