معاشی دعووں پر عوام کا عدم اعتماد حکومت بے خبر

وزیر اعظم اور ان کے وزراء کی سنیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا ہر مسئلہ حل ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم اور ان کے وزراء کی سنیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا ہر مسئلہ حل ہو چکا ہے۔

سیاسی شطرنج کی بساط پر کھلاڑی اور اناڑی، اپنی اپنی چال چل رہے ہیں، ہر کوئی دوسرے کو شہہ مات دینے کو بے قرار ہے لیکن سبھی ایک کے بعد ایک اپنے پیادے مروا رہے ہیں جبکہ حکومت کی خوش فہمیاں اور دعوے آماوس بیل کی مانند پھیلتے جا رہے ہیں۔

وزیر اعظم اور ان کے وزراء کی سنیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا ہر مسئلہ حل ہو چکا ہے اور ہم سنگاپور، سوئزر لینڈ ، برطانیہ سے بھی آگے نکل آئے ہیں لیکن جب سرکاری آوازوں کا جلترنگ خاموش ہوتا ہے تو عوام خود کو چیختی چنگھاڑتی مہنگائی ،بے روزگاری اور بد امنی میں گھرا ہوا پاتے ہیں۔

1947ء سے لیکر آج تک وطن عزیز میں کئی طرز کے حکومتی ماڈل آزمائے جا چکے ہیں جن میں سے کچھ معاشی طور پر مفید ثابت ہوئے اور انتظامی طور پر کامیاب نکلے مگر موجودہ نظام حکومت جسے سیاسی حلقے ''ہائبرڈ '' کی اصطلاح سے بھی پکارتے ہیں ،یہ جس انداز میں آج تک ناکام ثابت ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی البتہ آنے والے دو برس میں اگر یہ کامیاب ہو جائے تو پھر عجوبہ ہی کہلائے گا۔

جولائی 2018 ء سے لیکر آئندہ چند ماہ'' ہنی مون پیریڈ'' تھا ،عوام اور میڈیا نئی نویلی حکومت کو اس کی ترجیحات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد شروع کرنے کیلئے ایک مناسب وقت دینے پر قائل تھے اور یہی وہ وقت تھا جب حکومت کو ٹیک آف کرنا چاہئے تھا لیکن کپتان کی ٹیم ایسا نہیں کر سکی اورآج''رن ریٹ'' اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس ٹیم کیلئے آخری دو سالوں میں میچ جیتنا ناممکن نہ سہی لیکن انتہائی مشکل ضرور ہو چکا ہے۔

اس حکومت کا سب سے بڑا المیہ اور مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم سے لیکر تحریک انصاف کے جذباتی کارکن تک ہر کوئی سوشل میڈیا کو اپنی مقبولیت کا پیمانہ سمجھتا ہے ،چند معاشی اعدادوشمار کی ٹوئٹ کو معیشت درست سمت میں گامزن کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں ، حکومت خوش گمانی کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے ورنہ عوام کے مسائل اور رائے کو جاننا مشکل نہیں۔

چلیں اس حکومت کو خوش کرنے کیلئے فرض کر لیتے ہیں کہ گزشتہ تین برس میں پاکستان میں ترقی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں اور مسائل دفن ہوگئے ہیں لیکن اس کی تصدیق کیلئے وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کیا یہ ہمت کر پائے گی کہ تپتی ہوئی دھوپ میں دیہاڑی پر کام کر نے والے مزدور سے پوچھے کہ پچھلے تین برس میں اس کیلئے زندگی آسان ہوئی ہے یا مشکل،کسان سے پوچھ لیا جائے کہ آیا اسے اس کی محنت کا بھرپور صلہ ملا ہے یا نہیں اور کیا 1800 روپے قیمت مقرر کرنے کے احسان کا بوجھ اٹھانے کے باوجود اس کی لاگت کاشت پوری ہوتی ہے یا نہیں۔ تنور پر روٹی لینے والے غریب سے پوچھ لیں کہ ان تین برسوں میں روٹی کی جتنی قیمت بڑھی کیا اتنا روٹی کا وزن بڑھا یا پھر صرف قیمت بڑھی اور وزن کم ہوا ہے۔

کسی بازار میں نان چنے فروخت کرنے والے ریڑھی بان سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اس کے گاہکوں کی تعداد پہلے کیا تھی اور آج کیا ہے اورجو گاہک کبھی کبھار انڈہ یا کوفتہ ڈلوانے کی ''عیاشی'' کر لیتا تھا کیا وہ آج بھی ایسا کر رہا ہے؟شاہ عالم مارکیٹ، اعظم مارکیٹ جیسی تھوک مارکیٹس میں دکانداروں سے پوچھ لیں کہ تین برس قبل اور آج کی سیلز میں کیا فرق ہے۔


اچھرہ ، مزنگ جیسی مارکیٹس جو کہ سفید پوش طبقے کی خریداری کا مرکز ہیں وہاں سے معلوم کر لیں کہ سفید پوش افراد کی قوت خرید کتنی رہ گئی ہے ۔ ہمارے ارباب اقتدار بہت خوشی اور فخر کے ساتھ یہ بتاتے ہیں کہ آٹو سیکٹر میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے، نئے برانڈز آرہے ہیں اور کئی برانڈز کی ریکارڈ سیلز ہوئی ہیں لیکن کیا کپتان غیر جانبدار طریقہ سے اس حقیقت کی تصدیق کروائیں گے کہ گاڑیوں کی مارکیٹ میں سٹہ بازی عروج پر ہے اور کھربوں روپے مالیت کا کالا دھن اس میں شامل ہے،چھوٹی گاڑی سے لیکر بڑی ایس یو وی تک ہر ایک پر ''اون'' وصول کیا جا رہا ہے ،وزارت صنعت وپیداوار اور مسابقتی کمیشن آٹو مینو فیکچررز کو جلد از جلد ڈیلیوری دینے کا پابند کیوں نہیں بنا سکا ،یہ الزام حکومت پر کیوں عائد کیا جا رہا ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں اور سب کچھ ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔

سب سے دلچسپ امر یہ کہ آپ لاہور کی جیل روڈ، مولانا شوکت علی روڈ یا سمن آباد آٹو مارکیٹ میں چلے جائیں یا کراچی کی طارق روڈ پر ہر کار شوروم مالک یہ بتائے گا کہ سفید پوش طبقے کے افراد کیلئے نئی گاڑی خریدنا تو دور کی بات پرانی گاڑی کو کسی بہتر حالت کی پرانی گاڑی سے تبدیل کرنا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے ۔ ان سب حقائق کے باوجود حکومت کا دعوی برقرار رہے گا کہ ملک ترقی کر رہا ہے اور عوام خوشحال ہو رہے ہیں اس لئے کسی نے بھی گھبرانا نہیں ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی نیک نیت اور ایمانداری پر کوئی اختلاف نہیں کر سکتا لیکن ان کی ہٹ دھرمی، انتظامی صلاحیت اور قوت فیصلہ پر اعتراض اور تنقید بے جا نہیں قرار دی جا سکتی ۔ وفاقی کابینہ ہو یا صوبائی کابینہ ہمیں متعدد ایسے چہرے دکھائی دیتے ہیں جو موسمی پرندوں کی مانند مختلف سیاسی جماعتوں کی رفاقت کا لطف اٹھاتے ہوئے آج تحریک انصاف کے شجر اقتدار پر بسیرا کئے ہوئے ہیں جبکہ غیر منتخب کابینہ ارکان کی اکثریت بھی ''ادھار'' لی ہوئی ہے ۔

کرکٹ کے زمانہ میں عمران خان کی ٹیم میں سبھی سپر سٹار نہیں تھے لیکن ریلو کٹو ں کے ساتھ دو ، چار ایسے کھلاڑی میسر تھے جو عمران خان کے ساتھ ملکر میچ کا پانسہ پلٹ دیا کرتے تھے ، آج عمران خان کے پاس ''وسیم اکرم پلس'' تو ہے لیکن میچ وننگ ٹیم نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا نظریاتی کارکن جسے عمران خان سے عشق ہے وہ اسی لئے تو پریشان ہو کر یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان کے ارد گرد موقع پرست اور مفاد پرست ایسے عناصر کا گھیرا ہے جو اقتدار ختم ہوتے ہی خان کو تنہا چھوڑ کر نئی منزل کی جانب روانہ ہو جائیں گے۔

تحریک انصاف کا کارکن یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر جہانگیر ترین جیسے شخص کے ساتھ اتنا کچھ ہو رہا ہے تو پھر وفاداری اور ساتھ نبھانے کی قدر کیا ہے ۔ جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کی تشکیل حکومت کی اپنی کوتاہیوں سے ہوئی ہے، سازشوں کے وار اسے مزید مضبوط اور وسیع کر رہے ہیں اور اب معمولی سی چنگاری اسے آتش فشاں میں تبدیل کر سکتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ دوسروں کی نظر سے دیکھنے کی بجائے اپنی فہم وفراست سے حقائق کی پڑتال کرے، اگر قانون اور قواعد کی کسوٹی پر جہانگیر ترین کھوٹے ثابت ہوتے ہیں توانہیں قوم کے سامنے سزا دی جائے لیکن اگر وہ بے گناہ ثابت ہو جاتے ہیں تو پھر انہیں پوری عزت وتکریم کے ساتھ بری الذمہ قرار دیا جائے اور جو لوگ اس سازش میں ملوث ہیں انہیں نشان عبرت بنا دیا جائے۔

سیاست کا موسم بدل رہا ہے، ''اٹل حمایت'' کے بادل حکومت کے سر سے چھٹ رہے ہیں اور چبھتی ہوئی دھوپ کی کرنیں حکمرانوں کو بھی بے چین کر رہی ہیں ، میاں شہباز شریف بھی شاید آئندہ چند روز میں چند ہفتوں کیلئے بیرون ملک چلے جائیں گے اور ان کی واپسی بھی یقینی ہے اگر وہ اپنے بڑے بھائی کی ہیجان خیز برہمی اور ناراضگی کو کم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گی، حکومت کے پاس صرف دو سال (اگر پورے مل گئے تو)کی مدت میسر ہے اور انہیں اس عرصہ میں اپنی تین سالہ خامیوں کا ازالہ بھی کرنا ہے اور عوام کو اپنی جانب راغب بھی کرنا ہے، غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی الیکشن کروا کر پھر سے ''ہائبرڈ'' طرز کے بلدیاتی اداروں کی تشکیل سے فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔

افواج پاکستان سے عوام کو آج بھی محبت اور جذباتی وابستگی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہمسایہ ملک کی جارحیت ہو یا دہشت گردوں کی بر بریت، یہ ہمارے شہداء کی قربانیوں کا ہی صلہ ہے کہ وطن عزیز محفوظ ہے۔ حکومت کے متعلق عوامی ناراضگی کا دباو ریاستی اداروں پر بڑھ رہا ہے اور اس کے اثرات بھی دکھائی دینے لگے ہیں اس لئے کپتان کو میچ جیتنے کیلئے نئی ٹیم بنانا ہوگی، شوکت ترین جیسے نئے کھلاڑی شامل کرنا ہوں گے اور نئے اہداف مقرر کرنا پڑیں گے ۔
Load Next Story