سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا تنازعہ

سندھ کو اعتراض ہے کہ پنجاب نے ٹی پی لنک کینال کیوں کھولی ہے۔


مزمل سہروردی June 02, 2021
[email protected]

پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کی تقسیم پر لڑائی جاری ہے۔پیپلزپارٹی نے3جون سے 15جون تک سندھ کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ بلاول نے بھی پنجاب مخالف بیانات جاری کیے ہیں۔ افسوس کہ ریگولیٹر ارسا نے بھی فعال کردار ادا نہیں کیا ہے۔

پاکستان میں اس وقت پانی کی کمی ہے لہٰذا صوبوں کو ان کے حصہ سے کم پانی ملنا ایک فطری بات ہے۔ لیکن پانی کی اس کمی کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے بجائے اگر اس پر سیاست کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے نہ تو پاکستان کا کوئی فائدہ ہوگا اور نہ ہی پانی کی کمی دور ہو گی۔ افسوس کی بات ہے کہ نہ تو مرکزی حکومت اس وقت کوئی فعال کردار ادا کر سکی ہے اور نہ ہی سندھ کے بھائیوں نے کوئی سمجھداری کا ثبوت دیا ہے۔

ایک طرف پیپلزپارٹی قومی سیاست کرنے کی خواہاں ہے۔ پنجاب سے ووٹ حاصل کرنے اور پنجاب میں سیاسی حمایت میں اضافہ کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں۔ لیکن کیا سندھ میں بیٹھ کر پنجاب کو گالی دینے سے یہ ممکن ہے۔ ویسے بھی اس طرح صوبائی منافرت پھیلانا کوئی مسائل کا حل نہیں ہے۔

سندھ کو اعتراض ہے کہ پنجاب نے ٹی پی لنک کینال کیوں کھولی ہے۔ سندھ کا موقف ہے کہ پنجاب کو ان کی اور دوسرے صوبوں کی اجازت سے ٹی پی لنک کینال کھولنی چاہیے۔ اس ضمن میں قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس کی کی کہانی بھی بہت متنازعہ بن گئی ہے۔

سندھ کا موقف ہے کہ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اس اجلاس میں ٹی پی لنک کینال کھولنے کا کوئی فیسلہ نہیں ہوا ہے۔ جب کہ دوسری طرف پنجاب کا موقف ہے کہ مذکورہ اجلاس میں ٹی پی لنک کینال کھولنے کا مسئلہ زیر بحث آیا جب پنجاب نے صوبوں کے درمیان پانی کے معاہدہ کی شق 14(D)کے تحت تمام صوبے اپنے حصہ کا پانی اپنی مرضی او ر ضرورت کے تحت استعمال کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ اس طرح ٹی پی لنک کینال کھولنا یا بند کرناپنجاب کااندرونی مسئلہ ہے۔ اسی طرح سندھ بلوچستان اور کے پی بھی اپنے اپنے حصہ کا پانی اپنی مرضی سے استعمال کرنے میں مکمل طور پر با اختیار ہیں۔

پنجاب میں 21.71 ملین ایکٹر علاقہ کے لیے ایک لاکھ ایک ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جاتا ہے جب کہ سندھ کو 12.78ملین ایکڑ فٹ کے لیے ایک لاکھ نو ہزارکیوسک پانی دیا جاتا ہے۔ یہ سادہ حساب کتاب ہے۔ کیا یہ صورتحال ظاہر نہیں کر رہی کہ سندھ میں پانی ضایع بھی ہو رہا ہے اور پانی کو درست انداز میں استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔

کیا سندھ کے حکمرانوں سے سوال کی جا سکتا ہے کہ سندھ حکومت 600میل کے علاقے میں 39 فیصد پانی کے لاسز دکھاتی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں پنجاب 2600میل کے نیٹ ورک میں انڈس زون میں پانی میں دو فیصد اضافہ رپورٹ کرتا ہے یعنی کوئی لاسز نہیں ہیں بلکہ پانی بڑھتا ہے۔ یہ مقامی ڈیم اور چشموں کی وجہ سے ممکن ہے۔ جب کہ چناب جہلم زون میں 8فیصد پانی کے لاسز ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں پانی کے لاسز سندھ کی نسبت بہت کم ہیں۔ اب جب پاکستان کو پانی کی شدید کمی کاسامنا ہے۔ کیا پاکستان کسی ایک علاقے میں 39فیصد پانی کے لاسز کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کیا یہ دلیل قابل قبول ہو سکتی ہے کہ ہمارا پانی ہے، ہم استعمال کریں یا ضایع کریں۔ واٹر معاہدہ اس کی کھلی اجازت دیتا ہے۔

کیا یہ بات بھی ریکارڈ پر نہیں ہے کہ پانی کی کمی کی اس صورتحال میں سندھ کو اپنے حصہ سے 17فیصد کم پانی ملا ہے اور پنجاب کو اپنے حصہ سے22فیصد کم پانی ملا ہے۔ پنجاب کو سندھ سے کم پانی ملا ہے۔ لیکن پھر بھی پیپلز پارٹی اپنی حکمرانی کو تحفظ دینے کے لیے متنازعہ بیانات دیتی ہے۔ جب پانی ہے ہی کم تو ظاہر ہے کہ صوبوں کوکم ہی ملنا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ بے شک پانی کم ہو لیکن کسی صوبے کو پورا دیا جائے اور ساری کمی پنجاب اپنے سر پر لے لے۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے پانی کے موجودہ تنازعہ کے حل کے لیے ملک بھر کے بیراجز پر غیر جانبدار انسپکٹرز کی تعیناتی کی تجویز دی ہے۔

ان کی تجویز کے مطابق ایسے انسپکٹرز تعینات کیے جائیں جن کا تعلق سندھ اور پنجاب سے بالکل نہ ہو۔ اس ضمن میں ارسا نے 2019کی سندھ میں بیراجز کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد تو سندھ حکومت نے انھیں دورہ کرنے کی اجازت ہی نہیں دی۔ کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ اپریل میں جب سندھ میں فصل کاشت کی جا رہی تھی تو پانی کی کمی کے باوجود سندھ کو پنجاب نے زیادہ پانی دیا تا کہ سندھ میں فصل کی کاشت ممکن ہو سکے۔ اپریل میں سندھ کو اپنے حصہ سے زیادہ پانی ملا۔ جب کہ پنجاب نے اپنے حصہ سے کم پانی لیا۔اب جب مئی میں پنجاب میں فصل کی کاشت کا موقع آیا تو پنجاب نے پانی لیاتو پیپلزپارٹی نے بیان بازی شروع کردی۔

جیسے الزمات سندھ حکومت پنجاب پر لگا رہی ہے۔ ویسے ہی الزامات بلوچستان بھی سندھ پر لگاتا ہے۔ بلوچستان کو بھی اپنی فصلوں کی کاشت کے لیے پانی نہیں مل رہا ہے۔ لیکن شائد بلوچستان ، اس حد تک جانے کے لیے تیار نہیں جیسے سندھ حکومت پنجاب کے خلاف جانے کے لیے تیار ہے۔ اسی لیے ہم بلوچستان اسمبلی میں سندھ کے خلاف تقریریں نہیں سنتے ہیں۔ جب کہ سندھ اسمبلی میں پنجاب کے خلاف تقریریں کی جاتی ہیں۔ پنجاب اسمبلی نے بھی جواب نہیں دیا۔ پنجاب نے ہمیشہ ہی جواب نہیں دیا۔ برداشت کیا ہے۔

پانی کی کمی کا حل ڈیم بنانا ہے۔ لیکن ڈیم راتوں رات بھی نہیں بنتے۔ قومی اتفاق رائے کے بغیر بھی نہیں بنتے۔ پنجاب کو گالی دینے اور پنجاب کے خلاف سندھ کے شہروں مین احتجاج کرنے سے بھی نہ تو ڈیم بن جائیں گے اور نہ ہی پاکستان میں پانی کمی کی صورتحال ٹھیک ہو جائے گی لیکن پاکستان کی قومی یکجہتی کو ضرور نقصان ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں