شکریہ جامعہ اردو جو آپ نے یاد کیا

بھلا اتنی بھی زحمت کیوں کی، رسمی اطلاع نہ بھی دیتے تو ہم نے کون سا آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرلینی تھی


حامد الرحمان June 03, 2021
31 مئی کو ہونے والے ٹیسٹ میں شرکت کا دعوت نامہ یکم جون کو موصول ہوا تھا۔ (فوٹو: فائل)

یکم جون 2021 منگل کی شام جب میں دفتر سے گھر پہنچا تو تپائی پر ایک خط رکھا دیکھ کر چونک گیا۔ والدہ نے بتایا کہ آج تمہارا خط آیا ہے۔ سن کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ ہمیں پانی، بجلی، گیس کے بل کے علاوہ کوئی خط بھی موصول ہوسکتا ہے۔

دیکھا تو یہ خط وفاقی جامعہ اردو کی طرف سے آیا تھا، جہاں سے میں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ انتہائی حیرت ہوئی کہ دوران تعلیم بھی کبھی جامعہ اردو نے بھولے سے کوئی خط گھر نہیں بھیجا، آج فارغ التحصیل ہونے کے 12 سال بعد کون سا خط آگیا۔ سوچا شاید جامعہ نے سابق طلبا کےلیے کوئی ملن تقریب رکھی ہو جس میں پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے طلبا کو بھی یاد کرلیا ہو۔

حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ لفافہ چاک کیا تو قائم مقام رجسٹرار کی جانب سے خط میں لکھا تھا کہ آپ نے '2013' میں لیکچرار کی اسامی کےلیے درخواست جمع کرائی تھی جس کا ٹیسٹ بروز پیر 31 مئی 2021 کو ہورہا ہے، آپ بھی اس ٹیسٹ کےلیے تشریف لے آئیے۔

پہلے تو میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ 8 سال پہلے کب لیکچرار کےلیے اپلائی کیا تھا لیکن یاد نہ آیا، سر کو جھٹک کر سوچا جو درجنوں مختلف سرکاری ملازمتوں کےلیے درخواستیں دی تھیں ان میں سے شاید ایک یہ بھی ہو۔

سرکاری نوکری کی اسامی دیکھ کر منہ میں پانی آگیا اور دوبارہ ایم اے ابلاغ عامہ میں پڑھائی گئی ہندوستان کے پہلے اخبار ہکیز گزٹ کی تاریخ اور صحافت کی ثقیل تھیوریوں کو دوبارہ سے یاد کرنے کی سوچیں آنے لگیں۔ خوشی خوشی ایک نئے عزم و ولولے کے ساتھ دوبارہ بغور خط پڑھا تو شیخ چلی کے منصوبے زمیں بوس ہوگئے اور ارمانوں پر اوس پڑگئی کہ 31 مئی کو ہونے والے ٹیسٹ میں شرکت کا دعوت نامہ یکم جون کو موصول ہوا۔

یہ بھی پڑھیے: فردوس عاشق اور سونیا صدف تنازع کا دوسرا رخ

ہماری مادر عملی کا شکریہ کہ انہوں نے 8 سال بعد بھی خاکسار کی درخواست کو سنبھال رکھا اور احتیاطاً ہمارے آرام کا خیال رکھتے ہوئے کوشش کی کہ ایسے وقت خط موصول ہو کہ ہمیں ٹیسٹ دینے جانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے، کیونکہ شاید کامیاب امیدوار کا تعین تو پہلے سے ہی کیا جاچکا ہوگا۔ ایسے میں خواہ مخواہ، ہم کڑی دھوپ میں سفر کرکے اور امیدوں کا محل تعمیر کرکے ٹیسٹ دینے جاتے، جو بعد میں ویسے ہی زمیں بوس ہوجاتا۔ ایسے میں جامعہ نے پیشگی ہمیں صدمے سے محفوظ رکھنے کی اپنی مخلصانہ کوشش کرڈالی۔ اس خط کی تاخیر میں یقیناً جامعہ کی بدنیتی شامل نہیں یا نجی ڈاک کمپنی ٹی سی ایس کا قطعا کوئی قصور نہیں ہوگا۔ یقیناً کرہ ارض کے عوامل سے ہی کوئی ایسی تدبیر ہوئی ہوگی کہ خط ایسے وقت موصول ہو کہ ہمیں پچھلے سرکاری ملازمتوں کے ٹیسٹوں کی طرح کوئی شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

اس کے باوجود دوستوں اور بہی خواہوں نے مشورہ دیا کہ جامعہ کی انتظامیہ اور ڈاک کمپنی سے بذریعہ فون یہ جاننے کی کوشش کرو کہ آپ نے بھلا اتنی زحمت کیوں کی، رسمی اطلاع نہ بھی دیتے تو ہم نے کون سا آپ کے خلاف عدالت میں نالش اور قانونی چارہ جوئی کرلینی تھی کہ بھئی بتایے وہ جو 7، 8 سال قبل جو کوئی عرضی دی گئی تھی، اس پر آپ نے کیا کارروائی کی۔ پس دوستوں کے اصرار پر فون اٹھایا اور خط پر درج رجسٹرار آفس کا نمبر ڈائل کیا جو حسب توقع اٹھایا نہ گیا۔

لہذا ہم نے سوچا اس بلاگ کے ذریعے ہی ایک سابقہ طالب علم کی جانب سے اپنی مادر عملی کا شکریہ کیوں نہ ادا کرلیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں